Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Deewan e Rafat Taaruf Aur Jaiza, دیوان رافت تعارف و جائزہ

Dr Muhammad Humayun Abbas Shams

Deewan e Rafat Taaruf Aur Jaiza, دیوان رافت تعارف و جائزہ

مصنف:   ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس

مجددی صوفیہ نے اردو ادب کے ارتقاء اور فروغ کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ اس کی وجہ حضرت خواجہ باقی باللہ اور حضرت امام ربانیؒ کے فیوض و برکات و اثرات ہیں۔ حضرت امام ربانیؒ کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہ محمد یحییٰ (م ۲۷؍ جمادی الاخری ۱۰۹۴ھ) کی اولاد میں شاہ رؤف احمد رافت (م ۱۲۴۹ھ؍ ۱۸۳۳ء) کا شمار بھی اردو زبان کے نمایاں شعراء میں ہوتا ہے۔ جواہر علویہ میں اپنے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

’’میں مصطفیٰ آباد عرف رامپور میں ۱۴؍ محرم ۱۲۰۱ھ کو پیدا ہوا۔ میرے جدبزرگوار نے میرا تاریخی نام رحمٰن بخش رکھا‘‘۔

خاندان قادری میں محبوب الٰہی حضرت شاہ درگاہیؒ سے کسب فیض کیا۔ شاہ غلام علی دہلوی کی درگاہ میں آئے تو خواہش سے زیادہ پایا اور ان ہی کے حکم پر بھوپال تشریف لے گئے۔ انتقال سفر حج کے دوران ہوا اور یلملم کے قریب دفن ہوئے۔

شاہ رؤف کی علمی و ادبی خدمات پر زیادہ نہیں لکھا گیا مگر جو کچھ محفوظ ہوا وہ اردو زبان و ادب میں ان کی خدمات عالیہ کا مظہر ہے۔ رافت تخلص ہے اور اشعار میں بعض جگہ رافتا بھی استعمال کیا ہے جس کی دو وجہیں ہیں پہلی وجہ ضرورت شعری ہے کہ جس میں ارکان بحر کی مطابقت کی رعایت رکھی گئی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ رافت کے آگے الف کا لگانا خطاب و نداء کی علامت ہے یہ دوسری وجہ ہی زیادہ معتبر ہے۔ ان کے شاگرد عبدالغفور نساخ (م ۴؍ شوال ۱۳۰۴ھ؍ ۱۴؍ جون ۱۸۸۹ء) نے سخن شعراء میں ان کے ایک فارسی اور چھ اردو دواوین کا ذکر کیا ہے۔ ان کی شاعری پر نساخ نے ان الفاظ میں

تبصرہ کیا ہے:

’’بڑے زبردست عالم تھے۔ عروض و قوافی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ فارسی میں ایک دیوان اور ریختہ میں چھ دیوان اور ہر فن میں ان سے ایک دو رسالے یادگار ہیں۔ جمیع اصناف سخن پر قادر تھے‘‘۔

اردو میں دیوان ’’عقد پروین المعروف بہ دیوان رافت‘‘ ہے۔ دیوان کا آغاز ان جملوں سے ہوتا ہے:

’’الحمد للہ العلی العظیم القادر الرؤف الکریم والصلواۃ والسلام علی حبیبہ الاحمدؐ الرؤف الرحیم اعنی علی امتہ الاثیم وعلی آلہ و صحبہ الف الف تحیۃ و صلوٰۃ و تسلیم، بعد حمد و نعت کے صاحبان رافت و خبرت پر روشن ہو کہ موقع سپاس بی قیاس رب الناس ہی کہ یہ دیوان رفیع نبیان جناب غفران مآب محب باصفا شیح ابراہیم موسیٰ نے جمع کیا ہے نام دیوان عقد پروین ہی یہ نسخہ ایک ایسے بزرگوار عالی مقدار کی تصنیفات سے ہی کہ جس کی بزرگی اور ولایت میں مسلمانان باخبر اور دین داران نیکو سیر کو کسی طرح کا شک و شبہہ نہیں الحق ؎ مردان خدا خدا نہ باشد، لیکن زخدا جدا نہ باشد، قیامت ان کی وفات خوش آیات کے وقت سب کے سب رفقاء پر روشن ہوئی اس دیوان کے غزلوں کا پڑھنا جو کہ سراسر جناب رسالت مآب علیہ الف الف تحیۃ الی یوم الحساب کی مدح اور توصیف سے مملو ہیں۔ دین و دنیا کی مُرادوں کی تحصیل کا موجب ہی بلکہ اس دیوان کی ایک ایک جلد اپنے مکان میں رکھنا موجب برکت و آبادیٔ مکان ہی آپ کی تصنیفات سے مولود رؤفی جس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا احوال خوش مآل ہی اور تفسیر اردو کثیر الحجم زبان تصوف میں آپ نے لکھی جس کی سیر سے آپ کے علم و کمال کا حال روشن ہوتا ہے دوسرا حضرت کا معراج نامہ اعجاز ختامہ مشہور و معروف ہے۔ اسم مبارک آپ کا مولانا رؤف احمد اور تخلص رافت ہے۔ جناب تجارت مآب سوداگر خلیق و حلیم قاضی عبدالکریم صاحب ابن جناب مرحوم و مغفور قاضی فتح محمد صاحب کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ ان کتابوں کو وہ چھپواتے ہیں اجر عظیم پاتے ہیں اور کاتب کی بھی سعادت ہے کہ ایسے بزرگ کے کلام تحریر کرے، دامن مراد گلہائے مقاصد سے بھرے اب جناب باری اس راقم کا اور ان سب کا خاتمہ بخیر کرے زندگی بعزت بیر کرے۔ آمین اللہم آمین بحق سید المرسلین وآلہ وصحبہ اجمعین‘‘۔

سید امیرالدین نزہت نے اس دیوان کی تاریخ تالیف یوں نکالی ہے:

سر اوصاف سے تاریخ تالیف ہوئی ہی خوب نو طرز

مرصع

۱ ۸ ۲ ۱

اس دیوان کا آغاز حمدیہ اشعار سے ہوتا ہے۔ پہلا شعر ملاحظہ فرمائیں:

لکھوں ثنا اس کی کیا کہ جس نے کیا ہے ارض و سماء پیدا

صدف سے موتی شکم سے انسان کیا بیک قطرہ ماء پیدا

اہل فن سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ درمیان شعر ہمزیہ قوافی کو برتنا ہر کس و مہہ کی بات نہیں۔ آخر شعر میں ہمزیہ قوافی کی مثالیں تو کلام عرب میں مل سکتی ہیں مگر ادب اردو میں اس کا امکان معدوم و نایاب نظر آتا ہے۔ متاخرین میں سے کسی نے اس پر طبع آزمائی کی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتے تاہم متقدمین میں اس کا التزام نہیں ملتا، چہ جائیکہ کسی نے درمیان شعر ہمزیہ قوافی کو نباہا ہو۔

اس کے بعد نعت ہے۔ آخری شعر یہ ہیں:

کرم سے ان کے یقین ہے شیطان بہ نزع کچھ شک نہ لاسکے گا

کرے گا گر یک سوال آکر تو ہوں گے لاکھوں جواب پیدا

گناہ ہیں بے حساب رافت اگرچہ اپنے یہ شکر ہی پر

کہ کردیے ہیں خدا نے ایسے شفیع روز حساب پیدا

دیوان رافت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو علم بیان کے اصول اربعہ تشبیہ، استعارہ، مجاز اور کنایہ کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کے وہ تمام اجزائے فروعیہ کہ جو ان کے ذیل میں نمو پذیر ہوتے ہیں، دیوان رافت میں جابجا ملتے ہیں۔ اسی طرح علم معانی و بدیع کی اقسام و صناعات کا وجود بھی دیوان رافت کے جہان فصاحت میں کثیر مقامات پر نظر آتا ہے۔ دیوان رافت کا حصہ اول تو ایک مستقل غزلیہ تسلسل ہے کہ جس کو ایک ہی بحر میں صرف قافیہ کی تبدیلی کے ساتھ نباہا گیا ہے۔ حصہ اول میں ۳۳ کلام ہیں جن میں اشعار کی تعداد ۲۵۸ ہے جو ایک ہی وزن ’’بحر متقارب مقبوض اثلم فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن‘‘ میں نظم کیے گئے ہیں۔ ان تمام اشعار کی ردیف ایک ہی ہے بس قافیہ مختلف ہے۔ ہر کلام کے مقطع میں قافیہ کی تبدیلی کا اشارہ کیا جاتا ہے اور بعد ازاں حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق الف سے یا تک بڑی ماہرانہ دسترس کے ساتھ اس تسلسل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ اسی طرح حصہ دوم جو کہ ایک الگ مکمل دیوان ہے جس میں ۳۴ کلام نظم کیے گئے ہیں جن میں اشعار کی تعداد ۲۷۰ ہے جو ایک ہی وزن بحر رمل مثمن مزاحف منجوں مقطوع محذوف مسکن مذال فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ؍ فعلان میں ہیں۔ یہاں فرق صرف اتنا ہے کہ ہر کلام اپنی ذات میں ایک مستقل کلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوان رافت میں شعر اول سے شعر آخر تک قاری کا ذوق انتشار کا شکار نہیں ہوتا اور وجدان قاری کے تاروں کو قافیہ کی تبدیلی ایک نئی ضرب اور ہر ضرب ایک نئی کیفیت اور ہر کیفیت ایک نئے لطف سے آشنا کرتی ہے۔ نئے نئے تجربات اور لفظوں کو حقیقی و مجازی معنی میں استعمال کرنے کا جو عمل دیوان رافت میں ہے وہ دوسروں کے دواوین میں مفقود نہیں تو بہت کم نظر آتا ہے۔ ایسے ایسے نادر مضامین ہیں کہ جن کو شعر میں باندھتے ہوئے اساتذہ بھی ہچکچاتے ہیں، بڑی سہولت کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔

یہاں ایک فنی نکتہ بھی غور طلب ہے کہ حصہ اول جو کہ بحر متقارب میں ہے اور حصہ دوم جو کہ بحر رمل میں ہے۔ دونوں حصے الگ الگ نوعیت کے دیوان ہیں۔ پہلا تو متحد النوع ہے کہ ایک ہی نوع کی ردیف ہر کلام کا حصہ ہے جبکہ دوسرا حصہ مختلف النوع ہے کہ ہر کلام کی ردیف الگ ہے جو حروف تہجی کے اعتبار سے ورود پذیر ہوئی ہے، یعنی پہلے حصے میں حروف تہجی کا اعتبار باعتبار قافیہ کیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں حروف تہجی کا اعتبار باعتبار ردیف کیا گیا ہے۔ ان دونوں دواوین کی ہیئت کے مختلف ہونے میں راز یہ ہے کہ پہلا حصہ بحر متقارب میں ہے اور بحر متقارب دائرہ متفقہ کی بحر ہے اور دوسرا حصہ بحر رمل میں ہے اور بحر رمل دائرہ مجتلبہ مسدسہ کی بحر ہے۔ جب بحروں کا دائرہ مختلف ہوا تو دونوں دواوین کی ہیئت بھی مختلف رکھی گئی۔ اب یہ اتفاق فکر ہے یا التزام فکر، کچھ کہا نہیں جاسکتا تاہم یہ توجیہہ قابل التفات ہے۔

اب اگر بلاغت کے نقطہ نظر سے کلام رافت کو دیکھیں تو اس میں تمام فنی خصائص بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ ’’عقد پروین المعروف دیوان رافت‘‘ کی غزل کا ایک مقطع جس میں مشبہ اور مشبہ بہ میں قصد مساوات کیا گیا ہے:

غزل بدل قافیہ سنا پھر کہ ہند میں تو ہو ہے رافتؔ

نظامی و جامی اور سعدی سحابی و بدر و چاچ پیدا

اس شعر میں رافت نے اپنے مقام و مرتبہ کا ذکر کیا۔ خود مشبہ بنے اور دیگر بلند مرتبہ اساتذۂ سخن کو مشبہ بہ بنایا۔ مشبہ و مشبہ بہ بعض اوقات حسی ہوتے اور بسا اوقات عقلی۔ ان کی مثالیں کلام رافت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ غزل کا ایک شعر جو قوت باصرہ سے متعلق ہے:

تمہارے قد کا ہو گر تصور بنزع ایغیرت صنوبر

تو خود بخود بعد مرگ ہووے مزار پر کیوں نہ گاچ پیدا

مشبہ اور مشبہ بہ کے حسی ہونے کی ایک خوبصورت مثال:

نہیں ہے روئے عرق فشاں پر کسی کی زلف سیاہ رافت

ہوا ہے یہ اس کے چاٹنے کو خدا کی قدرت کا ناگ پیدا

تشبیہ ملفوف کی قبیل سے رافت کا ایک شعر دیکھیے:

چشم اس کے قد موزوں پہ فلک دیکھ کہیں

نرگسِ حسن عجب ہی یہ صنوبر کے بیچ

اس شعر میں دو مشبہ اور دو ہی مشبہ بہ ہیں: چشم، قد موزوں اور نرگس حسن عجب، صنوبر جو کہ ترتیب سے ذکر ہوئے ہیں۔ جہاں یہ شعر تشبیہ ملفوف میں ہے تو وہیں صنعت لف و نشر مرتب میں بھی ہے۔

استعارہ کی ایک مثال غزل کا یہ شعر ہے:

قصد جانے کا نہ کر یہاں سے کہ مر جائیں گے ہم

ای صنم مار کے بس چھاتی پہ پتھر بفراق

کنایہ کی مثال ملاحظہ فرمائیں:

مریض غم کی تیرے عیادت کرے کوئی کیا عجب ہے حالت

کہ قوت ضعف لاغری سے ہے آپ پنہاں فراش پیدا

مریض غم ہونا کنایہ ہے عاشق ہونے سے۔ اسی طرح ان کا یہ شعر:

سانس ٹھنڈی نہ بھروں کیونکہ میں خالی گھر دیکھ

مجھ کو دم دے کے سدھارا وہ ستمگر افسوس

ٹھنڈی سانسیں بھرنا مبتلائے غم ہونے سے کنایہ ہے۔

قدیم اردو شعراء کا عربی ذوق بھی اس دیوان میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ دیوان کا آخری کلام عربی میں صلوٰۃ و سلام کا ہدیہ ہے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

صلِّ علیٰ محمدٍ مِہر سپہر اصطفا

صلِّ علیٰ محمدٍ ماہِ سماء اجتبا

صلِّ علیٰ محمدٍ مفخرِ جملہ انبیا

صلِّ علیٰ محمدٍ رہبر جُملہ اولیا

صلِّ علیٰ محمدٍ کاشفِ سہل آتیٰ

صلِّ علیٰ محمدٍ واقفِ رازِ اتما

صلِّ علیٰ محمدٍ مورد مدحت و ثنا

صلِّ علیٰ محمدٍ اوضح وصفِ والضّحٰے

یہ دیوان جہاں قواعد و فن کا شاہکار ہے وہیں انیسویں صدی کے اسلوب شعری اور املاء کا آئینہ دار بھی ہے۔ اس دور میں الفاظ کو جوڑ کر لکھنے اور ’’ں‘‘ کی بجائے ’’ن‘‘ کے مروج ہونے کی مثالیں دیوان رافت میں عام ہیں۔ چند مرکب الفاظ اور عصری املائی اسلوب ملاحظہ فرمائیں:

جانسے جان سے ہمکو ہم کو

اسبات اس بات جسمین جس میں

تجھکو تجھ کو تمنے تم نے

لگجائے لگ جائے

      اس کتاب کے آخر پر لگا ہوا اشتہار اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اشاعتی اداروں کا مزاج اور ذوق ہمیشہ ایک سا رہا ہے ۔ اس اشتہار کو من و عن استفادۂ ناشرین کے لیے نقل کیا جاتا ہے:

’’اشتہار واجب الاظہار

جمیع صاحبان اہل مطابع نزدیک و دور و تاجران کتب والا شان ذی شعور کی خدمت میں عرض ہی کتاب ہذا داخل بہی رجسٹر گورنمنٹ ہی اور حقوق تصنیف و تالیف مصنف کی جانب سے مہتمان کے پاس محفوظ ہیں لہٰذا کوئی صاحب قصد طبع نہ فرمائے عوض نفع قلیل نقصان کثیر کی زحمت نہ اوٹھائی جس قدر نسخے مطلوب ہوں بارسال زر قیمت دکان نمبر ۶۵ واقعہ کولسہ محلہ قریب پاوے ہونی سے طلب فرمائی فقط

المشتہر

قاضی عبدالکریم؍ قاضی رحمت اللہ تاجران کتب بمبئی‘‘

اس مختصر تعارف سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دیوان رافت موضوعاتی اور فنی اعتبار سے اردو ادب کا ایک لازوال کارنامہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی صاحب ذوق اس دیوان کی ترتیب و تدوین نو پر توجہ دیں تاکہ عصر حاضر میں فکر رافت جو فکر راست ہے، سے استفادہ کیا جائے۔ یہ دیوان خانقاہوں سے وابستہ افراد کا اردو شاعری میں کردار، کے حوالہ سے مطالعہ کی سمت بھی متعین کرے گا۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس کے مزید مضامین سب سے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *