Web Analytics Made Easy -
StatCounter

قرآن و حدیث اور عورت کا دائرۂ کار – Part 2

Quran Wa Hadees Aur Aurat Ka Daira Kar

قرآن و حدیث اور عورت کا دائرۂ کار – Part 2

قرآن و حدیث اور عورت کا دائرۂ کار (1/3)

تیسرا مقام

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ اَدْآٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا لَءِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَایُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلاً مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً.(۳۳: ۵۷۔۶۲)

یہ احکام منافقین کی طرف سے ’أذیۃ المومنین‘ کے ذیل میں آئے ہیں، یعنی اذیت سے بچنے کے لیے آیت ۵۹ میں ’فَلاَ یُؤْذَیْنَ‘ سے یہی وجہ بتائی گئی ہے۔
* اسی اذیت سے بچنے کے لیے درج ذیل حکم دیا جارہا ہے:

o جلباب کی قسم کی چادروں کا گھونگھٹ نکال لیں تاکہ پہچانی جائیں اور اذیت نہ دی جائے۔اگر منافقین پھر بھی باز نہیں آئے ، تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور مدینہ سے کھدیڑ دیے جائیں گے۔اور وہ جہاں پائے مار ڈالے جائیں گے۔

* اوپر کے دونوں نکات سے اس حکم کی نوعیت دینی نہیں لگ رہی ہے، بلکہ ایک صورت حال سے نبٹنے کی لگ رہی ہے۔
* یہاں تمام مسلمان مرادنہیں ہیں، بس وہ مراد ہیں جن کو منافقین اذیت دے رہے تھے۔ ’ذٰلِکَ اَدْنآی اَنْ یُعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ‘ کے الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔اس اذیت کا ہدف غالباً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ سرکردہ مسلمان بھی تھے۔جیسے ابو بکر و عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم ۔ ان کو بدنام کرنے سے اسلام بدنام ہو سکتا تھا کہ دیکھو اسلام نے ایسے لوگ تیار کیے ہیں، جن کی بیگمات یوں ہیں اور یوں ہیں۔اس کا دوسرا مقصد مسلمانوں کو اذیت دینا تھا، حاسد کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ عزت والے لوگوں کو بدنام کرکے اپنے حسدکے جذبے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سے مقصد فتنہ پیدا کرنا بھی تھا۔منافق اپنے لیڈروں کی شہ پر یہ چاہتے تھے کہ اکابرین امت پر تہمت دھریں، جس سے وہ غصہ میں آکر کوئی اقدام کریں گے، اور جھگڑا اور فساد پیدا ہو گا۔ جس سے مدینہ کی حکومت کمزور ہو گی۔ نتیجتاً اسلام کمزور ہوگا، اور اسے سیاسی اور سماجی زک پہنچے گی، اور دشمنان اسلام کو اس نئے مذہب کو کچلنے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن قرآن مجید نے اس کا بالکل الگ قسم کا حل تجویزکیا اور منافقین کی ساری پلاننگ ختم ہو کررہ گئی۔

دلیل و شاہد

یہاں تو حیرت انگیزصورت سامنے آرہی ہے۔ یعنی مسلمان خواتین پر الزامات لگ رہے ہیں۔اور ان کے لیے باہر جانے میں عزت و ناموس پر تہمتیں لگنے کے خطرات موجود ہیں، تب بھی اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ گھروں سے کیوں نکلتی ہو۔ بس چادر لینے کا حکم دیا ہے تاکہ ایک علامت مقرر ہو جائے اور منافقین اپنی حرکتوں کے لیے بہانے نہ بنا سکیں۔ حالاں کہ اگر اسلام کا مزاج یہی تھا کہ عورت گھر میں ٹکی رہے تو بلاشبہ سب سے آسان راستہ یہ تھا کہ اسلام پابندی لگا دیتا۔ کم از کم اتنا ہی کہہ دیتا کہ کم نکلا کرو۔
یہاں وضعی حکم یہ ہے کہ منافقین کی ایذا جلابیب کے استعمال کا سبب ہے۔اور منافقین کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے حکم تکلیفی یہ ہے کہ جلباب کو تعرف کے لیے استعمال کیا جائے، تاکہ منافقین کی طرف سے آنے والی ایذا سے بچا جاسکے۔

چوتھا مقام

قرآن مجید کے ان تمام مقامات سے یہ بات واضح ہے کہ نامحرم عورت و مرد کو باہم ملتے وقت کچھ آداب سکھائے گئے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر لباس اور اس سے متعلق احتیاط سے ہے یا رویوں اور ان میں حیا سوز حرکات و سکنات سے ہے ۔ان آداب کو قانونی شکل دے کر لازم کردیا گیا ہے تاکہ ان سے انحراف نہ ہو اور معاشرہ اپنی پاکیزہ روی پر قائم رہے۔ان آداب و احکام دینے ہی سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مردو عورت کا معاشرے میں اختلاط ہو گا، تبھی تو قانون سازی کی گئی ہے۔ وگرنہ اتنا ہی قانون کافی تھا کہ عورتیں مردوں کے سامنے آئیں ہی نہیں۔
ان آداب و احکام میں کہیں بھی کوئی ایسا حکم نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ عورت کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکا گیا ہو۔ اسے ان آداب میں رہتے ہوئے آنے جانے، اٹھنے بیٹھنے اور کام کاج میں کوئی قدغن نہیں ڈالی گئی ہے۔البتہ قرآن مجید میں ایک حکم ایسا ہے جس سے یہ بات نکالی جاسکتی ہے ۔وہ حکم سورۂ احزاب کی درج ذیل آیات میں آیا ہے:

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا.(۳۳: ۳۲۔۳۴)

ان آیات میں ازواج مطہرات کو درج ذیل احکام دیے گئے ہیں:
oo آواز میں لوچ پیدا نہ کریں، کہ دل میں منافقت کا روگ رکھنے والے کچھ طمع خام میں مبتلا ہو جائیں،
o سیدھی بات کریں،
o گھروں میں ٹکی رہیں، اور دورِ جاہلیت کے طریقے پر تبرج نہ کریں،
o نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں،
o اللہ اور رسول کی اطاعت کریں،
o قرآن میں دل لگائیں تاکہ اس کی آیات اور حکمت سے تذکیر حاصل ہو۔
ان احکام میں ایک حکم گھر میں ٹکے رہنے کا دیا گیا ہے۔یہ حکم ازواج مطہرات کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ ’یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ‘ (آیت ۳۲) اور ’اَھْلَ الْبَیْتِ‘ (آیت ۳۳) سے واضح ہے۔ لہٰذا ’قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘ کا حکم ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے۔ عام مسلمان عورتیں اس کی مکلف نہیں ہیں۔ علامہ الجصاص (۱۴۰۵ھ) نے ’’احکام القرآن‘‘ میں لکھا ہے: ’وقَوْلُہُ تَعَالٰی وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ رَوٰیْ ہِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ: قِیْلَ لِسَوْدَۃِ بِنْتِ زَمْعَۃَ‘ (۵/ ۲۲۹)۔ سودہ رضی اللہ عنہا امہات المومنین میں سے ہیں۔
دور جدید میں بعض علما نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ ازواج مطہرات باقی امت کی عورتوں کے لیے اسوہ ہیں۔ یہ بات باقی امور میں درست ہے، لیکن اس حکم میں درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ ’لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَآءِ‘ یعنی اس معاملے میں تم باقی عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ لہٰذا گھر میں ٹکے رہنے کا یہ حکم امت کی دیگر عورتوں کے لیے ہر گز نہیں ہے۔
بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ عام ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں ’کُمْ‘ یعنی مذکر مخاطب جمع کا صیغہ استعمال کرکے اسے عام کردیا ہے، بلکہ یہ عورتوں کے لیے بھی خاص نہیں رہا، مرد بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ اس گروہ کو عربی زبان کے اس اسلوب کی خبر نہیں ہے کہ اہل بیت کے بعد ضمیر مذکر جمع کی آتی ہے، خواہ اس میں ایک ہی بیوی مخاطب ہو، خواہ ایک سے زیادہ۔ دونوں صورتوں میں اس میں مرد شامل نہیں ہو سکتے۔ اس کی ایک مثال سیدہ سارہ زوجہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے قرآن مجید ہی میں دیکھیے کیا الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

قَالُوْا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ اِنَّہُ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ.(ہود۱۱: ۷۳)
’’فرشتوں نے سیدہ سارہ سے کہا: کیا آپ اللہ کے حکم سے متعجب ہیں، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ پر اے اہل بیت، اللہ تعالیٰ ستودہ صفات و بزرگی ہیں۔‘‘

دلیل و شاہد

قرآن مجید کے اس مقام سے ازواج مطہرات کے لیے بلاشبہ یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ان کی خاص حیثیت کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا تھا۔وہ عام عورتوں سے کئی اعتبار سے ممتاز تھیں، جیسے مومنین کے لیے ان کی حرمت ماں جیسی قائم کی گئی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی نمایندہ تھیں،ان کی پاک بازی اور تہمت سے پاک ہونے پر نبی اکرم کی عظمت اور مسلمانوں کی پوری جماعت کی عزت منحصر تھی۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ منافقین کی ریشہ دوانیوں سے انھیں بچانے کے لیے سخت قانون سازی بھی کر سکتے تھے، لیکن اس سے اسلام کو نقصان پہنچتا، اس لیے ازواج مطہرات پر پابندی لگائی گئی تاکہ کسی فتنہ و فساد کے بغیر ہی مسئلہ حل ہو جائے ۔دوسری طرف منافقین کو یہ کہا گیا کہ وہ اب بھی اگر باز نہ آئے تو ان پر شدید گرفت کی جائے گی اور ان کو دیس نکالا دے دیا جاے گا۔
اس مقام سے بھی ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ عورت کو مطلقاً معاشرتی کاموں میں آنے جانے سے روکا گیا ہو۔ یہاں ایک حکم تکلیفی ’قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘ کے لیے منافقین کی موجود گی ایک مانع ہے۔ لیکن یہ مانع اس وقت کے لیے خاص ہے جب وہ منافقین موجودتھے ، جو ازواج مطہرات کے لیے دل میں برائی رکھتے تھے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ منافقین کا تعلق ہے ہی عہد نبوت سے۔ آج کون ہو گا جس کو ستانے والے کو منافق کہا جائے گا۔ اس لیے کہ پورا امکان ہے کہ جس کو ستایا جارہا ہے وہ خود غلط ہو۔

مجموعی تبصرہ

ان تمام احکام میں جن کا ہم نے اوپر مطالعہ کیا ہے اگر حکم وضعی کی طرز پر(ذرا وسعت کے ساتھ، یعنی حکم اور سیاق و سباق کے اعتبار کیے بغیر) عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے مانع کو اخذ کیا جائے تو وہ درج ذیل چیزیں وضعیت کا امکان رکھتی ہیں:
۱۔ منافقین کی موجودگی
۲۔ تقویٰ
۳۔ حیا
۴۔تزکیہ
۵۔تہمت
۶۔ ابداے زینت
پہلی چیز آج موجود ہی نہیں ہے۔ جبکہ باقی تمام امور مانع نہیں ہیں۔بلکہ دین کے مطالبات کی علت اور مقاصد ہیں۔جن لوگوں نے انھیں مانع قرار دیا ہے، وہ شریعت کے مزاج سے اور اصول فقہ کا صحیح اطلاق نہیں کرسکے۔وگرنہ یہ امور آج تک کسی عالم نے بطور مانع بیان ہی نہیں کیے۔ مثلاً کیا کسی نے لکھا ہے کہ تقویٰ نماز کے لیے وضعی ہے؟ ہاں یہ چیزیں بطور مقصود و مطلوب زیر بیان آئی ہیں۔ابداے زینت البتہ عورت کے دائرۂ کار سے متعلق مانع تو ہر گز نہیں ہے، لیکن یہ گریبان پر کپڑا لینے کا سبب ضرورہے۔

فصل: حدیث اور عورت کا دائرۂ کار

اس فصل میں ہم ان احادیث کا تذکرہ کریں گے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں عورت زندگی کے ہر میدان میں کام کرتی رہی ہے۔ میری نظر سے اس موضوع پر سینکڑوں حدیثیں گزری ہیں، لیکن یہاں مقالے کی تنگ نائے کی وجہ سے چند ایک کا ذکر کروں گا تاکہ ابلاغ مدعا کے لیے اور میرے تھیسزکے ثبوت کے لیے مواد فراہم ہوسکے۔

احادیث اور عورت کا دائرۂ کار

احادیث میں بے شمار ایسے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں ، جن سے نبی اکرم اور صحابہ کے عہد میں عورت کی وہ صورت نظر نہیں آتی ، جو آج کل ہمارے مذہبی تصور کے مطابق ہونی چاہیے۔ذیل کی سطور میں ہم ان واقعات میں سے چند ایک ذکرکریں گے ، جس سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہو گا کہ عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ میں عورت معاشرے میں کس قسم کی آزادی رکھتی تھی ، او ر اس پر کس قسم کی پابندیاں تھیں۔ان احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو گی کہ ہمارا دینی تصور دراصل نہ قرآن سے بنا ہے اور نہ احادیث سے، بلکہ محض اپنے یا علاقائی تصورات پرقائم ہے۔

نامحرم مرد و زن کی باہم علیک سلیک اور اکٹھے ہو کر کوئی کام کرنا

صحیح بخاری کتاب الجمعۃ، میں ’بَابُ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی: (فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ)‘ میں یہ حدیث وارد ہے:

۱۔ حَدَّثَنِيْ أَبُوْ حَازِمٍ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: کَانَتْ فِیْنَا امْرَأَۃٌ تَجْعَلُ عَلٰی أَرْبِعَاءَ فِيْ مَزْرَعَۃٍ لَہَا سِلْقًا، فَکَانَتْ إِذَا کَانَ یَوْمُ جُمُعَۃٍ تَنْزِعُ أُصُوْلَ السِّلْقِ، فَتَجْعَلُہُ فِيْ قِدْرٍ، ثُمَّ تَجْعَلُ عَلَیْہِ قَبْضَۃً مِنْ شَعِیْرٍ تَطْحَنُہَا، فَتَکُوْنُ أُصُوْلُ السِّلْقِ عَرْقَہُ، وَکُنَّا نَنْصَرِفُ مِنْ صَلٰوۃِ الجُمُعَۃِ، فَنُسَلِّمُ عَلَیْہَا، فَتُقَرِّبُ ذٰلِکَ الطَّعَامَ إِلَیْنَا، فَنَلْعَقُہُ وَکُنَّا نَتَمَنّٰی یَوْمَ الجُمُعَۃِ لِطَعَامِہَا ذٰلِکَ.(بخاری، رقم ۹۳۸)
’’ابو حازم سہل بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ سہل کہتے ہیں کہ ہمارے ادھر ایک خاتون تھیں، وہ اپنے کھیت کے نالوں (کھالیوں) میں چقندر بوتی تھی، تو جمعہ کے دن وہ ان کی جڑوں کو (یعنی چقندر کو) اکھاڑ لاتی، پھر اسے ایک ہنڈیا میں چڑھاتی، پھر پسے ہوئے مٹھی بھر جو ان میں ڈال دیتی، اس کھانے میں چقندر ہڈیوں یا بوٹیوں کا کام کرتے ۔ہم جمعہ کی نماز سے پلٹتے تو اس عورت کو آکر سلام کہتے ، اور وہ اس کھانے کو ہمارے قریب کرتی تو ہم اسے (انگلیوں سے لگا لگا کر )چاٹ لیتے ، ہمارا حال یہ تھا کہ اس کے اس کھانے کی وجہ سے جمعہ کا شدت سے انتظار کرتے۔‘‘

دلیل و شاہد

اس حدیث میں ایک سے زیادہ مردوں کا جمعہ کے بعد ایک عورت کے پاس جاکر بیٹھنا اور کھانا کھانا معلوم ہوتا ہے۔یہ چیز آج ہمارے دینی تصور سے بہت مختلف ہے۔یعنی مرد و عورت کا پاکیزہ طریقے سے باہم اختلاط ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ اسی حدیث پر ’’کتاب الاستئذان‘‘ میں امام بخاری نے جو عنوان قائم کیا ہے، وہ یہ ہے کہ مرد عورتوں کو اور عورتیں مردوں کو سلام کرسکتی ہیں: ( بَابُ تَسْلِیْمِ الرِّجَالِ عَلَی النِّسَاءِ، وَالنِّسَاءِ عَلَی الرِّجَالِ

مرد و عورت کی باہم میل ملاقات اور مشاورت

۲۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَۃَ، قَالَ: قَالَ لِيْ أَبُوْ قِلاَبَۃَ: أَلاَ تَلْقَاہُ فَتَسْأَلَہُ؟ قَالَ فَلَقِیْتُہُ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ: کُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ، وَکَانَ یَمُرُّ بِنَا الرُّکْبَانُ فَنَسْأَلُہُمْ: مَا لِلنَّاسِ، مَا لِلنَّاسِ؟ مَا ہٰذَا الرَّجُلُ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: یَزْعُمُ أَنَّ اللّٰہَ أَرْسَلَہُ، أَوْحٰی إِلَیْہِ، أَوْ: أَوْحَی اللّٰہُ بِکَذَا، فَکُنْتُ أَحْفَظُ ذٰلِکَ الکَلاَمَ، وَکَأَنَّمَا یُقَرُّ فِيْ صَدْرِيْ، وَکَانَتِ العَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلاَمِہِمُ الفَتْحَ، فَیَقُوْلُوْنَ: اتْرُکُوْہُ وَقَوْمَہُ، فَإِنَّہُ إِنْ ظَہَرَ عَلَیْہِمْ فَہُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ، فَلَمَّا کَانَتْ وَقْعَۃُ أَہْلِ الفَتْحِ، بَادَرَ کُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلاَمِہِمْ، وَبَدَرَ أَبِيْ قَوْمِيْ بِإِسْلاَمِہِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: جِءْتُکُمْ وَاللّٰہِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ: صَلُّوْا صَلٰوۃَ کَذَا فِيْ حِیْنِ کَذَا، وَصَلُّوْا صَلٰوۃَ کَذَا فِيْ حِیْنِ کَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلٰوۃُ فَلْیُؤَذِّنْ أَحَدُکُمْ، وَلْیَؤُمَّکُمْ أَکْثَرُکُمْ قُرْآنًا. فَنَظَرُوْا فَلَمْ یَکُنْ أَحَدٌ أَکْثَرَ قُرْآنًا مِنِّيْ، لِمَا کُنْتُ أَتَلَقَّی مِنَ الرُّکْبَانِ، فَقَدَّمُوْنِيْ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِیْنَ، وَکَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَۃٌ، کُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّيْ، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الحَيِّ: أَلاَ تُغَطُّوْا عَنَّا اسْتَ قَارِءِکُمْ؟ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوْا لِيْ قَمِیْصًا، فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِيْ بِذٰلِکَ القَمِیْصِ.(بخاری، رقم ۴۳۰۲)
’’عمر و بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو قلابہ نے کہا کہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تم اس سے مل کر پوچھ لو۔ تو کہتے ہیں کہ میں ان سے ملا اور ان سے پوچھا تو کہنے لگے کہ ہم جس (پانی) کنوئیں کے پاس مقیم تھے، وہ لوگوں کی گزر گاہ پر تھا۔ ہمارے پاس سے شتر سوار گزرتے تھے، تو ہم ان مسافروں سے لوگوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے کہ ان کے کیا حال ہیں؟ اور ان کی کیا خبر یں ہیں؟ اوریہ بھی پوچھتے کہ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ تو وہ کہتے کہ وہ اپنے بارے میں یہ خیال کرتا ہے کہ اسے اللہ نے مبعوث کیا ہے اور اس کی طرف اپنی وحی بھیجی ہے۔ یا یہ کہتے کہ یہ اور یہ وحی اس پر اتری ہے(یعنی کچھ آیات سنا کر کہتے کہ اب اس پر یہ وحی آئی ہے)۔میں اس کلام کو یاد کرلیتا ۔ یوں لگتا تھاکہ گویا وہ کلام میرے سینے میں اتار دیا جاتا تھا۔ عرب اسلام لانے کے لیے فتح (فیصلے) کا انتظار کررہے تھے کہ نبی اکرم اور ان کی قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اگر یہ شخص اپنی قوم پر غالب آگیا تو پھر (یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ) یہ سچا رسول ہے۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا واقعہ ہوا تو تمام لوگ اسلام میں تیزی سے داخل ہونے لگے۔ میرے والد میری قوم کے مقابلے میں پہلے اسلام لائے ، اور واپس آکر اپنی قوم سے بولے کہ میں تم لوگوں کے پاس سچے نبی سے مل کرآیا ہوں، انھوں نے کہا ہے کہ فلاں وقت میں یہ اور ایسی نماز پڑھنی ہے اور فلاں وقت میں یہ اور یوں نماز پڑھنی ہے۔ تو جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور جسے قرآن سب سے زیادہ آتا ہو، وہ امامت کرائے۔ تو جب انھوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ قرآن کو جاننے والا کوئی نہ تھا، کیونکہ میں شتر سواروں سے سیکھا کرتا تھا۔ تو انھوں نے مجھے امامت کے لیے اپنے آگے کھڑا کرلیا،جبکہ میں صرف چھ سات برس کا تھا۔ میری ایک ہی چادر تھی، جب میں سجدے میں جاتا تو وہ اکٹھی ہو جاتی۔ تو قبیلے کی ایک عورت نے یہ صورت دیکھ کر کہا کہ اپنے اس قاری کی شرم گاہ کو ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ تو پھر انھوں نے میرے لیے ایک کپڑا خریدا اور اس سے کاٹ کر میری قمیض بنائی، میں کسی چیز سے کبھی اتنا خوش نہیں ہوا جتنا اس قمیض سے ہوا۔‘‘

دلیل و شاہد

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فتح مکہ کے بعد بھی جبکہ پردے کے احکام اترے عرصہ بیت گیا تھا۔ عورتیں مسجد میں آتیں، اور نہ صرف آتیں، بلکہ مردوں کو مشورے بھی دیتی تھیں۔

مسجد میں عورتوں کا مردوں کے ہمراہ ہونا

اس قسم کے بے شمار واقعات احادیث کی کتب میں وارد ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نامحرم مرد اور عورتیں مسجد میں آتے ، ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے۔ مثلاً :

۳۔ عنِ بْنِ شہاب اَخْبَرَنِيْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، أَنَّہُ سَمِعَ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِيْ بَکْرٍ تَقُوْلُ: قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ الْفِتْنَۃَ الَّتِيْ یُفْتَنُ بِہَا الْمَرْءُ فِيْ قَبْرِہِ، فَلَمَّا ذَکَرَ ذٰلِکَ ضَجَّ الْمُسْلِمُوْنَ ضَجَّۃً حَالَتْ بَیْنِيْ وَبَیْنَ أَنْ أَفْہَمَ کَلَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَکَنَتْ ضَجَّتُہُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِیْبٍ مِنِّيْ: أَيْ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ، مَاذَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ آخِرِ قَوْلِہِ؟ قَالَ: ’’قَدْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي الْقُبُوْرِ قَرِیْبًا مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ‘‘. (سنن النسائی، رقم ۲۰۶۲)

’’ابن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اسماء رضی اللہ عنہا کو سنا کہ وہ بتا رہی تھیں کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں کو قبر کے فتنوں کے بارے میں بتا رہے تھے جو آدمی کو قبر میں لاحق ہوں گے۔ جب آپ نے یہ باتیں بتائیں تو لوگ روتے ہوئے چیخنے لگے، ان کی چیخیں میرے سننے میں رکاوٹ بن گئیں کہ میں آپ کا کلام سمجھ سکوں۔ جب ان کاشور تھما، تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہا: اے بھائی، اللہ تمھارا بھلا کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری بات کیا کہی تھی؟تو اس آدمی نے کہا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے وحی سے یہ بتایا گیاہے کہ تم لوگ دجال کے فتنے کے قریب آنے پر قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔‘‘

دلیل و شاہد

اس حدیث میں یہ معلوم ہو رہا ہے کہ خطبۂ نبوی سنتے وقت مرد اورعورتیں قریب قریب بیٹھے تھے۔

قرآن و حدیث اور عورت کا دائرۂ کار (3/3)

ماہنامہ اشراق

One thought on “قرآن و حدیث اور عورت کا دائرۂ کار – Part 2

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *