Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Mutazila Aur Sahab e Kiram, معتزلہ اور صحابہ کرام

Mutazila Kal Aur Aaj

Mutazila Aur Sahab e Kiram, معتزلہ اور صحابہ کرام

عام صحابۂ کرامؓ کے بارے میں معتزلہ کا موقف شیعوں کے موقف سے کم برا اور خطرناک نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ان کا اصولی رویہ ان کے ایک امام احمد بن یحییٰ بن مرتضیٰ نے یوں بیان کیا ہے کہ صحابۂ کرامؓ سے ولایت کا دم بھرا جائے گا، تاہم حضرت عثمانؓ کے آخری دورِ خلافت میں ان کے کردار کے بارے میں اختلافِ رائے ہوا ہے، البتہ یہ طے ہے کہ حضرت معاویہؓ اور حضرت عمروؓ بن العاص اور ان کے ہم نوااصحابِ کرامؓ سے بیزاری اور برأت کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ ان اصولوں میں سے ایک ہے جو معتزلہ کو اہلِ سنت والجماعت سے جدا کرتے ہیں۔

یہ لوگ خلافتِ صدیقی کو درست سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ معتزلہ بھی یہی کہتے ہیں جو نظریاتی طور پر حضرت علیؓ کو افضل الصحابہ مانتے ہیں۔اس کے باوجود نظّام معتزلی نے متعدد بار حضرت ابوبکرؓ کی شان میں گستاخی کی ہے۔اس کی زبان درازی اور خردہ گیری سے اکابرینِ صحابہؓ جیسے عمر فاروق، عثمان ذو النورین، علی مرتضیٰ، عبداللہ بن مسعود اور ابوہریرہ-رضی اللہ عنھم- وغیرہ کی حیثیتِ عرفی اور مقامِ عظمت کو بار بار صدمہ پہنچتا ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ خلافتِ عثمانی سے پہلے تک صحابۂ کرامؓ سے ولایت رکھنے کا مطلب معتزلہ کے نزدیک کیا ہے۔امیر المومنین حضرت عثمانؓ بن عفان جیسے خلیفۂ راشد کی عدالت وثقاہت میں یہ لوگ شک وشبہ ظاہر کرتے ہیں۔ انھیں قتل کرنے والوں اور ان کا ساتھ چھوڑ دینے والوں کے بارے میں دوٹوک بات نہیں کہتے، بلکہ توقف اور ترکِ برأت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ امیر المومنین حضرت عثمانؓ کی ایمانی حالت اور راستیِ کردار کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔اس لیے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے گا۔ امیر المومنین ثالث کی عدالت وثقاہت کے بارے میں شک اور توقف کا یہ مسلک خیّاط معتزلی نے بانی اعتزال واصل بن عطاء کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ معتزلہ “واصل” کی اس بات سے برأت نہیں کرتے اور نہ ایسی بات کہنے پر چنداں معذرت خواہ ہیں۔[ہذا قول لا تبرأ المعتزلۃ منہ ولا تعتذر من القول بہ](الانتصار: ص۱۵۲-۱۵۳)

خلیفۂ راشد امیر المومنین حضرت علیؓ بن ابی طالب کے دورِ خلافت میں ہونے والے مشاجرات وتنازعات کے بارے میں معتزلہ کی ایک جماعت نے پورے جزم ویقین سے حضرت معاویہؓ اور ان کے اعوان وانصار کے فسق وفجورکا فیصلہ سنایا ہے اور دوسری جماعت نے دونوں فریقوں کے فسق ومعصیت کا فتویٰ صادر کیا ہے۔

حضرت معاویہؓ اور حضرت عمروؓ بن العاص کو یہ سبھی لوگ زمرۂ فساق وفجار میں رکھتے ہیں۔حد یہ ہے کہ خیاط معتزلی نے محدثین اور اہلِ سنت پر اس معاملے میں کوتاہی اور جانب داری کا الزام لگایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’محدثین نے احترامِ صحابہؓ میں مبالغے سے کام لیا اور ان لوگوں سے بھی ولایت ومودت کا تعلق باقی رکھا جن کی اسلام دشمنی پر اور جن سے اظہارِ بیزاری کے سلسلے میں حجت قائم ہوچکی ہے۔‘‘ مراد حضرت معاویہؓ اور حضرت عمروؓ بن العاص اور ان کے معاونین تھے۔ولقد أفرطوا فی ذلک حتی تولوا من قامت الحجۃ بعدوانہ والبرأۃ منہامیر المومنین حضرت معاویہؓ اور حضرت عمروؓ بن العاص سے دشمنی کا رویہ معتزلہ کے یہاں اس غلوآمیزحد تک پہنچا کہ ان میں سے بعض نے ان دونوں جلیل القدر صحابۂ کرامؓ پر کفر والحاد کی تہمت بھی لگائی ہے۔

امام عبد القادرؒ بغدادی نے اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں شیخ المعتزلہ واصل بن عطاء کا دعویٰ نقل کیا ہے کہ جمل اور صفین کی جنگوں میں ایک جماعت فاسقوں کی تھی۔ اس نے متعین طور سے یہ نہیں بتایا کہ وہ کونسی جماعت تھی۔ اس سے پوچھا بھی گیا تو یہی بات دہرائی کہ ان میں فاسق تھے، البتہ بالتعیین وہ انھیں نہیں جانتا ہے۔ گویا اس کے نزدیک فریقین میں سے کوئی بھی فاسق ہو سکتا ہے۔ حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عمارؓ بن یاسر،حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ، حضرت زبیرؓ بن عوام میں سے کوئی بھی فاسق ہو سکتا ہے۔

پھر دونوں فریقوں کی دینی حیثیت کے بارے میں وہ کہا کرتا تھا کہ سبزی کے ایک گچھے کے بارے میں بھی اگر علیؓ، طلحہؓ، یا جنگِ جمل میں شریک ہونے والا کوئی شخص گواہی دے گا تو میں اس کی گواہی قبول نہیں کروں گا، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ جنگ میں حصہ لینے والوں میں فاسق جماعت موجود ہے، مگر تعین کے ساتھ نہیں معلوم کہ وہ کون لوگ تھے۔ ٹھیک اسی طرح میں لعان کرنے والے زوجین میں کسی کی گواہی قبول نہیں کروں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے، مگر تعین کے ساتھ نہیں معلوم کہ وہ کون ہے۔البتہ اگر دونوں گروہوں میں سے دو افراد ایک دوسرے کے بارے میں گواہی دیں تو ان کی گواہی قبول کی جائے گی، کیونکہ وہ دینی لحاظ سے اپنی سطح کے لوگوں کے بارے میں گواہی دے رہے ہیں۔

اس پر امام بغدادیؒ تبصرہ فرماتے ہیں کہ معتزلیوں میں سے جو لوگ مذہباً شیعہ ہیں، انھیں واصل کی یہ بات ہضم نہیں ہوپاتی ہے جو اس نے حضرت علیؓ اور ان کے متبعین کی عدالت وثقاہت کے بارے میں کہہ دی ہے۔ویسے واصل کی یہ بات صد فیصد غلط ہے جیسا کہ ہم نے اپنے اشعار میں اشارہ کیا ہے۔واصل بن عطاء نے اگر وثوق کے ساتھ فریقین میں کسی ایک کے فسق کا فیصلہ سنایا ہے،اور یہ متعین نہیں کیا کہ وہ کون ہے تو اس کا عملی نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کہ دونوں فریق اس کے نزدیک فاسق وفاجر سمجھے جائیں گے۔ یہی بات ہے جس کی صراحت آگے چل کر ایک دوسرے معتزلی امام عمرو بن عبید نے کر دی ہے۔ (الفرق بین الفرق:ص۱۱۸۔ الملل والنحل، شہرستانیؒ:۱/۴۳)

صحابۂ کرام کے بارے میں معتزلہ کی بدگوئی کے بارے میں امام عبدالقادر بغدادیؒ فرماتے ہیں:’’نظّام معتزلی کی رسوائیوں میں اکیس نمبر پر یہ بات آتی ہے کہ وہ اپنی اُن گمراہیوں کے ساتھ جن کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں کیا گیا،اخیارِ صحابہؓ وتابعینؒ کی شان میں گستاخی کرتا ہے،محض اس وجہ سے کہ ان حضرات نے اپنے اجتہاد کے مطابق فتویٰ کیوں دیا۔”

“جاحظ نے اپنی کتاب ’’المعارف‘‘ میں نظّام معتزلی کے بارے میں بتایا ہے کہ اس نے اپنی کتاب ’’الفتیا‘‘ میں اسے محدثین کا ایک عیب گنایا ہے کہ وہ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیثیں قبول کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ سب سے بڑے جھوٹے تھے۔ اس نے حضرت عمرؓ کو بھی مطعون کیا ہے اور کہا ہے کہ حدیبیہ کے دن انھیں اپنے دین کی حقانیت کے بارے میں شک لاحق ہوگیا تھا۔ وفاتِ نبوی کے دن بھی ان کا یہی حال ہوا۔ لیلۃ العقبہ میں اللہ کے نبیﷺ کو چھوڑ کر بھاگنے والوں میں حضرت عمرؓ شامل تھے۔ انھوں نے دخترِ رسول حضرت فاطمہؓ کو ماراپیٹا تھا۔ اہلِ بیت کو میراثِ نبوی سے محروم کیا تھا۔نصر بن حجاج کو مدینے سے بصرہ جلاوطن کرنے کا ان کا فیصلہ بے تکا تھا۔انھوں نے ہی نمازِ تراویح کی شکل میں ایک بدعت ایجاد کی اور پھیلائی۔ انھوں نے حجِ تمتع سے منع کیا تھا۔ انھوں نے اپنے دورِ خلافت میں عجمی مردوں کو عربی عورتوں سے نکاح کرنے سے روکا تھا۔ یہ الزامات نظّام معتزلی نے امیر المومنین سیدنا حضرت عمرؓ فاروق پر لگائے ہیں۔‘‘

آگے اس کی کتاب میں لکھا ہے:’’صحابہؓ میں سے جن لوگوں نے اپنی رائے سے کوئی حکم سنایا تو اب یا تو انھوں نے جائز سمجھ کر ایسا کیااور وہ نہیں جانتے تھے کہ رائے سے فتویٰ دینا حرام ہے۔یا پھر ان کی نیت یہ تھی کہ کوئی مخالفِ حق بات کہیں تاکہ مسالکِ فقہیہ کے امام اور پیشوا بن جائیں، اس لیے انھوں نے اپنی رائے سے فتویٰ دیا۔‘‘[إن الذین حکموا بالرأی من الصحابۃ إما أن یکونوا قد ظنوا أن ذلک جائز لھم وجہلوا تحریم الحکم بالرأی فی الفتیا علیھم وإما أنھم أرادوا أن یذکروا بالخلاف وأن یکونوا رؤساء فی المذاہب فاختاروا لذلک القول بالرأی]

اس انداز میں نظّام معتزلی بدبخت نے صحابۂ کرامؓ کو دین پر خواہشاتِ نفس کو ترجیح دینے والا قراردیا ہے۔اس کذاب ملحد کے نزدیک صحابۂ کرامؓ کا سب سے بڑا گناہ بس یہ تھا کہ وہ اس کی دانست میں حقیقی توحید کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ تقدیر کی نفی نہیں کرتے تھے اورقرآن وسنت میں مذکور اسمائے حسنیٰ کو مان کر تعدّدِ قدماء جیسے شرک میں گرفتار تھے۔(الفرق بین الفرق:ص۱۴۰-۱۴۲۔ ضحی الإسلام:۳/۸۶)

صحابۂ کرامؓ کے تعلق سے یاوہ گوئی اور ہرزہ سرائی کی مزیدکچھ مثالیں یہاں دل پر پتھر رکھ کر پیش کی جارہی ہیں۔نقلِ کفر کفر نہ باشد۔ فرقۂ معتزلہ کا سرگروہ عمرو بن عبید کہا کرتا تھا:’’اگر میرے سامنے آکر علیؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور عثمانؓ جوتے کے ایک تسمے کے بارے میں بھی گواہی دیں تو میں ان کی گواہی کو جھوٹا سمجھوں گا اور قبول نہیں کروں گا۔‘‘ (الاعتصام:۱/۱۱۹)

ایک مرتبہ حضرت یحییٰؒ نے اُس سے کہا:’’دو سکتوں کے بارے میں حسنؒ بصری نے حضرت سمرہؓ کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے،اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟‘‘ تو اس نے کہا:’’تم سمرہؓ کا کیا کرو گے؟ اللہ اس کی شکل پر پھٹکار برسائے۔‘‘ امام شاطبیؒ نے یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:’’بلکہ اللہ اس عمرو بن عبید کو قبیح اوررذیل بنائے۔‘‘(الاعتصام:۱/۱۱۹)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی کے بارے میں اسی عمرو بن عبید کا ریمارک تھا کہ ’’وہ حشوی یعنی ایک ظاہر پرست انسان تھے۔‘‘(درء تعارض العقل والنقل:۷/۳۵۱)

امام بغدادیؒ نے آگے لکھا ہے: ’’نظّام معتزلی نے صحابۂ کرامؓ پر جہل اور نفاق کا الزام لگایا ہے جس پر اس کے مسلک کے مطابق یہ طے ہوجاتا ہے کہ -نعوذ باللہ- یہ اکابرینِ صحابہؓ خلود فی النار کے مستحق ہیں کیونکہ نظّام کے نزدیک احکامِ دین سے جاہل شخص بھی کافر ہے اور جان بوجھ کر اس کے خلاف بلادلیل وحجت بولنے والا منافق اور کافر یا فاسق وفاجر ہے اور یہ دونوں ہی اس کے نزدیک جہنمی ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔‘‘(الفرق بین الفرق:ص۱۴۳)

امام عبدالقادر بغدادیؒ کی ان باتوں کو اکثر وبیشتر امام محمدؒ بن عبدالکریم شہرستانی نے اپنی مشہور کتاب ’’المِلَل والنِّحَل‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے اور ان کا بھرپور رد ّفرمایا ہے۔ یہی کام امام ابن قتیبہؒ نے اپنی کتاب ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ میں انجام دیا ہے۔ اللہ ان اکابرینِ دین کو جزائے خیر دے۔ ان بزرگانِ دین نے نظّام معتزلی اور اس کے ہم نوائوں کے صحابۂ کرامؓ سے متعلق جملہ دعاویِ باطلہ اور اتہاماتِ کاذبہ کی پول کھول دی ہے اور ایسے دلائل وبراہین سے ان کا ردّ فرمایا ہے کہ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ معتزلہ کے افکار پھسپھسے، ان کی عقلیں خراب اور ان کی آراء ذلیل اورخسیس تھیں۔(دیکھیں تاویل مختلف الحدیث:ص۳۳-۴۴)

مندرج بالا تفصیل سے صاف ہوجاتا ہے کہ معتزلہ میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو صحابۂ کرامؓ کی عدالت ودیانت کے بارے میں مشکوک ہیں،یعنی ان کے نزدیک حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت سے صحابۂ کرامؓ کا کردار آئیڈیل نہیں رہا۔ان میں کچھ ہیں جو مشاجرات میں ایک فریق کے فسق کے قائل ہیں، اگرچہ اس ایک فریق کا تعین نہیں کرتے، جب کہ کچھ ہیں جو دونوں فریقوں کو فاسق مانتے ہیں۔معتزلہ نے اکابرین صحابۂ کرامؓ کی عیب چینی کی ہے، ان پر کذب گوئی، لاعلمی اور کفر ونفاق جیسی تہمتیں لگائی ہیں جیسا کہ نظّام معتزلی نے صاف صاف کہا ہے۔

یہ لوگ جو صحابۂ کرامؓ کی سیرت وکردار میں مین میخ نکالتے تھے، خود ان کی دینی وایمانی حالت حددرجہ تشویش ناک تھی۔ ان کا ایک سربراہ ثمامہ بن اشرس معتزلی تیزی سے نماز کے لیے آنے والے نمازیوں کو وحشی گدھے کہتا ہے۔ یہ لوگ عربوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور شعوبیت کے علم بردار تھے۔ ثمامہ بن اشرس اپنی مجلسوں میں اللہ کے نبی محمدﷺ کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ ’’اس عربی نژاد کو دیکھو، اس نے لوگوں کو کتنا بگاڑ دیاہے۔‘‘ظاہر سی بات ہے کہ جو لوگ عرب بیزاری اور عجم نوازی میں ذاتِ رسالت مآبﷺ کے بارے میں بھی اناپ شناپ بک سکتے ہیں، ان سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ صحابۂ کرامؓ کا ادب واحترام اور پاس ولحاظ کریں گے؟ پھر جو لوگ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں اتنے بدتمیز اور منھ پھٹ واقع ہوئے ہیں، ان سے احادیثِ نبویہ جنھیں نقل کرنے والے صحابہؓ ہی ہیں، کے بارے میں لحاظ ومروت کی امید رکھنا فضول ہے۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع:ص۶۔ تاویل مختلف الحدیث:ص۵۴۔الفرق بین الفرق:ص۱۴۳)

صحابۂ کرامؓ کی عیب چینی کے بعد معتزلہ نے تابعینِ عظام کو بھی نہیں بخشا۔ چنانچہ ائمۂ محدثین نے جن مشاہیرِ ملت کی امامت وعدالت پر اتفاق کر لیا ہے، ان کے بارے میں معتزلہ کی پھبتیاں اور دشنام طرازیاں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔معتزلہ نے ایک تکنیک یہ اختیار کی کہ ناروا انداز میں فقہ وحدیث کے ائمہ کے فتاویٰ اور آراء کو عوام کے سامنے ذکر کیا کرتے تھے تاکہ اس طرح انھیں سنت اور اتباعِ سنت سے برگشتہ ومتنفرکر دیں۔(الاعتصام:۱/۱۸۶)

یہ صحابہؓ اور اسلاف امت کے بارے میں معتزلہ کا رویہ تھا، اب جدید مفکرین کی شکل میں ان کے چاہنے والے دیکھ لیں کہ وہ کس جانب کھڑے ہیں۔ اللہ سب کو راہِ حق پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔

ذکی الرحمٰن غازی مدنی، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *