Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Maulana Riyasat Ali Bijnori Ki Aakhri Sham – حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی آخری شام تحفظ ختم نبوت کے نام

Maulana Shah Alam Gorakhpuri

Maulana Riyasat Ali Bijnori Ki Aakhri Sham – حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی آخری شام تحفظ ختم نبوت کے نام

مصنف: مولانا شاہ عالم گورکھپوری

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃاﷲ علیہ کا شمار اُن کی حیات میں ہی اُن عبقری شخصیات میں ہوتا رہا ہے جن کی پیداوار اب بہت کم ہوگئی ہے ۔حضرت مولانا کی حیات کے مختلف گوشوں پر اب لکھا بھی جانے لگا ہے اور ابھی مدتوں لکھا جائے گا لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اخیر میں تھک ہار کر اہل خرد یہی کہیں گے کہ :

لکھ کے سب کچھ؛ لکھیں گے اہل دل
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

راقم سطور کو بھی حضرت ؒ سے شرف تلمذ حاصل ہے ،حدیث شریف کی مشہور و متداول کتاب ’’ابن ماجہ شریف ‘‘ راقم نے حضرت سے پڑھی ہے ۔ سبق میں احادیث مبارکہ کے معانی و مفہوم کو نہایت سلیس ، دل میں اترجانے والے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بیان کرنے کا حضرت کا ایک منفر ہی انداز تھا ۔اس خوبی نے استاذ محترم کی جو قدرو منزلت دل میں پیدا کی وہ کبھی بھی بھلائی جانے والی نہیں ہوسکتی ہے۔

راقم سطور کی شعبۂ تحفظ ختم نبوت میں تقرری کے بعد بہت سے ایسے مراحل آئے کہ حضرت کے مفید مشوروں نے مستقبل کو نہ صرف یہ کہ صحیح سمت دی بلکہ زندگی کو جلا بخشنے میں آئندہ بھی کام آتے رہیں گے ۔

بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ تحفظ ختم نبوت کے موضوع اور خدمات سے حضرت کو والہانہ و مخلصانہ دلچسپی تھی ، موضوع کے تعلق سے بعد نمازعصر مجلس میں عموماً گفتگو حاضرین اور سامعین کو ملحوظ رکھ کر ہی ہوتی تھی لیکن حضرت جب تنہا ہوتے تو ہمارے موضوع سے جس شغف و محبت کا اظہار فرماتے میں سمجھتاہوں کہ ان کی نیکیوں میں تنہا صرف یہی ایک نیکی اُن کی نجات اخروی کا ضامن ہے ۔

ایک دفعہ خانقاہ کی مسجد سے ظہرکی نماز پڑھ کر نکل رہے ساتھ بندہ نے سلام و مصافحہ کیا ، حضرت کا عمومی طور پر یہ معمول نہیں تھا کہ مصافحہ میں دیر تک ہاتھ پکڑے رہیں ، اُس دن خلاف معمول ہاتھ پکڑے چلتے رہے اور گفتگو بھی فرماتے رہے ، راستے میں ایک جگہ کھڑے ہوکر فرمانے لگے ’’ مولوی شاہ عالم ، تم جس کا م میں لگے ہوئے ہوئے ہو یہ بڑا عظیم اور بابرکت کام ہے مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے جب میں تم کو دیکھتاہوں ، یہ کام تو عین مقصد ہے ‘‘ حضرت کا مشفقانہ انداز دیکھ کر راقم سطور نے کچھ کہنے کی جرأت کی تو فرمانے لگے ’’ تم لگتا ہے کچھ کہنا چاہتے ہو ۔ میں نے عرض کیا حضرت آپ کی حوصلہ افزائی سے مجھے خوشی ہوئی ہے بندہ بھی اس کو دینی خدمت تصور کرتا ہے اس لیے لگا رہتا ہے ۔

فرمانے لگے ۔ میاں ! تم نے دیکھو اس خدمت کی برکت سے میری بھی اصلاح کردی ، واقعی اس کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ یہ کام نہیں ’’خدمت ،دینی خدمت ہے اس تعبیر میں اس کی عظمت ہے ، کام تو اور بھی بہت ہیں ، اس عظیم خدمت کو دینی خدمت ہی کہنا چاہیے ۔ میں نے تکلفاً اپنی تعبیر پر معذرت چاہی تو فرمانے لگے ؛’’ نہیں تم نے جو کہا وہی صحیح ہے معذرت کی ضرورت نہیں ، لفظ’’ کام‘‘ سے اس کی عظمت میں تخفیف کا احساس ہوتا ہے اس کی عظمت کے لحاظ سے ’’دینی خدمت ‘‘ کہنا ہی مناسب ہے ۔ ہمارے تمام بڑے بلاوجہ تھوڑی اس خدمت سے قلبی شغف رکھتے تھے ۔

ہمارے قارئین لفظ ’’کام اور خدمت ‘‘ کے مابین نسبت اور معنی کو سمجھ سکتے ہیں کہ دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔لیکن حضرت کا جو انداز تھا وہ میں محسوس کررہا تھا کہ میری زبان سے بے ساختہ یہ جملہ کیا نکلا؛ تحفظ ختم نبوت کے ایک مخلص عاشق زار کے لیے وجد و جذب کا ذریعہ بن گیا کہ وہ اس خدمت کو لفظ ’’کام ‘‘ سے جو ’’خدمت‘‘ کے مقابلہ میں استعمال کے اعتبار سے قدرے فروتر لفظ ہے تعبیر کرنا بھی نامناسب سمجھتے تھے ۔ چنانچہ اس کے بعد جب بھی اس موضوع پر گفتگو ہوتی تو لفظ ’’ خدمت ‘‘ سے ہی تعبیر فرماتے تھے۔گفتگو کے مابین راقم سطور نے چاہا کہ حضرت اپنے دولت کدہ تشریف لے چلیں تو بیٹھ کر بات ہوتی رہے مگر آگے بھی نہیں بڑھتے اور درخواست کے باوجود راقم سطور کے غریب خانہ پر جو چار چھ قدم کے ہی فاصلے پر واقع تھا بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ، بس کھڑے کھڑے تقریباً ۱۵ منٹ تک نہایت والہانہ انداز میں گفتگو فرماتے رہے

کتاب ’’اسلامی عقائد و معلومات ‘‘ کی ترتیب کے درمیان بندہ کو جب بھی کسی تعبیر میں کچھ شک و شبہ ہوتاتھا تو معمو ل یہ تھا مجلس میں چلا جاتا تھا اور اپنا مقصد ذکر کرتا، حضرت ذرا بھی اس کو اپنے لیے بار نہ محسوس کرتے اور نہ صرف یہ کہ متبادل مناسب تعبیر کی طرف رہنمائی کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو حاضرین مجلس کے درمیان اس کوموضوع سخن بنادیتے جس سے حاضرین بھی خوب لطف اندوزہوتے اور کبھی کبھی تو مطلوبہ تعبیر کو بڑی کتابوں میں دیکھنے اور لغت وغیرہ سے اس کی تصویب کرنے میں پوری پوری مجلس ہی اسی کے نذر ہوجاتی تھی ۔

ایک بڑی خوبی کی بات یہ تھی اور اس میں بندہ اپنے لیے کوئی تخصیص نہیں سمجھتا بلکہ عام شرکائے مجلس کے ساتھ یہی معمول دیکھتا تھا کہ جب بھی کوئی مسئلہ لے کر حاضر ہوتا تو اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود کبھی جھنجھلانے یا اکتانے کا نام و نشان تک نہ ہوتا بلکہ ایسا تأثر ملتا کہ شاید ہمارے کام کے لیے حضرت خالی بیٹھے ہوئے ہیں اور پوری بشاشت اور تفصیل سے ہر بات کو سن رہے ہیں اور گفتگو میں حصہ لے رہے ہیں ، البتہ گفتگو کا ماحصل اور حضرت والا کا جواب اتنا مختصر اور جامع ہوتا کہ سامنے والے کی لمبی سے لمبی گفتگو سمٹ کرخود بخود مختصرہوجاتی تھی ۔مسئلہ حل کرنے بعد بھی حوصلہ افزائی اس قدر فرماتے تھے اگلے دن بھی کوئی سوال پوچھنے میں ذرا بھی کسی کو جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی ۔

بارہا فرماتے تھے ، بیٹے! تم عقائد کے موضوع پر لکھنے پڑھنے میں لگے رہتے ہو مجھے خوشی ہوتی ہے ، لگے رہو اﷲ برکت دیں گے ۔ کبھی فرماتے ؛ بھائی یہ بڑھیا ہے ، تم تسلسل کے ساتھ بس اپنے ہی موضوع و مقصدپر ڈتے رہتے ہو ، یہ اچھی بات ہے ، اس سے فائدہ ہوگا ۔ حضرت کے یہ جملے ایسے شفقت آمیز لیکن مزاحیہ انداز لیے ہوئے ہوتے کہ اہل مجلس لطف اندوز بھی ہوتے اور بندہ کے لیے حوصلہ افزائی بھی ہوجاتی تھی ۔

یہی وہ مشفقانہ انداز تھا جس نے راقم سطور کو اس قدر جری بنادیا تھا کہ ایک دفعہ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی زیر نگرانی ماہ شعبان میں منعقد ہونے والے تربیتی کیمپ میں بیان اور شرکت کے لیے درخواست کرڈالی ۔ پہلے تو حضرت نے اس درخواست پر مجلس کو قہقہ زار بنادیا ، پھر فرمانے لگے ، بیٹے ! میں کیا بیان کروں گا یہ تو میرا موضوع بھی نہیں ، تم اس کے شہ سوار ہو لگے رہو ، میں تو بس یہیں سے دعا کروں گا ۔ میں نے لہجہ میں کچھ شفقت محسوس کرتے ہوئے مزید اصرار کیا تو بالآخر شرکت کے لیے درخواست قبول فرمالی اور فرمانے لگے چلو کل اس پر گفتگو کریں گے ۔ اگلے دن تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی اگلے دن پھر مجلس میں پہنچا تو فرمانے لگے، اچھا موضوع طے کرو ۔ راقم سطور نے بتایا کہ حضرت ؛ آج کل یہ عام وبا سی محسوس ہورہی ہے کہ اہل علم اورعلماء بھی علم عقائد اور کلام کے ساتھ حد درجہ بے اعتنائی برتنے لگے ہیں ، فقہ ، تفسیر ، حدیث ، عربی زبان و ادب وغیرہ میں طلباء بھی خوب دلچسپی لیتے ہیں لیکن عقائداور علم کلام میں دلچسپی نہیں لیتے ۔ یہ سن کر حضرت نہایت رنجیدہ ہوئے اور فکر مند ہوئے ۔ فرمانے لگے ’’ یہ بات تو بڑی کمی کی ہے ، دین میں اصل تو عقیدہ ہی ہے ، اچھا تم بتاؤ اس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔ بندہ ناچیز نے یہ خیال کرکے کہ چلو اچھا سوال حضرت نے پوچھا ہے اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر اپنی سوچ و فکر میں کجی ، کمی ہوئی تو آج اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی ، مغرب بعد کا وقت تھا حاضرین مجلس بھی جاچکے تھے ، بیدھڑک بندہ نے اپنی فکر حضرت کے سامنے رکھی تو نہ صرف یہ کہ اس کی تائید فرمائی بلکہ بعض کوتاہیوں پر افسوس کرنے لگے اور ازالہ کے تدبیریں بھی حضرت بتانے لگے ۔ فرمانے لگے تم شکستہ دل مت ہو نا، بس اپنا کام، کام سے لگے رہنے کا ہے ۔اس کے بعد کیمپ میں شرکت کو بخوشی منظور فرمالیا ۔ پھر تو تاریخ گواہ ہے کہ حضرت کا جوگرہ کشا بیان ہوا وہ حاضرین و سامعین کے لیے بلا شبہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھا ۔ اس بیان کو راقم سطور نے موبائل ٹیپ کے ذریعہ محفوظ کرلیا ، حضرت مولانا محمد سالم جامعی صاحب مدظلہ ایڈیٹر الجمعیۃ کے اصرار پر وہ بیان بذریعہ قلم قارئین الجمعیۃ دہلی کی خدمت میں پیش ہے ۔

اخیر میں ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ سال رواں شعبان ۱۴۳۸ھ کے تربیتی کیمپ میں بھی حضرت نے بیان کرنا قبول فرمالیا تھا ، انتقال سے پہلے والے دن یعنی جمعہ کے دن بعدنمازجمعہ بھی تربیتی کیمپ اور ختم نبوت کے موضوع پر گفتگو رہی ،مسجد کے نکلتے وقت مصافحہ میں پکڑ لیا ، دریں اثنا مفتی عبد اﷲحمدان سلمہ چھڑی ہاتھ میں دے رہے تھے ،مسجد میں ہی ٹھہر کرفرمانے لگے ؛ میری طبیعت ٹھیک نہیں مجھے بڑی شرمندگی ہوتی جب تمھاری درخواست کو ٹالتاہوں لیکن مجھے تمھاری اس خدمت سے خوشی بہت ہوتی ہے،میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے لگتا ہے چل چلاؤ کا وقت ہے۔ عصر بعد گھر آجاؤ وقت طے کریں گے ۔

عصرکے بعد مجلس میں مغرب تک مکمل گفتگو ختم نبوت کے موضوع پر ہی ہوئی ، مجلس میں ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت عقائد اور علم کلام ایک ہے یا دو فن ہیں ۔ حضرت نہایت جوشیلے انداز میں وضاحت فرمانے لگے کہ یہ دو الگ الگ موضوع ہیں ۔ پھر بعد نماز مغرب متصلاً مخاطب ہوئے کہ سال گذشتہ کا پورا بیان مجھے سناؤ تاکہ مضمون میں تکرار نہ ہو ۔

راقم سطور نے اس کا مکمل خلاصہ سنا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ میرے پاس ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ ہے ۔اس دوران سینہ میں کچھ درد کی شکایت بھی فرماتے رہے ، اسی دوران حضرت کے پوتے مفتی عبد اﷲ حمدان ابن مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے کچھ دوا دینے کو کہا تو فرمانے لگے میرے گھٹنے میں دوا لگاؤ ، وہ دوا لگاتے رہے ، اور نہایت بشاشت سے حضرت مجھ سے گفتگو فرماتے رہے ، یعنی راقم سطور کو ذرا بھی اس کا احساس نہ تھا کہ یہ آخری گفتگو اور آخری شام ہے ۔جب بندہ واپس ہونے لگا تو پھر حضرت نے فرمایا کہ اس سال موضوع کیا رہے گا ۔ بندہ نے عرض کیا کہ حضرت! تخصیص کوئی نہیں اگر پچھلے سال والا مضمون پھرآجائے تو ہم خدام کو مزید ذہن نشین ہوجائے گا اور علماء و ذمہ داران مدارس بھی عقائد و علم کلام کی تعلیم کو اپنے مدارس میں رائج کرنے پرتوجہ دینے لگیں گے ۔ حضرت فرمانے لگے؛ ٹھیک ہے انشاء اﷲ طبیعت ٹھیک رہی تو میں صبح ۹ بجے تک آجاؤں گا اور ایک گھنٹہ بیان کرکے واپس آجاؤں گا ، تم اپنا پروگرام چلاتے رہنا ۔پھر فرمانے لگے میرے پاس کتابیں ہیں میں دیکھ لوں گا راقم نے عرض کیا کہ ’’ الانتباہا ت المفیدہ ‘‘ لاکر دے دوں ؟ فرمانے لگے ہے میرے پاس ہے میں دیکھ لوں گا ، شرح مواقف اور تفتازانی کی مقاصد کا بھی ذکر آیا، فرمانے لگے ٹھیک ہے دیکھ لوں گا ۔بات یہ ہے کہ تمھارے کیمپ کے شرکاء میں سے بعض علماء کل آئے تھے اور تمھارے بیان کی بڑی زور دار تعریف کررہے تھے ۔

حضرت یہ فرماتے ہوئے مسکرا بھی رہے تھے اور بندہ بھی اس مسکراہٹ سے لطف اندوز ہورہا تھا ،چہرہ حسب معمول کھلاِ ہوا تھا ، ذرا بھی کسی آنے والے حادثہ کی خبر نہیں دیتا تھا، گفتگو کے انداز میں بھی کوئی تغیر نہیں آواز میں بھی کسی ضعف یا نقاہت کا کوئی اثر نہیں ؛دریں اثناء بندہ نے مسرت آمیز انداز میں رخصتی کا سلام و مصافحہ کیا اور صبح ہونے سے پہلے ہی خبر آگئی کہ اس بیان کا انتظار ۔۔۔ اب انتظار ہی رہے گا ۔تحفظ ختم نبوت کی خدمت کے مخلص و ہمدرد سے اب قیامت میں ہی ملاقات ہوگی ۔گویامحب تحفظ ختم نبوت کا یہ آخری دن اور آخری شام مکمل ختم نبوت کے نام وقف تھا جو خدا کی ذات کریمی سے صد فیصد امید بلکہ یقین کامل ہے کہ سفر آخرت کے لیے مقبول توشہ اور مرقد کے لیے نزول رحمت خداوندی کا سبب ہوگا۔

اب جب کسی صبح حضرت بیدار ہوں گے توچونکہ زندگی بھر وہ وقت اور وعدہ دونوں کے پابند تھے ؛ سرھانے رکھی کتابیں یاد آئیں گی ، تحفظ ختم نبوت کا تربیتی کیمپ ضرور یاد آئے گا ،لیکن وہاں تو دنیا بدل چکی ہوگی اب یہ سب تو نہ ہوگا ؛ہاں! انشاء اﷲ ایفاء وعدہ کے طور پر زبان پر ختم نبوت کا ترانہ اور صاحب ختم نبوت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس صفت خاص کا وردضرور ہوگا ۔ وہاں اب ’’ مقاصد‘‘ اورشرح مواقف یا انتباہات جیسی کتابیں تو نہ ہوں گی نہ ان کے اوراق ہوں گے ،اب تو بذات خودمقبولان بارگاہ خداوندی،صاحبِ مقاصد اور صاحبِ شرح مواقف ؛استقبال کے لیے کھڑے ہوں گے ایک طرف مجدد ملت صاحب انتباہات مفیدہ بھی لپک رہے ہوں گے کہ اسلامی عقائد پر ٹوٹ پڑنے والے خطرناک فتنوں کے دور میں عقائد کو تحفظ فراہم کرنے کی فکر میں خود کو گھلانے والے میرے عظیم سپوت ! آؤ تم نے اپنی حیات مستعار کے آخری ،دن ، آخری شام ،آخری رات بلکہ آخری سانس تحفظ ختم نبوت کی فکر میں لگائے ہیں ،اب تو صاحب ختم نبوت صلی اﷲعلیہ وسلم کا جھنڈا ہے ،ہم ہیں تم ہو اور حضرت صدیق اکبرؓ سے لے کر اب تک کے صلحاء کی معیت ہے ۔ اب کتاب نہیں ان صلحاء کے دیدار سے اپنی تشنگی بجھاؤ، فَا دْخُلی فِی عِبادِی وَادْخُلِی جَنَّتِی ۔

مفتی عبد اﷲحمدان سلمہ نے بتایا کہ راقم کی واپسی کے بعد شب میں دس بجے مفتی حمدان سے ’’ احکام اسلام عقل کی نظر میں ، الانتباہات المفیدہ ‘‘ طلب فرمایا اور اس ارادے سے کہ بیان سے قبل صبح میں کسی وقت مطالعہ کریں گے اپنے سرھانے رکھ کے لیٹ گئے ۔پھر شب میں کسی وقت اٹھے اور نماز تہجد ادا فرمائی اس کے بعد چند ہی لمحوں میں سفر آخرت پر روانہ
ہوگئے ۔

انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔

حضرت کے انتقال کی خبر ملتے ہی کیمپ کے تمام شرکاء سوگوار ہوگئے ، حضرت کی تشریف آوری کا وقت ۹ بجے تھا اس وقت حضرت تو نہیں آسکے ؛ حضرت کے نام ایصال ثواب میں پوری مجلس مصروف ہوگئی اور اس مجلس کو تعزیتی مجلس میں بدل دیاگیا ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے حضرت کو اپنا قرب نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین۔
اپنے قارئین کرام سے گذارش کروں گا کہ وہ لوگ جو حضرت کی مجلس میں بیٹھے اور اُن کے لب و لہجہ کے اتار چڑھاؤسے مانوس ہیں ان کو تو پڑھنے اورسمجھنے میں توکوئی دشواری نہ ہوگی لیکن جولوگ حضرت کے لب و لہجہ سے آشنا نہیں ان کوچاہیے کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں انشاء اﷲ ہر بات سمجھ میں آئے گی۔ اس لیے کہ بندہ کی کوشش یہ رہی ہے کہ تمام مضامین حضرت کے ہی جملوں میں من و عن آئیں ۔ البتہ کہیں کہیں ربط پیدا کرنے کی غرض سے ناگزیر مقامات پر چند الفاظ بڑھانے کی مجبوری ہوئی ہے لیکن وہ الفاظ بھی بیان سے ہی مفہوم و ماخوذ ہیں ۔اسی طرح سے علامات ترقیم اور پیراگراف کا بڑھانا تحریر کے لیے ناگزیر تھا جس سے سلاست کے ساتھ پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔اس کلپ کو نقل کرنے اور کاغذ پر لانے میں جناب ماسٹرمحمد احمد صاحب ، نیوز انچارج مرکز التراث الاسلامی دیوبند اور عزیز محترم جناب مولانا محمد چاند منصوری صاحب متعلم شعبۂ تحفظ ختم نبوت دار العلوم کا میں بیحد ممنون ہوں کہ ان احباب نے بڑی عرق ریزی سے اس کو نقل کیا ،پھر کمپوز کرکے میرے حوالے کیا جس سے ترتیب میں کافی سہولت ہوئی، مولانا اسعد اﷲ صاحب بستوی سے بھی تصویب و تصحیح میں
تعاون ملا۔فجزاہم اﷲ خیراً۔

بیان حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحب ؒ
تحفظ ختم نبوت تربیتی کیمپ کی گیارہویں نشست ۔ ۲۴ شعبان ۱۴۳۷ھ مطابق یکم جون ۲۰۱۶ء بروز بدھ صبح ۸ بجے ۔
الحمدﷲ والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ اما بعد! فاعوذباﷲ من الشیطان الرجیم۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔
اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ أعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔( نحل ۱۲۵)او کما قال تبارک و تعالیٰ۔

عزیزان گرامی قدر اور تربیتی کیمپ کے احباب انتظام ! بلا کسی تکلف کے یہ عرض ہے کہ آپ کا پروگرام نہایت مرتب انداز میں، مختلف موضوعات اور ان کی تفسیر سے متعلق چل رہا تھا اور آپ اُس سے استفادہ بھی کر رہے تھے کہ مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری نے اِس پروگرام کونظر بد سے بچانے کے لیئے ایک پروگرام اِس ناچیز کا بھی رکھ دیا۔ جب ماں اپنے بچے کو نظر بد سے بچانا چاہتی ہے تو اُس کے ماتھے پر ایک کالا ٹیکہ لگا دیتی ہے تاکہ نظر لگانے والے کی نظر وہاں رک جائے اور نظر نہ لگے؛ تو بالکل اسی طرح یہ میرا درمیان میں آنا ہے ۔

مجھے حکم یہ تھا کہ مجھے کچھ دیر بیان کرنا ہے اور میری درخواست یہ تھی کہ مجھے کوئی عنوان دے دیجیے؛ مگر کوئی عنوان انھوں نے نہیں دیا اور میں نے بھی سوچنے کے لئے بہت ذہن پر زور دیا مگر کوئی خاص بات سمجھ میں نہیں آئی؛ سوائے اس ایک آیت کے جو میں نے پڑھی ہے۔ کیوں کہ آپ فرق باطلہ میں سے ایک بہت بڑے فرقہ یعنی قادیانیت کے رد کے سلسلے میں تربیت کے ایک پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں اور یہ محض؛ ایک ہی فتنہ نہیں ہے بلکہ اب تو فتنے ہی فتنے ہیں جوروز اول سے، اب ذرابڑھ گئے ہیں۔

ایک تو ہے اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں انسان کے مقصد تخلیق کا بیان مقصدتشریعی؛ یعنی یہی شریعت چاہتی ہے تووہ تو ہے عبادت اور ایک ہے انسان کا مقصد ،مقصد تخلیق تکوینی ،تکوینی مقصد کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ وَلَوْشَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَ ۃً(ھود ۱۱۸ )بہت آسان تھا اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک امت بنا دیتا، سب کے عقائد ایک، سب کے اعمال ایک، سب کا طرزِفکر ایک ہوتا مگر اللہ نے یہ نہیں چاہا؛ بلکہ ’’وَلاَ یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ‘‘ انسان برابر ایک دوسرے سے فکرونظر کا اختلاف کرتے رہیں گے۔ اور آگے بڑھ کر ہے ’’ وَلِذَالِکَ خَلَقَہُمْ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد تخلیق ہی یہ ہے کہ وہ اختلاف کریں، مگر یہ مقصد تخلیق تشریعی نہیں تکوینی ہے۔

مولاناشبیر احمد عثمانی صاحبؒ لکھ رہے ہیں حاشیہ میں آپ لوگ پڑھتے ہی ہوں گے کہ یہ مقصد تخلیقِ تکوینی ہے؛ منشاء یہ ہے کہ انسان تکوینی طور پر اختلافِ فکر ونظر کے باوجود اپنے کسب اور اختیار سے وہی راستہ اختیار کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس راستہ سے راضی ہے اسی کے لئے اس نے پیغمبروں کو بھیجا ہے۔ اورآخری پیغمبر علیہ السلام کو جو میں نے آیت پڑھی ہے اس میںیہ حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ صراط مستقیم کی دعوت دیں تین انداز میں۔ بالحکمۃ ،حکمت سے مراد ہے استدلال کے ساتھ؛ کتاب اور سنت سے استدلال کریں ،عقل سے استدلال کریں، نقل سے استدلال کریں جو موضوع ہے۔

مثلاً توحید کا موضوع ہے تو توحید پر آپ استدلال کیجیئے ؛ نقل سے بھی کیجیئے اور عقل سے بھی کیجیئے ۔اور نقل میں وہ بھی ہے جو مثلاً توحید کے لئے ’’لَوْ کاَنَ فِیْہِمَآاٰلِہَۃٌ اِلاَّاﷲُ لَفَسَدَ تَا‘‘(انبیاء ۲۲)کہ اگر ایک سے زائد معبود ہوں تو دنیا کو کچھ دن بھی برقرار رہنے کا امکان بھی نہیں ہے ۔اس لیے کہ وہ دونوں’’وَ لَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلیٰ بَعْضٍ‘‘ (مومنون ۹۱) ایک دوسرے سے اختلاف کریں گے ؛ تو یہ نقل بھی ہے اور عقل بھی ہے۔

یا مثلاً رسالت کا موضوع ہے تو رسالت یہ بھی ایک امر ضروری ہے ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کا وجود تو ہے بالکل بدیہی ؛کہ ایک ذات ہے جس نے اس پوری کائنات کو بنایا ۔بہت آسان ہے اللہ تعالیٰ کو جاننا؛ ہوائیں چلا رہا ہے، انسان کی زندگی کا سارا ساز وسامان اس نے اس دنیا میں پیدا کر رکھا ہے ، روشنی پیدا کرتا ہے، تاریکی پیدا کرتا ہے، سورج کو حکم دیتا ہے نکلنے کے لئے ؛ اللہ کو پہچاننا تو بہت آسان ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ بندوں سے کیا چاہتا ہے؟ تو اس بات کا جاننا بندوں کے لئے ممکن نہیں ہے، اس کو بتانے کے لیے رسالت کی ضرورت ہے ۔تو حکمت کے معنیٰ ہیں کہ آپ صراط مستقیم کی دعوت دیں استدلال کے ساتھ؛ صراط مستقیم کی دعوت دیں دلائل قطعیہ کے ساتھ؛ ایسے دلائل کے ساتھ کہ جس کو سننے کے بعد انسان اُن کے قبول کرنے پر اپنے آپ کو دل کی گہرائی کے ساتھ آمادہ کر لے؛ یہ ہے باالحکمۃ ۔

پھر کہہ رہے ہیں ’’بالموعظۃ الحسنۃ ‘‘یہ استدلال تو علمی ہوا ؛ لیکن کبھی کبھی ضرورت پڑتی ہے ؛بہت اخلاص کے ساتھ دل سوزی کے ساتھ ایسی بات بیان کرنے کی کہ جس سے انسان آپ کے بیان کردہ مضمون کو غور سے سنے ۔یعنی آپ پچھلی امتوں کے اوپر گذرنے والے احوال کا ذکر کریں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کیا تھا اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے یہ انعامات رہے ؛ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول نہیں کیا تھا اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب نازل ہوا ۔پچھلی امتوں کے احوال کا ذکر کرنا ،پچھلے انبیاء کے احوال کا ذکر کرنا اور بتلانا ،احکام شرعیہ پر عمل کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو جو وعدے کیے ہیں اُن کا ذکر کرنا ،جو وعیدیں بیان کی ہیں اُن کا ذکر کرنا،فضائل کا ذکر کرنا یہ سب موعظۃ حسنۃ میں آتا ہے؛ تو آپ بتائیں گے کہ آپ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ لیں اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لیں تو اللہ تعالیٰ ساری رات عبادت میں شمار کرتا ہے تورسول کے اس بتانے سے بہر حال انسان کو عشاء اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا داعیہ پیدا ہوگا، یہ سب موعظۃحسنۃ ہیں۔

پھر اس کے بعد ارشاد خداوندی ہے’’ جادلہم با لتی ہی احسن‘‘ کہ اس موعظۃحسنۃ کے بعد اگریہ نوبت آجائے جدال کی ؛ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مخاطب ضد پر آمادہ ہوتا ہے اور وہ استدلال کے باوجود نہیں مانتا ،دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ اور پچھلی امتوں کے ساتھ گذرنے والے جو واقعات ہیں ان کے باوجود توجہ نہیں کرتا؛ تو پھر آپ کو اس سے جدال کرنا ہے، اس سے گفتگو کرنی ہے۔ اور گفتگو کرنی ہے ایسی جس کا نام جدال ہے مگر قرآن کہہ رہا ہے ’’جادلہم بالتی ہی احسن‘‘ آپ کو جدال کرنا ہے اُس انداز سے جو بہتر ہو۔ اور بہتر کے کیا معنیٰ ہیں؟ بہتر کے معنیٰ یہ ہیں کہ جدال ہونا چاہیے اس انداز میں جس میں کوئی کسی کے ساتھ تشدد اختیار نہ کرے ؛کوئی کسی کے ساتھ جارحیت کا عمل اختیار نہ کرے ؛کوئی کسی کے ساتھ عزت کے اور عزت نفس کے خلاف بات نہ کرے؛ بات چیت میں زبان خراب نہ ہونے پائے جسے سبّ و شتم کہتے ہیں اس کی نوبت نہیں آنی چاہیے۔ ورنہ وہ ’’بالتی ہی احسن ‘‘نہیں رہے گا ۔بلکہ بالتی ہی احسن کے معنیٰ یہ ہیں کہ کلام میں جتنی خوبیاں ہوسکتی ہیں، مثبت انداز میں گفتگو ہو؛ بات جو پیش کی جا رہی ہے اس کو سلیقہ کے ساتھ پیش کیا جائے، اور اس میں کوئی اس طرح کی بات کہ جس سے فریق ثانی کو اپنی عزت نفس کے خلاف محسوس ہوتا ہو؛ایسا کوئی لفظ یا ایسا کوئی جملہ نہیں آنا چاہیے۔

آپ لوگ( شرکائے تربیتی کیمپ ) چونکہ ان تمام فرقہائے باطلہ کے رد کے سلسلے میں اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں ؛ اور آپ کا کام صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا ہے جو پیغمبر علیہ السلام کرتے رہے ہیں ۔چنانچہ پیغمبر علیہ السلام کے کسی بھی طرز عمل میں کہیں کوئی جارحیت یا کوئی شدت پسندی یا کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ملتی ۔

حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے پیغمبر علیہ السلام کو سلام کیا اور سلام کیا لفظ ’’السام علیکم ‘‘ کے ساتھ ۔سام کے معنیٰ موت کے آتے ہیں، توحضرت عائشہؓ نے اس کو یہی لفظ دہرا دیا کہ’’ السام علیک و علیٰ فلان‘‘ کہ تجھ پر اور تیرے فلاں پر یعنی باپ داداکا نام لیا کہ اس پر سام ہو۔تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ عائشہ یہ کیا؟؟ تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ آپؑ نے سنا نہیں کہ اس نے کیا کہا؟ تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت عائشہؓ صدیقہ کو جو جواب دیا وہ سننے کے قابل ہے۔ آپ نے فرمایا عائشہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں کہہ رہا ہوں۔ یعنی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تمھیں اُس کا لفظ نہیں دہرانا تھا؛اور پھر آپؑ نے جو نصیحت کی وہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آپؑ نے کہا کہ’’ علیکِ بالرفق یا عائشہ ‘‘عائشہ نرمی اختیار کرو۔ علیک بالرفق یا عائشۃ فانہ ماکان من شیء الا زَانَہ ۔نرمی جہاں شامل ہو جائے گی حسن بڑھ جائے گا ۔ولا نُزِع من شئ اِلا شانَہ ،اگر نرمی کہیں سے ختم کر دی جائے تو اس میں عیب پیدا ہو جائے گا ( مشکواۃ باب الرفق وا لحیاء)۔یہ ہے پیغمبر علیہ السلام کا ’’جادلہم بالتی ہی احسن‘‘ ۔آپ ؑ جواب دے سکتے تھے ؛ جواب دینا یہ آنے والے کے سخت کلامی کی بنیاد پر جائز تھا، درست تھا، مگر پیغمبر علیہ السلام کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ آپ نے حضرت عائشہ کو سمجھایا کہ حضرت عائشہ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے نہیں سنا جو یہ کہہ رہا ہے تو حضرت عائشہؓ سے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عائشہ تم وہ نہیں سن رہی ہو جو میں کہہ رہا ہوں ؛میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تمھیں اس طرح نہیں بولنا چاہیے ۔

پیغمبر علیہ السلام کا طریقہ اپنی بات کو پیش کرنے کے سلسلے میں ایک حکمت کا ہے کہ وہ دلائل اور حجت اور عقل اور نقل اِس سے جو کچھ بھی اس مضمون کو مرتب کرنے کے لئے ہو سکتا ہے اس کو پیش کریں یا پھر دوسرا طریقہ موعظت کا ہے کہ اخلاص و دل سوزی کے ساتھ اس مضمون کو قبول کرنے کے لئے بیان کریں، یعنی اس کے فضائل بیان کریں ،جب وہ قبول نہ کرے تونقصانات بیان کریں اور خدانخواستہ نوبت جدال کی آجائے توطریقہ ہونا چاہیے ’’بالتی ہی احسن‘‘
لیکن ایک بات اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ جس سلسلے میں غور و فکر کرنے کے لئے بیٹھے ہیں اور جو چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں یعنی صراط مستقیم کی کیا پہچان ہے اور صراط مستقیم سے جو ہٹتے ہیں ان کے ہٹنے میں کس طرح ہم اس کو پہچانے گے؛ تو اس سلسلے میں سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند حضرت مولانا فخرالدین صاحب ؒ کی بات مجھے یاد ہے کہ ایک دن عصر بعد بیٹھے تھے حضرت، ایک صاحب مولانا سید ارشد حسن کانپوری تھے ، اب انتقال کر گئے ہیں وہ مظفر نگر میں رہتے تھے، پھر دیوبند میں رہنے لگے تو انھوں نے اسی موضوع کو کہ صراط مستقیم کی پہچان کیا ہے اور صراط مستقیم سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں آسانی کے ساتھ کوئی طریقہ اگر ہو تو بتائیں؟ اس موقع سے حضرت نے مختصر سی بات کہی تھی ، اس کو آپ لوگ سن لیں اور سمجھ لیں تو پہچان بھی ہو جائے گی اور اس کا سلیقہ بھی محسوس ہو جائے گا۔

حضرت نے کہا کہ دیکھیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیزیں منقول ہیں وہ کل دو عدد ہیں۔ ایک ہے قرآن کریم اور ایک ہے حدیث پاک ۔قرآن کریم تو اللہ کا کلام ہے جو پیغمبر علیہ السلام پر نازل ہوا اور پیغمبر علیہ السلام نے اپنی طرف سے کسی طرح کی تبدیلی کے بغیر اسے مسلمانوں تک پہنچا دیا۔ کفار نے فرمائش کی کہ آپ اسے تھوڑی سی ہماری رعایت میں ترمیم فرما دیں،یعنی قرآن کریم میں ایک مضمون ہے کہ آپؑ اس میں تھوڑا بہت تبدیلی کا عمل اگر کر لیں فلاں فلاں چیزمیں،جو بھی ان کفارکا دعویٰ رہا ہو،مگر پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ: قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ ٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآءِی نَفْسِیْ اِنْ اَ تَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ( یونس ۱۵)کہ میں اپنی طرف سے کیسے کر سکتا ہوں اور یہ کہ میں نے تمھارے درمیان اپنی عمر گذاری ہے اور اس عمر کو تم جانتے ہو کہ میں نے کس طرح اللہ تعالیٰ کی امانت کو تم تک دیانت داری کے ساتھ پہنچایاہے’’ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘ تو تم مجھ سے کیسے امید رکھتے ہو کہ میں کوئی تبدیلی وغیرہ کر سکتا ہوں ۔تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو بھی پیغمبر علیہ السلام کو پہنچایا ؛ الفاظ اور معانی کے ساتھ بعینہ پیغمبر علیہ السلام نے امت تک پہنچادیا ،ان الفاظ کا نام تو قرآن کریم کی عبارت ہے۔ اور معانی جو پیغمبر علیہ السلام نے بیان کیے ہیں وہ بیشتر احادیث میں ہیں۔

قرآن کریم اور احادیث بھی پیغمبر علیہ السلام سے پوری طرح منقول چلی آ رہی ہیں اور امت نے نہایت محنت کے ساتھ اِن دونوں نصوص سے جو عطر کشید کیا ہے وہ تین عدد ہیں۔ ایک ہے علم فقہ اورالعِلمُ با لاحکامِ الشرعیۃ معَ أدلتہا التفصِیلیۃ۔یہ سب قرآن کریم اور احادیث پاک کا عطر ہے۔ اور قرآن کریم کی عبارت سے یا حدیث پاک کی نصِ عبارت سے مضمون تک پہنچنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کتابوں میں بالکل وضاحت کے ساتھ درج ہے جس کو آپ اصول کہتے ہیں۔عام کی دلالت اپنے معنیٰ مرادی پرکیسی ہوگی اورخاص کی دلالت کیسی ہوگی، عام مخصوص منہ البعض کی دلالت اپنے معنیٰ مرادی پر ظنی ہوگی یہ سب اصول ہیں ۔قرآن کریم کی عبارت سے اور حدیث پاک کی عبارت سے مضمون تک پہنچنے کے لئے جو طریقے ہیں وہ اصول فقہ میں موجود ہیں۔

یہ اصول فقہ کیا ہے؟ یہ آپ کی جو علم بیان ہے اور علم بلاغت ہے اس کی گویا ایک مذہبی شکل ہے۔ یعنی یہ الفاظ سے معانی تک پہنچنے کا طریقہ ہے۔ الفاظ سے معانی تک پہنچنے کا جو طریقہ عام ہے وہ علم بیان ہے اور جو خاص طریقہ ہے یعنی شریعت کے سمجھنے کا وہ اصول فقہ ہے۔ اصول فقہ میں حنفیہ کے یہاں بھی مکمل تدوین ہے اور شوافع کے یہاں بھی مکمل تدوین ہے اور حنابلہ کی بھی مکمل تدوین ہے اور جس کے یہاں یہ تدوین نہیں ہے اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے فقہ کو مرتب کرے۔ یہ ہمارے محدثین ہیں تو محدثین کے یہاں اصول فقہ مرتب ہوا نہیں ہے، یہ جوکچھ کرتے ہیں اپنے طور پر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔امام ترمذی کہتے ہیں کہ ’’الفقہاء اعلم بمعانی الحدیث‘‘ کہ فقہا ء یہ حدیث پاک کے معنیٰ کو زیادہ جانتے ہیں، کتاب الجنائز میں لکھا ہوا ہے ۔

بہر حال ایک فقہ ہے اور اُس فقہ کو یعنی کہ قرآن اور حدیث کے الفاظ سے عملی زندگی کے مسائل کو؛کہ کیسے نماز پڑھیں گے، کیسے روزہ رکھیں گے ،کیسے بیع و شرا کریں گے، کیسے غلام کو آزاد کریں گے، کیسے غلام کو خریدیں گے، کیسے فلاں کام کریں گے، جتنے بھی زندگی کے کام ہیں، تو یہ فقہ ہے۔ اور ایک ہے علم کلام۔

حضرت ؒ یہ کہتے تھے کہ دو تو ہیں بنیادیں۔(۱)قرآن (۲) حدیث۔ اور تین ہیں ان کی روحیں، تین ہیں ان کے عطر ۔ایک ہے فقہ،یعنی احکام عملیہ سے متعلق۔اور ایک ہے عقائد؛ یعنی آپ کیا نظریہ اختیار کریں گے؟ آپ کو کیا عقیدہ اختیار کرنا چاہیے؟ اور جو یہ علم العقائد ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے جو دلائل مرتب کیے گئے ہیں وہ ہے علم کلام۔ علم کلام اور علم عقائد ایک نہیں ہیں۔ حضرتؒ یہ کہتے تھے کہ تین عطر ہیں ، ایک فقہ اور ایک ہے کلام، مگر کلام کے معنی یہ ہیں کہ کلام ایک تو ہے عقیدہ اور ایک ہے اُس عقیدہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرنا۔علم یشتمل علی حِجَج المسائل او علی حجج العقائد الایمانیہ بالدلائل العقلیہ دلائل عقلیہ سے عقائد ایمانیہ کو ثابت کرنے والا فن یہ علم کلام کہلاتاہے ۔

میرے عزیزو! تم لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت اسی فن کو مہارت کے ساتھ حاصل کرنے کی ہے اگر فِرق باطلہ سے بات کرنی ہے۔ اورتمھیں اعمال کے سلسلے میں بھی بات کرنی ہے تو فقہ اور اصول فقہ کی بھی ضرورت ہے لیکن اصل جو زیغ و ضلال ہے وہ توعقیدے میں آتا ہے، عقیدہ میں زیغ و ضلال آئے گا اس کو صحیح طور پر پیش کرنے کا سلیقہ یہ تو علم کلام پیش کرے گا ۔

قرآن کریم ہے تو قرآن کریم کے بارے میں چند باتیں نہایت واضح طور پر سب جانتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے اگر کوئی شخص اس کواللہ کا کلام نہیں جانتا تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔اللہ کا کلام ہے اور اس کا پڑھنا اس کے الفاظ کا ادا کرنا ہر حرف پر دس نیکی کا ثواب دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کوئی جماعت یہ کہتی ہے کہ سمجھ کر پڑھنے پر ثواب ملے گا، بغیر سمجھے نہیں ملے گا تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس نے جو عقیدہ متوارث چلا آ رہا تھا؛ اس میں ترمیم کر دی۔

قرآن کریم کے بارے میں یہ بات ہے کہ اس میں پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس میں تفسیر بالرائے نہیں ہوگی’’ من قال فی القرآن برأیہ واصاب فقداخطا ‘‘فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم میں اپنی رائے سے کہتا ہے، اپنی رائے سے کہنے کے معنی یہ ہیں کہ اس نے پہلے سے ایک رائے طے کر لی، پھر قرآن کریم کی آیت سے استدلال شروع کر دیا جبکہ اصل یہ تھا کہ الفاظ سے معانی تک پہنچنے کا جو فن مرتب کیا گیا ہے جسے اصول فقہ کہتے ہیں ،جس کی صحت کا تجربہ ہوچکا ہے اس کو اس نے حاصل نہیں کیا ۔ وہ اپنے طور پرتفسیر کر رہا ہے۔

بعض لوگ ایسے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ صاحب! ہم تو قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کو پڑھنے کے بعد مخلا بالطبع ہو کر ہمارے دل پر جووارد ہوتے ہیں، ہم ان مضامین کو بلا کم و کاست کاغذ پر نقل کر دیتے ہیں ؛یہ تفسیر بالرائے ہے ۔اس لیے کہ تم نے الفاظ سے معانی تک پہنچنے کے لئے جو صحیح طریقۂ کار تھا جواصول فقہ میں درج ہے اس کو تو اختیار نہیں کیا؛اس پردھیا ن دیتے نہیں اس کو جانتے بھی نہیں ؛نہ تم نے جاننے والوں کے فن سے استفادہ کیا؛ نہ تم میں یہ قابلیت ہے کہ خود مرتب کر سکو اور تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم قرآن پڑھیں گے اور قرآن کریم کے الفاظ سے جو معانی ہمارے دل پر نازل ہوں گے؛ ظاہر سی بات ہے کہ جو مضامین آپ کے اوپر نازل ہوں گے، جب کہ آپ، ان الفاظ سے صحیح معانی تک پہنچنے کے طریقے سے واقف نہیں ہیں تو وہ غلط ہوں گے۔

اس لئے قرآن کریم اور حدیث پاک تو ہوئے اصل اور ان کے بارے میں کچھ ہیں ایسے نظریات کہ جن پر امت روز اول سے متفق ہے ،تواب اُن نظریات کو شرعی طور پر ثابت کرنے کے لئے اِن کے لئے دلائل مہیا کرنے کے لئے جو علم و فن ہے یہ علم کلام ہے۔

علم کلام کی جو بہت سی موٹی موٹی معتبرکتابیں ہیں جیسے علامہ سعد الدین تفتا زانی کی شرح مقاصد ہے ؛بہت موٹی کتاب ہے، تمام اصول اس میں موجودہیں یا اس سے آسان ہے میر سید شریف کی شرح مواقف؛ اس کی بہت آسان عبارت ہے پڑھتے رہو سمجھتے رہو۔ لیکن ہم لوگ تو اس طرح کی مطول کتابوں کو پڑھنا نہیں چاہتے مطول کتابوں کوفرصت بھی چاہتا ہے صلاحیت بھی چاہتا ہے لیکن لیکن ہم تو اردو بھی نہیں پڑھتے ۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک دفعہ علی گڑھ میں بلایا اور وہاں طلبہ نے کچھ فرمائش کی کہ آپ فلاں فلاں مسائل پر کچھ بیان کر دیں تو حضرت نے چند اصول بیان کیے، شریعت کے لیے عقلی اصول اور گھر آکر اُن کو مرتب کر دیا، تو وہ جو مرتب کردہ اصول ہیں وہ مرتب کردہ اصول ’’الانتباہات المفیدہ‘‘ کے نام سے بازار میں ملتے ہیں ،سو سوا سو صفحہ کی کتاب ہے ۔اس میں حضرت نے چند اصول لکھے ہیں۔ مثلاً حضرتؒ کہتے ہیں کہ’’ ہر وہ چیز جو ممکن عقلی ہو اور مخبر صادق اس کی خبر دیتا ہو اس کا یقین کرنا ضروری ہے‘‘۔یہ ایک اصول ہے، شرح مواقف میں بھی ہے شرح مقاصد میں بھی ہے ،حضرت نے اردو میں اسے منتقل کر دیا۔ اور ایسے ایسے آٹھ دس اصول مرتب کیے۔ مثلاً انھوں نے کہا ’’کسی چیز کا سمجھ میں نہ آنا دلیل اس کے غلط ہونے کی نہیں ہے‘‘ کسی نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آیا؛ بھائی تمھارے سمجھ میں نہیں آیا تمھاری سمجھ کا وہ معیار ہی نہیں ہے جو اس بات کو سمجھ سکو ، کیوں کہ کسی چیز کا سمجھ میں نہ آنا یہ دلیل اس کے غلط ہونے کی نہیں ہے ۔ ایک اصول بتایا آپ نے کہ’’ ہر وہ چیز جو ممکن عقلی ہو‘‘ ۔پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ میں رات آسمان پر گیا تھا صبح کو لوگوں نے آپس میں گفتگو کی، حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا کسی نے کہ وہ آپ کے جو صدیق حمیم ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ؛سنا رات کیا کہا انھوں نے ؛وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں رات آسمان پر گیا تھا اور وہاں فلاں فلاں چیز دیکھ کر آیا ہوں ۔ ابوبکر صدیقؓ نے ان سے پوچھا کہ وہ کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ کہہ رہے ہیں، تو کہا کہ کہنا ان کا ٹھیک ہے۔ یعنی ایک سیکنڈ توقف نہ کیا۔ وجہ کیاہے کہ ہر وہ چیز جو ممکن عقلی ہو اور مخبر صادق اس کی خبر دے اس کا ماننا ضروری ہے۔ آسمان پر کسی انسان کا جانا محال نہیں ہے ممکن ہے اور مخبر صادق کہ زندگی بھر اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ خبر دے رہا ہے ؛حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسی اصول کے مطابق جواب دیا کہ پھر تو وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔

یہ اصول مثلاً آپ کو معلوم ہے کہ فلاں جگہ یہ واقعہ پیش آیا، کوئی نہایت حیرت انگیز بات پیش آگئی کسی گاؤں میں مثلاً ،اور کچھ لوگوں نے آکے بتایا بھی کہ فلاں جگہ یہ بات پیش آگئی تو آپ بتانے والے کے بارے میں یہ تو جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سچا ہے کہ جھوٹا ہے۔ اگر اس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ خرافاتی انسان ہے تو آپ کا دل کبھی نہیں مانتا لیکن اگر آپ کے نہایت قابل اعتبار بزرگوں میں کوئی شخص وہ بات بیان کرے تو یقین کریں گے کہ بھائی ٹھیک ہے یہ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہوگا۔ کیا بات ہے بس یہی کہ اگر کوئی چیز ممکن عقلی ہو یہ ہے صغری اور مخبر صادق اس کو بتائے تو نتیجہ یہ ہے کہ اس کا ماننا ضروری ہے۔

پیغمبر علیہ السلام نے کہا خدا ایک ہے، ٹھیک ہے یہ تو بدیہی بات ہے۔ لیکن پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی یہ صفات ہیں،اب مخبر صادق ہے بات جو بتا رہا ہے ممکن ہے اس لیے کا ماننا ضروری ہے۔

ایک تھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں حکیم محمد مصطفی صاحب ،ان کے نام سے دواخانہ مصطفائی میرٹھ میں قائم ہے ، انھوں نے انتباہات مفیدہ کی شرح لکھی ،اس کا نام تھا’’ حل الانتباہات المفیدہ ‘‘حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں سے رسائل نکلتے تھے ’’النور‘‘ نکلتا تھا اور ’’ الہادی‘‘ نکلتا تھا تو حکیم مصطفی کا وہ مضمون الہادی میں قسط وار چھپتا تھا۔ حکیم محمد مصطفی نے علم کلام کے ان اصولوں کی شرح بھی کی ہے اور ان کی تطبیق بھی دیدی ہے۔ یعنی ایک اصول سے انھوں نے مثلاً دس مسائل ثابت کر کے دکھادیئے ،اجراء کر دیا، یہ کتاب حل الانتباہات المفیدہ کے نام سے پہلے چھپی تھی پھر اس کے بعد پاکستان میں چھپی تو اس کا نام رکھ دیا ان لوگوں نے اسلام اور عقلیات ،مولانا محمدتقی صاحب کے کتب خانہ سے چھپی تھی اب دارالعلوم دیوبندنے اس کا ترجمہ کرایا ہے’’ الاسلام والعقلانیہ‘‘ کے نام سے ۔(حل الانتباہات المفیدہ بھی دار العلوم نے چھاپ رکھی ہے )۔

تو بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے علم کلام کے چند اصول’’ الانتباہا ت المفیدہ کے نام سے اردو زبان میں اتنے آسان انداز میں مرتب کر دیئے اور ان کو ایک ایک جگہ دو دو جگہ اجراء بھی کر دیا ،اب حضرت ہی کی زندگی میں حضرت کے خلیفہ نے ان کی تشریح کر دی اور تشریح کے ساتھ اس کا اجراء کر دیا کہ ایک اصول لکھا اور اس کے نیچے دو چار جزئیات اجراء کرنے کے بعد کر دیے ۔ اگر آپ غور و فکر کے ساتھ الانتباہات المفیدہ پڑھ لیں تو علم کلام میں آپ کواتنی دست رس ہو جائے گی کہ جو عقائد ہیں اِن عقائد کو عقلی طور پر ثابت کرنے کا ایک سلیقہ پیدا ہو جائے گا ۔

تیسری بات جو حضرت کہتے تھے تیسرا جو روح ہے تصوف ہے ( میں بیان کر رہا ہوں مولانا فخرالدین صاحبؒ کا ملفوظ مع شرح کے) پیغمبر علیہ السلام سے دو چیزیں منقول ہیں ایک قرآن ،ایک حدیث اور امت کے قابل قدر دماغوں نے ،نہایت بڑے لوگوں نے اس سے تین عطر کشید کیے ہیں۔ ایک فقہ جو احکام عملیہ بتاتا ہے مع ادلہ تفصیلیہ ،دوسرا کلام جو عقائد ایمان کو عقائد اسلام کو ثابت کرتا ہے دلائل عقلیہ سے جس کا کچھ ٹکڑا میں نے انتباہات کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور تیسری جو روح ہے وہ ہے تزکیۂ اخلاق ،جو پیغمبر علیہ السلام نے گنوائے تھے ۔ ایک آیت ہے تزکیہ کے لیے انسان کو فلاں فلاں اوصاف حمیدہ سے متصف ہونا چاہیے، اگر ان اوصاف حمیدہ سے متصف ہونے میں کوئی کمی ہے تو وہ تصوف یعنی تزکیۂ اخلاق کا جو فن ہے اس فن کے ذریعہ اپنے آپ کو آراستہ کرے ۔

حضرت یہ کہتے تھے کہ پانچ چیزیں ہیں، ان پانچ چیزوں میں اگر آپ کسی فرد کو جانچنا چاہتے ہیں اور کسی جماعت کو جانچنا چاہتے ہیں تو آپ یہ دیکھیئ کہ ان پانچ میں آپ کے ساتھ ہے مکمل؛ یعنی قرآن کریم اور قرآن کریم کے بارے میں جو اجماعی نظریات ہیں اُن نظریات میں یہ امت کے ساتھ چل رہا ہے۔روز اوّل سے جو عبداللہ ابن مسعودؓ کا خیال تھا وہی اس کا ہے جو ابوہریرؓہ کا خیال تھا وہی اس کا ہے، جو امام اعظم کا تھا وہی اس کا ہے، جو امام غزالی کا تھا وہی اس کا ہے، اگر یہ امت کے ساتھ چل رہا ہے تو یہ ہمارا ہے اور اگر کہیں بدل گیا مثلاً اس نے کہا کہ قرآن کریم کو بے سمجھے پڑھنا ثواب نہیں ہے ؛لگا دیجیے کانٹی آپ کہ یہ ہمارا نہیں ہے ۔۔۔ کہتا ہے قرآن کریم کے نازل ہوئے چالیس پارے؛ دس پارے غار سر من رآہ میں بارہویں امام لیکر چلے گئے؛ لگا دیجیے کانٹی کہ یہ ہمارا نہیں ہے، قرآن کریم میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ حدیث پاک ہے؛ حدیث پاک کے سلسلے میں کوئی شخص کہتا ہے محدثین نے انتہائی محنت کی اور محنت کر کے انھوں نے مدون کر دیا پورا کہ حدیث پاک سمجھنے کا یہ فن ہے اور حدیث پاک کے جانچنے کا یہ فن ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان مدون کردہ امت کے فنون سے انحراف کرتے ہوئے کوئی نئی بات کہتا ہے تو لگا دیجیئے کانٹی کہ یہ ہمارا نہیں ہے۔

ان سے کشید کردہ تین عطر فقہ کے بارے میں ایک شخص کہتا ہے کہ یہ فقہ ناتمام ہے اور اس اصول فقہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو سمجھ میں آئے گا وہی کریں گے؛ اگر اس طرح کا خیال ظاہر کرتا ہے تو اس کے معنیٰ ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ نہیں ہے۔یہی بات عقائدمیں ہے ، جو مدون عقائد ہیں، روز اول سے، ان عقائد میں اگر کوئی اختلاف کرتا ہے مثلاً صحابہ کا مسئلہ آ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو کچھ نہ کہو الصحابۃ کلہم عدول، آپ نے یہ کہا کہ یہ میری قابل اعتماد جماعت ہے اور اس جماعت سے ساتھ حسن عقیدت فریضہ ہے، جو صحابہ کرام پر تنقید روا رکھتا ہے اس پر لگا دو کانٹی کہ وہ ہمارا نہیں ہے۔ جو تصوف کا انکار کرتا ہے لگادو کانٹی کہ ہمارا نہیں ہے۔ تو پہچان تو یہ ہے بھائی۔

حضرت نے یہ بات کہی کہ کون شخص صراط مستقیم پر ہے اس کے لئے پانچ چیزوں کو رکھیے ذہن میں۔ قرآن، حدیث ،فقہ، کلام اور تصوف ،جو ان تمام چیزوں کے سلسلے میں امت کے ساتھ چلا آرہا ہے عہد رسالت سے اب تک ۔اور یہ جو دیوبند ہے اس کا کمال ہی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے ایک بھی نظریہ پیدا نہیں کیا ہے ۔یہ طبقہ ،رسالت کا یا صحابۂ کرام کا جو طرز فکر چلا آرہا ہے اسی کا ترجمانی کرنے والا ایک فرقہ ہے ۔

اب اگر ان پانچ چیزوں میں کوئی نئی رائے اختیار کر رہا ہے تو آپ کیسے اس سے نبرد آزماں ہوں گے؟ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بالحکمہ اور بالموعظۃ الحسنۃ ،وجادلہم بالتی ہی احسن طریقہ تو ہوگا ہی ۔اس موضوع پر کام کرنے والے عموماًجتنے حضرات ہیں اگر جادلہم بالتی ہی احسن سے ہٹتے ہیں وہ اپنی بات کو قبول کرانے کے سلسلہ میں ناکام ہیں بلکہ اپنے اوپر الزامات آنے کے سلسلے میں بھی ناکام ہیں کہ۔ ( زبان کی شدت کے سبب )جتنے لوگ آج کل جیل میں بھی ہیں سب مظلوم ہیں، یعنی مسلمان کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو امن کے خلاف ہو، اسلام تو امن ہی کا مذہب ہے لیکن ان حضرات کی تقریر کا جو طریقہ ہے وہ جدال جادلہم بالتی ہی احسن سے ہٹ کر ہے یعنی امن پسند ہیں مگر زبان سے ایسی بات کہہ دی جس کی بنیاد پر کسی شخص کو موقع مل گیا گرفت کا؛ یعنی جب حقیقت کھلے گی تو یہ معلوم ہوگا کہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا وہ بری ہو گیا لیکن سردست تو پریشان ہے ، کیوں پریشان ہے اسی جدال بالتی ہی احسن سے پوری طرح عمل نہ کرنے کی بنیاد ،پر اور یہ کہ جدال بالتی ہی احسن کے طریقہ پر کام کرنا یہی فریق ثانی کو اپنی بات پر مطمئن کرنے اور قبول کرنے کے لیے آمادہ کرنے والی چیز ہے ۔

توپہچان تو اس طرح ہوگی کہ امت کے پاس پیغمبر علیہم السلام سے جویہ چیزیں آئی ہیں اور اس سے امت نے جو عطر کشید کیا گیاہے آپ اس معیار پر جانچیئے اپنے کو بھی اور ان جماعتوں کو بھی ۔اگر جماعتیں اس معیار پر پوری نہیں اترتیں یا کوئی فرد اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس کے معنیٰ ہیں کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ سے نہیں ہے اور جہاں اس نے انحراف کیا ہے اس انحراف سے نمٹنے کے لیئے استدلال کرنا پڑے گاآپ کو علم کلام سے، علم کلام میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں حقائق شرعیہ کو ثابت کرنے کے لیے ان اصول میں کوئی نہ کوئی اصول عقلی طور پر آپ کی بات کو ثابت کرنے کے لیے یقیناً مل جائے گا۔ شاید انتباہات المفیدہ میں ہی مل جائے ۔اور پیش کرنے کا طریقہ وہ ہونا چاہیے جو قرآن کریم میں آرہا ہے کہ ہونا چاہیے وہ حکمۃ کی بنیاد پر یعنی استدلال علمی ہو یا موعظۃ حسنۃ کی بنیاد پر کہ بات افہام وتفہیم کی ہو، ثواب وعقاب کی ہو، فضائل کی ہو، امم سابقہ اور پچھلے لوگوں کے قبول کرنے پر انعامات اور نہ کرنے پر عذاب خداوندی پر مشتمل ہو۔ اور اگر بالفرض گفتگو جدال کی اور مناظرے کی آجائے مناظرے بھی کر لیجیے آپ ۔

مناظرہ کا ایک دور تھا جس میں چلتا تھا اور آج بھی کہیں کہیں ضرورت پڑسکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ مناظرہ اپنی بات کو دوسرے شخص سے قبول کروانے کے سلسلے میں مفید نہیں ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو قبول حق کے سلسلے میں ناکام قرار دیا ہے ۔یعنی یہ واقعہ ہے، البتہ کہیں کہیں اپنے لوگوں کے اطمینان کے لیے مناظرہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ مناظرہ سے ہٹ جائیں گے تو یہ ہوگا کہ فریق ثانی یہ کہے گا کہ انکے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل ہی نہیں ہے ؛ مجبوراًمناظرہ کرنا ہی پڑتا ہے ۔لیکن دعوت کے سلسلے میں نہیں ہے وہ، یعنی مناظرہ تو اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے مجبوری کا کام ہے ورنہ دعوت کے سلسلے میں اپنے مضمون کو دوسرے آدمی سے قبول کرانے کے لیے یا توحکمت چاہیے یا موعظۃ حسنہ چاہیے یا جدال احسن چاہیے ۔

میرے بھائیوں گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ پانچ فن ہیں اور ان پانچ فنوں کے ذریعہ آپ کسی شخص کا اہل سنت والجماعت میں سے ہونا، یااب سے لے کر قیامت کسی کے صراط مستقیم پر ہونا جان سکتے اور اس جاننے کے سلسلے میں جو اصول مقرر ہیں ان کو سمجھنا آسان ہے اور اگر اس کا انحراف آپ کو محسوس ہو رہا ہے ،اس کو بچانے کے لیئے علم کلام کی مدد سے استدلال پیش کرنا ہے ۔اور اگر استدلال پیش کرنے کی نوبت آتی ہے تو اس نوبت میں آپ کو وہ تین کام جو قرآن کریم کہہ رہا ہے ایک بالحکمۃ ،موعظۃ حسنہ اور جدال بالتی ہی احسن، ان سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اگر آپ اس طرح کام کرتے ہیں تو ان شاء اللہ یہ ختم نبوت والا مضمون اس سلسلے میں بھی اور اس کے علاوہ جتنے بھی فتنے ہیں اور آج کل تو فتنے بہت زیادہ پھیل رہے ہیں ان سب کے لیے مفید ہوگا ۔

ایک تو خدا ہدایت دے سعودیہ سرپرستی کر رہا ہے غیر مقلدوں کی، وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں یعنی سعودیہ خود اس سے ساری دنیا میں لوگ ناراض ہیں مگر وہ کر رہا ہے سرپرستی ،پتہ نہیں کیا بات ہے۔ میں نے کہا اپنے بڑوں سے کہ بھائی اس سلسلے میں اس کو متوجہ کرو مگر ابھی تک یہ لوگ متوجہ کرتے بھی ہیں مگر کھل کر نہیں کر رہے ہیں۔یہ سعودیہ سخت غلطی کررہا ہے حکومت اُن کی سرپرستی کر رہی ہے اور وہ صراط مستقیم سے انحراف کر کے کام کر رہے ہیں ،صراط مستقیم سے انحراف کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو چیزیں عہد رسالت سے ثابت ہیں کہ مثلاً تراویح ہے ۲۰رکعت ،ان حرمین سے کسی وقت وہ ۸ رکعت نہ کرا دیں ،یہ گویا چل رہا ہے۔

قادیانیت کا فتنہ تو فتنہ ہی تھا لیکن یہ غیر مقلدیت کا فتنہ بھی بہت عام ہو رہا ہے اور بھی نئے نئے فتنے پیدا ہو رہے ہیں جنھیں آپ نے مولانا شاہ عالم صاحب کی زبانی سنا ہوگا ،جن میں شکیل بن حنیف ہے ،میں تو جانتا نہیں کون صاحب ہیں، وہ پتہ نہیں لوگ کیسے ہیں کیسے مانتے ہیں کمزور باتوں کو بھی دھیان سے سن لیتے ہیں اور ان کے ماننے والے پیدا ہوجاتے ہیں کہ یہ جو اور فرقے ہیں، خوارج کا تھا شیعوں کا تھا تو یہ فتنے تو پرانے ہیں اور چلے آرہے ہیں اور جو اس دور کے فتنے ہیں مودویت ہے ی، غیر مقلدیت ہے ان تمام کا تعاقب اسی طرح ہوگاکہ آپ دیکھیے کہ ان پانچ چیزوں میں کہاں کہاں اختلاف ہے اور جہاں جہاں اختلاف ہے اس کو مدلل کرنے کے لیے آپ علم کلام سے مددلیں اور جو تین طریقے ہیں ان تین طریقوں کے مطابق اس کو پیش کریں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے مجھ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مجھے نہ تو تقریر کرنے کا سلیقہ ہے اور یہ مولانا شاہ عالم کا اصرار ہے اور( مسرت آمیزلب و لہجے میں) اصرار کیا اِنھوں نے میرے بلڈپریشر کو برھانے کی ایک ترکیب سوچی ہے یہ مجھ سے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کام کرو تو میرا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے؛ تو یہ چاہتے ہیں کہ بلڈ پریشر بڑھا رہے( سامعین اس انداز خسروانہ سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے) ۔اﷲ تعالیٰ اِن کو ترقیات عطا فرمائے ، مجھے بہت خوشی ہے کہ اتنا بڑا پروگرام ہورہا ہے اورآپ لوگ پوری دلچسپی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں سن رہے ہیں ،سمجھ رہے ہیں مگر دعوت کا جو طریقہ ہے میں چاہتا تھا کہ یہ بات میں عرض کروں کہ تشدد سے اپنے آپ کو بچائیں، استدلال تو نہایت صاف ہو، تشددسے پاک ہو ۔اخلاص اور دلسوزی کے ساتھ اپنی بات پیش کریں ۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو دین حنیف کی خدمت اور دین حنیف کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کے شرور و فتن سے محفوظ فرمائے اور دین کو بھی محفوظ رکھے ۔ وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین ۔

مولانا شاہ عالم گورکھپوری کے مزید مضامین
اپنی رائے نیچے کمینٹ مے ضرور دے

2 thoughts on “Maulana Riyasat Ali Bijnori Ki Aakhri Sham – حضرت مولانا ریاست علی بجنوری کی آخری شام تحفظ ختم نبوت کے نام

  1. ماشاءاللہ! استاذ محترم کی یادیں تازہ کر دیں۔اللہ حضرت کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

  2. ماشاءاللہ اللہ تعالٰی آپ کو اس کا بہترین اجر عنایت فرما ئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *