Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Mutazila Kal Aur Aaj, معتزلہ کل اور آج

Mutazila Kal Aur Aaj

Mutazila Kal Aur Aaj, معتزلہ کل اور آج

معتزلہ نے اپنے ذیلی فرقوں اور جماعتوں کے ساتھ اسلام اور حاملینِ دین کی بدنامی میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ انھوں نے اپنے تراشیدہ اصولوں کی روشنی میں قرآن وسنت کا جائزہ لیا اور صحابۂ کرامؓ کا مقام ومرتبہ متعین کرڈالا، مگر ان کا رویہ ہر جگہ معاندانہ ومخاصمانہ اور ایک طرح سے چیلینج دینے والا رہا ہے۔

انھیں جہاں کسی نصِ شرعی (آیت اورحدیث)میں اپنے اصولوں یا رایوں کی ادنیٰ مخالفت دکھائی دی تو بجائے اس کے کہ اپنے اصولوں پر نظرِ ثانی کریں اورخود کو بدلیں، یہ لوگ فی الفور نصِ شرعی کی ایسی تاویلیں کرنے لگ جاتے تھے جو اس کے حقیقی معنی کو بالکل ختم کر دیتی ہو اور نص کو ان کی رائے کے مطابق ڈھال دیتی ہو۔(موقف المعتزلۃ من السنۃ ومواطن انحرافھم، ابو لبابہ:ص۴۳،۷۳، ۹۷۔الخلافۃ ونشأۃ الأحزاب الإسلامیۃ، محمد عمارۃ:ص۲۱۲-۲۱۵)

اپنے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے یہ لوگ جس زور زبردستی اور کھینچا تانی کے ساتھ قرآنی آیات کی تاویل کرتے ہیں اس کی خطرناکی اور سنگینی کا ادراک باشعور لوگوں کو پہلے سے ہوگیا تھا۔ امام ابو الحسن اشعریؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:’’معتزلہ اور قدریہ میں سے راہِ حق سے بھٹکنے والے بہت سے لوگوں کا حال یہ ہے کہ انھیں ان کی بدعات اور گمراہیوں نے اپنے سربراہوں اور گزشتہ پیشوائوں کی اندھی تقلید پر آمادہ کر دیا۔ یہ لوگ اپنی آراء کے مطابق قرآن کی ایسی تاویل کرتے ہیں جس کی کوئی سند اور دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ یہ اپنی تاویلوں کے جواز میں رب العالمین کے پیغمبر محمدﷺ سے منسوب کوئی بات پیش نہیں کرتے اور نہ اسلافِ متقدمین صحابۂ کرامؓ کا کوئی حوالہ دیتے ہیں۔‘‘(الإبانۃ:ص۱۴)

دکتور محمد ابو شہبہؒ فرماتے ہیں:’’لوگوں میں شاید معتزلہ سب سے زیادہ قیل وقال کرنے والے اور بحث وجدال کے شائق وحریص ہیں۔ انھوں نے اپنی تفاسیر کو اپنے خاص اصولوں کے مطابق لکھا ہے جیسے عبدالرحمن بن کیسان الاصم کی تفسیر ہے جو اسماعیل بن علیہ کے استاد تھے۔ یہ اسماعیل بن علیہ وہی ہے جن سے امام شافعیؒ نے کئی بار مناظرہ کیا تھا۔ یا جیسے ابو علی الجبائی کا تفسیری مجموعہ ہے۔ یا جیسے قاضی عبدالجبار ہمدانی کی ’’التفسیر الکبیر‘‘ اور جار اللہ زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ ہے۔”

“مقصود بتانے کا یہ ہے کہ ان جیسے لوگوں کا طریقہ یہ رہاہے کہ پہلے ایک رائے طے کر لیتے ہیں، پھر قرآنی الفاظ کو اس پر محمول کرتے ہیں۔صحابہؓ وتابعینؒ میں سے کسی کو یہ لوگ اپنا پیشوا یا اسوہ نہیں مانتے ہیں۔جو بھی رائے اور تفسیری رخ اختیار کرتے ہیں اس میں ائمۂ امت میں سے کوئی ان کا مؤید اور ہم نوا نہیں ہوتا۔بنابریں انھوں نے جو تفسیریں لکھی ہیں وہ سب باطل اور فاسد ہیں اور ان کی خرابی متعدد وجوہ سے آشکارا ہے۔ کبھی ان کے قول کی خرابی کا علم ہوجاتا ہے اور کبھی ان کی تفسیری آراء کی خرابی کا علم ہوجاتا ہے۔ان میں سے کچھ لوگ خوش گفتار اور فصیح اللسان ہیں جو باتوں میں شہد گھولتے ہیں اور اکثرلوگ ان کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں، جیسے تفسیر ’’الکشاف‘‘ کے مولف زمخشری کا معاملہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے بہت سے افراد پر ان کی باطل تفسیروں کا جادو چل جاتا ہے اور وہ ان کی شاذ اور منحرف آراء کو درست سمجھنے لگ جاتے ہیں۔‘‘ (الإسرائیلیات والموضوعات فی کتب التفسیر:ص۱۱۴-۱۱۵)

