Urdu Adab

  • Jag Beeti Sahar Ke Pehle Aur Bad
  • Jam e Jahan Numa
  • Jamia Millia Islamia Mustaqbil Ki Taraf
  • Jarat Shakhsiyat Aur Fun

    Jarat Shakhsiyat Aur Fun, جرأت شخصیت اور فن

    جرأت ہمارے ان کلاسیکل شعرا میں سے ہیں جنھوں نے ایک ایسے اسلوب کی بنیاد ڈالی جس نے داغ کی شکل میں اپنے منتہائے عروج کو پہنچ کر ہندستان کے کونے کونے میں شعر و ادب کا ایسا ڈنکا بجایا جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ 

    250.00
    Add to cart
  • Jeem Se Jumle Tak
  • Jila Watan

    Jila Watan, جلا وطن

    800.00
    Add to cart
  • Jo Dilo Ko Fatah Kar Le
  • Jod Tod

    Jod Tod, جوڑ توڑ

    300.00
    Add to cart
  • Jumbish e Lab

    Jumbish e Lab, جنبش لب

    300.00
    Add to cart
  • Kabhi Tum Thi Hamari Anjuman Thi
  • Kagaz Se Screen Tak

    Kagaz Se Screen Tak | کاغذ سے اسکرین تک منظر نامہ مسائل اور امکانات

    محمد علم اللہ کی بے چین طبیعت مجھے خوب بھاتی ہے ۔ اس لیے کہ یہ بے چینی ہی ہے ، جو انہیں ایک مدرسے سے برطانیہ کی یونیورسٹی تک لے گئی ہے ۔ درمیان میں کئی پڑاؤ آئے مگر وہ تھم کر کہیں بیٹھے نہیں ، بے چین رہے ، حرکت کرتے رہے کہ حرکت ہی میں برکت ہے ۔ ان کی بے چین طبیعت نے ان سے وہ کام کروائے ہیں ، جو ان کے جاننے اور نہ جاننے والوں کے لیے ، رشک اور حسد کا باعث بنے ہوں گے ۔ ایسا ہی ایک کام یہ کتاب ‘ کاغذ سے اسکرین تک : منظر نامہ ، مسائل اور امکانات ‘ ہے ۔
    وہ ایک صحافی رہے ہیں ، اب بھی ہیں ، اسی لیے میڈیا ان کا پسندیدہ موضوع ہے ، لیکن صرف اسی لیے پسندیدہ نہیں ہے ، اس لیے بھی پسندیدہ ہے کہ وہ میڈیا کی طاقت کو سمجھتے ہیں ، اور یہ یقین رکھتے ہیں ، کہ اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے ، عزت کی زندگی جینی ہے اور اپنے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈوں کا رد کرنا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے ، تو خود کا طاقتور میڈیا ضروری ہے ۔ کتاب میں گیارہ مضامین کا ایک پورا باب ‘ میڈیا اور مسلمان ‘ کے نام سے شامل ہے ، جس میں وہ بہت صاف صاف کہتے ہیں ” میڈیا کا اسلام کو بدنام کرنے میں بہت اہم رول ہے ، میڈیا بد عقیدگی اور فحاشی کو عام کر رہا ہے ۔” اور زور دیتے ہیں کہ ” ضروری ہے کہ مسلمان میڈیا کو اپنے استعمال میں لائیں ۔” زور اس لیے کہ اپنا میڈیا اپنی بات صاف لفظوں میں لوگوں کے سامنے رکھ سکے گا ۔ مصنف کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوں کیونکہ ” اطلاعات نے دنیا کی فوجی اور سیاسی طاقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔” اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے دوری کو وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ” المیہ ” قرار دیتے ہیں ۔
    یہ کتاب اپنے پڑھنے والوں کو صحافت اور صحافتی دنیا کے نئے نئے مسائل سے آگاہ کرتی ہے ، بتاتی ہے ، کہ پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور سائبر و جدید میڈیا نے لوگوں کے لیے ، بشمول فارغین مدارس ، امکانات کا ایک در وا کر دیا ہے ، بس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ محمد علم اللہ اردو زبان کے اخبارات سے شاکی ہیں ، اور بجا طور پر شاکی ہیں ۔ سچ کہیں تو اردو میڈیا ، استثنا کے ساتھ ، طفیلی میڈیا بن گیا ہے اور صحافیوں کو سرقے کا چسکا لگ گیا ہے ۔ لیکن مایوسی حرام ہے ، اچھے لوگ ہنوز جدوجہد میں لگے ہیں ، مصنف نے اس کی مثالیں بھی دی ہیں ۔ مضامین کا اسلوب سہل ہے لیکن ان میں جگہ جگہ تلخی اور طنز کی کاٹ محسوس ہوتی ہے ، پر لکھنے والے کا خلوص بھی نظر آتا ہے ۔
    یہ مضامین مثبت تبدیلی کے لیے لکھے گیے ہیں، ان میں مفید مشورے اور تجاویز ہیں ، منفی رویوں پر سخت تنقید ہے ، اور پوری کوشش آئینہ دکھانے کی ہے ، تاکہ اپنے گرد و غبار نظر آ جائیں ، اور انہیں صاف کرنا ممکن ہو جائے ۔ محمد علم اللہ کی یہ کاوش صحافت کے طالب علموں کے لیے تو لازمی ہے ہی ، عام پڑھنے والوں کے لیے بھی مفید ہے ، کہ وہ ان مضامین کو پڑھ کر یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا میڈیا کیوں کمزور ہے اور اسے طاقتور بنانے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے ۔

    395.00
    Add to cart
  • Kaifiyah

    Kaifiyah, کیفیہ

    140.00
    Add to cart
  • Kalam Ka Sipahi
  • Kalila Wa Dimna
  • Kamal Phool Aur Titliyon Ke Pankh
  • Kaman Aur Zakhm

    Kaman Aur Zakhm, کمان اور زخم

    یہ کتاب مختلف قسطوں میں ماہ نامہ ’جواز‘ میں شائع ہوا تھا۔ کتاب کی شکل میں اسے ترتیب دیتے ہوئے مصنف نے بعض چیزیں بڑھادی ہیں اور بعض حذف کردی ہیں۔

    165.00
    Add to cart
  • Karamad Adab
  • Karb Natamam
  • Karbal Katha

    Karbal Katha | کربل کتھا

    650.00
    Add to cart
  • Karwan e Fikr
  • Karwan e Urdu
  • Kashf ul Haqaiq
  • Kashif ul Haqaiq
  • Kasrat e Tabeer

    Kasrat e Tabeer, کثرت تعبیر

    اردو میں ادبی تنقید کی تاریخ ماضی میں بہت دور تک نہیں جاتی، لیکن یہ بات کیا کم اہم ہے کہ اردو میں تنقیدی شعور کے ارتقا نے ابتدا سے ہی مغربی تنقید کے نمائندہ رجحانات سے کبھی لاتعلقی نہیں برتی اور شاید اسی باعث اردو تنقید کا نظری منظرنامہ آج بھی خاصا اطمینان بخش ہے اور اصول و نظریات کو اطلاقی سطح پر بھی اکثر کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عملی اور اطلاقی تنقید کا تناسب نظری مباحث ہی کے تناسب کی طرح اردو میں اب کم اہمیت کا حامل نہیں رہا۔

    زیر نظر کتاب ’کثرتِ تعبیر‘ اسی نوع کی ایک کاوش ہے جس کے مضامین کے موضوعات میں بھی تنوع ہے اور تنقیدی معیار اور پیمانوں کو بھی متن کی نوعیت اور تفہیم کے تقاضوں کا تابع رکھا گیا ہے۔

    300.00
    Add to cart
  • Kerala Me Urdu