Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Manqoot Aur Ghair Manqoot Tahreero Ki Rivayat, منقوط اور غیر منقوط تحریروں کی روایت

Manqoot Aur Ghair Manqoot Tahreero Ki Rivayat, منقوط اور غیر منقوط تحریروں کی روایت

مصنف: محمد ریاض

جب ہم منقوط اور غیر منقوط روایت میں غور و فکر اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یقین اور مشاہدہ سے دیکھتے ہیں کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے نے اپنی ذات کے لیے جس نام کو چنا وہ غیر منقوط حروف پر مشتمل ہے اور اس ذات نے اپنے پہلے خلیفہ، پہلے انسان، پہلے نبی ابوالبشر آدم علیہ السلام کا نام وہ رکھا جو بغیر نقطہ کے حروف کو سمیٹے ہوئے ہے، اور ہر انسان کی پہلی ماں حواء کا نام غیر منقوط حروف کو لپیٹے ہوئے ہے۔ ہمارے اور پروردگار عالم کے حبیب، اولین و آخرین کے سردار کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری زبانوں، ذہنوں اور کانوں میں رس گھولتا بغیر نقطوں کے حروف کو گھیرے ہوئے ہے۔ اور وہ قول ثابت جس کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر نبی محترم کو مبعوث کیا اور فرمایا:

یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ

جو لوگ ایمان لائے ہیں اللہ پر ان کو اس مضبوط بات پر دنیا کی زندگی میں بھی جماؤ عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔

’’لا الہ الا اللہ‘‘ حروف مہملہ سے مزین ہے، کلمہ توحید کا دوسرا حصہ ان لوگوں کے لیے جو نبی امیؐ پر ایمان لائے۔ ’’محمد رسول اللہ‘‘ بھی غیر منقوط حروف پر مشتمل ہے، ترتیب توفیقی میں جہانوں کے پروردگار کا اول کلام ’’الحمد للّٰہ‘‘ حروف مہملہ سے ملبوس ہے۔

مہمل اور معجم کی اصطلاح: نظم و نثر میں منقوط اور غیر منقوط حروف کا استعمال ’’حذف‘‘ کا ایک جز ہے اور حذف علم بدیع میں محسنات لفظیہ کی ایک نوع میں سے ہے، جیسا کہ صفی الدین حلی کہتے ہیں:

حذف کی اس تعریف سے معلوم ہوا کہ مہمل اور معجم حذف کا جز ہیں۔

مہمل اور معجم: یہ کاری گری اور فنکاری کے ساتھ حروف ہجائیہ منقوط جیسے (ب) اور غیر منقوط جیسے (ح) کو نظم اور نثر میں پرو کر کلام میں تنوع پیدا کرنا ہے، نقطہ والے حروف کو معجمہ اور بغیر نقطہ والے حروف کو مہملہ کہا جاتا ہے۔

اسی طرح صنعت مہملہ کے لیے کئی دیگر نام بھی استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً عاطل، عاطلہ، معرا، بغیر نقط یا نقاط ، نقطوں سے خالی، صناعۃ یا صنعۃ اہمال، معجمہ کا غیر، حروف معجمہ سے خالی۔ بعض متاخرین یعنی بعد میں آنے والوں نے مہملہ اور معجمہ کی مختلف صورتوں کے لیے نئی اصطلاحیں ایجاد کی ہیں اور ان کو مختلف نام دیے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:

عاطل، عاطل العاطل، حالی، رقطاء یا مرقط، خیفاء، ملمعہ وغیرہ، ہم ان اصطلاحات کی تعریف کو مثالوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، تاکہ اس فن کے قارئین اور مبتدئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

عاطل: عاطل وہ کلام ہے جو ایسے حروف کی عبارت پر مشتمل ہو، جس کی تحریری صورت میں نقطہ نہ آتا ہو۔ مثلاً ا، س، ک اور م وغیرہ۔ عاطل کی مثال ناصیف الیازجی کے یہ شعر ہیں:

الحمد للہ الصمد حال السرور والکمد

اللہ لآ إلہ الا اللہ مولاک الأحد

حالی: عاطل کے متضاد یعنی وہ کلام جو ایسے حروف پر مشتمل ہو، جن کی تحریری صورت میں نقطہ آتا ہو اور اس کے تمام حروف نقطہ دار ہوں، اس کو حالی کہا جاتا ہے، مثلاً ب، ت، ث، ج وغیرہ۔ کلام حالی کی مثال علامہ حریری کے یہ اشعار ہیں:

فتنتني فجنتني تجني بتجن یفتن غب تجني

شغفتني بجفن ظبي غضیض غنج یقتضي تغیض جفني

عاطل العاطل: عاطل العاطل وہ کلام کہلاتا ہے جو ایسے حروف کی عبارت پر مشتمل ہو، جن کی تحریری صورت اور نام میں نقطہ نہ آتا ہو۔ (ح، د، ر، ص، ط، ل، و، ہ) یازجی کا شعر دیکھیے

حول در حل ورد ہل لہ للحر ورد

رقطاء ؍ مرقط: رقطاء وہ کلام جو ایسے کلمات پر مشتمل ہو کہ ان میں ایک حرف معجم یعنی منقوط اور دوسرا مہمل یعنی نقطوں سے خالی ہو۔ 

اس کی مثال بھی الیازجی کا یہ شعر ہے:

وندیم بات عندي لیلۃ منہ غلیل

خاف من صنع جمیل قلت: لي صبر جمیل

خیفاء: وہ کلام کہلاتا ہے جس میں ایک کلمہ منقوطہ اور دوسرا کلمہ غیرمنقوطہ آتا ہے۔ (۱۲) مثال کے طورپر

ظبیۃ أدماء تغني الأملا

خیبت کل شجي سألا

ملمعہ: اس میں شاعر شعر کا ایک مصرع غیر منقوط اور دوسرا مصرع منقوط لاتا ہے۔ یعنی ایک بند نقطہ دار اور دوسرا بند بغیر نقطہ کے۔ (۱۴) جیسا کہ ناصیف الیازجی نے اپنے شعر میں کیا ہے۔

أسمر کالرمح لہ عامل

یغضي فیقضي نخب شیق

مہمل اور مستعمل: جب لفظ مہمل مستعمل کے مقابل استعمال ہو تو اس سے مراد وہ لفظ ہوتا ہے جوکسی معنی کے لیے نہ بنایا گیا ہو اور مستعمل سے مراد وہ لفظ ہوتا ہے جو کسی معنی کے لیے بنایا گیا ہو۔(۱۶) مثلاً روٹی ووٹی، پانی وانی، اس میں ووٹی اور وانی مہمل ہیں، روٹی اور پانی مستعمل ہیں۔

نوٹ: اس مضمون میں مہمل سے مراد بغیر نقطوں والا کلام ہوگا۔

خلاصۂ کلام: راقم کی رائے میں اس صنعت کا مدار و محور کلام کو ایسے طور پر مرتب اور متشکل کرنا ہے کہ وہ نقطوں سے خالی ہو، اس میں قاری اور سامع کے فائدے اور فہم کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ لکھنے والا اس محنت اور کوشش میں قوت صرف کرتا ہے کہ نثر اور نظم غیر منقوط کے لیے بغیر نقطوں کے الفاظ و حروف کو مختلف لغات اور مقامات سے کھینچ کر لایا جائے تاکہ لوگوں کی عقلوں اور فکروں کو متاثر کیا جاسکے، ادب کی یہ نوع بہت ہی مستعمل ہے پھر بھی بعض علماء ، ادباء اور شعراء نے حروف مہملہ اور معجمہ کے ساتھ کلام کو آراستہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں غیر منقوط نظم و نثر، منقوط نظم و نثر سے زیادہ لکھی گئی ہے، عرب و عجم کا مہمل اور معجم نظم و نثر جس سے ہم واقف ہیں، اس کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے عربی زبان کے غیرمنقوط ادبی نظم و نثر کو، اس کے بعد دیگر زبانوں میں صنعت مہملہ (غیر منقوط) کا ذکر۔

عرب میں غیر منقوط کی روایت: عربی ادب میں اس فن کے حوالے سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے، اس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ فن کچھ اس طرح ظہور پذیر ہوا کہ عرب میں اسلام کی آمد سے پہلے اور اسلام کے ابتدائی زمانہ تک بغیر نقطوں کے لکھنے کا رواج تھا، یعنی ا، ب، ت، ث، ج، ح، خ وغیرہ حروف تہجی سے ملے الفاظ لکھے جاتے مگر ان پر نقطے نہ لگائے جاتے، بعض کتابوں میں ہے کہ تنقیط کو عیب جانا جاتا، جب کلمۂ اسلام عرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور غیر عرب اور عربی زبان سے انجان اقوام دائرہ اسلام میں کثرت سے داخل ہوئیں تو ان نووارد لوگوں کے لیے مشکل عربی زبان سے ناواقفیت اور پھر عربی کلام کا بغیر نقاط ہونا دہری مشقت تھی۔