معتزلہ کے خود ساختہ اصولوں کی مضرت صرف یہی نہیں ہے کہ یہ لوگ قرآنی آیات کی بے جاتاویل کرتے ہیں، بلکہ ان اصولوں سے اصل خطرہ جو لاحق ہوا ہے وہ سنتِ مطہرہ کو لاحق ہوا ہے۔ احادیثِ صحیحہ کے بارے میں ان لوگوں نے جس قدر جرأت وجسارت دکھائی ہے وہ معمولی ایمانی حس کے بھی منافی ہے۔احادیث اگر ان کے اصولوں یا نظریوں سے ٹکراتی ہیں تو یہ برملا ان کی تاویل کرتے ہیں یا علانیہ ان کا انکار کر دیتے ہیں۔گاہے کھل کر کہتے ہیں کہ ہم اخبارِ آحاد کو حجت تسلیم نہیں کرتے یا ہمارے نزدیک عقائد کے باب میں اخبارِ آحاد دین کا مأخذ نہیں ہیں۔

اس پر ہم آگے تفصیل سے بات کریں گے کہ معتزلہ کے نزدیک احادیث کے ردّ وقبول کی کسوٹی یہ نہیں ہے کہ وہ آحاد ہیں یا متواتر ہیں، بلکہ اصل مسئلہ ان اصولوں کا ہے جنھیں یہ اٹل مان کر چلتے ہیں اور قرآن وسنت کو ان کے تابع رکھتے ہیں۔اس کی کھلی دلیل یہ ہے کہ قرآنی آیات کو یہ متواتر کہتے ہیں،مگر یہ بھی اگر ان کے کسی اصول سے ٹکراتی ہیں تو تاویل کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح احادیثِ متواترہ کو زبانی طور سے حجت مانتے ہیں، مگر یہ بھی اگر ان کے کسی اصول یا نظریے سے ٹکرائیں تو ردّ کر دیتے ہیں۔اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہوتے کہ عقائد کے باب میں اخبارِ آحاد کو دلیل نہیں بنائیں گے تو آخر قرآنی آیات اور احادیثِ متواترہ کی تاویل کیوں کرتے ہیں؟ (موقف المعتزلۃ من السنۃ ومواطن انحرافھم عنھا:ص۹۷-۹۸)

احادیث کو نہ ماننے کے لیے ان کے پاس سو بہانے ہیں۔ کبھی محدثین وناقلینِ سنت پر چھینٹا کشی کریں گے۔ ان کی بدگوئی سے صحابۂ کرامؓ اور تابعینِ عظامؒ تک محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔ بعد کے ائمہ وفقہاء اور علماء ومحدثین کا لحاظ کرنا تو انھیں آتا ہی نہیں تھا۔

معتزلہ کے بعد سے ہر دور میں دین کے جن دشمنوں نے بھی قرآن وسنت کی صداقت وحقانیت اور جماعتِ صحابہؓ کی عظمت وبزرگی ختم کرنے کی کوشش کی، ان سبھی نے بلااستثناء معتزلہ کے چربے اور استفراغ کی جگالی کی ہے۔ معتزلہ نے قرآن وسنت کے حوالے سے جو شکوک وشبہات اپنی خام عقلوں سے اٹھائے تھے، یہ ہر دور میں دشمنانِ دین کے لیے خوانِ یغما ثابت ہوئے۔صحابۂ کرامؓ کے بارے میں معتزلہ نے جو کچھ لکھا ہے، ہر دور میں اعدائے دین کو اس ڈھیر میں اپنے کام کی چیزیں مل گئی ہیں۔ معتزلہ نے اسلام کو ایک خرافاتی دین کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔انھوں نے امتِ مسلمہ کے اکابرین ومشاہیر، اس کے تاریخی کارنامے اور اس کی روشن تہذیب کو ہر ممکن طریقے سے ہیچ اور ناتواں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے دور میں بھی جن ابن الوقتوں پر ملت کو زک پہنچانے کا خبط سوار ہوا، انھوں نے معتزلہ کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کر دیے اور ان کے نہج اور طریقے پر قرآن وسنت کو مومی ناک بنانے کے جتن کیے۔ چودہ سو سالوں سے امت کے علماء وائمہ کو کم عقل اور جاہل ثابت کرتے ہوئے مبنی بر شذوذ وتفرد آراء وافکار پیش کرنا ایسے لوگوں کی سب سے نمایاں پہچان ہے۔(دیکھیں الحدیث والمحدثون، محمد ابوزہو:ص۳۳۲۔ السنۃ ومکانتھا فی التشریع:ص۱۴۲۔ الضوء اللامع المبین عن مناھج المحدثین، احمد محرم:۱/۱۹۸-۱۹۶)

مستشرقین ہوں یا ان کے مغربیت زدہ مسلم تلامذہ ومفکرین ہوں، لادینیت کے علم بردار ہوں یا اشتراکیت کے پرستار ہوں، ان میں سے جس نے بھی اسلام کے خلاف قلم اٹھایا اور مسلمانوں کو رسوا کرنا چاہا تو سب سے پہلے ذخیرۂ سنت پر حملہ کیا اور احادیثِ نبویہ کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلائے اور اس پوری کارگزاری میں اسے کمک اور رسد تمام تر یا بیشتر معتزلہ کی کتابوں سے ملی۔

یہ بے وجہ نہیں ہے کہ آج ہر دشمنِ دین معتزلہ کے نام کے قصیدے پڑھ رہا ہے۔ دراصل منافقین اور دشمنانِ دین کو معتزلہ کے یہاں وہ نہج اور طریقۂ کار ہاتھ لگ جاتا ہے جسے اپنا کر پوری اسلامی فکر کو تباہ کیا جاسکتا ہے اور خاص طور سے سنتِ نبوی کی آئینی حیثیت کا انکار کرتے ہوئے مسلمانوں کی عملی وسماجی زندگی سے اس کا اثرونفوذ مٹایا جاسکتا ہے۔

یہ بات وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک بار ملت کا پیغمبرِ اسلامﷺ سے عقیدت واتباع کا رابطہ منقطع ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو کفر وارتداد کی آندھی میں اڑ جانے سے روک نہیں سکتی ہے۔چنانچہ اس ارادے اور غرض سے اعتزالی فکر کو دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے۔ ذرائعِ ابلاغ میں ان پر تعریف وتوصیف کے ڈونگرے لنڈھائے جاتے ہیں۔ انھیں اسلام کے حقیقی فلاسفہ اور نکتہ داں اور ترجمان کی حیثیت سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ تعظیم وتوقیر سے پُر عبارتوں کے لاحقے اور سابقے لگاکر انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ انھیں مسلمانوں کے روشن خیال مفکرین کا نمائندہ طبقہ باور کرایا جاتا ہے۔(دیکھیں العقیدۃ والشریعۃ، گولڈزیہر:ص ۱۰۰- ۱۰۲، ۱۱۸-۱۲۰۔ تراث الإسلام، جوزیف شاخت:ص۲۰۳- ۲۱۸۔ دراسات فی حضارۃ الإسلام، ہیملٹن گب: ص۲۶۸-۲۶۹، ۲۷۴۔ دائرۃ المعارف الإسلامیۃ:ص۵۷۶،۵۸۰-۵۸۴)

ڈاکٹر احمد امین نے معتزلہ کی شان میں لکھا ہے: ’’میری رائے میں مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا صدمہ معتزلہ کی موت ہے۔مسلمانوں نے اعتزالی فکر چھوڑ کر اپنے اوپر ظلم ڈھایا ہے۔‘‘[وفی رأیی أن من أکبر مصائب المسلمین موت المعتزلۃ وعلی أنفسھم جنوا] (ضحی الإسلام:۳/۲۰۷)

جدید روشن خیال مکتبۂ فکر کے بعض دانشوران ومفکرین نے بھی اعتزالی فکر ومنہج کی عینک لگاکر قرآن وسنت کا مطالعہ کیا اور نتیجے میں عجیب وغریب افکار ونظریات پیش کیے۔(دیکھیں منہج المدرسۃ العقلیۃ الحدیثۃ فی التفسیر، فہد الرومی۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ من السنۃ النبویۃ، امین الصادق الامین۔جدید اسلامی فکر،ایک تنقیدی جائزہ)

معتزلہ کے کاموں سے دشمنوں نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے باطل مشن کو مسلمانوں میں پھیلا دیا ہے۔ یہ لوگ اپنے ملحدانہ افکار ونظریات کو دینی قالب پہنا کر مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اپنی مادہ پرستانہ آراء کو مدرسۂ اعتزال کے اکابرین کے اقوال سے مدلل کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ جس عقلی واعتزالی نہج پر دینِ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں یہی درست نہج ہے۔ جہالت اور جسارت کی انتہاء یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مقالوں اور تقریروں میں گاہے اس اعتزالی نہج کو ہی اسلافِ امت صحابۂ کرامؓ اور تابعینِ عظامؓ کا نہج بتاتے ہیں۔(دیکھیں أضواء علی السنۃ، محمود ابو ریہ:ص۳۷۷۔ الأضواء القرآنیۃصالح ابوبکر:۱/۱۶،۳۶۔ تبصیر الأمۃ بحقیقۃ السنۃ، اسماعیل منصور:ص۶۵۶۔مقالات احمد صبحی منصور:ص۳۸-۴۰،۵۵-۶۰)

ختم شد

پس نوشت

معتزلہ سے متعلق یہ مضامین ایک کتاب “دفاعِ سنت: انکارِ حدیث کی قدیم وجدید کوششوں کا جائزہ” سے مأخوذ ہیں۔ “معتزلہ اور قرآن” کے حوالے سے اس میں نہیں لکھا گیا۔ البتہ آنے والی ایک کتاب “تفسیر سے تحریف تک: عقلیت پسندانہ طرزِ تفسیر کا مطالعہ” میں قرآن، علومِ قرآن اور تفسیرِ قرآن کے حوالے سے معتزلہ کے افکار ونظریات پر قدرے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب انشاء اللہ عید الاضحی کے آس پاس طبع ہو جائے گی۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

ذکی الرحمٰن غازی مدنی، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *