Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Manqoot Aur Ghair Manqoot Tehreero Ki Riwayat, منقوط اور غیر منقوط تحریروں کی روایت

Manqoot Aur Ghair Manqoot Tehreero Ki Riwayat, منقوط اور غیر منقوط تحریروں کی روایت

مصنف: محمد ریاض

پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں

غیر منقوط روایت عجم میں: اس فن عجیب کو اولاً ہم نے عرب کے مشہور و متبحر اصحاب قلم سے بیان کیا، اب غیر منقوط فن کی عجم میں ترویج کا ذکر کرتے ہیں۔ عرب کی طرح عجم کے مختلف علماء و ادباء اور شعراء نے مختلف زبانوں میں فن غیر منقوط میں طبع آزمائی کی ہے۔ سب سے پہلے اس فن میں عربی زبان میں ادبی کارناموں کو ذکر کریں گے، اس کے بعد دیگر زبانوں، اردو، فارسی، پنجابی میں اس فن کے شہ پارے سامنے لائیں گے۔ پس ابتداء دنیا کی سب سے فصیح اور وسیع زبان سے کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حروف مہملہ کا یہ فن عجم میں کب، کیسے اور کہاں پھلا پھولا؟ اور اس کے اولین ادبا کون ہیں؟ اس بات کو ہم تاریخ کی رعایت رکھتے ہوئے ذکر کرتے ہیں۔

ابوالفیض فیضی (ت: ۱۰۰۴ھ) کا رسالہ ’’موارد الکلم اور سواطع الالہام‘‘: غیر منقوط ادب کی پہلی نص عجم میں عربی زبان میں ابو الفیض فیضی کی مذکورہ بالا شہرۂ آفاق دو تصانیف ہیں، فیضی کا پورا نام ملک الشعرا ابوالفیض فیضی، فیاضی بن شیخ مبارک ناگوری ہے، یہ عربی النسل ہیں۔ موصوف کے آباء و اجداد کا یمن سے تعلق تھا۔ نویں صدی میں شیخ موسی جو پانچویں پشت میں فیضی کے دادا تھے، یمن سے آکر سندھ کے شہر سیہون کے قریب قصہ ’’ریل‘‘ میں مقیم ہوئے۔ فیضی کے دادا خضر بن رکن الدین بن عبداللہ بن موسی علم کی تلاش میں سندھ چھوڑ کر ہند آگرہ کے قریب ناگور میں آبسے، ابوالفیض فیضی کو ملک الشعرا کا لقب اکبر بادشاہ نے دیا تھا۔ 

جب ابوالفیض فیضی نے اپنی شہرہ ٔ آفاق غیر منقوط تفسیر 

’’سواطع الالہام‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا تو فیضی نے تمرین اور مشق کے لیے سب سے پہلے ایک غیر منقوط رسالہ لکھا اور اس کا نام ’’موارد الکلم و سلک درر الحکم‘‘ رکھا۔ اس رسالہ کی تصنیف کی طرف فیضی نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں بھی اشارہ کیا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے بقول ’’موارد الکلم‘‘ ۹۸۰ھ میں لکھ کر مختلف عرب ممالک میں بھیجا گیا تو لوگوں نے اس کی بہت تعریف و تحسین کی۔ یہ رسالہ ۱۲۴۱ھ میں کلکتہ کے مشہور قدیم مطبع شیخ ہدایت اللہ سے شائع ہوا جو اب کم یاب ہے۔ یہ رسالہ ۱۷۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’موارد الکلم‘‘ مولف کی عربی زبان و ادب پر مہارت و لیاقت فائقہ کا کامل اظہار ہے۔ یہ پہلا ضخیم رسالہ تھا جو مکمل غیر منقوط لکھا گیا، اس میں علامہ فیضی نے صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ لفظ ’’صلعم‘‘ اور علیہ السلام کے مقام پر لفظ ’’عم‘‘ اور علیہم السلام کے مقام پر لفظ ’’عہم‘‘ کے الفاظ کو استعمال کیا ہے۔

علامہ فیضی نے رسالہ کی ابتدا ان ابیات سے کی ہے:

الحمد لملہم الکلام الصاعد وہو المحمود أوّلا والحامد

ما وحّدہ موحّد إلّا ہو واللہ إلہکم إلہ واحد

مورد الکلام مہمل نظم و نثر کا شاہکار ہے۔ ملک الشعرا ابو الفیض نے اس رسالہ کے خاتمہ کو معجم یعنی منقوط الفاظ سے لکھا ہے۔ اس کو ہم منقوط روایت میں ذکر کریں گے۔

سواطع الالہام: عرب و عجم میں مشہور غیر منقوط تفسیر ’’سواطع الالہام‘‘ ابو الفیض فیضی کا ایک گراں قدر ادبی کارنامہ ہے۔ سید ابوالحسن علی ندویؒ کے مطابق فیضی نے اس تفسیر کو ۱۰۰۲ھ میں مکمل کیا اور بادشاہ اکبر کی خدمت میں پیش کیا، جس پر اس کو بادشاہ اکبر نے اس وقت دس ہزار روپے بطور انعام کے دیے۔ اس تفسیر کے ساتھ فیضی نے آفاق عالم میں شہرت پائی۔ 

ابو الفیض فیضی روئے زمین کے پہلے مفسر ہیں جنہوں نے مکمل غیر منقوط تفسیر لکھی، اپنی تفسیر کو ایک مقدمہ سے شروع کیا ہے، جس کا آغاز ان کلمات سے کیا:

اللہ لا إلہ إلا ہو، لا أعلمہ ما ہو، وما أدرکہ کما ہو، أحامد المحامد ومحامد الأحامد، للّٰہ مصعد لوامع العلم، وملہم سواطع الإلہام .. ۔

مقدمہ بسیط ہے، جس میں فیضی نے سواطع (خوشبو کے بلند ٹیلے) کے عنوان سے چیزیں ذکر کی ہیں۔ یہ سواطع دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ پہلا حصہ مولف اور اس کے خاندان کے متعلق ہے، جبکہ دوسرا حصہ علوم القرآن کے متعلق ہے، جس میں علامہ فیضی نے فن تفسیر کے متعلق بنیادی باتیں لکھی ہیں، اگر ہم مجموعی طور پر سواطع الالہام کو دیکھ کر اس کے چیدہ چیدہ نکات ذکر کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں اس تفسیر میں مفسر نے آیات اور سورتوں کے اسباب نزول ذکر کیے ہیں اور ہر سورت کے شروع میں اس کا مکی یا مدنی ہونا بیان کیا ہے۔ مدنی سورت کے علامہ فیضی موردھا مصر رسول اللہ صلعم اور مکی صورت کے لیے موردھا أم الرحم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر سورۃ النازعات کے مقام نزول کے متعلق کہتے ہیں: موردھا أم الرحم۔ یعنی یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور سورۃ النصر کے بارے میں کہتے ہیں: موردھا مصر رسول اللہ صلعم۔ یعنی یہ سورت رسول اللہؐ کے شہر (مدینہ طیبہ) میں نازل ہوئی۔ تفسیر کے اختتام پر علامہ فیضی نے ترتیب ہجائی کے اعتبار سے تفسیر میں موجود مشکل الفاظ کا حل ایک باب میں پیش کیا ہے اور اس کا نام ’’حل معاسر سواطع الالہام‘‘ رکھا ہے۔ سواطع الالہام کے آخر میں دو غیر منقوط تقریظیں بھی شامل ہیں۔

محمد مومن الجزائری الشیرازی (ت: ۱۱۱۸ھ) کی ’’در الحکم‘‘: اس فن میں غیر منقوط کی دوسری عبارت ہمیں محمد مومن بن محمد قاسم الجزائری کی ملتی ہے۔ انہوں نے منقوط حروف سے خالی الفاظ میں ایک رسالہ لکھا جو چار سو اشعار پر مشتمل تھا۔ مختلف انواع کے اشعار کو ’’حکم‘‘ کے عنوان سے معنون کرکے ذکر کیا ہے۔ رسالہ کو ان الفاظ سےشروع کیا:

لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ، أول الکلام وأکمل المرام، حمد اللہ الأحد الصمد العلام …۔

ابو محمد شویکی (ت: ۱۱۴۹ھ) کا ’’قصیدہ مہملہ‘‘: اس فن کی تیسری نص ابو محمد شویکی کا قصیدہ غیرمنقوط ہے جن کا پورا نام ابومحمد عبداللہ بن محمد بن حسین بن محمد الشویکی الخطی ہے۔ شویکی نے قصیدہ کا آغاز ان ابیات مہملہ سے کیا ہے۔

لآل محمد اعلی السلام وإکمال السرور علی الدوام

وہم علی ملوک الحمد طرا وأہل العلم والہمم والرکام

محمد صدیق لاہوری (ت: ۱۱۹۲ھ) کی ’’سلک الدرر‘‘: عجم میں صنعت اہمال کی چوتھی عبارت محمد صدیق لاہوری کی کتاب ’’سلک الدرر‘‘ ہے۔ مولف کا پورا نام محمد صدیق بن محمد حنیف بن محمد لطیف لاہوری ہے۔ یہ عالم، فقیہ اور ادیب تھے۔ متعدد کتابیں تصنیف کیں، جن میں ایک انوکھی کتاب ’’سلک الدرر فی السیر‘‘ حروف مہملہ کے ساتھ لکھی ہے۔ علامہ فقیر محمد جہلمی نے حدائق حنفیہ میں اس کتاب کا نام ’’مسلک الدرر لاکمل رسل اطہر فی السیر للرسول الانور‘‘ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کتاب فقط آٹھ پہر میں لکھی گئی۔

قطب الدین بھبہانی (۱۲۰۶ھ) کی ’’التفسیر ا لمعمول من غیر الحروف المنقوطۃ‘‘: صنعت غیرمنقوط کی پانچویں عبارت قطب الدین بھبہانی کی ہے۔ ان کاپورا نام علی بن قطب الدین مفسر بھبہانی ہے، انہوں نے دو تفسیریں لکھی ہیں، پہلی ’’تفسیر الصافی‘‘ اور دوسری ’’التفسیر المعمول من غیر الحروف المنقوطۃ‘‘۔ یہ تفسیر تین جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد شروع سے سورہ یونس تک، دوسری سورہ عنکبوت اور تیسری سورۂ ناس کے آخر تک۔ آقا بزرگ طہرانی کے مطابق یہ تینوں جلد مکتبہ السماوی ایران میں موجود ہیں۔ 

امداد علی کنتوری (ت: ۱۲۹۲ھ) کی ’’سورہ یوسف کی غیر منقوط تفسیر‘‘: اس فن کی چھٹی نص امداد علی کنتوری کی سورہ یوسف کی غیر منقوط تفسیر ہے۔ مفسر کا پورا نام امداد علی بن رحمٰن بخش شیعی کنتوری ہے۔ یہ اپنے زمانہ کے مشہور لوگوں میں سے ہیں، کنتور میں ۱۲۱۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۹۲ھ میں وفات پائی۔ متعدد تصانیف ہیں، ان میں سے سورہ یوسف کی صیغہ اہمال میں لکھی گئی تفسیر بھی ہے۔ 

علی عباس خان (ت: ۱۲۹۸ھ) کی ’’سورہ یوسف کی غیر منقوط تفسیر‘‘: فن عجیب بے نقط کی ساتویں عبارت بھی سورہ یوسف کی غیر منقوط تفسیر ہے، جو علی عباس خان نے لکھی ہے۔ مفسر کا نام صاحبزادہ علی حسین خان بن عظیم اللہ خان ہے۔ ان کی ولادت، پرورش، تعلیم و تربیت ریاست رامپور میں ہوئی۔ ۱۲۹۴ھ میں حج پر گئے اور مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ شہدائے احد کے قریب مدفون ہیں۔ انہوں نے سورہ یوسف کی غیر منقوط تفسیر کو ان الفاظ سے شروع کیا ہے:

الحمد للّٰہ الملک السلام الواحد لہ ملک السماء والسطوح مرسل الرسل …..۔ 

مخطوطہ رامپور کی عظیم لائبریری، رضا لائبریری میں موجود ہے۔

نجف علی جھجھری (ت: ۱۲۹۹ھ) کی ’’سحر الکلام شرح مقامات حریری‘‘: نقطوں سے خالی صنعت کی آٹھویں نص قاضی نجف علی جھجھری کی ’’سحر الکلام‘‘ ہے، جو مقامات حریری کی غیر منقوط شرح ہے۔ شارح کا پورا نام قاضی نجف علی بن عظیم الدین حنفی جھجھری ہے۔ اپنے زمانہ کے مشاہیر میں تھے۔ انہیں عربی زبان و ادب اور فارسی پر یدطولیٰ اور مہارت کاملہ کے علاوہ دیگر فنون میں دسترس حاصل تھی۔ متعدد کتابیں لکھی جن میں سے ایک سحر الکلام ہے جو صنعت اہمال کا عظیم شاہکار ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی ایک کتاب غیر منقوط عربی معجم ’’مجموعہ لغات بے نقطہ‘‘ بھی ذکر کی ہے۔ نجف علی جھجھری کا ترجمہ علامہ عبدالحی لکھنوی نے نزہۃ الخواطر اور الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہندمیں ذکر کیا ہے جہاں ان کی کئی تصنیفات کا بھی ذکر ہے۔ مگر اس بے نقط معجم کا ذکر نہیں۔

ناصر علی غیاث پوری (ت: ۱۳۰۵ھ) کا ’’السلام المعراء‘‘: فن غیر منقوط کی نویں نص ناصر علی غیاث پوری حنفی آروی کی ہے۔ وہ جید عالم، طبیب اور ادیب تھے، ان کی متعدد تصنیفات ہیں (۶۷)۔ انہوں نے بغیر نقطوں کے آقائے نامدار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ سلام بعنوان ’’السلام المعراء‘‘ لکھا۔

ڈاکٹر زبید احمد اس بارے میں کہتے ہیں:

مصنف کا ایک اور کام درود ’’السلام المعراء‘‘ جو فقط صیغہ اہمال پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ کتاب کا عنوان حروف منقوطہ سے خالی ہے۔ کتاب کا آغاز ایک مختصر مہملہ مقدمہ سے کیا گیا ہے۔ ہدیہ درود و سلام کی ابتدا ان الفاظ سے ہے:

اللہم صل وسلم علی محمد و إمـام الہدی

اللہم صل وسلم علی محمد صدرہ مطلع الہدی 

ملا احمد مکرم عباسی (ت: ۱۳۱۳ھ) کا رسالہ ’’السمع الاسمع‘‘: علم بدیع کی دسویں نص ملا احمد مکرم عباسی کا نقطوں سے خالی رسالہ ’’السمع الاسمع‘‘ ہے (۶۹)۔ یہ رسالہ ۱۳۴۱ھ میں حیدرآباد دکن سے طبع ہوا۔ یہ نظم و نثر بیس صفحات پر مشتمل ہیں۔ سولہ صفحات عربی میں جبکہ بقیہ چار فارسی نظم میں صیغہ اہمال سے مزین ہیں۔ مولف نے رسالہ کی ابتدا حمد و ثناء سبحانہ و تقدس سے یوں کی ہے:

اسم اللہ العلام أوّل الأمر والکلام، لا إلہ إلا ہو، الحمد للّٰہ الملک العلام، والودود المحمود السلام ……۔ 

علامہ ابوالفیض محمد حسن فیضی جہلمی (ت: ۱۳۱۹ھ) کا ’’قصیدہ مہملہ اور سورہ فاتحہ کی بے نقط تفسیر‘‘:

گیارہویں نص علامہ زمان، علوم و فنون کے ماہر، ابوالفیض محمد حسن فیضی جہلمیؒ کا قصیدہ بے نقط اور سورہ فاتحہ کی غیر منقوط غیر مطبوع تفسیر ہے۔ قصیدہ مہملہ کے لکھنے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ جب مسیلمہ پنجاب کذاب مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے کلام کے اعجاز کا چیلنج اور نبوت کا دعویٰ کیا تو علامہ ابوالفیض فیضی جہلمی ۱۳؍ فروری ۱۸۹۹ء کو مسجد ’’حکیم حسان الدین‘‘ سیالکوٹ میں پہنچے اور مرزا قادیانی کو اپنا غیرمنقوط قصیدہ پیش کیا، جس میں تحریر تھا اگر آپ نبی ہیں اور آپ پر وحی نازل ہوتی ہے تو اس قصیدہ مہملہ کو حاضرین مجلس کے سامنے ترجمہ کرکے سنا اور سمجھا دیں، تو میں (ابو الفیض فیضی جہلمی) آپ کو سچا نبی تسلیم کرلوں گا، مرزا قادیانی نے کچھ دیر اس قصیدہ غیر منقوطہ کو دیکھا پھر اپنے ایک پیروکار کو دے دیا، بات اس سے بھی نہ بن سکی تو خلف نابلد نے پریشانی کی حالت میں فبہت الذي کفر کا مصداق بن کر یہ قصیدہ صاحبِ قصیدہ کو واپس کیا اور مرزا قادیانی نے کہا یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے آپ خود ہی اس کا ترجمہ کردیجیے، یہ قصیدہ اکتالیس اشعار پر مشتمل حسین گلدستہ ہے۔ اس کے شروع کے اشعار اردو ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

لمالک ملکہ حمد ، سلام علی مرسولہ علم الکمال

حمودٍ أحمدٍ و محمدٍ و طھور مع أولاد وآل

بادشاہت کے مالک کے لیے تمام تر تعریف اور ان کے رسول پر سلام ہو جن پر علم اپنی انتہا کو پہنچا، جو حمود (سب سے زیادہ تعریف کرنے والے) احمد اور محمد ہیں اور اپنے اصحاب اور آل سمیت پاک ہیں۔

مرزا جمال الدین کرمانی (ت: ۱۳۵۱ھ) کی ’’اسس الاصول‘‘: بغیر نقطوں کی سجاوٹ کے الفاظ کی بارہویں نص علم الاصول میں لکھی گئی کتاب ’’اسس الاصول‘‘ ہے، جس کو محمد بن غلام رضا شریف کرمانی نے لکھا ہے، جو مرزا جمال الدین کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ کتاب ۱۳۱۹ھ میں طبع ہوئی، جس میں اس کی ہر سطر کا ساتھ ساتھ فارسی ترجمہ بھی کیا گیا ہے اور مفید حواشی بھی فارسی میں موجود ہیں، جو فہم عبارت میں بھرپور مدد دیتے ہیں۔ کتاب کو بے نقط خطبہ اور اس کے بعد غیر منقوط اجمالی فہرست سے شروع کیا گیا ہے۔ مرزا جمال الدین نے اس خطبہ کو ’’اول الکلام اسم الملک العالم العلام‘‘ کے عنوان سے معنون کیا ہے اور لکھا ہے:

أحمد حمدٌ حُمِدَ أمدحہ مدح الحمد لہ علی الحمد لہ، والمدح لہ علی المدح لہ حمدا لا حصر لہ ولا حد لہ ولا مدّ لہ ولا عدّ مدحًا عدد الرمل والحصا …. ۔ 

کتاب ۲۷۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے کتاب کے آخر میں فن معجم سے مزین خطبہ منقوشہ یعنی منقوطہ بھی لکھا ہے جس کو ہم فن منقوط کی روایت میں ذکر کریں گے، اسس الاصول مولانا آزاد لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں موجود ہے۔

محمد امین علی نقوی (ت: ۱۴۲۷ھ) کی ’’محمد رسول اللہؐ اور رداء الوردہ‘‘: غیر منقوط فن کی تیرہویں نص سید محمد امین علی نقوی فیصل آبادی کی دو کتابیں ’’محمد رسول اللہ‘‘ اور ’’رداء الوردہ‘‘ ہیں، پہلی کتاب جناب نبی کریم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا سے معطر ۷۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی ابتدا ایک خطبہ سے کی گئی ہے، جس کا نام ’’ہوامع الاسلام‘‘ رکھا گیا ہے۔ آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:

الحمد للّٰہ الاول الاحد الصمد الملک الحکم العدل الحي المحي المعطي المحصي الواحد الواسع المصور الودود السلام …. ۔ 

دوسری کتاب قصیدہ ’’رداء الوردہ‘‘ ہے۔ عربی زبان میں غیر منقوط صلوٰۃ و سلام میں قصیدہ بردہ شریفہ کے طرز پر لکھا گیا ہے۔ یہ ۷۶؍ ادبیات پر مشتمل ہے، ان میں سے نمونہ ملاحظہ ہو:

الحمد للّٰہ مودود الوری الحکم

والمدح للمرسل الامّیّ والعلم 

مصنف کا ایک غیر منقوط نعت شریف کا رسالہ اردو زبان میں بھی ہے اس کو ہم اردو کتب مہملہ میں ذکر کرتے ہیں۔

اردو ادب میں غیر منقوط روایت

عجمی زبانوں میں قلم کے کئی شہسواروں نے جب انوکھا لکھنے کی کوشش کی ہے، تو انہوں نے کسی نہ کسی صنعت کو اختیار کیا ہے، اس سلسلہ میں بعض نے غیر منقوط فن کو اپنی رہ گزر بنایا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس فن کی کتب و رسائل اور شعراء و ادباء انتہائی کم ہیں لیکن پھر بھی طبع آزمائی ضرور کی گئی ہے۔ اب ہم عجم میں عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں اس فن کے کام کو جاننے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابتدا اپنی قومی زبان ’’اردو‘‘ سے کرتے ہیں۔

غیر منقوط اردو زبان میں: اردو ادب ادبی اصناف سے پُر ہے۔ اس میں صنعت مہملہ کسی بھی اور زبان سے کم نہیں ہے بلکہ اگر ہم برصغیر کی حدتک یہ کہیں کہ غیر منقوط فن پر برصغیر میں دیگر زبانوں مثلاً: عربی، فارسی، ترکی، پنجابی وغیرہ میں سب سے زیادہ اردو زبان کے ادباء و شعرا نے لکھا ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ ہم اردو ادب میں اشعار، قصائد، کتب و رسائل صنعت عاطلہ میں نسبتاً زیادہ پاتے ہیں، غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف مہملہ کے اس فن لغوی عقلی میں مختلف لوگوں نے کم یا زیادہ طبع آزمائی کی ہے اور تجربہ کے طور پر لکھنا چاہا تو پھر لکھتے چلے گئے، چونکہ یہ فن ایک مشکل ادبی نوع سے تعلق رکھتا ہے، اکثر ادبا، شعرا اس وادی سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں۔ اردو ادب کے ادبا و شعرا نے فن غیر منقوط کی نثر اور نظم دونوں میں قلم کو جولانی دی ہے۔ ہم پہلے غیر منقوط نثر کو اور دوسرے درجے میں غیر منقوط نظم کو بیان کرتے ہیں۔

فوت شدہ ادباء کے سن وفات اور بقید حیات نثری کتب کی سن طباعت کی رعایت کرتے ہوئے ان کے ادبی غیر منقوط شہ پاروں کو ذکر کریں گے۔

اردو غیر منقوط نثر

انشاءاللہ خان انشاء (ت: ۱۲۳۲ھ) کی ’’سلک گوہر‘‘: اردو ادب کی غیر منقوط تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے سے نظم و نثر میں سب سے پہلے انشاء اللہ خاں انشاء کا ادبی کام سامنے آتا ہے۔ انشاء یا انشاءاللہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی ولادت ۱۱۵۵ھ؍ ۱۷۵۶ء میں مرشد آباد بھارت میں ہوئی اور وفات ۱۲۳۲ھ؍ ۱۸۱۷ء کو لکھنؤ میں ہوئی (۷۷)، وہ لکھنؤ میں ہجرت کرکے آنے والے شعرا میں شمار ہوتے ہیں ، انہیں کئی زبانوں پر مکمل دسترس حاصل تھی اور انہوں نے مختلف زبانوں میں خوب لکھا۔ وہ کثیر التصانیف تھے جن میں سے کچھ کے صرف نام ہی ملتے ہیں اور کچھ مطبوع یا مخطوطہ دستیاب ہیں، ایک اہم تصنیف اردو ادب کا پہلا بے نقط نثری مجموعہ جو چالیس صفحات کی کہانی ’’سلک گوہر‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ عشق و محبت کی داستان ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کے کلمات زیادہ مستعمل ہوئے ہیں، جیسا کہ ہم اس داستان کے شروع میں دیکھتے ہیں:

در حمد و درود رسول و ولد عمّ وآل اطہار اُو، سلّمہم الملک السلام وکرّمہم، عالم عالم حمد، صحرا صحرا درود، اللہ صمد ودود اور رسول کردگار سر گروہ رسل محمد محمود اور آلہ اطہار ….۔ 

اس کہانی کا مخطوطہ رامپور رضا لائبریری میں ہے، اس کو امتیاز علی خان عرشی نے ۱۹۴۸ء میں تصحیح کے ساتھ رامپور سے ہی شائع کرایا تھا، جس کی نقل راقم کے پاس موجود ہے۔

ولی رازی کی ’’ہادی عالم‘‘: فن عاطل کی دوسری نثر، سیرت طیبہ پر لکھی گئی کتاب ’’ہادی عالم‘‘ ہے، جو ولی رازی کی تصنیف ہے، ان کا پورا نام محمد ولی رازی بن محمد شفیع ہے۔ والد مفتی محمد شفیع اردو کی مشہور تفسیر معارف القرآن کے مفسر ہیں۔ ولی رازی جید عالم، ادیب اور صوفی ہیں۔ اردو زبان میں سب سے پہلی اور منفرد مکمل غیر منقوط سیرت طیبہ ہادی عالم نادر تالیف ہے۔ جس نے برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور اقوام عالم میں اردو داں طبقہ میں بالعموم شہرت پائی، جس کے بعد کئی لوگوں نے ادب کی اس نوع کو تجربہ گاہ بنایا۔ ہادی عالم نے ۱۹۸۳ء میں سیرت کی کتب کے مقابلہ میں پہلا نعام پایا اور حکومت پاکستان کی طرف سے مولف کو دس ہزار روپے انعام و اعزاز دیے گئے۔ کتاب چار سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔ بسم اللہ کے اس غیر منقوط ترجمہ کے ساتھ کتاب کو شروع کیا ہے:

اللہ کے اسم سے کہ عام رحم والا، کمال رحم والا ہے۔ 

شمس الہدی ربانی کی ’’سروں کے سودے‘‘: اس سلسلہ کی تیسری نص بغیر نقطوں کے مغازی پر لکھی گئی کتاب ’’سروں کے سودے‘‘ ڈاکٹر شمس الہدیٰ ربانی کی تالیف ہے۔ جامعہ ربانیہ کراچی میں وہ استاذ الحدیث ہیں۔ جنہیں سیر و مغازی پر پہلی مکمل غیر منقوط کتاب لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ کتاب ۲۰۰۶ء میں لکھی گئی اور ۲۰۰۸ء میں الہلال ٹرسٹ کراچی سے چھپی۔ کتاب ساڑھے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کے شروع میں غیر منقوط فہرست دی گئی ہے۔ نمونہ کے طور پر بسم اللہ کا غیر منقوط ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

اللہ کے اسم (گرامی) سے کہ کلاں رحم والا مہرہ ور ہے۔ 

محمد یٰسین سروہی کی ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘: فن عاطل نثری کی چوتھی نص محمد یٰسین سروہی کی سیرت طیبہ پر لکھی گئی کتب ’’محمد رسول اللہ ‘‘ ہے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ یہ اس فن کی پہلی کتاب ہے، محض اس فن و ادب سے ناواقفیت اور کم علمی ہے، جو کئی دیگر مولفین اور شعراء کی طرح محض دعوی بلادلیل ہے۔ موصوف کی کتاب ضخیم ہے جو ۵۴۴ صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔ نمونہ کے طور پر بسم اللہ کا غیر منقوط ترجمہ ملاحظہ ہو:

اللہ مالک کے اسم سے کہ وہ رحم والا اور کمال رحم والا ہے۔ 

عبدالغفار شیرانی کا غیر منقوط مضمون ’’ملحد گامائی گروہ اور علمائے اسلام کا کردار‘‘: اردو غیر منقوط نثر کا پانچواں شہ پارہ عبدالغفار شیرانی کا فتنۂ قادیانیت کے رد میں علمائے اسلام کی خدمات اور فتنۂ قادیانیت کی مختصر تاریخ پر لکھا گیا مضمون ’’ملحد گامائی گروہ اور علمائے اسلام کا کردار‘‘ ہے۔ جس میں ابتدائے قادیانیت سے لے کر پاکستانی قومی اسمبلی کی مکمل کارروائی تک کو بہت ہی خوبصورت اور سلیس غیر منقوط سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ مضمون کی چند سطور بطور نمونہ دیکھیں:

مکار گورے ہمارے ملک سوداگری کے واسطے وارد ہوئے، مگر سادہ لوح سوسائٹی کھوئے عوام اور سوئے حکام سے مل کر ارادے اور ہوگئے …. اس کالم سے اس ’’داعی رسول‘‘ کا اصل مدعا ہے کہ اس ملحد ’’گامائی گروہ‘‘ کے سرسری کردار کو لکھ کر اس کے گمراہ اعمال و کردار کو معلوم کروا سکے….۔ 

عظیم رائی کی ’’دوسُسردو داماد‘‘: غیر منقوط نثر میں چھٹی نص ابو محمد محمد عظیم رائی کی، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں اپنے موضوع میں منفرد اور پہلی غیر منقوط کتاب ’’دو سسر دو داماد‘‘ ہے۔ کتاب ۱۴۳۲ھ؍ ۲۰۱۱ء میں کراچی سے ادارہ اساس العلم سے چھپی ہے۔ نمونہ کے طور پر بسم اللہ کا غیر منقوط ترجمہ ملاحظہ کریں:

اللہ مالک کے اسم سے کہ وہ عمومی رحم و کرم والا ہے۔ 

کتاب کے ۲۸۴ صفحات ہیں۔

ڈاکٹر طاہر مصطفےٰ کا ’’درس کلام اللہ‘‘: سلسلہ مذکورہ کی لکھتے وقت تک ہمارے ناقص علم میں آخری نص قرآن کریم کا اردو زبان میں مکمل غیر منقوط ترجمہ ہے، جسے ڈاکٹر طاہر مصطفےٰ نے ۲۰۱۳ء میں مکمل کیا ہے  اور ابھی تک مخطوطہ کی صورت میں ان کے پاس موجود ہے، زیور طبع سے آراستہ ہونے کا منتظر ہے۔

اردو غیر منقوط نظم

اب تک جو کچھ قارئین نے ملاحظہ کیا وہ اردو غیر منقوط نثر تھی، جو نظم کے مقابلے میں کم ہے، اب قارئین غیر منقوط نظم کو ملاحظہ فرمائیں:

انشاءاللہ خان انشاء (ت: ۱۲۳۲ھ) کا ’’دیوان بی نقط اور رباعیات‘‘: ہم اردو نثر کی ابتداء میں کہانی ’’سلک گوہر‘‘ کے ذیل میں ذکر کرچکے ہیں کہ انشاءاللہ خان انشاء اردو میں سب سے پہلے غیرمنقوط لکھنے والے ہیں، انشاء نے جیسے اردو غیر منقوط نثر میں جوہر دکھائے، اسی طرح غیر منقوط نظم میں بھی اپنا لوہا منوایا، کلیات انشاءاللہ خان انشاء میں گیارہ صفحات کا دیوان بی نقط موجود ہے، جس کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے:

اور کس کا آسرا ہو سر گروہ اس راہ کا

آسرا اللہ اور آل رسول اللہ کا

اہل عالم کا سہارا کس کام رکھ

ہر سحر گہ آسرا واللہ اوس درگاہ کا

کلیات انشاء میں غیرمنقوط رباعیات بھی موجود ہیں، انشاء اللہ خان انشاء کی کلیات میں عربی، فارسی، ترکی زبان میں بھی غیر منقوط اشعار موجود ہیں، جن کو ان کے مقام پر ذکر کیا جائے گا۔

میر انیس (ت: ۱۲۹۱ھ) کے ’’غیر منقوط مرثیے‘‘: اردو غیر منقوط نظم میں دوسری نص میر انیس کے غیر منقوط مرثیے ہیں، ان کا پورا نام سید ببر علی انیس ہے اور انہوں نے اردو ادب میں میر انیس کے نام سے شہرت پائی۔ وہ شاعر و ادیب اور مشہور مرثیہ گو تھے۔ بغیر نقطوں کے لکھے گئے مراثی میں سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

وہ طاہر و اطہر ہوا گر معرکہ آرا

معلوم ہو حمد اسد اللہ کا سارا

آگاہ ہو کس کہو عمر و کو مارو

صمصام کا اک وار ہوا کس کو گوارا

واللہ اک دم کو صمصام علم ہو

ہر روح کو اس دم ہوس ملک عدم ہو

مرزا دبیر (ت: ۱۲۹۹ھ) کا ’’طالع مہر‘‘: فن عاطل کی نظم میں تیسری نص مرزا دبیر کا دیوان طالع مہر ہے۔ مرزا دبیر کا پورا نام مرزا سلامت علی تھا اور ادبی حلقوں میں مرزا دبیر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی کئی تصنیفات ذکر کی جاتی ہیں، جن میں دیوان عاطلہ ’’طالع مہر‘‘ بھی ہے۔ یہ دیوان سلام، مراثی، قطعات اور رباعیات پر مشتمل ہے۔ اس میں کم و بیش ۵۵۷ غیر منقوط اشعار ہیں (۸۸)۔ اس دیوان میں مرزا دبیر نے اپنا غیر منقوط تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا ہے۔ چند اشعار کا نمونہ پیش ہے:

مداح ہوا مورد امداد رسول

کھولا وہ در مدح کرو داد رسول

حلال مہمّ سرور کل ، مالک ملک

واللہ رسول اور اولاد رسول

صبا متھراوی (ت: ۱۹۸۸ء) کی ’’مصدر الہام‘‘: اس سلسلہ عاطلہ کی چوتھی نص صبا متھراوی کا کلام ہے۔ صبا کا اصل نام رفیع احمد تھا اور ادبی حلقوں میں صبا متھراوی کے نام سے مشہور ہوئے، چونکہ ان کی پیدئش ۱۹۱۴ء میں متھرا (ہند) میں ہوئی۔ اس لیے متھراوی کہلائے۔ وہ شاعر و ادیب تھے(۹۰)، ان کی تالیفات میں غیر منقوط ’’مصدر الہام‘‘ ہے۔ اس میں حمد، مدح رسول اور مختلف عنوانات پر بے نقط رباعیات لکھی ہیں۔ یہ عمدہ تخلیق کا نمونہ ہے:

مسلسل درود اور مسلسل سلام

مدام و مدام و دوام و دوام

حرم ہو ارم ہو محمد کا گھر

دو عالم محمد کا ملک دوام

ہواؤ دکھاؤ محمد کا در

معطر معطر وہ دار السلام

راغب مراد آبادی (ت: ۲۰۱۱ء) کی ’’مدح رسول‘‘: صنعت اہمال میں اردو نظم میں پانچویں نص راغب مراد آبادی کی مدح رسول ہے۔ راغب کا اصل نام سید اصغر حسین تھا۔ وہ بلندپایہ نقاد، ادیب اور شاعر تھے۔ وہ ۱۹۱۸ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور ۲۰۱۱ء میں کراچی میں وفات پائی، متعدد تصنیفات ہیں، ان میں ’’مدح رسول‘‘ غیر منقوط نعتیہ کلام ہے جو ۱۰۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

دل محرم سرور سواد حرم ہوا

اللہ الصمد کہ مسلسل کرم ہوا

محمد کو مراد و مدعا لکھ

دو عالم کا سہارا آسرا لکھ

صادق علی صادق بستوی کی ’’داعی اسلام‘‘: فن غیر منقوط کی چھٹی نص صادق علی انصاری قاسمی، المعروف صادق علی صادق بستوی کی غیر منقوط منظوم مکمل سیرت طیبہ مسمی ’’داعی اسلام‘‘ ہے۔ وہ ۱۹۳۸ء میں اترپردیش بھارت میں پیدا ہوئے، انہوں نے داعی اسلام میں تمام سیرت طیبہ کو منظوم لکھا ہے، حقیقت میں بستوی نے ولی رازی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’ہادی عالم‘‘ کی غیر منقوط نثر کو نظم کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ اس بات کا اظہار وہ خود آغاز میں کچھ یوں کرتے ہیں:

ولی کی ہادی عالم ملی اک علم والے سے

ملا اک حوصلہ دل کو محرر کے مطالعے سے

ملا اک حوصلہ دل کو ملمع کردوں مصرعوں سے

معری اس رسالے کو ، مرصع کردوں مصرعوں سے 

محمد امین علی نقوی (ت: ۱۴۲۷ھ) کی ’’محمد ہی محمد‘‘: اس سلسلہ عاطلہ کی ساتویں نص محمد امین علی نقوی کا مطبوعہ نعتیہ کلام ’’محمد ہی محمد ‘‘ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۵ء جامعہ امینیہ رضویہ آزاد کشمیر سے چھپی جو کہ ۲۲۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو:

وہی ہے ، سارے مکارم کا مصدر و محور

صدائے روح مہاں لا الٰہ الا اللہ

سید مختار علی گیلانی کی ’’محامد وراء المعرا‘‘: صنعت اہمال میں آٹھویں نص سید مختار علی گیلانی کی ’’محامد وراء المعرا‘‘ ہے۔ یہ فن مہمل کا حیران کن ادبی شاہکار ہے، جس میں چھ زبانوں میں غیر منقوط مدح رسول ہے۔ کتاب ۳۰۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس منفرد اور انوکھی تصنیف کی کئی خوبیاں ہیں، جن میں سے راقم صرف دو کو ذکر کرتا ہے:

پہلی خوبی: مصنف نے بیک وقت چھ زبانوں اردو، پنجابی، سرائیکی، عربی، فارسی، انگریزی میں غیر منقوط نعتیہ کلام لکھ کر حیران کردیا ہے۔

دوسری خوبی: اردو نعتیہ کلام میں ایک عجیب و غریب اسلوب اپنایا ہے۔ وہ یہ کہ شاعر نے اردو زبان کے ۱۹ حروف ہجائی غیر منقوط (ٹ، ح، د، ڈ، ر، ڑ، س، ص، ط، ع، ک، گ، ل، م، و، ہ، ء، ی، ے) کو استعمال کرتے ہوئے انیس باب بنائے ہیں اور ہر باب کو ایک غیر منقوط حروف سے خالی رکھا ہے، بایں طور کہ پہلے باب کے اشعار ’’الف‘‘ سے خالی، دوسرے باب کے ابیات کو ’’ٹ‘‘ سے خالی رکھا یعنی غیر منقوط ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اشعار اس حرف سے بھی معرا ہیں، اسی طرح انیس ابواب میں سے ہر باب ایک حرف سے معرا ہے، اس میں دو مشقتیں جمع ہیں۔ اول: غیر منقوط لکھنے کی مشقت کے ساتھ، دوم: ہر باب ایک حرف مہمل سے بھی خالی ہے۔ کسی شاعر نے اس انوکھے اسلوب کے مطابق پہلے لکھا ہے اور نہ ہی بعد میں۔

معرا ’’س‘‘ کی مثال:

والی و مولا وہی عالم کا آمر ہے وہی

ماہ و مہر و لعل و گوہر کا مصور ہے وہی

یوسف طاہر قریشیکی ’’روح عالم‘‘: علم بدیع کی اس مشکل صنعت کی نویں نص یوسف طاہر قریشی کی ’’روح عالم‘‘ ہے۔ کتاب ۱۸۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ نعتیہ اشعار میں سے ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:

سہل ہو راہ مدح محمد

مرے الٰہی مری دعا ہے

مدح طاہر الہامی ہے

مدح رسول کا ملا صلہ ہے

سید تابش الوری کی ’’سرکار دو عالم‘‘: فن عاطل کی دسویں نص سید تابش الوری کی غیر منقوط نعتیہ کلام کی کتاب ’’سرکار دو عالم‘‘ ہے۔ کتاب تین محامد الٰہیہ اور ۳۳ نعتوں پر محیط ۱۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں شاعر نے بے نقط نثر میں تقریظ بھی لکھی ہے۔ کتاب میں سے ایک عمدہ نعتیہ کلام کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:

وراء الوری ہے کمال محمد

وصال علی ہے وصال محمد

کہے گر ہر اک حال سرکار مولا

کہے کوئی کس طرح حال محمد

کامران اعظم سوہدری کی ’’مدح رسول‘‘: صنعت اہمال کی گیارہویں نظم کامران اعظم سوہدری کی غیر منقوط کتاب ’’مدح رسول‘‘ ہے۔ کتاب ایک سوچار صفحات پر مشتمل ہے۔ صاحب کتاب نے کتاب کو ان بیت سے شروع کیا ہے:

ہر سو اس کا عکس ہدی

ہر سو وہ آس عہد روا

منظر پھلواری کی کتب ’’ماہ حرا، والی لولاک اور ارحم عالم‘‘: غیر منقوط فن کی بارہویں، تیرہویں اور چودہویں نظم ماہ حرا، ارحم عالم، والی لولاک منظر پھلواری کی کتابیں ہیں۔ شاعر کا اصل نام عبدالمجید افضل ہے اور غیر منقوط تخلص ’’سائل‘‘ہے۔ راقم کے لکھتے وقت منظر پھلواری کے مذکورہ تین رسائل مہملہ ماہ حرا، ارحم عالم، والی لولاک طبع ہوچکے ہیں۔ شاعر کو ’’ارحم عالم‘‘ کی تصنیف پر ۲۰۱۴ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے اور حکومت پاکستان نے ۳۵۰۰۰؍ روپے اس عظیم ادبی خدمات پر انعام دیا۔ ارحم عالم کا ایک عمدہ نمونہ پیش خدمت ہے:

حد ادراک سے ماورائے گماں

وہ وراء الوری کوئی اس سا کہاں

غیر منقوط روایت فارسی زبان میں

عربی اور اردو میں غیر منقوط روایت کے بیان کے بعد اب ہم فارسی میں غیر منقوط روایت کو بیان کرتے ہیں۔

عبدالرحمٰن جامی (ت: ۸۹۸ھ) کا ’’دیوان بی نقط‘‘: فارسی ادب میں صنعت اہمال میں سب سے قدیم نص، جس تک ہماری رسائی ہوئی، وہ مولانا عبدالرحمٰن جامی کا دیوان بی نقط ہے۔ مولانا جامی کا اصل لقب عمادالدین اور مشہور لقب نورالدین ہے۔ مولانا جامی ۸۱۷ھ میں ’’خرد جام‘‘ میں پیدا ہوئے اور ۸۹۸ھ کو ہرات میں وفات پائی اور وہیں ان کا مزار ہے۔ اپنے زمانہ کے ممتاز عالم، علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر تھے (۱۰۲)۔ مولانا کی کئی تصنیفات ہیں جن میں دیوان بی نقط بھی شامل ہے، جو مطبع نول کشور لکھنؤ سے ۱۸۸۲ء میں طبع ہوا۔ دیوان ۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ مولانا جامی نے دیوان کا آغاز حمد باری سے کیا ہے:

حمد لأحد الہ عالم را

کو روا کردہ کام آدم را

ہمدم لا الٰہ الا اللہ

کر ہر حال محرم دم را

مولانا جامی کا مشہور نام جامی چونکہ منقوط ہے تو عبدالرحمٰن جامی نے دیوان میں غیرمنقوط تخلص ’’مادح‘‘ استعمال کیا ہے:

گاہ دارد رسد ملالم را

مادحا درد را کہ ہمدردم

انشاءاللہ خان انشاء (ت: ۱۲۳۲ھ) کا قصیدہ ’’طور الکلام‘‘: فن غیر منقوط کی دوسری نص حروف معجمہ سے خالی قصیدہ ’’طور الکلام‘‘ ہے جو انشاء اللہ خان انشاء نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی مدح میں لکھا، جو اڑتالیس اشعار پر مشتمل ہے۔ طور الکلام کا مطلع یہ ہے:

ہلاو مروحہ آہ سرد کو گام

کہ دل کو آگ لگاکر ہوا ہو آرام

اس قصیدہ میں انشاء نے چار زبانوں (اردو، عربی، فارسی، ترکی) میں غیر منقوط اشعار لکھے ہیں اور مختلف صنعات سے قصیدہ کو مزین کیا ہے۔ یہ وہ اکلوتا قصیدہ ہے جس میں انشاء نے اپنا غیرمنقوط تخلص ’’لواراد اللہ‘‘ استعمال کیا ہے۔ بطور نمونہ عربی کے عربی اشعار پیش خدمت ہیں:

ہو الإمام و أہل الولا عسکرہ

ہو المطاع و ہادی کل أہل کلام

ہو الإمام لکل الورا ہو الأعلا

مکرم أسد مائل مع الصمصام

احمد مکرم عباسی (ت: ۱۳۱۳ھ) کا ’’قصیدہ مہملہ‘‘: اس فن کی اس زبان میں تیسری نص احمد مکرم عباسی کا قصیدہ مہملہ ہے جو انہوں نے اپنے رسالہ ’’السمع الاسمع‘‘ کے آخر میں لکھا ہے۔ یہ قصیدہ چار صفحات پر مشتمل ہے۔ قصیدہ کا آغاز ان اشعار سے ہے:

صار دار العالم دار السلام

والسلام علی الاوداء الکرام

علم آدم الاسماء کلہا

مدح علم آمد سراسر در کلام

در کلام اللہ آمد مدح علم

علم راس المال آمد لا کلام

مولوی قبول محمد ’’مثنوی سحر حلال و ورد الاسحار‘‘: اس فن کی بے نقط کی چوتھی نص مولوی قبول محمد کا رسالہ مثنوی سحر حلال و ورد الاسحار ہے، جو اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ رسالہ ۱۳۰۹ھ میں لکھنؤ سے طبع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

سالک کہ سر وصال دارد واللہ ہوس محال دارد

دار و دل ما سر کل و مل در صومعہ صد ملال دارد

مرہم درد دل وصال آمد درد دل را دوا محال آمد

راحل مرحل ولاد و داد سالک مسلک کمال آمد

قدرت اللہ بیگ راد ملیح آبادی کی ’’مطالع المحامد اعنی اوراد معصومہ‘‘: فن غیر منقوط کی پانچویں نص مولوی قدرت اللہ بیگ راد ملیح آبادی کا دیوان مہمل ہے، جس کا نام ’’مطالع المحامد اعنی اوراد معصومہ‘‘ ہے۔ یہ دیوان ادبی بلاغی اصناف کا ذخیرہ ہے۔ دیوان ۲۳۶ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں شاعر نے فعل کو انتہائی کم جب کہ اسم اور حرف کو ہی زیادہ تر استعمال کیا ہے اور اس میں اپنا بے نقط تخلص ’’راد‘‘ استعمال کیا ہے۔ ایک عمدہ نمونہ ملاحظہ ہو:

در اکرام صدر معلاء عالم

رکوع سر دوحہ در کوہ و صحرا

در آواء ہر طائر کوہ صحرا

محمد رسول آلہ معلا

ہمہ کوہ و صحراء دہر ممہّد

مع سور آواء مولود والا

علی سلحشوری کی ’’اسرار آمال‘‘: صنعت اہمال کی چھٹی نص علی سلحشوری کا دیوان ’’اسرار آمال‘‘ ہے جو کہ ۵۳ صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔ دیوان کی ابتدا ان ابیات سے ہے:

در عالم سہم سودی دار ہر دم

مدح ہر دم دمی مہمل در عالم

دمار ہمرہ ہم را در آور

کہ مسرع عمر صد گم کردہ آدم

کمال الدین فراہانی کا قصیدہ ’’در وادی مہر‘‘: نقطوں سے خالی صنعت کی ساتویں نص کمال الدین فراہانی کا قصیدہ مہملہ ہے، جو سلطان الاولیاء حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدح میں ہے۔ قصیدہ ۱۱۰ اشعار پر مشتمل ہے، قصیدہ کا نام ’’در وادی مہر‘‘ ہے۔ مذکورہ قصیدہ مکتبہ وثوق قم ایران سے چھپ چکا ہے، جو ۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔

غیر منقوط روایت پنجابی زبان میں: اس صنعت عجیب کو پنجابی زبان کے شعراء نے بھی اپنی جولان گاہ بنایا ہے، جن چیزوں تک ہماری رسائی ہوسکی ہے۔ ان کو ملاحظہ کیجیے:

صائم چشتی (ت: ۲۰۰۰ء) کی ’’صل علی محمد ‘‘: صنعت اہمال کی پنجابی ادب میں پہلی نص صائم چشتی کا منظوم کلام ہے، صائم چشتی کا اصل نام محمد ابراہیم ہے۔ موصوف نبی کریم سرور دو عالم کے مشہور مدح سرا ہیں۔ ان کا ایک ضخیم دیوان کلیات صائم چشتی کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اسی کلیات کے آخر میں ایک غیر منقوط حصہ ’’صل علی محمد ‘‘ کے نام سے پنجابی زبان میں موجود ہے، جو اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہے۔ نمونہ کلام دیکھیے:

رہواں کردا رو رو دعاواں اے مرے مولا

کدی ٹکڑے در علی دے کھاواں اے مرے مولا

علی دے واسطے کرکے عطاواں لاہ دوو کدھرے

مرے درد و الم داگل گلاواں اے مرے مولا

زاہد مجید کامل کی ’’آمل ماہی‘‘: غیر منقوط فن کی دوسری نص زاہد مجید کامل کا کلام ہے۔ شاعر کا اصل نام زاہد مجید ہے اور تخلص ’’کامل‘‘ ہے۔ انہوں نے پنجابی زبان میں غیر منقوط مکمل کتاب ’’آمل ماہی‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ کتاب ۲۰۰۸ء میں بہاولپور سے مصنف نے خود طبع کرائی۔ آمل ماہی ۷۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی ابتدا ان اشعار سے کی:

لاواں ہوک اسی دی اللہ ساڈا مولا

او حاکم کل عالم وسے کرکے اولا

اللہ ساڈی روح دا مالک ساہاں کولوں کو لے

للہ ساڈا مولا کہڑی گل دا رولا

کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ شاعر نے ہر شعر کا پہلا لفظ کلمہ توحید ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے حروف میں سے ایک حرف کو بالترتیب بنایا ہے۔ نمونہ کے طور پر ’’لا‘‘ یعنی الف اور لام سے شروع ہونے والے الفاظ درج بالا اشعار کی ابتدا میں ملاحظہ ہوں۔

منقوط روایت: راقم پہلے ذکر کرچکا ہے۔ یہ کاری گری اور فنکاری کے ساتھ حروف ہجائیہ منقوطہ جیسے (ب) اور غیر منقوطہ جیسے (ح) کو نظم اور نثر میں پرو کر کلام میں تنوع پیدا کرنا ہے۔ جس کا تعلق محسنات لفظیہ سے ہے جو علم بدیع کی ایک مشکل نوع ہے، غیر منقوط یا مہمل کے مقابلے میں منقوط یا معجم حروف کے ساتھ لکھنے کا فن ہے، اس میں کاتب وہ حروف استعمال کرتا ہے جو صرف نقطوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اگرچہ دونوں کا تعلق محسنات لفظیہ بدیعیہ سے ہے اور دونوں مشکل نوع سے تعلق رکھتے ہیں، مگر فن منقوط غیر منقوط سے کہیں زیادہ مشکل اور ادق ہے، اس لیے اس فن میں بہت ہی کم لکھا گیا ہے، زبان و ادب کے شہسواروں نے صرف چند سطور ہی لکھیں، مثال کے طور پر ہم ملک الشعراء ابو الفیض فیضی کو دیکھتے ہیں، راقم کے ناقص علم کی حدتک عربی نثر میں غیر منقوط فیضی سے زیادہ اب تک کسی لکھنے والے نے نہیں لکھا، فیضی نے دو ضخیم تصنیفات موارد الکلم اور سواطع الالہام لکھیں، جب منقوط لکھا تو فقط چھ سطور ہی لکھ پائے، ایسے ہی ہم آنے والے صفحات میں علم و ادب کے کوہ گراں اور ادب مہمل کے مایہ ناز سوار جن کی اس فن میں خدمات جلیہ و جلیلہ کو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ ان سے بھی انتہائی کم منقوط کلام کاغذ کے سپرد ہوسکا، آئیے! اب ہم صنعت معجمہ میں ادبی کام کو ذکر کرتے ہیں:

علامہ حریری (ت: ۵۱۶ھ) کا ’’قصیدہ معجمہ‘‘: صنعت اعجام یعنی فن منقوط کی پہلی نص علامہ ابومحمدالقاسم حریری کا قصیدہ معجمہ ہے جو انہوں نے اپنی مقامات میں تحریر فرمایا ہے، یہ قصیدہ معجمہ چھ اشعار پر مشتمل مقاملہ حلبیہ میں موجود ہے۔ اس کا مطلع یہ ہے:

فتنتني فجنتني تجني بتجن یفتن غب تجني

شغفتني بجفن ظبي غضیض غنج یقتضي تغیض جفني

صفی الدین حلی (ت:۷۵۰ھ) کا ’’قصیدہ معجمہ‘‘: صنعت منقوط کی دوسری نص صفی الدین علی کا ’’قصیدہ معجمہ‘‘ ہے، جس میں پندرہ اشعار ہیں۔ قصیدہ کا آغاز ان ابیات سے ہوتا:

فتنت بظبي بغی خیبتي بجفن تفنن في قینتي

تجني فبت بجفن یفیض فخیبت ظني في یقظتي

ابو الفیض فیضی (ت:۱۰۰۴ھ) کا موارد الکلام میں’’خاتمہ معجمہ‘‘: اس سلسلہ منقوط کی تیسری نص ملک الشعراء فیضی کا ’’موارد الکلم‘‘ کا منقوط اختتام ہے، جو ساڑھے چھ سطور پر مشتمل ہے۔ اس خاتمہ معجمہ کا ابتدائی حصہ پیش خدمت ہے:

ثبت فیضي نقش فیض غني نبذۃ قنیۃ نبي خزینۃ فضۃ فیضیۃ …. ۔

ناصیف الیازجی (ت:۱۲۵۹ھ) کا ’’قصیدہ معجمہ‘‘: صنعت اعجام کی چوتھی نص مشہور ادیب ناصیف الیازجی کا قصیدہ معجمہ ہے، جو انہوں نے اپنی کتاب ’’مجمع البحرین‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ قصیدہ کا مطلع یہ ہے:

بشجي یبیت في شجن فتن ینتشبن في فتن

عبدالاحد بن امام علی الٰہ آبادی (ت:۱۳۰۷ھ) کی ’’جب شغب یا فیض غیب‘‘: اس انتہائی کم یاب منقوط صنعت کا ضخیم ادبی شاہکار قرآن کریم کے آخری پارے کی منقوط تفسیر ہے، جس کو عبدالاحد بن امام علی الٰہ آبادی نے تحریر کیا ہے اور اس منقوط تفسیر کا نام ’’جب شغب‘‘ یا بعض کتب کے مطابق ’’فیض غیب‘‘ رکھا۔ مفسر نے سورہ فاتحہ کی بھی غیر منقوط تفسیر لکھی ہے، جس کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

الحمد للّٰہ یثني ثنیۃ

رب العالمین یغذي غذیۃ

الرحمٰن الرحیم یفضي فیض جیب

مرزا جمال الدین کرمانی (ت:۱۳۵۱ھ) کا ’’خطبہ منقوشہ‘‘: فن منقوط کی چھٹی نص مرزا جمال الدین کرمانی کا خطبہ منقوطہ ہے، جو انہوں نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’اسس الاصول‘‘ میں لکھا ہے اور اس کا نام خطبہ منقوشہ رکھا ہے۔ کیونکہ کثرت نقاط نے اس خطبہ کو نقش و نگار سے مزین کردیا ہے۔ یہ خطبہ نو اشعار پر مشتمل ہے۔ آغاز خطبہ ان کلمات منقوطہ سے ہے:

تثبث بیقین ینتج نتیجۃ تتقن

ثبت خشیۃ یتب تب قن

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

محمد ریاض کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *