Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Al Ijazat Al Hindiya Wa Tarajim Ulamaiha Shaikh Umar Bin Muhammad Siraj Habibullah

Al Ijazat Al Hindiya Wa Tarajim Ulamaiha Shaikh Umar Bin Muhammad Siraj Habibullah

یہ کتاب ہندوستان (قبل تقسیم) کی روایت حدیث کی اجازتوں (اسانيد) کا ایک موسوعہ اور انسائیکلوپیڈیا ہے ، جس کی جمع و ترتیب کے اہم ترین اور انتہائی نازک کام کا بیڑا اٹھایا “شیخ محقق أبو سراج عمر بن محمّد سراج حبیب الله حفظه الله ورعاه” نے ، جنہیں تراجم علماء اور معرفت اسانید کی تحقیق و تدقیق پر اچھی دسترس حاصل ہے ۔

در اصل بلاد ہندیہ کو علم حدیث کے ساتھ -بطور خاص پچھلی چار صدیوں سے- ایک خاص شغف و اعتناء رہا ہے ، اور یہاں علوم حدیث کی خدمت و حفاظت اس دور میں بھی ہوتی رہی ہے جب دیگر ممالک میں ان کی جانب رجحان مفقود تھا ، چنانچہ صاحب “مفتاح کنوز السعادة” نے مقدمہ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ: “و لولا عناية إخواننا علماء الهند بعلوم الحديث فى هذا العصر ؛ لقُضيَ عليه بالزوال من أمصار الشرق” چونکہ یہ خطہ خدمت حدیث میں ایک طویل زمانہ سے سابق و فائق رہا ہے اس لحاظ سے اب کتب سبعہ وغیرہ کی معتبر اعلی اسانید کا مدار بن چکا ہے ، لہذا مؤلف فاضل نے بلاد ہند کی اسانید و اجازات کو اپنی محنت کا محور بنایا ، لیکن چونکہ یہ ایک بہت وسیع علاقہ ہے ، اس کے گوشے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ، اور اس کے آثار صرف ملک تک محدود نہیں ہیں ؛ بلکہ بیرون ممالک میں بھی پہنچے ہوئے ہیں ، مدارس اور شیوخ بکثرت ہیں ، کتب خانے مختلف خطوں میں بکھرے پڑے ہیں ، ذرائع و دستاویزات -بالخصوص بزبان عربی- کم یاب ہیں ، مزید برآں اس کا دائرۂ عمل ساڑھے چار صدیوں کے وسیع عرصہ کو محیط ہے ، یہ اور ان کے علاوہ چند دیگر امور کے پیش نظر یہ ایک بہت ہی مشکل اور پتہ ماری کا کام تھا جسے انجام دینے کے لیے ایک جماعت اور کمیٹی درکار تھی ( اور ابتداءً مؤلف کی تمنا بھی یہی تھی کہ ہر علاقے سے اسانید حدیث سے دلچسپی رکھنے والے اہل تحقیق کی ایک جماعت تیار ہو جائے اور اسانید کے جمع و ضبط اور تحقیق و تفتیش کا بیڑا اٹھا لیں تو اسانید سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں اور پیچیدگیاں دور ہو سکتی ہیں ) لیکن پھر خود ہی کمربستہ ہو گیے اور تنہا اس مہم کو سر کرنے کا عزم لے کر جانب ہند رخت سفر باندھا ، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا گشت کیا ، مدارس کے دورے کیے ، متعلقہ شخصیات اور اکابر سے ملاقاتیں کیں ، اس طرح تقریباً چار سال سے زائد مسلسل سفر اور پیہم سعی کے بعد اسانید و اجازات کا یہ حسین گلدستہ سجا کر ہند و عرب بلکہ ساری دنیا کے اہل علم بطور خاص خدام حدیث کی خدمت میں پیش کیا ، یہ گلدستۂ اسانید سات (7) جلدوں کی شکل میں امسال (١٤٤٣ھ) “دار المحدث رياض” سے زیور طبع سے آراستہ ہوا جو تقریباً پانچ ہزار (5000) صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں موجود تحقیق شدہ اسانید کی تعداد پانچ سو (500) سے متجاوز ہے ، اور تقریباً سات سو (700) مشائخ روایت کے تراجم بھی اس میں ذکر کئے گیے ہیں ۔

کتاب کے نہج و طرز سے متعلق چند امور :

کتاب اور منہج سے متعلق تفصیلات مؤلف نے مقدمہ ذکر کر دی ہیں ، چند امور مختصراً پیش خدمت ہیں :

• ہند سے مراد “ہند کبری” (ہندوستان قدیم قبل از تقسیم) ہے جو اس وقت پانچ ممالک پر مشتمل ہے : بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، بھوٹان اور نیپال ، البتہ سندھ کو مستثنی رکھا ہے ۔
• صرف اجازات حدیث کا اہتمام کیا ہے ، اجازات فقہ اور اجازات تصوف وغیرہ کو شامل نہیں کیا ، اور اگر کیا ہے تو ضمناً نہ کہ استقلالاً ۔
• ہر وہ سند شامل کی ہے جس کا احد الطرفین (مجیز یا مجاز) مولد ، وطن یا نسبت کسی بھی لحاظ سے ہندی ہو ۔
• ١٣٩٩ھ سے پیچھے چلتے ہوئے ٩٩٩ھ تک تواریخ اجازت کی ترتیب پر اسانید مرتب کی ہیں، گویا پچھلی چار صدیوں کی اسانید کو جمع کر لیا ہے ۔
• بہت سی سندوں پر اپنی اہم تعلیقات اور بعض غلط فہمیوں پر تنبیہات وغیرہ امور کا اضافہ کیا ہے ۔ نیز مختلف مکاتب فکر کے مدارس اور مختلف نظریات کے حاملین افراد کے اسانید سے متعلق ہونے کی وجہ سے مقدمہ ہی میں اجمالاً ہر اس امر سے اپنی براءت کا اظہار کر دیا ہے جو طریق نبوی کے مخالف ہو ۔
• ہر اجازت کے بعد مجیز و مجاز دونوں کا تعارف و تذکرہ بھی تحریر کر دیا ہے ، مثلاً : مولانا عاشق الہی بلندشہری کی شیخ الحدیث حضرت زکریا کاندھلوی سے اجازت کو ذکر کیا پھر شیخ و تلمیذ دونوں کے تراجم تحریر کیے , پھر استقلالی تراجم کے تحت حاشیے میں دیگر بہت سے تراجم و تذکرے بھی مذکور ہیں ، اور تذکرہ نگاری کے اس عمل میں بڑی تحقیق و تفتیش سے کام لیا ہے اور بعض ایسی باتیں بھی شامل کی ہیں جو شاید کہیں اور نہ مل سکیں ، نیز اخیر میں صاحب تذکرہ کے ساتھ -معرفت کی خاطر- اپنا سندی اتصال بھی ذکر کر دیتے ہیں ۔
• صرف شیوخ روایت کے تذکروں پر اکتفاء کیا ہے ، اور مقصدِ کتاب میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے عموماً شیوخ درس کے تذکروں کا اہتمام نہیں کیا ، نیز کتاب کے اخیر میں “فهرس الأعلام المترجم لهم” کے عنوان سے ایک فہرست بھی ترتیب ہجائی پر قائم کی ہے ، تاکہ مراجعت میں سہولت ہو ۔
• کتاب میں بہت سے قیمتی علمی و تاریخی دستاویزات کا ذخیرہ جمع کر دیا ہے ، جن میں سے اکثر اس سے قبل شائع نہیں ہوئے ، اور ان میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اسانید و اجازات کی تصویریں ہیں ، مؤلف -شكر الله سعيه- نے ایک – ایک ورقہ اور وثیقہ کی صرف تصویر کشی کی خاطر ہند و خارج ہند کے مختلف غیر معروف افراد اور شخصی لائبریریوں کا سفر کیا اور انہیں کتاب کی زینت بنایا، وہ اس پر حقیقتاً تقدیر و تحسین کے مستحق ہیں کہ اس سے کتاب کی اعتباریت میں تو اضافہ ہوا ہی , ساتھ میں یہ قیمتی وثائق بھی محفوظ ہو گیے !
• کتاب کے آغاز میں ایک گراں قدر تمہید ہے ، جس میں تاریخی لحاظ سے درس نظامی سے قبل ہندوستان کے مناہج تعلیم اور کتب درس و تدریس کا بالاختصار ذکر ہے ، پھر بڑے بڑے جامعات و مدارس (دیوبند ، سہارنپور ، ڈابھیل ، رحمانیہ دہلی ، ندوۃ العلماء اور جامعہ سلفیہ بنارس ) کے نصابہائے درس اور روایت کی سند و اجازت دینے کے مختلف طرق کی طرف اشارہ ہے ، اسی طرح اور بہت سی لطیف تنبیہات و دقیق نکات تمہید میں مذکور ہیں جو قابل مطالعہ ہیں ۔
• مؤلف -أكرمه الله- کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے پے در پے اسفار کے دوران جو “استدعاءات ہندیہ” حاصل کئے انہیں بھی اجازات ہندیہ کے ساتھ ملحق کر دیا ہے اور درمیان میں ان مجیزین معاصرین کے مختصر تذکرے بھی رقم کرتے چلے ہیں ، اس عمل کے سبب فن روایت سے دلچسپی رکھنے والوں کو مشائخ روایت کا گویا ایک خزانہ میسر آ گیا ۔
• کتاب کا ایک پہلو یہ بھی ہے جو اہل عرب کے نزدیک تو کوئی اجنبی امر نہیں بلکہ شاید بنظر استحسان دیکھا جائے لیکن بہت ممکن ہے کہ علمائے بر صغیر -زادهم الله شرفاً و كرامةً- کو غیر مانوس سا محسوس ہو ، وہ یہ کہ بہت سے تذکروں کے ساتھ صاحب تذکرہ کی تصویریں بھی پیش کر دی گئی ہیں ۔
• کتاب ترتیب دینے میں جن مآخذ و مصادر پر اعتماد کیا گیا ہے اخیر میں ان کو بھی ذکر کیا ہے ، چنانچہ مشہور و معروف عربی مصادر کی تعداد ٣٠٢ اور فارسی و اردو مصادر کی تعداد ١٣٥ ہے ، نیز رائج طرز عمل کے مطابق آیات و احادیث ، آثار و اشعار اور کتب و اعلام وغیرہ متنوع فہرستوں پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے ۔
• مؤلف فاضل شیخ عمر کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اس کام میں لگے ہوئے ہیں ; مزید تنقیحات و اضافات کے ساتھ آئندہ طباعت منظر عام پر آئے گی ، اور چند اسانید بعد میں موصول ہوئی ہیں ، انہیں بھی شامل کر لیا جائے گا ، ان شاءاللہ تعالیٰ

بہر حال یہ ایک نہایت عمدہ ، نفیس اور قیمتی موسوعہ اور علمی دستاویزات کا مجموعہ ہے ، اللہ تعالیٰ اسے حسن قبولیت سے نوازیں اور جامع و مؤلف کو تمام اہلِ علم و خدام حدیث شریف خصوصاً علمائے ہند کی طرف سے بہترین صلہ عطا فرمائیں ۔ فالله يحفظه ذُخرًا ويسدّده ويقوّيه ويبارك فيه، ويُخلف عليه أضعاف ما أنفق وبَذَل من عُمُرٍ ومالٍ جزيل؛ تحصيلًا وسفرًا ، و يشكر سعيه و يجزيه أحسن الجزاء و أطيبه .

• شیخ زیاد بن عمر التُکله – جو اسمائے رجال اور اسانید متاخرہ کے سلسلہ میں گہری بصیرت رکھتے ہیں – مصنِّف و مصنَّف دونوں سے متعلق بڑے وقیع کلمات تحریر فرماتے ہیں :
وكنتُ أترقب صدور هذه الموسوعة بفارغ الصَّبر لِما أعلُمه شخصيًّا من تَعَب مؤلِّفها في الجمع والتحرير، وما بَذَله من أسفار وتنقيبٍ مضنٍ و(مُكْلِف) لسَنَوات، ولِـما رأيتُه له من نفائس التحقيقات والتدقيقات في التراجم والأسانيد المتأخرة، مما لا يُحْسِن مثله اليوم -فيما أعلم- إلا أفراد، ويُرجى له مستقبلٌ زاهر في خدمة السنّة النبوية عبر فنّ الرواية، وتراجم العلماء .
فما كان ليتصدى لمشروعٍ كهذا إلا صاحب عزيمةٍ “عُمَرِيَّة” وهِمَّةٍ “طَبَريَّة”، فالحمد لله الذي هداه ووفّقه لهذه المهمّة الجليلة والشاقّة التي طالما احتاج لها الباحثون .
• فيحق لي أن أجدِّد القولَ بأن هذا الكتاب والمجهود لا يقدَّران بثَمَن، فالله يجزُل لصاحبه الأجر والمثوبة، ويتقبّله منه، فقد بَرّ قطاعًا كبيرًا ومهمًّا من علماء المسلمين في التاريخ والتراجم والرواية، ولا ينبغي أن تخلو منه مكتبةُ المعتني بهذه الفنون، ولعلّ من يقرأ كلامي يظنُّني بالغتُ في وصفه، ولكنّ المعاصرة والمعرفة تمنعاني من الإفاضة، ومن يمارس البحث في هذه المجالات سيُدرك أنّني قصرتُ معه . وأقول صادقًا: لو تقدّم خروجُ هذا العَمَل لأفادني جملةً في أعمالي الإسنادية في باب السَّماعات والتَّحريرات.
والله من وراء القصد، وآخر دعوانا أن الحمدُ لله ربِّ العالمين .

حمزہ بن مفتی سلیمان شاہوی
متعلم دورۂ حدیث شریف
دار العلوم فلاح دارین ترکیسر

اس کتاب کو خریدنے کے لئے لنک پر کلک کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *