Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Maarif Shazarat June 2018, معارف شذرات جون ٢٠١٨

Ishtiyaq Ahmad Zilli

Maarif Shazarat June 2018, معارف شذرات جون ٢٠١٨

مصنف:   اشتیاق احمد ظلی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین ۲؍ مئی کو سابق نائب صدر جمہوریہ جناب محمد حامدانصاری کو یونین کی لائف ممبر شپ کے اعزاز سے سرفراز کرنے والی تھی۔ یہ یونین کی بہت پرانی اور بڑی باوقار روایت ہے۔ ملک اور بیرون ملک کی ممتاز شخصیات کو اس اعزاز سے نوازا جاتا رہا ہے۔ اس کی تقریب بہت خوبصورت اور پروقار ہوتی ہے۔ خاص طور سے طلبہ کے جوش اور جذبہ کے درمیان معزز مہمان پر پھولوں کی بارش کا منظر دیدنی ہوتا ہے اور یہ یادگار لمحات مہمان کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتے ہیں اور وہ اسے اس عظیم دانش گاہ سے محبت اور عقیدت کے رشتہ میں منسلک کردیتے ہیں۔

محترم انصاری صاحب کے سلسلہ میں اس کی نوعیت کسی قدر مختلف تھی۔ یہ تقریب دراصل طلبہ کی طرف سے اس ادارہ کے ایک ممتاز طالب علم، استاد اور ہردل عزیز وائس چانسلر کی خدمات کے اعتراف اور انہیں عقیدت و محبت کا خراج پیش کرنے کے لیے منعقد کی جارہی تھی۔ ماضی میں جن شخصیات کو اس اعزاز سے نوازا گیا ان میں مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر راجندر پرشاد، سی راج گوپال اچاریہ، جے پرکاش نرائن، کے ایم منشی، جدوناتھ سرکار اور ڈاکٹر تارا چند شامل ہیں۔ بیرون ملک کی بھی متعدد اہم شخصیات کو اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یونیورسٹی کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۳۸ء میں یہ اعزاز جناب محمد علی جناح کو دیا گیا۔

اس روایت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ جن شخصیات کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے ان کی تصویر یونین ہال کی زینت بنتی ہے۔ چنانچہ دوسری ممتاز شخصیات کے ساتھ جناح صاحب کی تصویر بھی یونین ہال میں آویزاں ہے۔ یہ یونین کی طویل اور قابل فخر تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ یہ ملک کی اس مشترکہ وراثت کی یادگار ہے جب تقسیم نے اسے دو لخت نہیں کیا تھا۔ اس کو ابھی تک اسی انداز میں دیکھا اور سمجھا گیا۔ چنانچہ اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ خاص طور سے گذشتہ چار سال کے دوران تبدیلی کی رفتار اتنی تیز رہی ہے کہ ملک کو پہچاننا مشکل ہوگیا ہے۔ یوں بھی مسلم یونیورسٹی ہمیشہ فرقہ پرستوں کے نشانہ پر رہی ہے۔ مسلمانوں کو اس دانش گاہ سے جتنی محبت اور وابستگی ہے اتنا ہی ان نام نہاد وطن پرستوں کو اس سے عناد ہے۔ ملک کی آزادی کے ستر سال بعد ان کو خیال آیا کہ یونیورسٹی میں بانیِ پاکستان کی تصویر کی موجودگی وطن سے محبت کے منافی ہے اور اسے وہاں سے ہٹا دینا چاہیے۔

بی جے پی کے مقامی ممبر پارلیمنٹ نے اس سلسلہ میں وائس چانسلر کو ایک خط لکھا۔ اس کے بعد فرقہ پرست طاقتیں اس محاذ پر سرگرم ہوگئیں۔ پھر جو کچھ ہوا آپ اس کی تفصیلات سے واقف ہیں اس لیے اس کو یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ فسادی بابِ سید تک آگئے تھے۔ ان کو روکنے کے لیے جب طلبہ وہاں پہنچے تو پولس نے فسادیوں کے بجائے طلبہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ بابِ سید اس مہمان خانہ کے بالکل سامنے ہے جہاں معزز مہمان مقیم تھے۔ سابق نائب صدر جمہوریہ کی موجودگی میں فسادیوں کا وہاں تک پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس سلسلہ میں ضلع انتظامیہ کی نیت صاف نہیں تھی۔ اس تشدد کے نتیجہ میں یونین کے عہدے داروں سمیت بڑی تعداد میں طلبہ شدید طور پر زخمی ہوئے۔ ان حالات میں ظاہر ہے تقریب کا انعقاد ممکن نہیں تھا چنانچہ معزز مہمان دہلی واپس چلے گئے۔

اس ہنگامہ کے پیچھے واضح طور پر دو مقاصد کارفرما تھے۔ پہلا تو یہ کہ جناب حامد انصاری کے اعزاز میں یہ تقریب منعقد نہ ہوسکے۔ وہ مختلف مسائل خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلہ میں جن خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں وہ فرقہ پرستوں کو پسند نہیں۔ اس گرانیِ طبع کے مظاہر بار بار سامنے آتے رہے ہیں۔ دوسرا مقصد ملک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا تھا اور ممکنہ حدتک کرناٹک اور خاص طور سے کیرانہ کے ضمنی الیکشن میں اس سے فائدہ اٹھانا تھا، چنانچہ دونوں جگہوں پر یہ مسئلہ پوری قوت سے اٹھایا گیا۔ پہلے مقصد میں تو وہ کامیاب رہے البتہ دوسرا مقصد حاصل کرنے میں ان کو کامیابی نہیں ملی۔ ملک میں وسیع پیمانہ پر اس موضوع پر بحث و مباحثہ ہوا اور ملک کے روشن خیال طبقات نے اسے ایک غیر ضروری مسئلہ قرار دیا۔ پُرامن اور طویل دھرنا کے دوران ملک کی دوسری جامعات اور سوجھ بوجھ رکھنے والے عناصر کی طرف سے یونین کو جو تعاون ملا وہ غیر معمولی اور نہایت حوصلہ افزا تھا۔ زعفرانی نقطۂ نظر کے حامیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں ابھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو مسائل پر معروضی انداز میں سوچتے ہیں۔ انہی سے ملک کے مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں۔

تقسیم برصغیر کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ ہے۔ اس کے جلو میں جو تباہی اور بربادی آئی اور اس کے جو اثرات مرتب ہوئے اس کی طویل تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ یہ کوئی بلائے آسمانی نہیں تھی اور نہ کسی بیرونی حملہ آور فوج کی ترکتازیوں کا نتیجہ تھی بلکہ ملک کے رہنماؤں کی تخلیق تھی اور اس میں وہ لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے جو صدیوں سے ایک ساتھ رہتے سہتے آئے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہے تھے۔ انتقال آبادی کے مرحلہ میں جان و مال اور عزت و آبرو کی جو قیمت چکانی پڑی اس کا تصور ہی لرزہ خیز ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل کی جستجو ایک حیرتناک فیصلہ پر منتج ہوئی۔

برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں سے صرف ان مسلمانوں کا مستقبل پیش نظر رہا جو مسلم اکثریت کے علاقوں میں آباد تھے۔ اس مقصد کے حصوں کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا وہ اس ملک میں رہ جانے والے مسلمانوں کے سلسلہ میں سنگدلی اور یکسر لاتعلقی کا مظہر تھا۔ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں سے خود اپنی موت کے محضر پر دستخط کرنے کی خواہش کی گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تقسیم کے عمل نے برصغیر کے اجتماعی شعور کو اتنی شدت سے مجروح کیا ہے کہ وہ ابھی تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔

ہماری روز مرہ کی زندگی پر اس کے مہیب سائے اب تک محیط ہیں۔ ہندوستانی مسلمان گذشتہ ستر سال سے ناکردہ گناہی کی جو سزا بھگت رہا ہے اس کی زہرہ گداز داستان لوحِ ایام پر ثبت ہے۔ یہ زخم ابھی تک ہرا ہے اور مسلسل رس رہا ہے۔ ان سب کے باوجود ہندوستانی مسلمان اپنے ملی تشخص اور اپنی گراں مایہ مذہبی، علمی اور تہذیبی وراثت کو نہ صرف محفوظ رکھنے میں بڑی حدتک کامیاب رہے ہیں بلکہ مختلف میدانوں میں قابل لحاظ پیش رفت بھی کی ہے۔ اسی قابل فخر وراثت کا ایک نہایت روشن باب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے جو ان کو جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے انہوں نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔

تقسیم کے موضوع پر گذشتہ ستر سال میں جو وسیع لٹریچر سامنے آیا ہے اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ملک کے بٹوارے کے لیے تنہا جناب محمد علی جناح ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن اس امر میں بھی شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں ان کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اگر وہ اس منصوبہ کا سرگرم حصہ نہ بنے ہوتے تو شاید ملک تقسیم نہ ہوتا اور برصغیر خون کے اس دریا سے گذرنے سے بچ گیا ہوتا اور ہندوستانی مسلمان اس ابتلا سے دوچار نہ ہوتے۔

چنانچہ جو لوگ ملک کی تقسیم کے لیے ذمہ دار ہیں ان کے سلسلہ میں ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات اور خیالات کیا ہوسکتے ہیں اس کے اظہار کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن جو گذر گیا اس کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سمجھ داری کا تقاضا یہی ہے کہ اسے قبول کرلیا جائے۔ تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق لکھنے کی خواہش نادانی سے زیادہ کچھ نہیں۔ سچائی بالآخر ظاہر ہوکر رہتی ہے۔ یہ تو ایک امر واقعہ ہے کہ تقسیم کے جاں گداز سانحہ سے پہلے دونوں ملکوں کی تاریخ ایک ہے۔ جناح صاحب بھی اسی مشترکہ تاریخ کا حصہ ہیں اور اسی حیثیت سے ان کی تصویر یونین ہال میں آویزاں ہے۔

مطالبہ پاکستان سے پہلے وہ تحریک آزادی کے ایک فعّال اور سرگرم رکن تھے۔ مسز سروجنی نائیڈو نے ان کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک پل سے تشبیہ دی تھی۔ بدقسمتی سے وہ پل ٹوٹ گیا۔ لیکن اس عہد کی یادگار کے طور پر اگر ان کی تصویر یونین ہال میں آویزاں ہے تو اسے وہاں باقی رہنا چاہیے۔ یہ دور اگرچہ مختصر تھا لیکن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مزید براں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک دانش گاہ ہے، ایک بہت عظیم دانش گاہ۔ دانش گاہوں میں ہر نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ کو پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے اور ان پر بحث و تحقیق ہوتی ہے۔ غیر جانب داری، معروضیت اور قلب و نظر کی وسعت ایک اچھی دانش گاہ اور ایک اچھے دانش جو کی پہچان ہے۔ یہی اس دانش گاہ کا بھی نشانِ امتیاز ہے۔ یہاں وہ تاریخ بھی اسی انداز میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے جو ہماری اپنی تاریخ ہے، جس سے ہمارا قلبی اور جذباتی لگاؤ ہے اور جو ہمارے اسلاف کے زریں کارناموں سے منور ہے۔ یہاں وہ تاریخ بھی اسی معروضیت سے پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے جس کی یاد سے پرانے زخموں کے ٹانکے ٹوٹ جاتے ہیں، جو ہماری ملی ابتلا اور آزمائش کی داستان پر مشتمل ہے۔ ہر قدم پر سینے میں ایک تیر سا پیوست ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

اسی زمرہ میں تقسیم ملک کی تاریخ بھی آتی ہے۔ غیرجانب داری اور معروضیت کا دامن نہ وہاں ہاتھ سے چھوٹتا ہے اور نہ یہاں۔ یہ تاریخ کے طالب علم کا فرض ہے۔ چنانچہ اس کے باوجود کہ ہندوستانی مسلمانوں کو جناب محمد علی جناح سے بہت کچھ شکایت ہے، یہ فیصلہ کرنا کہ ان کی تصویر یونین ہال میں رہے یا نہ رہے یہ یونیورسٹی کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ اس سلسلہ میں اس پر کوئی فیصلہ باہر سے مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کے بعد سے اب تک اس کا فیصلہ یہی رہا ہے کہ یہ تصویر جہاں ۱۹۳۸ء سے آویزاں تھی وہیں باقی رہے گی۔ آیندہ اگر وہ کوئی اور فیصلہ کرے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ اس سلسلہ میں کوئی بیرونی مداخلت قابل قبول نہیں ہوگی۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں
 اشتیاق احمد ظلی  کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *