قرآن و حدیث اور عورت کا دائرۂ کار (2/3)

میاں بیوی کا لعان غیر مردوں کے سامنے

اس حدیث کو بیان کرتے وقت امام بخاری رحمہ اللہ نے باب ہی یہ باندھا ہے کہ ’باب القضاء واللعان في المسجد بین الرجال والنساء‘، یعنی لعان اور اس کا فیصلہ مسجدمیں مردوں او ر عورتوں کے سامنے۔

۴۔ عن سہل بن سعد، أن رجلاً قال: یا رسول اللّٰہ، أرأیت رجلاً وجد مع امرأتہ رجلاً أیقتلہ ؟ فتلاعنا في المسجد وأنا شاہد.(بخاری، رقم ۴۲۳)
’’سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کا کیا حکم ہو گا، اگر کوئی آدمی کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے ، تو آیا اسے قتل کردے۔ تو (آپ کے فیصلے کے مطابق) ان دونوں میاں بیوی نے مسجد میں لعان کیا اور سہل کہتے ہیں کہ میں وہاں موجود (یہ کارروائی دیکھ رہا) تھا۔‘‘

دلیل و شاہد

اس حدیث کے مطابق آپ نے عورت کی موجودگی کی وجہ سے مردوں کو مسجد سے نہیں نکالا۔ بلکہ ان کی موجودگی میں ہی جنس سے متعلق ایک معاملے میں مقدمے کا فیصلہ کیا اور پھر ان سے لعان کرایا۔

عورت کی مسجد میں سکونت

۵۔ عَنْ عَاءِشَۃَ، أَنَّ وَلِیْدَۃً کَانَتْ سَوْدَاءَ لِحَيٍّ مِنَ العَرَبِ، فَأَعْتَقُوْہَا، فَکَانَتْ مَعَہُمْ، قَالَتْ: فَخَرَجَتْ صَبِیَّۃٌ لَہُمْ عَلَیْہَا وِشَاحٌ أَحْمَرُ مِنْ سُیُوْرٍ، قَالَتْ: فَوَضَعَتْہُ ۔ أَوْ وَقَعَ مِنْہَا ۔ فَمَرَّتْ بِہِ حُدَیَّاۃٌ وَہُوَ مُلْقًی، فَحَسِبَتْہُ لَحْمًا فَخَطِفَتْہُ، قَالَتْ: فَالْتَمَسُوْہُ، فَلَمْ یَجِدُوْہُ، قَالَتْ: فَاتَّہَمُوْنِيْ بِہِ، قَالَتْ: فَطَفِقُوْا یُفَتِّشُوْنَ حَتّٰی فَتَّشُوْا قُبُلَہَا، قَالَتْ: وَاللّٰہِ إِنِّيْ لَقَاءِمَۃٌ مَعَہُمْ، إِذْ مَرَّتِ الْحُدَیَّاۃُ فَأَلْقَتْہُ، قَالَتْ: فَوَقَعَ بَیْنَہُمْ، قَالَتْ: فَقُلْتُ ہٰذَا الَّذِيْ اتَّہَمْتُمُوْنِيْ بِہِ، زَعَمْتُمْ وَأَنَا مِنْہُ بَرِیْءَۃٌ، وَہُوَ ذَا ہُوَ، قَالَتْ: فَجَاءَ تْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَتْ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ: فَکَانَ لَہَا خِبَاءٌ فِي المَسْجِدِ ۔ أَوْ حِفْشٌ ۔ قَالَتْ: فَکَانَتْ تَأْتِیَنِيْ فَتَحَدَّثُ عِنْدِيْ، قَالَتْ: فَلاَ تَجْلِسُ عِنْدِيْ مَجْلِسًا، إِلَّا قَالَتْ:

وَیَوْمَ الوِشَاحِ مِنْ أَعَاجِیبِ رَبِّنَا … أَلاَ إِنَّہُ مِنْ بَلْدَۃِ الکُفْرِ أَنْجَانِيْ

قَالَتْ عَاءِشَۃُ: فَقُلْتُ لَہَا مَا شَأْنُکِ، لاَ تَقْعُدِیْنَ مَعِيَ مَقْعَدًا إِلَّا قُلْتِ ہٰذَا؟ قَالَتْ: فَحَدَّثَتْنِيْ بِہٰذَا الحَدِیْثِ.(بخاری، رقم ۴۳۹)

’’سیدہ عائشہ فرماتی ہیں، عربی قبیلے کی ایک سیاہ فام لونڈی تھی، جسے انھوں نے آزاد کردیا ہوا تھا، لیکن وہ ان کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ تو ایک دن اسی قبیلے کی ایک بچی اس آزادکردہ لونڈی کے پاس آئی، اس نے سرخ لڑیوں والا ہار پہنا تھا۔ اس بچی نے وہ ہار اتارا یا خود ہی گرگیا تھا۔ تو جب وہ ہار نیچے گرا ہوا تھا ، تو ایک چیل آئی، اس نے اسے گوشت خیال کرکے جھپٹا مارا اور لے اڑی۔ قبیلے والوں نے وہ ہار بہت ڈھونڈا پر نہ ملا۔جب وہ ہار نہ ملا تو انھوں نے اس کا الزام میرے اوپر لگا دیا، اور میری تلاشی لینے لگے۔ حتیٰ کہ میری حیا والی جگہ کی بھی تلاشی لی۔ ابھی میں تلاشی کے بعد ان کے پاس ہی کھڑی تھی کہ اچانک وہی چیل پھر آئی اور اس نے وہ ہار زمین پر گرا دیا، اور وہ ان کے درمیان میں آگرا۔ تو میں نے ان سے کہا کہ یہ رہا وہ ہار جس کا تم مجھے الزام دے رہے تھے، جبکہ میں اس سے بری ہوں۔ اب اسے سنبھال لو۔ پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور مسلمان ہو گئی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس کا مسجد میں خیمہ یا کٹیاتھی(جس میں وہ رہتی تھی)۔وہ میری پاس آتی تو مجھ سے باتیں کرتی، اور جب بھی میرے پاس بیٹھتی تو یہ شعر ضرور پڑھتی (جس کا ترجمہ ہے):

ہار والا دن میرے رب کے کرشموں میں سے ہے
سنو، اللہ نے مجھے کفر کی بستی سے نکالا ہے

تو سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے، تم جب بھی میری پاس آتی ہویہ شعر ضرور پڑھتی ہو۔ تو پھر اس نے یہ(ہاراور چیل والی) کہانی مجھے سنائی۔‘‘

دلیل و شاہد

اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ایک اکیلی عورت مسجد میں خیمہ یا کٹیا میں سوتی تھی، امام بخاری نے اس حدیث پر جو باب باندھا ہے، وہ عورت کا مسجد میں سونا ہے۔

لباس کی ایک مشکل کے باوجود عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا گیا

۶۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: کَانَ رِجَالٌ یُصَلُّوْنَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَاقِدِيْ أُزْرِہِمْ عَلٰی أَعْنَاقِہِمْ، کَہَیْئَۃِ الصِّبْیَانِ، وَیُقَالُ لِلنِّسَاءِ: لاَ تَرْفَعْنَ رُءُ وْسَکُنَّ حَتّٰی یَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوْسًا.(بخاری، رقم ۳۶۲)
’’سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کے کپڑا باندھنے کی طرح اپنی تہ بند گردن سے باندھ کر نماز پڑھتے تھے۔اس لیے عورتوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ اس وقت تک اپنے سر نہ اٹھائیں جب تک کہ مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔‘‘

دلیل و شاہد

ہجرت کے بعد، اور ویسے بھی صحراے عرب کے بادیہ نشین ہونے کی وجہ سے صحابہ غربت اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔اس لیے ان میں سے بہتوں کے پاس ایک ہی چادر ہوتی تھی، جسے وہ یوں باندھ لیتے تھے کہ بدن اور ستر دونوں ڈھک جائیں۔ لیکن سجدہ میں چادروں کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ستر عیاں ہو جاتا تھا۔اس لیے عورتوں کو سجدہ سے سر اٹھانے میں دیر کرنے کا حکم ملا۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ویسی علیحدگی ہوتی جیسا ہم آج دین کا حکم سمجھتے ہیں تو یقیناً آسان حکم یہ تھا کہ عورتیں مسجد ہی میں نہ آیا کریں۔ تو باوجود اس کے کہ معاملہ مردوں کے ستر کے کھلنے کا تھا، — اور معلوم ہے کہ صنفی امور ہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ ہی سے مرد و عورت کو علیحدہ رکھا جاتا ہے ، — عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا گیا۔

ابوبکررضی اللہ عنہ کا ایک عورت کو خود آمادۂ گفتگو کرنا

۷۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِيْ حَازِمٍ، قَالَ: دَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ عَلَی امْرَأَۃٍ مِنْ أَحْمَسَ یُقَالُ لَہَا زَیْنَبُ، فَرَآہَا لاَ تَکَلَّمُ، فَقَالَ: مَا لَہَا لاَ تَکَلَّمُ؟ قَالُوْا: حَجَّتْ مُصْمِتَۃً، قَالَ لَہَا: تَکَلَّمِيْ، فَإِنَّ ہٰذَا لاَ یَحِلُّ، ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الجَاہِلِیَّۃِ، فَتَکَلَّمَتْ، فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: امْرُؤٌ مِنَ المُہَاجِرِیْنَ، قَالَتْ: أَيُّ المُہَاجِرِیْنَ؟ قَالَ: مِنْ قُرَیْشٍ، قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَیْشٍ أَنْتَ؟ قَالَ: إِنَّکِ لَسَئُوْلٌ، أَنَا أَبُوْ بَکْرٍ، قَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلٰی ہٰذَا الأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِيْ جَاءَ اللّٰہُ بِہِ بَعْدَ الجَاہِلِیَّۃِ؟ قَالَ: بَقَاؤُکُمْ عَلَیْہِ مَا اسْتَقَامَتْ بِکُمْ أَءِمَّتُکُمْ، قَالَتْ: وَمَا الأَءِمَّۃُ؟ قَالَ: أَمَا کَانَ لِقَوْمِکِ رُءُ وْسٌ وَأَشْرَافٌ، یَأْمُرُوْنَہُمْ فَیُطِیْعُوْنَہُمْ؟ قَالَتْ: بَلٰی، قَالَ: فَہُمْ أُولٰئِکِ عَلَی النَّاسِ.(بخاری، رقم ۳۸۳۴)
’’ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک خاتون کے پاس تشریف لے گئے، جس کا نام زینب تھا، انھوں نے دیکھا کہ وہ کوئی بات ہی نہیں کررہی ہے۔ تو انھوں نے کہا: اس کو کیا ہے بولتی نہیں ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ خاموش حج کی نیت سے آئی ہے۔ ابوبکر صدیق نے اس سے کہا: باتیں کرو، خاموش حج جائز نہیں ہے، یہ اسلام سے پہلے کی باتیں ہیں۔ تو وہ باتیں کرنے لگی۔ اس نے آپ سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ حضرت ابوبکر نے کہا: میں مہاجرین میں سے ہوں۔اس خاتون نے کہا: کن مہاجرین میں سے؟آپ نے کہا: قریشیوں میں سے۔ اس نے کہا: قریش کے کس گھرانے میں سے؟ آپ نے کہا: تم تو بہت سوال کرتی ہو۔ میں ابو بکر ہوں۔ تو اس عورت نے کہا کہ ہم اس خیر پر کب تک رہیں گے جو اللہ نے جاہلیت کے بعد ہمیں عطا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اس خیر پر اس وقت تک قائم رہوگے، جب تک تمھارے ائمہ تم کو اس پر قائم رکھ پائیں گے۔ اس نے کہا: یہ ائمہ کیا ہوتے ہیں؟ آپ نے کہا: کیا تمھاری قوم کے سردار اور اشراف نہیں ہیں، جو لوگوں کو حکم دیتے اور وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں؟عورت نے کہا: ہاں، ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں، یہی وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے ائمہ ہیں۔‘‘

دلیل و شاہد

ابو بکرصدیق اور وہ خاتون دونوں نامحرم تھے، لیکن انھوں نے باہم گفتگو کی، واقعہ کی تفصیلات سے معلوم ہورہا ہے کہ ابو بکر صدیق اور وہ خاتون کافی دیر مجلس میں رہے تبھی تو ان کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ بات کیوں نہیں کررہیں، یقیناًابو بکر صدیق نے قرآن کے بتائے ہوئے آداب کا خیال رکھتے ہوئے اس کے بارے میں یہ اندازہ لگایا ہوگا۔

عورت اور زراعت و باغبانی

صحیح مسلم میں ایک طلاق یافتہ عورت کی زراعت کے بارے میں ایک واقعہ یوں ملتا ہے، جو عدت کے دوران ہی پھل وغیرہ توڑنے کی اجازت طلب کرتی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اجازت دے دیتے ہیں۔

۸۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ: طُلِّقَتْ خَالَتِيْ، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَہَا، فَزَجَرَہَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلٰی فَجُدِّيْ نَخْلَکِ، فَإِنَّکِ عَسٰی أَنْ تَصَدَّقِيْ، أَوْ تَفْعَلِيْ مَعْرُوْفًا.
(رقم ۱۴۸۳)
’’جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوئی، اس نے چاہا کہ وہ اپنے باغ کی کھجوریں برداشت کریں، تو ایک آدمی نے میری خالہ کو ڈانٹتے ہوئے گھر سے نکلنے سے روکا۔ تو میری خالہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، توآپ نے اس کی بات سن کر فرمایا: ہاں ہاں تم اپنے باغ سے پھل توڑو، جس کے بعد امید ہے تم صدقہ و زکوٰۃ بھی دو گی یا تم کوئی اوربھلا کام کرو گی۔‘‘

دلیل و شاہد

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت کا کام کاج کے لیے نکلنے میں کوئی عیب نہیں ہے، یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ عام حالات میں تو جائز ہونا الگ رہا، طلاق کی عدت کے دوران میں بھی ایسا ہو سکتاہے، یہ نہایت اہم ہے۔

ابراہیم رضی اللہ عنہ کا دایا کے گھر آنا جانا

۹۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وُلِدَ لِي اللَّیْلَۃَ غُلَامٌ، فَسَمَّیْتُہُ بِاسْمِ أَبِيْ إِبْرَاہِیْمَ ثُمَّ دَفَعَہُ إِلٰی أُمِّ سَیْفٍ، امْرَأَۃِ قَیْنٍ یُقَالُ لَہُ أَبُو سَیْفٍ، فَانْطَلَقَ یَأْتِیہِ وَاتَّبَعْتُہُ، فَانْتَہَیْنَا إِلٰی أَبِيْ سَیْفٍ وَہُوَ یَنْفُخُ بِکِیْرِہِ، قَدِ امْتَلَأَ الْبَیْتُ دُخَانًا، فَأَسْرَعْتُ الْمَشْیَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا سَیْفٍ أَمْسِکْ، جَاءَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَمْسَکَ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِيِّ، فَضَمَّہُ إِلَیْہِ….(مسلم، رقم ۲۳۱۵)
’’انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات میرے بیٹاہواہے، میں نے اس کا نام اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کے نام پر رکھا ہے۔ پھر آپ نے ابنے بیٹے ابراہیم کو ام سیف کے سپرد کردیا، جو ایک لوہار کی بیوی تھی، جس کا نام ابو سیف تھا۔تو آپ اس خاتون کے پاس آتے جاتے تھے، میں بھی آپ کے ساتھ وہاں جاتا،تو جب ہم وہاں پہنچتے تو ابو یوسف کے پاس آتے، جو اپنی انگیٹھی میں دھونک رہا ہوتا تھا، اور پورا گھر دھوئیں سے بھر ا ہوتا تھا، تو میں نبی اکرم سے آگے آگے تیز چلتا اور ابو یوسف کو کہتا کہ ذرا رک جاؤ رسول اللہ تشریف لاتے ہیں۔آپ جب آتے تو بچے کو طلب کرتے اور اسے سینے سے لگاتے تھے…۔‘‘

دلیل و شاہد

ایک دایا کے ساتھ معاملہ کیا گیا، اور پیغمبر اسلام اور انس بن مالک ان کے گھر جاتے تھے۔ حالاں کہ یہ معاملہ خواتین کے ذریعے سے بھی ہو سکتا تھا۔

نامحرم کی تیمارداری

۱۰۔ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أُمَّ العَلاَءِ، امْرَأَۃً مِنْ نِسَاءِہِمْ، بَایَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْہُ: أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنٍ طَارَ لَہُمْ فِي السُّکْنٰی، حِیْنَ اقْتَرَعَتِ الْأَنْصَارُ عَلٰی سُکْنَی المُہَاجِرِیْنَ، قَالَتْ أُمُّ العَلاَءِ: فَاشْتَکٰی عُثْمَانُ عِنْدَنَا فَمَرَّضْتُہُ حَتّٰی تُوُفِّيَ، وَجَعَلْنَاہُ فِيْ أَثْوَابِہِ….(صحیح بخاری، رقم ۳۹۲۹)
’’خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ ام علاء انصار کی ایک خاتون جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اسلام کی بیعت کی تھی ، نے بتایا کہ جب انصار کے لیے مہاجرین کے بارے میں سکونت کا قرعہ ڈالا گیا تو عثمان بن مظعون کی سکونت کا قرعہ ان کے گھرانے کے نام نکلا تھا، ام علاء نے بتایا کہ عثمان ان کے ہاں آکر بیمار ہو گئے، تو میں نے ان کی وفات تک ان کی تیمارداری کی …۔‘‘

دلیل و شاہد

ایک نامحرم آدمی کی تیمار داری ایک عورت نے کی اور وفات تک کرتی رہیں۔

باہر کے روزہ مرہ کے کام

۱۱۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِيْ بَکْرٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي الزُّبَیْرُ، وَمَا لَہُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلاَ مَمْلُوْکٍ، وَلاَ شَيْءٍ غَیْرَ نَاضِحٍ وَغَیْرَ فَرَسِہِ، فَکُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَہُ وَأَسْتَقِي المَاءَ، وَأَخْرِزُ غَرْبَہُ وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَکُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، وَکَانَ یَخْبِزُ جَارَاتٌ لِيْ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَکُنَّ نِسْوَۃَ صِدْقٍ، وَکُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَی مِنْ أَرْضِ الزُّبَیْرِ الَّتِيْ أَقْطَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی رَأْسِيْ، وَہِيَ مِنِّيْ عَلٰی ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ، فَجِءْتُ یَوْمًا وَالنَّوَی عَلٰی رَأْسِيْ، فَلَقِیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَدَعَانِيْ ثُمَّ قَالَ: إِخْ إِخْ لِیَحْمِلَنِیْ خَلْفَہُ، فَاسْتَحْیَیْتُ أَنْ أَسِیْرَ مَعَ الرِّجَالِ، وَذَکَرْتُ الزُّبَیْرَ وَغَیْرَتَہُ وَکَانَ أَغْیَرَ النَّاسِ، فَعَرَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنِّیْ قَدِ اسْتَحْیَیْتُ فَمَضَی….(بخاری، رقم ۵۲۲۴)
’’ابو بکر صدیق کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے جب مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس سوائے ایک اونٹ اور گھوڑے کے کوئی مال تھا اور نہ غلام۔ میں اس گھوڑے کو چارہ ڈالتی، اور پانی پلاتی تھی،میں مشکیزے کی مرمت کرتی، آٹا گوندھتی، لیکن میں روٹی صحیح نہیں بنا تی تھی، انصاری ہمسائیاں مجھے روٹی بنا دیتی تھیں، وہ نہایت راست باز خواتین تھیں۔اور میں زبیر کی اس زمین سے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دی تھی، وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں سر پر اٹھا کر گھر لاتی تھی، وہ زمین ہمارے گھر سے دو تہائی فرسخ (دومیل)کے فاصلے پر تھی۔ تو ایک دن میں آرہی تھی ، اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں، تو میں راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی، آپ کے ہمراہ انصار کا ایک گروہ تھا۔ آپ نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف بلایا، پھر اونٹ کو بیٹھنے کی آواز منہ سے نکالی کہ مجھے اپنے پیچھے بٹھالیں۔ میں اس بات سے شرمائی کہ اتنے مردوں کے ہمراہ سفر کروں۔ اور مجھے زبیر اوران کی غیرت کا خیال آیا، وہ بہت غیرت مند آدمی تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ میں شرما رہی ہوں تو آپ مجھے ساتھ بٹھائے بغیر آگے چل دیے…۔‘‘

دلیل و شاہد

اس حدیث میں تین باتیں ہیں:
o عورت کھیتی باڑی کے لیے دو میل تک کا سفر اکیلے کرتی ہے۔
o وہ مشکل اور مشقت بھرے کام کرتی ہے۔
oo رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مردوں کے ہمراہ ہونے کے باوجود انھیں ساتھ بٹھانا چاہتے ہیں۔

مجموعی تبصرہ

کسی بات کے ثبوت کے لیے ایک ہی نص بھی کافی ہوتی ہے ۔ اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں ، جو کتب حدیث میں وارد ہیں، ہم نے اختصار کے پیش نظر صرف گیارہ احادیث کا حوالہ دیا ہے ۔جو اس بات کے ثبوت کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہیں کہ اسلامی معاشرے میں عورت آداب و احکام الٰہی کا خیال رکھتے ہوئے کام کاج کرسکتی اور گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔
نصوص قرآنی سے ہمارے استنباط کردہ نتائج فکر کی ان احادیث سے تائید ہوتی ہے۔ہم نے نصوصِ قرآنی سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ عورت کو گھر کے دائرۂ عمل میں بند نہیں کیا گیا، صرف اتنا کیا گیا ہے کہ باہر کا دائرۂ عمل کھلا رکھتے ہوئے کچھ آداب و احتیاط کے احکام دیے گئے ہیں۔
قرآن وحدیث سے مطابقت ہمارے نقطۂ نظر کی صحت کی علامت ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘ کا حکم دراصل ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے اور ’جلابیب‘ کے گھونگھٹ نکالنے والا حکم ایک خاص وقتی حل کے لیے دیا گیا تھا۔ عام عورتوں کے لیے ضابطہ بس وہی ہے جو سورۂ نور میں بیان ہوا ہے۔ وگرنہ ان احادیث میں ایسے واقعات اس کثرت سے نہ آئے ہوتے۔

فصل ثالث

عورت، عمل اور توازن

اسلام میں چونکہ مالی بوجھ اصلاً شوہر پر ڈالا ہے۔ان سے یہ مطالبہ شرعی طور پر کرنا مطلوب نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اگر اپنی کسی صلاحیت، شوق یا ضرورت کے پیش نظر میدان عمل میں آنا چاہیں تو ان کو کچھ امور کا خیال رکھنا ہے۔

پہلا ادب: لباس و حجاب کی پاک بازی

وہ احکام جن کا قرآن مجید اور سنت میں عمل کرنے کا کہا گیا ہے، ان کی خلاف ورزی نہ ہو۔اس ضمن میں لباس کے احکام اور مردوں کے سامنے جاتے وقت احتیاط کے جو احکامات دیے گئے ہیں، ان کا خیال رکھا جائے۔اس میں کچھ امور کی تعلیم احادیث سے بھی ملتی ہے۔جو اپنے مزاج اور روح میں قرآن ہی سے پھوٹے ہیں۔ جیسے آپ کا یہ فرمان کہ عورتیں خوشبو لگا کر مردوں میں نہ آئیں۔یہ ’لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ‘ کی ایک صورت ہے۔

عَنْ زَیْنَبَ، امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَہِدَتْ إِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِیْبًا.(صحیح مسلم، رقم ۴۴۳)
’’عبد اللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ نبی پاک نے ہم سے فرمایا: جب تم مسجد میں حاضر ہو تو خوشبو نہ لگاؤ۔‘‘

دوسرا ادب: شرعی مطالبات کی پاس داری

زندگی میں کوئی بھی کام ایسا کرنا اسلامی اعتبار سے ناجائز ہے جو کسی عقیدے اور شرعی حکم کے خلاف ہو۔ حد یہ ہے کہ نہایت ضروری کام جیسے روزگار کا حصول ، اکل طعام بھی ان حدود کے اندر رہ کر ہو گا، جو اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔ اگر کوئی امتی ان حدود کی پاس داری کرتے ہوئے زندگی میں اپنی ضرورت اور اپنے شوق کے تمام داعیات کو پورا کرتا ہے تو اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ کا کوئی کام جب شریعت کے خلاف نہ ہو تو کیسا ہی انوکھا کام کیوں نہ ہو وہ جائز ہے۔ مثلاًمداری کے تماشے کو جوازکی سند خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فراہم کی ہے (البخاری ۱۴۲۲ھ) کی روایت ہے کہ:

عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، أَنَّ عَاءِشَۃَ، قَالَتْ: لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِيْ وَالحَبَشَۃُ یَلْعَبُوْنَ فِي المَسْجِدِ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتُرُنِيْ بِرِدَاءِہِ، أَنْظُرُ إِلٰی لَعِبِہِمْ.(رقم۴۵۴)
’’عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہیں اور حبشی مسجد میں کھیل دکھا رہے ہیں، (مجھے دیکھ کر )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے چادر کی اوٹ میں لے لیتے ہیں، اور میں ان کا کھیل دیکھتی رہی۔‘‘

دینی تعلیمات کو بالعموم دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: حقوق اللہ اور حقوق العباد، جو شخص ان کی پابندی کرتے ہوئے کوئی بھی سنجیدہ، تفریحی، تخلیقی ، اصلاحی، دینی، تحقیقی غرض کسی بھی نوع کا کام کرتا ہے تو اسلام کے مطابق وہ درست کرتا ہے۔ اور یہ ضابطہ مرد و عورت، دونوں کے لیے یکساں لاگو ہوتا ہے۔

تیسرا ادب: بنیادی اور ثانوی کاموں کا فرق

یہ بات ہر مرد و عورت کو سامنے رکھنی چاہیے کہ دین کی رو سے سماجی و دینی احکام کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو بنیادی ہیں ، اور دوسرے وہ جو ثانوی ہیں ۔اگر کوئی شخص ثانوی احکام پر تو عمل کرے ، مگربنیادی کو چھوڑ دے تو یہ کسی طور پر درست نہیں ہے۔خدا کے احکام جبلی تائید بھی رکھتے ہیں، مثلاً اگر جبلی طور پر دیکھیں تو حیض اور حمل، او ر ولادت اور بعد از ولادت کچھ ایام عورت کے لیے کاموں میں کسی قدر حارج ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اولاد کی پرورش، انھیں دودھ پلانے سے لے کربالغ ہونے تک کی بہت سی ذمہ داریاں حبلۃً مرد کے مقابلے میں عورت پر زیادہ آتی ہیں۔ لہٰذا مجبوری کے سوا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک معصوم انسانی جان ماں کی محبت و الفتات کو ترستی رہے ، اور اس کی ماں محض کسی شوق یا کسی تفریح کے جذبے کے تحت کسی اور کام میں مشغول ہو۔سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ ان دونوں میں توازن قائم رکھے۔
نہ تفریح حرام ہے اور نہ دل چسپی کے کام ، لیکن یہ فطری امر ہے کہ ضروری کاموں کو اپنی تفریح اور دل چسپی کی نذر نہ کیا جائے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی کے بیوی بچے گھر بھوکے بیٹھے ہوں اور وہ باہرگلی میں بیٹھاتاش کی بازی لگا رہاہو، یا کرکٹ کے مزے لے رہا ہو۔ تفریح کی یہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ بنیادی کاموں کو فراموش کرکے کی جارہی ہے۔ یہی معاملہ خواتین کا ہے کہ اگر انھیں کوئی مجبوری نہیں ہے ، تو انھیں اس توازن کو برقرار رکھنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ عورت اگرماں ہے تو وہ اپنا شوق پورا کرے اور معاشرے کی خدمت ضرور کرے، مگر ماں والی ذمہ داریاں کما حقہٗ پورا کرتے ہوئے ایسا کرے۔ جب وہ اس عمر میں پہنچ جائے کہ وہ گھردر اور اولاد کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو تو بلاشبہ پورے وقت (full time) کے لیے کام کرے۔ لیکن مرد پر چونکہ نان نفقے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، لہٰذا اس کے لیے یہ بنیادی کام کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے لیے اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں پڑنا جائز نہیں ہو گا۔

تیسرا ادب: عورت اور نان نفقہ کی ذمہ داری

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا عورت پر نان نفقہ کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، یہ ذمہ داری مرد پر ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ نساء ۴: ۳۴، طلاق میں حق مہر کا حکم وغیرہ۔ ذیل کی حدیث میں قرآن سے معلوم اسی حق کو بیان کیا گیا ہے:

عن جابر بن عبد اللّٰہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ عیلہ وسلم … وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.(صحیح مسلم، رقم ۱۲۱۸)
’’جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی آخرالزماں نے فرمایا: عورتوں کا تم پر حق ہے کہ ان کی روزی اور لباس وغیرہ تم بھلے طریقے پر فراہم کرو۔‘‘

البتہ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ عورت کو کمانا پڑے تو کماسکتی ہے۔لیکن کوئی شخص عورت کو اس امر پر مجبور نہیں کرسکتا کہ عورت کمانے جائے ۔نہ اسے کمانے کے لیے ایسے امور میں ڈالا جاسکتا ہے کہ جو اس کی نزاکتِ طبع کے خلاف ہوں، اس کے نسوانی وقار کے خلاف ہوں۔ عورت اسلامی تہذیب میں علامتِ ناموس ہے۔اسے گلی بازار میں اچھالا نہیں جاسکتا ۔وہ اعزاز سے رکھنے کی چیز ہے، اس کے ساتھ غیرت وابستہ ہے۔یہ عربی زبان کے لفظ کی رو سے ’حفیظۃ‘ ۸؂ ہے، جس کے حفاظت کی جاتی ہے۔اسے ا س کے شایان شان کاموں میں لگنا اور لگانا چاہیے۔ یہ گلی گلی رسوا کرنے کی چیز نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ. (صحیح مسلم، رقم ۱۴۶۷)
’’عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا ایک پونجی (متاع حیات) ہے اور دنیا کی سب سے بڑھیا پونجی صالح عورت ہے۔‘‘

لہٰذا ان کی صلاحیتوں اور ان کے مذاق وشوق کے اظہار کے لیے اچھے میدان ہائے عمل تخلیق کرنے چاہییں۔ جن میں کام کرتے وقت یہ رسوائی ، دھکوں اور کسی قسم کی خرابی سے محفوظ رہیں۔ یہ قیمتی ترین متاع حیات ضائع نہ ہو جائے۔

ماہنامہ اشراق

_____
۸؂ عرب ’حفیظۃ‘ اس چیز کو کہتے تھے جس کی حفاظت ان کی غیرت کا مسئلہ ہوتی تھی۔ کسی حماسی کا شعر ہے:

إذًا لَقَامَ بِنَصْرِي مَعْشَرٌ خُشُنٌ … عِنْدَ الْحَفِیْظَۃِ إِنْ ذُوْ لُوْثَۃٍ لاَنا