مصنف: حضرت مولانامفتی عبدالقدوس رومی
حضرت مولانامفتی عبدالقدوس رومی الہ آبادیؒ تعارف کے محتاج نہیں ہیں،وہ بیک وقت عربی،فارسی اوراُردو کے ادیب،شاعر،مصنف،مترجم،نثرنگار،ترجمان حنفیت،پاسبانِ حق وحقانیت،شمشیربرجماعتِ مودودیت،سربکف ردّبریلویت تھے،اُن کی تحریروں میں بحث وتحقیق،فکروتنقید، مناظرانہ آہنگ،دلائل وبراہین ،جوش وخروش،علمی وفنی پختگی وبرجستگی اورسنجیدگی ومتانت کے ساتھ لطیف پیرائے میں بذلہ سنجی پائی جاتی ہے۔اُن کی خودنوشت سوانح’’یادوں کے چراغ‘‘سے ’’طالب علمانہ زندگی‘‘ پیش خدمت ہے۔
میری بالکل ابتدائی تعلیم تووالد صاحب کے اندازِ تربیت اورمخدومہ دادی مرحومہ کے ذریعہ سب سے پہلے اپنے گھر پرہوئی ،سب سے پہلے اسماء حسنیٰ زبانی یادکرائے گئے تھے،اُس کے بعد محلہ کی مسجدمیں ہوئی ،اُس کے بعد اپنے محلہ کی مسجدمیں ہوئی جہاں سورۂ فجرشروع ہونے پر اُس وقت کی مروّج رسم کے مطابق گھنگنی تقسیم ہوئی تھی۔اسی زمانہ میں روزۂ کشائی کی رسم بھی کی گئی تھی۔اس زمانہ میں والد صاحب کا اصلاحی تعلق حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ سے قائم نہیں ہواتھا اور ہمارے دادیہال ونانیہال میں رسوم رواج کے مطابق جاری تھیں۔
اس وقت میری عمر سات سال رہی ہوگی، ظاہر ہے کہ سات سال کی عمرمیں اس وقت کے تمام استادوں کے نام توشاید مجھے معلوم بھی نہ ہوسکے ہوں،اسی زمانہ میں مولوی لئیق احمدمہنگاویؒ سے پرائمری اسکول میں بھی کچھ پڑھا تھاالبتہ حفظ شروع کرنے سے پہلے الہ آباد کے مشہور اُستادِ حفظ حافظ رجب علی ؒ سے پارۂ عم پڑھنا یاد ہے ۔ان کے بعد حفظ کے استاد حافظ عبد الوحید مرحوم ومغفور تھے اورممتحن حضرت قاری محب الدین امام جامع مسجد الہ آباد تھے۔
پونے تین سال کی مدت میں حفظ قرآن مجیدپورا ہواتھا، اُسی سال حفظ کی دستاربندی حضرتِ موصوف کے ہاتھوں جامع مسجد الہ آباد میں ہوئی تھی اوراسی وقت سے عمامہ باندھنے کی مشق وعادت بھی ہوگئی تھی۔حفظ کے بعد کچھ دنوں مریاڈیہہ میں حافظ محمدیٰسین صاحبؒ (محشی بہشتی ثمرومجاز حضرت مولانا سید محمد عیسیٰ الہ آبادی ؒ )کے پاس قرآن مجیدکا دور،درجۂ سوم میں اُردو کی تعلیم،حساب کی کچھ مشق کی ،تعلیم الدین،بہشتی ثمر سے عقائد ومسائل پڑھے۔مجاہد کبیر حضرت سید احمدشہید کے واقعات جہاد حافظ صاحب موصوف سے ہی پہلے پہل سنے جودل نشیں ہوگئے۔
۱۹۳۶ء میں والد صاحب کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا،سب سے پہلے فتح گڑھ جاناہوا جہان قرآن مجید کا دور ہوتا رہا،اسی زمانہ میں الہ آباد کے زمانہ قیام میں کچھ عرصہ ابتدائی فارسی مولانا محمد ابراہیم صاحب کیرانویؒ سے مدرسہ اشرفیہ میں شروع کی، اُس کے بعد فتح پورمیں حضرت مولانا سید ظہورالاسلام ؒ کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ میں ایک سال کے قریب پڑھا،وہاں مولانا اسحاق الہ آبادیؒ سے میزان ومنشعب اورپنج گنج اورمولانا عبدالوحید صدیقیؒ سے دروس الادب پڑھی۔گلستاں بوستاں بھی یہیں پڑھی،والدصاحب سے علم الصیغہ شروع کیا تھا کہ کانپور جاناہوگیا جہاں جامع العلوم میں داخلہ ہواوہاں ایک استاد سے (جوقمیص اور چوڑے پینچے کاپائجامہ پہنتے تھے اورکچھ مبتدع قسم کے بھی تھے مروجہ قرآن خوانی میں میرے شریک نہ ہونے پر ناگواری کااظہار بھی کرتے تھے)شرح مأۃ عامل اورفصول اکبری پڑھتا ہواجامع العلوم چھوڑکر مظاہرعلوم چلاگیا جہاں دوبارہ یہی کتابیں امام النحو حضرت علامہ صدیق احمد کشمیریؒ نے امتحان لیکر تجویز فرمائیں اوراستاذی حضرت مولانا اسعداللہ رامپوریؒ نے ابتدائی صرف ونحو کی بنیادی کمزوری بھی دورکرادی۔ احقرنے مندرجہ ذیل حضرات اساتذۂ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور جتنا علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے مقدرہوچکا تھا اس کی تحصیل کی۔
کن اساتذۂ کرام سے کیا پڑھا؟
(۱) حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رامپوریؒ سے نحومیر،شرح مأۃ عامل،ہدایت النحو،مفید الطالبین، شافیہ(صرف میں کافیہ کی بہن)شرح وقایہ ،رشیدیہ،ہدایہ اوّلین،مسلم شریف، مسلسل بالشعراء۔
(۲) حضرت مولانا ظہور الحسن کسولویؒ سے فصولِ اکبری،مراح الارواح،زنجانی۔
(۳) حضرت مولانا عبد المجید مہیسرویؒ سے نورالایضاح۔
(۴) حضرت مولانا عبد الشکور کامل پوریؒ سے کبریٰ،ایسا غوجی،قال اقول،مرقاۃ ،جلالین ۔
(۵) حضرت مولاناظریف احمد پُرقاضوی سے کافیہ،بحث فعل،تہذیب، شرح تہذیب ،قطبی میرقطبی۔
(۶) حضرت مولانا امیراحمد کاندھلویؒ سے کنز،تعلیم المتعلم،نفحۃالیمن ،مقامات حریری، سبعہ معلقہ،مختصر۔
(۷) حضرت مولانا اکبرعلی سہارنپوریؒ سے اصول الشاشی،تلخیص المفتاح۔
(۸) حضرت مولانا صدیق احمد کشمیریؒ سے شرح جامی،سلم العلوم،ہدیہ سعیدیہ،ملاحسن ،میبذی ۔
(۹) حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ سے مختصرالقدوری،نورالانوار۔
(۱۰) حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ سے دیوانِ متنبی،دیوانِ حماسہ،عروض المفتاح۔
(۱۱) حضرت مولانامحمدزکریا قدوسی گنگوہیؒ سے ہدایہ ثالث ،بیضاوی شریف۔
(۱۲) حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجراڑویؒ سے مقدمہ مشکوٰۃ شریف۔
(۱۳) حضرت مولانا منظور احمدخان سہارنپوریؒ سے سراجی،نسائی ،ابن ماجہ ،مؤطین شریفین۔
(۱۴) حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے ابوداؤد کامل بخاری جلد ثانی، مسلسلات المحدثین ۔
(۱۵) حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوریؒ سے ترمذی وطحاوی کے علاوہ خصوصی استفادہ۔
(۱۶) استاذالکل حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ سے بخاری جلد اول، مسلسلات الفقہاء اورخصوصی استفادہ۔
مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپورکی طالب علمی:
مدرسہ مظاہرعلوم سے الہ آبادی طلبہ کاکافی پرانا تعلق ہے۔ احقر ۱۳۵۷ھ میں جب مظاہرعلوم آیا اور دارالطلبہ قدیم کے حجرہ نمبر۱۷؍ میں قیام کانظم ہواتوحجرہ کے دروازہ پر خوش خط تحریرمیں جن الہ آبادی طلبہ کے نام ایک کاغذ پرچسپاں تھے ان ناموں میں سب سے پہلا نام قاری عبداللہ صاحب الہ آبادی کا تھا جوالہ آباد کے ایک مشہورقصبہ نارہ کے رہنے والے تھے،اُردو کے ایک مشہور شاعرجو داغؔ دہلوی کے خاص شاگرد تھے ،نوحؔ ناروی وہ اسی قصبہ کے رہنے والے تھے ہم لوگ حسن منزل الہ آباد کے جس مکان میں رہتے تھے اس کے بہت سے پڑوسی بھی نارہ کے رہنے والے تھے۔قاری عبد اللہؒ کچھ سیاسی مزاج اورکھدرپوش بھی تھے،اس لئے اہل مظاہرانہیں برداشت نہ کرسکے تودارالعلوم دیوبند چلے گئے ،وہاں سے فار غ ہونے کے بعد الہ آباد گھنٹہ گھر کے بازار میں شبراتی کی مسجدکے نام سے جو مسجد ہے وہاں امامت کرتے رہے اور مدرسہ مصباح العلوم اور اخیر میں بیت المعارف میں پڑھاتے بھی رہے،احقر سے بہت محبت فرماتے تھے،اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔
حافظ شفیع اللہ صاحب کا قیام بھی حجرہ نمبر۱۷ میں تھا،حجرہ میں مقیم طلبہ میں وہی اس وقت سب سے بڑے اور تعلیم میں بھی بڑھے تھے جس سال احقر داخل ہوا ہے وہ ان کا دورۂ حدیث کا سال تھا،وہ بخاری شریف اور ترمذی شریف کی تقرریں لکھنے کیلئے مجلدموٹی موٹی کاپیاں رکھتے تھے جس کے حوض میں ایک کتاب کی تقریر اور حاشیہ پردوسری کتاب کی تقریر لکھتے تھے۔تقریروں کا یہ بڑا اچھا مجموعہ ان کے پاس تیار ہوگیا تھا مگربعد میں جب وہ محلہ چک الہ آباد کی مسجدمیں امامت کررہے تھے وہ کاپیاں اس مسجد کے حجرہ میں تھیں کہ شہرمیں بہت زبردست ہندومسلم فساد ہوگیا،یہ فساد جمعۃ الوداع کو ہوا تھا،فسادیوں نے اس مسجد کوبھی آگ لگادی تھی،جس کی وجہ سے ان کی وہ کاپیاں بھی آگ کی نذر ہوگئیں۔مولانا شفیع اللہ صاحب نے ذریعۂ معاش کے چکر میں طبیہ کالج الہ آباد میں طب پڑھ کر نمایاں کامیابی حاصل کرلی اور اسی کالج میں استاذ بھی مقررہوگئے ،شاید انہوں نے علم دین کی خدمت کے ذریعہ لوگوں کے روحانی علاج کی بہ نسبت جسمانی علاج کوزیادہ سمجھایا معاشی ودنیاوی فائدہ ان کو اسی میں زیادہ نظرآیا ۔واللّٰہ اعلم بحقیقیۃ الحال۔
حضرت الاستاذ مولانا اسعداللہ صاحب ؒ کوان کے طب پڑھنے کی خبرسے رنج ہوا تھا کہ ایک اچھا عالم دین ضائع ہوگیا مگرجف القلم بما ہوکائن کی صورت ہے۔
قاری حبیب احمد ؒ مدرسہ سبحانیہ الہ آباد سے پڑھ کرمظاہرعلوم سہارنپور آئے تھے،امام جامع مسجد الہ آباد قاری محب الدین احمدالہ آبادیؒ کے خاص شاگرد تھے،پڑھنے کے زمانہ میں محلہ بنجاران کی اندرونِ مسجد میں امام رہے ،ان کے والدصاحب محلہ کٹرہ شہرالہ آباد میں مسجد میناشاہ کے امام تھے۔دورانِ تعلیم ہی ان کے والد صاحب کانتقال ہوگیا،مسجد والوں نے تعلیم ختم ہونے پر انہی کوامام بنالیا،احقر نے بھی ایک زمانہ میں اس مسجد میں بعض اوقات نماز پڑھائی ہے۔اللہ تعالی نے اپنے فضل سے میرے والدصاحب رحمہ للہ کوکئی بار حج وزیارت سے مشرف فرمایاتھا۔جب وہ حج پرجاتے تو اپنی جگہ پر مجھے کام کرنے کی صورت وسہولت نکال دیتے تھے ۔آخرمیں ایک بارجب احقرکومدرسہ عالیہ امدادیہ مرادآباد میں جگہ مل گئی تو قاری صاحب موصوف نے بھی والد صاحب کی قائم مقامی گورنمنٹ کالج الہ آباد میں کی تھی۔
محلہ بنجاران کی امامت کے زمانہ میں ہم لوگ اکثر جمعرات کی شام کوقاری صاحب کی مسجد میں پہنچ جاتے اور وہیں کچھ پکنک کی صورت ہوجاتی تھی۔محلہ بنجاران میں ایک مرتبہ رات کوبعد نماز عشاء حضرت مولانا اسعداللہ ؒ کا وعظ بھی ہواتھا جوشاید دس بجے تک ہواتھا اوراستاذِ محترم نے یہ کہہ کروعظ ختم فرمادیاتھا کہ اگر دیرتک جلسۂ وعظ چلنے کی وجہ سے نمازفجر قضا ہوجائے توایسا جلسہ قابل ترک ہے،جماعت سے نماز پڑھنااہم واقدم ہے،وعظ سننا تومستحب ہی ہے اس کی وجہ سے نماز یاجماعت متاثر نہ ہونی چاہئے۔مظاہرعلوم میں میرے خاص رفقاء درس یہ تھے:مفتی سید محمدیحییٰ سہارنپوریؒ ،مفتی محمد وجیہ ٹانڈویؒ ،مفتی عاشق الٰہی بلندشہری،مولانا سید صدیق احمد باندویؒ ،مولانا محمدابراہیم آنند
حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ
مظاہر علوم سہارنپورمیں برادر محترم مولانا عبدالرحمن جامی مرحوم ۱۳۵۵ھ میں پہنچ چکے تھے اوروہاں شرح جامی سے اپنی تعلیم شروع کرچکے تھے ۔اُس وقت والد صاحب کا قیام فتح پور میں تھا اور احقر نے حفظ قرآن مجید کے بعد مدرسہ اسلامیہ میں کچھ فارسی(گلستاں وبوستاں) پڑھ کرعربی کی بھی ابتدائی کتابیں میزان ومنشعب، پنجٍ گنج ،نحومیر،علم الصیغہ اور دروس الادب وغیرہ پڑھ لی تھیں۔
مظاہرعلوم میں میری تعلیم شرح مأۃ عامل،فصول اکبری اورکبریٰ و نورالایضاح وغیرہ سے شروع ہوئی تھی۔ مظاہرعلوم کے تقریباً سات آٹھ سالہ قیام کے دوران تمام اساتذہ میں مجھ کو غیراختیاری طورپرسب سے زیادہ عقیدت اورکشش جن حضرات سے رہی اُن میں سب سے نمایاں اوراعلیٰ شخصیت حضرت مولانا کامل پوریؒ ہی کی ہے۔حضرت مولانا کایہ وصف خاص میرے دل پرآج بھی نقش کالحجر ہے کہ وہ انتہائی متبحر عالم اور جامع معقول ومنقول ہونے کے باوجود حد درجہ متواضع بھی تھے،کسی وقت بھی اُن کی کسی بات یا کسی ادا سے کوئی شخص یہ اندازہ نہیں لگاسکتا تھا کہ اُن کے دل کے کسی گوشہ میں احساسِ برتری موجود ہے حالانکہ اُن کے متبحر اوراستاذ الکل ہونے کی حیثیت مسلم تھی، احقر کے استاذ محترم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحبؒ اپنے شاگردوں کی موجودگی میں اپنی درسگاہ سے اُٹھ کر کتاب کے کسی مشکل مقام کوحل کرنے کیلئے بے تکلف اوربے جھجھک حضرت کامل پوریؒ کی خدمت میں چلے جاتے تھے۔
اُستاذ محترم شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلویؒ اپنی علمی تصنیفات میں بے تکلف ان سے مراجعت فرمالیا کرتے تھے،اس کے باوجود وہ ان کی تصنیفات کی بعض تحقیقات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے جس کا ایک بار تجربہ راقم السطور کو بھی ان کے درسِ ترمذی میں ہوا کہ احقرنے اپنی کسی بات کی تائید میں اوجز المسالک کی ایک عبارت پیش کردی توحضرت موصوف نے بہت ناگواری کیساتھ اُسے قبول کرنے سے انکار فرمادیاتھا اورفرمایا کہ مولوی صاحب! یہ بات نحومیر ہی میں دکھلادو۔
حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہٗ اپنے وقت کے ممتاز ترین، جامع معقول و منقول استاذ تھے۔ استاذی حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ تعالی فرماتے تھے کہ حضرت مولانا کامل پوریؒ اپنے وقت میں ترمذی شریف کے عدیم النظیر استاذتھے،اس وقت ان سے بہتر استاذِ ترمذی کوئی اور میسرنہ تھا، مفتی صاحب کی یہ بات اس لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اُس وقت دارالعلوم دیوبند میں بھی متعدد اُستادانِ حدیث موجود تھے۔
حضرت صدرالمدرسین علیہ الرحمہ کی کم سخنی اوربحرساں خموشی سے بھی دل و دماغ متاثرہیں، اوقات کے ایسے پابنداگر آپ چاہتے تو موصوف کی شب خیزی کے وقت اوقاتِ ساعت ملالیا کرتے،ٹھیک ایک وقت پرروزانہ بعد قیلولہ قبل ظہر اپنے حجرہ عزاسے باہروضو کرتے دیکھے جاسکتے تھے۔
یہی حال شب کوتہجد خیزی کابھی تھا۔تقریردرس ترمذی میں جس قدر متانت اور جزالت ہوتی تھی اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
عموماً یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ آدمی درس حدیث کی مسندپر متمکن ہواور دورانِ تقریر دوسرے شراح حدیث وغیرہ پرکلام کرتے ہوئے اپنے بیان میں خودپسند وتعلّی کاشائبہ نہ آنے دے لیکن حضرت مولانا کے یہاں یہ بات نظرنہیں آتی تھی۔
حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ کے متعلق اساتذہ سے سناہے کہ شامی(ردالمحتار) کاتیس بارمطالعہ فرمایا تھا۔ حضرت شاہ انور کشمیری علیہ الرحمہ کی زبانی ان کے تلامذہ نے نقل فرمایا کہ صاحب ہدایہ کے بہت معتقد تھے۔ہمارے حضرت مولانا کامل پوری علیہ الرحمہ کاحال یہ تھا کہ ترمذی شریف کی تقریرمیں دوشخصیتوں کانام جس کثرت سے آتاتھا شاید ہی کسی دوسرے کاآتاہو۔ایک توشارح بخاری صاحبِ فتح الباری حافظ ابن حجر، دوسرے شارح ہدایہ صاحبِ فتح القدیر علامہ ابن ہمام،بلکہ احقرنے توحضرت مولانا کے سامنے جب بھی کوئی کتاب بہر مطالعہ دیکھی تو وہ فتح القدیر ہی ہوتی تھی۔
ایسا لگتاتھا کہ حضرت مولانا کو سب سے زیادہ یہی کتاب پسند ہو،فرصت کے اوقات میں یوں ہی لیٹے رہنے یا بیٹھے رہنے کی عادت نہ تھی ،اکثرمشغول مطالعہ رہتے ۔
اہل علم میں حسدمعاصرین کا رذیلہ بری طرح سے اہل علم میں دکھائی دیتاہے۔ممکن ہے کہ راقم کی کوتاہ نظری کانتیجہ ہو،احقر اپنی کوتاہ نظری کا انکار تونہیں کرسکتا لیکن اپنے اندازہ وتجربہ کے غلط ہونے کی بات کوبھی آسانی سے قبول کرلیناآسان نہیں سمجھتا ،اِس کا صحیح اورقرارِواقعہ فیصلہ تواُسی روز ہوگا جس کے لئے یوم تبلی السرائر جیسا بلیغ فقرہ قرآن مجیدمیں استعمال ہواہے۔تقسیم ہند سے قبل حضرتؒ کامل پور(پاکستان) گئے ہوئے تھے،شاید دوبارہ تشریف بھی لاناچاہتے تھے مگر بعض معاصرین کوان کی واپسی پسند نہ تھی اس لئے انہوں نے مدرسہ سے اُن کاسامان اُن کے وطن واپس بھیج دیا،اس سے حضرت موصوف توکسی نقصان اورگھاٹے کاشکار نہ ہوسکے لیکن مادرِ علمی مظاہرعلوم ضرور حضرت کی فیض رسانی سے محروم ہوگیا۔
احقر اس افسوسناک صورت حال سے متعلق اشاروں اشاروں ہی میں صرف اسی قدرلکھنا مناسب سمجھتا ہے کہ اس تکلیف دِہ صورت حال میں دونوں طرف احقرکے بعض اساتذۂ کرام ہی تھے۔ایسے مواقع کیلئے میرے ایک قلندرصفت استاذ حضرت علامہ صدیق احمدصاحب کشمیریؒ بہت چست اوربرمحل مقولہ سنایا کرتے تھے کہ ع اِدھر قبلہ،اُدھر قبر،بیگم صاحبہ موتیں کدھر؟
اِس وقت احقرراقم سطور کیلئے بھی یہی کشمکش ہے،اگرایک طرف حضرت مولانا کامل پوریؒ (جنہیں اُن کے شیخ ومرشد حضرت حکیم الامتؒ ’’کامل پورے‘‘ فرماتے) ہیں جواحقر کے بلاشبہ عظیم المرتبت استاد ہیں تودوسری طرف جن بزرگ نے اُن کا سامان اُن کے وطن بھیجواکر اُن کی دوبارہ واپسی پر روک لگانی چاہی تھی، وہ بھی احقر کے نہایت قابل احترام بزرگ ہی تھے ۔
قریب یاروہے روزِ محشر ،چھپے گاکشتوں کاخون کیونکر
جوچپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
Top site ,.. i will save for later !
Hm,.. amazing post ,.. just keep the good work on!