اس مشکل کے حل کے لیے بعض روایتوں کے مطابق جناب سیدنا علیؓ کے حکم سے ابوالاسود الدائلی نے اور بعض کے ہاں حجاج بن یوسف نے اپنے دور حکومت میں کلام پاک کی تنقیط ، تنقیش، تشکیل کا کام سر انجام دیا گیا۔ بہرحال جب تک عربی زبان بغیر نقطوں کے لکھی جاتی رہی، اس وقت تک منقوط اور غیر منقوط کلام کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ تنقیط کے بعد ہی منقوط اور غیر منقوط نظم و نثر وجود میں آئی اور آگے چل کر اس فن مہمل و معجم کو ادبا و شعرا نے مختلف صورتوں اور شکلوں میں استعمال کیا اور ان کو مختلف نام دیے، مثلاً کچھ لوگوں نے غیر منقوط قصائد لکھے، بعض نے اس فن کے ذریعہ جناب نبی کریمؐ کی تعریف کی اور کچھ لوگوں نے اس فن غیر منقوط کے ساتھ قرآن کریم کی تفسیر کی اور بعض نے اہل بیت علیہم التسلیمات و البرکات کی مدح اور رثاء کو اس فن میں پیش کیا اور عجب یہ کہ کچھ لوگوں نے تو تصوف کے اسرار و رموز کی اس فن کے ذریعہ تشریح کی اور کچھ حضرات نے اس فن میں نظم و نثر کو بادشاہوں سے انعام و اکرام وصول کرنے کا ذریعہ بنایا۔ اب ہم فن غیر منقوط اور منقوط کے ادبی کاموں کو اختصار کے ساتھ قارئین کی نذر کرتے ہیں۔

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا ’’بے نقط خطبۂ نکاح‘‘: اس فن کی سب سے قدیم نص جو ہم تک پہنچی ہے۔ وہ غیر منقوط خطبہ نکاح ہے جو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منسوب ہے کہ آپؓ پہلے شہسوار ہیں، جنہوں نے اس فن میں ابتدا کی، اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہے:

’’الحمد للہ الملک المحمود، المالک الودود، مصور کل مولود، ومآل کل مطرود ….‘‘۔

اس خطبہ کی نسبت جناب سیدنا علیؓ کی طرف ہونا محل نظر ہے، صاحب الاغانی ابوالفرج الاصفہانی کے مطابق سب سے پہلے ابن ھرمہ نے عرب میں غیر منقوط کلام لکھا۔

ڈاکٹر لیث داؤد سلمان استاذ جامعہ بصرہ عراق کی تحقیق کے مطابق یہ خطبہ علامہ حریری (۵۱۶ھ) کا مقامات حریری میں ذکر کردہ خطبہ ہی ہے، جس کو بعد کے لوگوں نے سیدنا علیؓ کی طرف بلاسند منسوب کردیا۔ 

راقم کی رائے میں بھی یہ خطبہ سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ آپؓ کے زمانہ میں بغیر نقطوں کے ہی لکھا جاتا تھا، تنقیط و تشکیل کا کام اموی دور میں کیا گیا، جس کی تفصیل علامہ دانی کی کتاب ’’المحکم في نقط المصاحف‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

ابراہیم بن ھرمہ (ت: ۱۷۶ء) کا ’’بے نقط قصیدہ‘‘: اس فن مہمل کی دوسری نص اور عبارت وہ بلا نقط قصیدہ ہے۔ جسے ابراہیم بن ہرمہ شاعر الدولتین (اموی و عباسی) نے لکھا ہے۔ ابن ھرمہ کی پیدائش اور وفات دونوں کی تاریخ میں اختلاف ہے بعض کے ہاں ابن ہرمہ کی پیدائش ۷۰ھ اور وفات ۱۵۰ھ کے بعد ہے اور بعض کی رائے میں ان کی پیدائش ۹۰ھ اور وفات ۱۷۶ھ میں ہوئی ہے۔ تحقیقی طور پر ابن ہرمہ پہلا شخص ہے جس نے عربی ادب کی تاریخ میں پہلا غیرمنقوط قصیدہ لکھا ہے، جیسا کہ ابوالفرج الاصفہانی اپنی مشہور کتاب ’’الاغانی‘‘ میں لکھتے ہیں:

ابن ھرمہ کے قصیدہ سے پہلے کسی نے اس بابت نہیں لکھا، اس قصیدہ میں چالیس اشعار ہیں، جن میں ایک حرف بھی منقوط نہیں ہےاور کتاب الاغانی میں بارہ اشعار ذکر کیے ہیں۔ جن کا مطلع یہ ہے:

أرسم سودہ أمسی دارس الطلل

معطلا ردہ الأحوال کالحلل

تیسری عبارت اس فن میں جو منقوط غیر منقوط کی تمام انواع و اقسام کو شامل ہے، وہ ابو محمد قاسم بن علی بن محمد بن عثمان بصری حریری کی ہے۔ وہ صاحب مقامات حریری ہیں، ہم تمام انواع کو مثالوں کے ساتھ علامہ حریری کے مقامات کا ترتیب سے ذکر کرتے ہیں، صنعت اہمال میں سے خیفاء یعنی پہلا کلمہ غیر منقوط دوسرا منقوط کو چھٹے مقامہ میں ذکر کیا ہے اور اس مقام کا نام مقامہ مراغیہ رکھا ہے، اس کو ان الفاظ سے شروع کیا:

واللؤم غض الدھر جفن حسودک یشین

اس مقامہ اور مابعد میں صاحب مقامات نے تائے مربوطہ (ۃ) کو (ھاء) بغیر نقطوں کے لکھا ہے۔

علامہ حریری چھبیسویں مقامہ میں صنعت اہمال کی صورتوں میں سے رقطاء کو لائے ہیں، رقطاءیعنی ایسے کلمات کو استعمال کیا کہ ایک حرف مہمل ہے دوسرا حرف معجم، اس نوع کو علامہ حریری نے اس طرح شروع کیا:

أخلاق سیدنا تحب، وبعقوتہ یلب، وقربہ تحف، ونأیہ تلف، وخلتہ نسب، وقطیعتہ نصب، وغربہ ذلق، وشہبہ تأتلق، وظلفہ زان، وقویم نہجہ بان، وذہنہ قلب جرب۔ 

اٹھائیسویں مقامہ (سمرقندیہ) میں صنعت اہمال کی انواع میں سے عاطل کو لائے ہیں، عاطل یعنی وہ حروف جن کی تحریری صورت میں نقطہ نہ آتا ہو، اس مقامہ میں یہ صنعت ایک خطیب کے خطبہ میں یوں استعمال کی ہے:

الحمد للہ الممدوح الأسماء، المحمود الآلاء، الواسع العطاء، المدعو لحسم اللآواء، مالک الأمم ومصور الرم …. ۔ (۲۳) یہ خطبہ تقریباً چار صفحات پر مشتمل ہے۔

انتیسویں مقامہ واسطیہ میں صنعت عاطل کو استعمال میں لائے ہیں یہاں بھی یہ صنعت خطیب کے خطبہ پر مشتمل ہے۔ جس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے:

الحمد للہ الملک المحمود، المالک الودود، مصور کل مولود، ومآل کل مطرود، ساطع المہاد ومؤطد الأطواد ومرسل الأمطار۔  یہ خطبہ دو صفحات پر مشتمل ہے۔

چھیالیسویں مقامہ حلبیہ میں علامہ حریری نے اس صنعت عاطلہ سے شعر کی صورت میں ایک قصیدہ مہملہ لکھا ہے اور اس کا نام ’’العواطل‘‘ رکھا ہے جو دس اشعار پر مشتمل ہے، مطلع یہ ہے:

اعدد لحسادک حد السلاح وأورد الآمل ورد السماح

وصارم اللہو ووصل المہل واعمل الکوم وسمر الرماح

اس مقامہ میں صاحب مقامات حریری ایک قصیدہ صنعت اہمال میں سے خیفاء (ایک کلمہ منقوطہ اور دوسرا کلمہ غیر منقوطہ) لائے ہیں اور اس کا نام ’’اخیاف‘‘ رکھا ہے۔ جو کہ خیفاء کی جمع ہے، اس قصیدہ کا مطلع یہ ہے:

إسمع فبث السماح زین ولا تخب آملا تضیف

ولا تجز رد ذي سؤال فنن أم في السؤال خفف

مذکورہ مقامہ میں علامہ حریری ایک قصیدہ منقوطہ بھی لائے ہیں، ہم اس کو منقوط روایت کے بیان میں ذکر کریں گے۔

ابوالفضل الاوانی (ت: ۵۶۱ھ) کا ’’قصیدہ مہملہ‘‘: ادب کی اس عجیب نوع کی چوتھی مثال، ابوالفضل الاوانی جن کا پورا نام سعید بن یوسف بن الحسن سمرۃ الکاتب الاوانی ہے (۲۷)، کا قصیدہ غیرمنقوطہ ہے، جس میں بارہ اشعار ہیں، جن کی ابتدا ان اشعار سے ہوتی ہے:

مسلک الأمر دام أمرک مسمو عامطا عاما حال حول و حال

و رعاک الالہ ما ہمر الرء دوما دام للودود وصال

صفی الدین حلی (ت :۷۵۰ھ) کا ’’قصیدہ مہملہ‘‘: اس سلسلے کی پانچویں عبارت ہمیں صفی الدین حلی کی ملتی ہے، جن کا اصل نام عبدالعزیز بن سرایا بن علی بن القاسم السنبسی الطائی ہے۔ صفی الدین حلی مقام حلہ (کوفہ اور بغداد کے درمیان) میں ۶۷۶ھ کو پیدا ہوئے اور وہیں ۷۵۰ھ کو وفات پائی (۲۹)، ان کے دیوان میں قصیدہ غیر معجمہ ہے، جس کا نام انہوں نے ’’کم ساھر‘‘ رکھا ہے۔ اس میں پندرہ اشعار ہیں جن کی ابتدا ان اشعار سے ہوتی ہے:

کم ساھر حرم لمس الوساد وما أراہ سؤلہ والمراد

ما سھر الوالہ معط وصلا ولو داوم طول السہاد

نورالدین ناشری (ت : ۸۱۲ھ) کا ’’نقطوں سے خالی خط‘‘: روایت غیر منقوط کی چھٹی نص نورالدین ناشری کا خط بے نقط ہے، جن کا اصل نام علی بن محمد بن اسماعیل بن ابی بکر بن عبداللہ بن عمربن عبدالرحمٰن الناشری الزبیدی الیمنی ہے۔ لقب نورالدین اور کنیت ابوالحسن ہے۔ یمن کے سلطان ’’اشرف‘‘ سے ملاقات کی اور اس کو غیر منقوط خط جو سلطان کی مدح میں تھا، پیش کیا۔ جس کا آغاز ان کلمات سے کیا:

أعلی اللہ سمـاء سمـو عـلاک، ورعـاک صدورا وحمـاک، وأسمی أسمـاک علی السمـاک….-

یوسف شربینی (ت : ۱۰۹۸ء) کی ’’طرح المدر لحل اللألاء والدرر‘‘: فن عاطلہ کی ساتویں نص نظم و نثر کی صورت میں یوسف الشربینی کی طرح المددر لحل اللألاء الدرر ہے۔ شربینی کا پورا نام یوسف بن محمد بن عبدالجواد بن خصر الشربینی المصری ہے (۳۲)۔ دراصل یہ کتاب ایک قصیدہ کی شرح ہے، قصہ یہ ہے کہ یوسف شربینی نے ۷۹ غیر منقوط اشعار پر مشتمل ایک طویل قصیدہ لکھا اور اس کا نام’’اللألاء الدرر‘‘ رکھا، معاصرین نے حسد کیا اور شربینی کو چیلنج کیا کہ اس قصیدۂ بے نقط کی بے نقط شرح لکھ کر پیش کی جائے تو صاحب قصیدہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور مہمل نثر میں اس قصیدہ مہملہ کی شرح لکھ ڈالی اور اس کا نام ’’طرح المدر لحل اللألاء الدرر‘‘ رکھا۔ اس کتاب کو مولف نے ایک خطبہ سے شروع کیا:

الحمد للہ مالک الممالک وعالم کل سالم وہالک، الواحد الأحد، السلام الصمد، لا والد ولا ولد، لا حد لدوامہ ولا أمد، علم عدد الرمل وأحصاہ، وعم اہل الہدی کرمہ وعلاہ….۔

سید تاج قابسی (ت : ۱۰۹۸ھ) کا رسالہ ’’اکمال الدرالہاطل لعلاء الادوار العاطل‘‘: اس کمیاب فن کی آٹھویں نص سید تاج قابسی کا وہ رسالہ غیر منقوطہ ہے جو یوسف شربینی کے مذکورہ غیر منقوط قصیدہ ’’اللألاء والدرر‘‘ کی تشطیر ہے (جب کسی شاعر کے شعر کے دو مصرعوں کے بیچ میں موضوع سے ہم آہنگ مزید دو تضمینی مصرعوں کا اضافہ کردیا جاتا ہے، تو اس صنعت کو تشطیر کہتے ہیں)۔ یہ مخطوط کی صورت میں تقریباً چالیس صفحات پر مشتمل ہے اور ابھی تک طبع نہیں ہوسکا۔ جس میں پند و نصائح ہیں۔ رسالہ کی ابتدا ایک خطبہ کے ان الفاظ سے ہے:

الحمد للہ عالم الأسر، وراحم أہل الإصرار، علم کل مراد معلوم، واطلع علا الموہوم و صور کل صور و رسمہ إما مسعدا أو مطرودا ..۔

عبداللہ یوسفی (ت : ۱۱۹۴ھ) کی ’’موارد السالک لا سہل المسالک‘‘: مذکور ادبی نوع کی نویں نص عبداللہ یوسفی کی ہے۔ جن کا پورا نام عبداللہ بن یوسف بن عبداللہ الحلبی الیوسفی ہے، جو ایک بلندپایہ ادیب نظم و نثر نگار اور مورخ ہیں۔ ان کی پیدائش و وفات حلب میں ہوئی (۳۵)۔ ان کی غیر منقوط کتاب اخلاقیات میں لکھی گئی ہے، جس کا نام ’’موارد السالک لا سہل المسالک‘‘ ، اس میں تمام غیر منقوط حروف استعمال ہوئے ہیں، اس میں لکھی گئی تقاریظ بھی غیر منقوط ہی ہیں، ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

اعلم رحمک اللہ وہداک اللہ وأہلک العمل وأولاک علم السلوک علم حکمہ ومدح حدہ ورسمہ وسما لأہل الأسعاد علمہ واسمہ مدرکہ أکمل المدارک وسلکہ أسہل المسالک أصل کل معلوم وأس کل موسوم رداء أہل المحامد ….۔

علی بن محمد آمدی (ت :۱۲۱۰ھ) کی ’’سورہ فاتحہ کی بے نقط تفسیر‘‘: عرب میں قرآن کریم کی بے نقط تفسیر کے سلسلہ میں پہلی غیر منقوط تفسیر مفتی آمد علی بن محمد حزوری آمدی شافعی کی ہے، جس کا صاحب ایضاح المکنون نے ذکر کیا ہے۔

مفتی ماردین عبدالسلام (ت :۱۲۵۹ھ) کی ’’سورہ فاتحہ کی بے نقط تفسیر‘‘: بے نقط تفسیر کے سلسلہ میں دوسری نص سورہ فاتحہ کی وہ غیر منقوط تفسیر ہے، جس کو مفتی ماردین عبدالسلام بن عمر بن محمد حنفی مادرینی نے لکھا ہے۔

ناصیف الیازجی (ت : ۱۲۸۷ھ) کا ’’مقامہ‘‘: غیر منقوط فن کی مجموعی طور پر تیرہویں نص مشہور ادیب ناصیف الیازجی کی تخلیق ہے۔ ان کا پورا نام ناصیف بن عبداللہ بن ناصیف بن حنبلاط ہے، جو الیازجی کے نام سے مشہور ہیں۔ اپنے زمانہ کے بڑے ادباء اور شعراء میں سے تھے۔ انہوں نے ہمدانی اور حریری کے طرز پر مقامات لکھی اور اس کا نام ’’مجمع البحرین‘‘ رکھا۔ اس میں منقوط غیرمنقوط کی تمام انواع میں اشعار قلم بند کیے۔ یہ کام انہوں نے پندرہویں مقامہ ’’مقامہ رملیہ‘‘ میں بخوبی سر انجام دیا ہے، راقم اس مضمون کے شروع میں عاطل، عاطل العاطل، رقطاء، خیفاء وغیرہ کی تعریف میں سب کی مثالیں مجمع البحرین سے ذکر کرچکا ہے، وہاں دیکھ لی جائیں۔ مزید برآں یہ کہ شیخ ناصیف الیازجی نے منقوط قصیدہ بھی لکھا ہے، جس کو ہم منقوط روایت میں ذکر کریں گے۔

شیخ محمود حمزاوی (ت : ۱۳۰۵ھ) کی غیر منقوط تفسیر ’’در الاسرار‘‘: غیر منقوط کی چودہویں نص شیخ محمود الحمزاوی کی غیر منقوط تفسیر ’’درالاسرار‘‘ ہے۔ شیخ محمود حمزاوی کا پورا نسب یہ ہے:

سید محمود آفندی حمزاوی بن محمد نسیب بن حسین بن یحییٰ بن حسن بن عبدالکریم اور وہ اپنے آباء اور اسلاف کی طرح ابن حمزۃ الحمزاوی الحسینی الحنفی الدمشقی کے نام سے مشہور ہیں (۳۹)۔ سلسلہ نسب سیدنا علیؓ سے جا ملتا ہے (۴۰)۔ شیخ محمود حمزاوی کے نام کو مختلف طریقوں اور نسبتوں سے ان کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے اور اصحاب تراجم نے ایسے ہی مختلف نسبتوں سے ذکر کیا ہے۔

’’دلیل الکمل الی الکلم المہمل‘‘: یہ دنیا میں عربی زبان کی عرب میں پہلی مہمل معجم ہے۔ شیخ محمود حمزاوی نے اپنی تفسیر در الاسرار لکھنے سے پہلے مختلف معاجم اور تفاسیر وغیرہ سے بے نقط الفاظ کو جمع کیا اور ایک کاپی میں لکھا اور اپنی شہرہ آفاق تفسیر کو لکھنے کے لیے اس معجم کو کام میں لائے، جیسا کہ اس کی تفصیل دلیل الکمل کے مقدمہ میں شیخ محمود حمزاوی نے خود بیان کی ہے۔

یہ غیر منقوط ڈکشنری پہلی مرتبہ ۱۸۸۹ء میں مطبع ادبیہ، قاہرہ سے چھپی۔ اس طبع میں یہ لغت مہمل ۷۱ صفحات پر مشتمل تھی۔ اس کا ایک نسخہ کنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض کی لائبریری میں موجود ہے، جس کا طلب نمبر (۲۲۷۰۱ م م د) ہے۔ دوسری بار یہ لغت بے نقط نئی اور دیدہ زیب صورت میں دسمبر ۲۰۱۵ء کو دار المقتبس، بیروت سے چھپی ہے۔ اس طبع میں اس کے صفحات ۱۵۷ ہیں۔ یہ غیر منقوط معجم اس فن کے شائقین کے لیے انمول تحفہ ہے۔

’’در الاسرار‘‘: در الاسرار ۱۲۷۴ھ میں لکھی گئی۔ اس کا ایک مخطوطہ یونیورسٹی آف مشیگان امریکہ میں موجود ہے، جو ۴۵۴ صفحات پر مشتمل ہے (۴۲)۔ اس میں قرآنی نص اور تفسیر میں فرق ظاہر کرنے کے لیے نص قرآنی کے لیے سرخ روشنائی اور تفسیر کے لیے سیاہی استعمال کی گئی ہے۔ راقم کی رائے کے مطابق یہ مخطوطہ شیخ حمزاوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے راقم کے در الاسرار پر لکھے گئے تحقیقی مقالہ کی باب ثانی کی فصل ثانی ملاحظہ فرمائیں، یہاں تفصیل سے تطویل مانع ہے۔

جہاں تک در الاسرار کی طباعت کی بات ہے، تو یہ تفسیر اب تک تین مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ پہلی ۱۳۰۶ھ میں شیخ محمود حمزاوی کے بیٹے نے شیخ کی وفات کے بعد ایک جلد میں طبع کرائی، دوسری ۱۹۸۱ء میں قاہرہ سے المرکز الادبی للبحث والنشر نے بھی اس کو ایک جلد میں شائع کیا، جو ۵۱۷ صفحات پر مشتمل ہے۔

تیسری بار اس تفسیر کو عمدہ طباعت کے ساتھ ۲۰۱۱ء میں دارالکتب العلمیہ بیروت نے دو جلدوں میں شائع کیا۔ اس نئی طباعت میں جلد اول سورہ اسراء تک ۶۰۴ صفحات اور جلد ثانی سورہ کہف سے لے کر سورہ الناس تک ۶۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس طباعت میں مخطوطہ کی طرز پر آیات کو سرخ رنگ اور تفسیر کو سیاہ رنگ میں طبع کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ ان تینوں مطبوعہ ایڈیشنوں میں پانچ سو سے زائد مقامات پر اخطاء وارد ہوئی ہیں۔ سوائے مخطوط کے کہ وہ تصحیح شدہ ہے۔

تصحیح کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض کے شعبہ مخطوطات میں ایک مخطوطہ ’’تصحیحات تفسیر در الاسرار‘‘ شیخ حمزاوی کے نام سے موجود ہے۔ راقم کا گمان یہ ہے کہ چھاپنے والے ادارے آج تک اس مخطوطہ سے آگاہ نہیں ہوسکے، ورنہ غلطیوں کی تصحیح ضرور کی جاتی، مذکور مخطوطہ میں صفحہ نمبر اور سطر نمبر کے ساتھ غلطیوں کی تصحیح کی گئی ہے۔ راقم نے اس سلسلہ میں نسخہ ۱۹۸۱ء طبع قاہرہ اور نسخہ طبع جدید. ۲۰۱۱.ء بیروت اور مخطوط ’’تصحیحات تفسیر در الاسرار‘‘ سامنے رکھ کر تیار کی اخطاء کی مکمل فہرست صفحہ اور سطر کے نمبر کے ساتھ اپنے تحقیقی مقالہ میں شامل کی ہے۔

در الاسرار کا مطالعہ کرنے اور چھاپنے والے اس کو ـضرور ملاحظہ کریں، کیونکہ طبع جدید میں بھی تقریباً سب غلطیاں جوں کی توں موجود ہیں، بلکہ کئی جگہ پر آیات مبارکہ میں پہلے ایڈیشن ۱۳۰۶ھ میں رہ جانے والی غلطیاں آج بھی موجود ہیں ، ماسوائے چند ایک مقامات کے، مزید تفصیل اور مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو راقم کا تحقیقی مقالہ ’’محمود بن محمد الحمزاوی و تفسیرہ در الاسرار‘‘۔

صالح احمد طہ دومانی (ت :۱۳۲۵ھ) کا رسالہ ’’الدرر واللآل لمدح محمد والآل‘‘: اس نوع غریب کی پندرہویں نص صالح احمد طہ الدومانی کا قصیدہ بے نقاط ہے، جو رسول اکرمؐ کی مدح و ثنا اور آل اطہار کے مناقب شریفہ میں ہے، جس کا نام الدرر واللآل لمدح محمد والآل ہے۔ (۴۳) اس قصیدہ کے اشعار کی تعداد ۹۹ ہے، اس کا مطلع ملاحظہ ہو:

أسر الأسود ہلال سلع والحمی لما رعی آل اللوی ولہ حمی

وسری ہواہ إلی المعالم کلہا و وصالہ أمر محال واللمی

قاضی احمد سکیرج (ت : ۱۳۶۳ھ) کے دو رسالے ’’مطالع الأسرار لمدارک الأحرار‘‘ اور ’’مورد الوصول لادراک السؤل‘‘:

فن مہمل میں یہ دونوں رسالے علامہ قاضی احمد سکیرج کے ہیں۔ یہ یگانۂ روزگار عالم، ادیب، عارف باللہ اور مراکش کے بہت بڑے صوفی بزرگ تھے۔ علامہ سکیرج کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی مولفات ۱۶۰ سے زائد ہیں (۴۵)۔ ان ہی میں سے یہ دو غیر منقوط رسالے ہیں۔

پہلا رسالہ: اس رسالہ کا مکمل نام ’’مطالع الاسرار لمدارک الاحرار فی شرح صلاۃ الفاتح لما اغلق بالحروف المہملۃ‘‘ ہے۔ اس رسالے کے بیس صفحات ہیں۔ علامہ سکیرج نے پہلے صفحہ میں ایک غیرمہمل یعنی عام اور سادہ قصیدہ ذکر کیا ہے، جس میں دس اشعار ہیں، باقی رسالہ غیر منقوط ہے، جس میں ان دس اشعار کی نظم و نثر میں تشریح کی گئی ہے۔ رسالہ میں ۱۱۸ غیر منقوط اشعار ہیں اور نثر اس کے علاوہ، شرح کی ابتدا ان الفاظ سے ہیں:

      باسم اللہ الأکرم، أرسم أول الأہم، مع السلام الکامل علی أکمل رسول علی روحہ الإلہ صلی وسلم ….۔

دوسرا رسالہ: اس رسالہ کا پورا نام ’’مورد الوصول لادراک السؤل علی حل کمال الصلوٰۃ علی رسول اللہ علی روحہ السلام‘‘ ہے۔ یہ تصنیف مشہور درود ’’جوہرۃ الکمال فی مدح سید الرجال‘‘ کی شرح ہے۔ یہ درود سلسلہ تیجانیہ مراکش کا ایک خاص وظیفہ اور ورد و شغل ہے۔ علامہ سکیرج سلسلہ صوفیہ تیجانیہ مراکش کے مشائخ میں سے تھے۔ انہوں نے اس درود کی مکمل تشریح لکھی اور اس کا نام ’’مورد الوصول لادراک السؤل علی حل کمال الصلوٰۃ علی رسول اللہ علی روحہ السلام‘‘ رکھا۔ رسالہ کی ابتدا اس طرح کی ہے:

’’ أحمد الواحد الأحد، وہو اللہ الصمد، لہ الکمال، والعلاء الأطول، لا إلہ الا ہو الدائم کرمہ، والمسدل آلاءہ علی کل الوری، ومحمد رسولہ أکمل الرسل الکرام، وأعلی الوسائط للوصول إلی اللہ، وہو الإمام الأکرم، وسواہ ورا ‘‘۔

محمد ہو أصل السر والکرم محمد ہو طود العلم والحکم

محمد أحمد الوری وأکملہم محمد ھو أہل الحمد للأمم

علامہ قاضی احمد سکیرج نے صلاۃ علی النبی الکریمؐ کو حروف مہملہ میں ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: صلی اللہ علی سرہ الأطہر وسلم۔

محمد بن احمد بن عمر الشاطری (ت : ۱۴۲۲ھ) کا رسالہ ’’دواء المعلول‘‘: عرب میں اس سلسلہ کی آخری نص ہمارے علم کے مطابق محمد احمد عمر شاطری کا غیر منقوط رسالہ ’’دواء المعلول‘‘ ہے جس میں مولف کا نام، فہرست اور رسالہ کا نام منقوط حروف سے خالی ہے۔ یہ رسالہ آقائے نامدار سرور دو عالم ﷺ کی مدح اور سیرت مبارکہ کے بیان میں ہے۔ ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

مولدہ: ولما أراد اللہ للعالم العمر، ولأھلہ السعد والطہر، أصدر أمرہ و مرادہ، وسہل علی امـہ لمـا کمل حملہـا ولادہ، ولمع الطالـع المسعود، وسطر الہلال المرصود…. ۔

دوسرا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

محمد ریاض کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

3 thoughts on “Manqoot Aur Ghair Manqoot Tahreero Ki Rivayat, منقوط اور غیر منقوط تحریروں کی روایت

  1. راہ وصول در مدح رسول
    یہ درود شریف بے نقاط
    اقبال حسین پرنٹر اور پبلشر کے اہتمام سےاعظمییہ
    بک ایجنسی لاہور سے زمانہ پہلے شائع ہواتھا
    کیا اسکا ایک نسخہ مل سکتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *