Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Dr Rauf Parekh, ماہر فرہنگ نویس ماہر لسانیات مزاح نگار اور کالم نگار رؤف پاریکھ

Dr Rauf Parekh

Dr Rauf Parekh, ماہر فرہنگ نویس ماہر لسانیات مزاح نگار اور کالم نگار رؤف پاریکھ

Dr Rauf Parekh

آج معروف فرہنگ نویس، ماہر لسانیات، مزاح نگار اور کالم نگار رؤف پاریکھ کا یوم پیدائش ہے

رؤف پاریکھ ایک اردو فرہنگ نویس، ماہر لسانیات، مزاح نگار اور کالم نگار ہیں۔ وہ 26 اگست، 1958ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
پاریکھ صاحب نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے 2003ء سے 2007ء تک اردو ڈکشنری بورڈ کراچی کے لیے بطور مدیرِ اعلٰی کام کیا۔
اب وہ جامعہ کراچی میں اردو کی تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار ادبی کالم لکھتے ہیں۔
16 دسمبر 2020ء کو صدر نشین ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد مقرر ہوئے،

تصانیف:
تحقیقی مقالہ جات، مزاحیہ مضامین اور تنقیدی تحریروں کے علاوہ وہ بیس کتابوں کے مصنف ہونے کا بھی اعزاز رکھتے ہیں

اُردو لغت (جلد 19، 20 اور 21)،
اُردو لغت نویسی،
دی اوکسفرڈ اردو-انگریزی ڈکشنری
عصری ادب اور سماجی رجحانات
اولین اردو سلینگ لغت(2006ء)
اردو نثر میں مزاح نگاری اور سماجی پس منظر (1996ء)
علم لغت، اصول لغت اور لغات
علم لغات (اصول اور تنقید)
لغات(تحقیق و تنقید)
لسانیاتی مباحث
لغت نویسی اور لغات

صدارتی ایوارڈ
حکومت پاکستان نے 2018ء میں تقسیم اعزازات کے موقع پر شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کے استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا۔

بشکریہ وکی پیڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے ایک ملاقات

ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا شمار، اس عہد کے اُن قلم کاروں میں ہوتا ہے، جن کی ادبی خدمات کا دائرہ لامحدود ہے۔ اُن کا بنیادی حوالہ تحقیق ہے، لیکن ایک ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طنز و مزاح نگاری بھی اُن کی شخصیت کا ایک حوالہ ہے۔ بچوں کا ادب بھی اُن کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان تمام حوالوں سے اُن کی کتب ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ عرصۂ دراز تک ’’اُردو لغت بورڈ‘‘سے منسلک رہے۔ انجمن ترقیِ اُردو پاکستان کے تحقیقی جریدے ’’اُردو‘‘ کے مدیر ہیں۔ مختلف موضوعات پر اُن کی تقریباً 35 کتابیں منظر عام پر اچکی ہیں۔ ان دنوں جامعہ کراچی کے شعبۂ اُردو میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سال یومِ پاکستان کے موقع پر حکومتِ پاکستان نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ’’ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ پیش کیا۔ گزشتہ دنوں ہم نے ڈاکٹر رئوف پاریکھ سے تفصیلی ملاقات کی، اُس دوران ہونے والی گفتگو نذر ِقارئین ہے۔‘‘

س: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتایئے؟
ج: آپ کوشاید حیرت ہوگی کہ میرا خاندانی پس منظر خالصتاً کاروباری ہے اور کسی حد تک ادبی ہونے کے باوجود اُردو سے بہت مختلف ہے۔ہماری مادری زبان میمنی ہے، لیکن ہمارے خاندان میں پڑھنے لکھنے کا سارا کام گجراتی میں ہوتا تھا۔ میرے والد،چچا اور تایا گجراتی ادب کے شیدائی تھے۔گجراتی ادب خاصا قدیم ہے اور ہندوستان میں اس پر پی ایچ ڈی بھی ہوتی ہے ۔ اس کا رسم الخط دیو ناگری سے ملتا جلتا ہے، جس میں ہندی لکھی جاتی ہے۔ والد ین نے ۱۹۴۷ء میں ہندوستانی صوبے گجرات کے علاقے کاٹھیاواڑ سے ہجرت کی اور کراچی میں آباد ہوئے ۔ مجھے ابتدا ہی سے کاروبار سے کوئی دل چسپی نہیں تھی اور اُردو سے ایک قدرتی لگاؤ تھا۔ہاں میرے تایا کومطالعے سے رغبت تھی ۔ وہ ہندوستان سے گجراتی کے رسالے اور اخبار منگواتے تھے۔، خاص طور پر مزاحیہ رسالے۔ ان کی حس ِ مزاح بہت تیزتھی۔ اکثر ہم چھوٹوں کو طنزیہ انداز میں نصیحت کرتے یا مزاحیہ انداز میں غلطیوں کی نشان دہی کرتے۔ میرے چچا بھی حس مزاح سے مالا مال تھے۔ مجھ میں جو تھوڑی بہت حس مزاح ہے شاید تایا اور چچا کی عطا ہے۔میرے ماموں بھی بہت ہنسوڑ آدمی تھے۔

س:ادب سے دل چسپی کیسے پیدا ہوئی۔
ج: دراصل میرے بڑے بھائی سلیمان پاریکھ اُردو کے رسالے اور کتابیں نہ صرف پڑھتے تھے، بلکہ جمع بھی کرتے تھے ۔ وہیں سے مجھے بھی بچوں کے رسالے پڑھنے اور جمع کرنے کی چاٹ پڑ گئی۔پھر بچوں کی کتابیں تقریباً سبھی پڑھ ڈالیں۔بیشتر کرائے پر لے کر۔ ساتویں آٹھویں جماعت سے نونہال اورتعلیم و تربیت میں لکھنا شروع کردیا ۔کچھ کہانیاں چھپیں توپھر چل سوچل۔

س: کن شخصیات سے متاثر ہوئے یا انھوں نے آپ کی ادبی تربیت میں حصہ لیا ؟
ج: میرے چچاطیب پاریکھ اور بڑے بھائی سلیمان پاریکھ کی مطالعے کی عادت کے علاوہ نونہال کے ایڈیٹر مسعود احمد برکاتی اور حکیم محمد سعید نے مجھے بہت متاثر کیا۔ نونہال کے دفتر بھی جاتا تھا اور برکاتی صاحب نے بڑی شفقت سے رہنمائی کی۔نونہال میں میری کوئی کہانی چھپتی اور حکیم سعید کو پسند آتی تو وہ حوصلہ افزائی کا خط لکھتے یا عید پر مبارک باد کا خط لکھتے۔ میں سیفیہ اسکول میں پڑھتا تھا۔ میرے اسکول کے دو تین اساتذہ نے مجھ میں صحیح معنوں میں ادب کا ذوق پروان چڑھایا ۔ان میں سید محمد طاہر، محمد احمد قراراور شبیر حسین صاحبان بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ الیاس رضوی اسکول میں انگریزی کے استاد تھے۔ انھوں نے ایسی انگریزی پڑھائی کہ آج بھی کام آرہی ہے ۔ طاہر صاحب نے اُردو سے محبت کا بیج بویا۔میری اُردو لغت نویسی اور انگریزی لغت نویسی کی بنیاد شاید اسکول میں طاہر صاحب اور الیاس صاحب کے ہاتھوں رکھی گئی، ورنہ میں ایک میمن بچہ، گجراتی لکھنے پڑھنے والے والدین کی اولاد ، کہاں میں اور کہاں اُردو۔انگریزی کا تو تصور ہی نہیں تھا ۔ اُردو میڈیم اسکول تھا، سرکاری تحویل میں آگیا تھا،جسے آج کل حقارتاً پیلا اسکول کہتے ہیں۔ میں اسی اُردو میڈیم پیلے اسکول کا پڑھا ہوا ہوں، لیکن استادوں کی شفقت اور توجہ نے مجھے ادیب، محقق اور لغت نویس بنادیا۔ورنہ لغت نویسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ خدا میرے استادوں کو شاد و آباد رکھے اور جو دنیا سے چلے گئے ہیں،ان کے درجات بلند کرے ۔ادبی شخصیات میں سے عبدالرؤف عروج، فرمان فتح پوری ، مشفق خواجہ،جمیل الدین عالی وغیرہ سے بہت کچھ سیکھا، بلکہ بعض لوگوں مثلاً افتخار عارف سے اب بھی سیکھ رہا ہوں۔ان کی تو صرف گفتگو سن کر ہی آدمی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ افسوس اب ایسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں ۔وہ لوگ عالم بھی تھے اور محبت سے تربیت کرتے تھے۔اب تعلیم تو بہت ہے، تربیت نہیں رہی ، اور نہ بچوں میں مطالعے کی عادت رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب نئی نسل سے اچھے شاعر ، ادیب اور نقاد نہیں ابھر رہے ۔پرانے اور بڑے صرف چند لوگ رہ گئے ہیں، جنھیں غنیمت سمجھنا چاہیے ، مثلاً افتخار عارف، فتح محمد ملک ، تحسین فراقی، رفیع الدین ہاشمی وغیرہ۔ ان لوگوں کی قدر کی جانی چاہیے۔

س: آپ نے ادب کی کس جہت کو ذریعۂ اظہار بنایا؟
ج: اُردوزبان میں مزاح ، تحقیق، تنقید ، تخلیق ، بچوں کا ادب، کالم، کتابوں پر تبصرہ،مراد یہ کہ بہت سی اصناف میں لکھا اور انگریزی میں مضامین ، کالم اور تبصرۂ کتب۔

س: ایک طرف ادب کا انتہائی سنجیدہ کام ، دوسری طرف مزاح نگاری۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
ج: مزاح دراصل مزاج کی پیداوار ہوتا ہے، اسے آپ اوپر سے اوڑھ نہیں سکتے۔یہ شاعری کی طرح ہے، یعنی جس طرح شاعری قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے ،آپ شاعری سیکھ نہیں سکتے اسی طر ح مزاح ہے ۔ آپ عروض سیکھ لیں گے،شاعری کے پینترے سیکھ لیں گے ،لیکن شاعر فطری اور پیدائشی ہوتا ہے، جب تک آپ کے اندر شعری صلاحیت نہیں ہے، آپ شاعر نہیں ہوسکتے،یہی کیفیت مزاح کی ہے۔ میرے ساتھ مزاح کامعاملہ شاید قدرتی طور پر تھا اور پھر تایا اور چچا کے طنزیہ انداز نے بھی کچھ سمجھادیا کہ بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے،پھر زبان کے ذرا سے مختلف استعمال سے بھی مزاح پیدا کیا جاسکتا ہے۔ زبان کی تحقیق نے بھی مزاح کی تخلیق میں مدد دی۔

س: طنز و مزاح کے حوالے سے آپ نے کس نوعیت کا کام کیا ہے؟
ج: میں نے لکھنے کی بتدا بچوں کی کہانیوں سے کی اور وہ بیش تر مزاحیہ تھیں۔ پھر مزاحیہ کالم اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ ارد اور انگریزی کے مزاحیہ ادب کا اتنا مطالعہ تھا کہ پی ایچ ڈی کے لیے یہ موضوع دل چسپ اوربہتر لگا اورگزشتہ مطالعے کی وجہ سے آسانی بھی ہوگئی، چنانچہ اُردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی و سماجی پس منظر کے موضوع پر کراچی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ احساس ہوا کہ مزاح اور طنز واقعی بہت سنجیدہ چیز ہیں، ان سے بڑا کام لیا جاسکتا ہے۔ہماری پوری سیاسی اور تہذیبی تاریخ اُردو طنز و مزاح کی صورت میں محفوظ ہے۔ انگریزی کی شاہ کار مزاحیہ تحریروں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ان تحریروں کو مبین مرزا نے’’ سرخاب کے پر‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

س:اُردو میں لسانیات پر تحقیقی کام کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے ؟
ج: کسی زمانے میں اُردو، لسانیاتی تحقیق کے میدان میں بہت آگے تھی ۔ تب محی الدین قادری زور، مسعود حسین خان اوربعد میں گیان چندجین اور شوکت سبزواری جیسے لوگ لسانیات اور اُردو لسانیات پر تحقیق کررہے تھے۔ ڈاکٹرابواللیث صدیقی نے کراچی یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو میں لسانیاتی تجربہ گاہ قائم کی تھی۔ وہاں مشینوں اور آلات سے آوازوں کا تجزیہ ہوتا تھا۔ وہ سب قصۂ پارینہ ہوگیا۔ اب کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اُردو میں دس مصوتے یعنی واول (vowel) ہوتے ہیں ۔ بیکن ہائوس جیسے اسکولوں میں بھی اُردو کے تین یا چارواول پڑھائے جارہے ہیںیعنی الف ، ’’و او‘‘ (و) اور’’ ی‘‘ ۔حالانکہ یہ واول نہیں ہیں، صرف واول کو ظاہر کرنے والے حروف ہیں ، جیسے انگریزی میں گیارہ واول ہیں، لیکن ان کو صرف پانچ حروف سے ظاہر کیا جاتا ہے۔اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چند الفاظ کا درست استعمال یا املا بتانے والاماہر لسانیات ہے ۔ اسی طرح دکن میں اُردو، پنجاب میں اُردو اور اُردو لشکری زبان جیسے غلط اور گم راہ کن نظریات پر لوگ اصرار کرتے ہیں۔ لسانیاتی تحقیق کے اداروں کا قیام اہم ضرورت ہے ۔

س: آج کل اُردو کی تدریس کا کیسا معیار ہے ؟ نئی نسل کے اساتذہ، جو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھا رہے ہیں، اُن کا اوراُردو کی درسی کتابوں کا کیا معیار ہے؟
ج: کالجوں اور اسکولوں میں بعض اساتذہ بہت قابل ہیں ، محنت سے پڑھاتے ہیں، اپنا علم تازہ رکھتے ہیں۔ کئی پی ایچ ڈی اور ایم فل ہیں یا کررہے ہیں۔ ان کی وجہ سے کچھ امید رہتی ہے کہ اُردو کی تدریس کا معیار بلند ہے اوررہے گا،لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے لیکچرر بننے کے بعد پڑھنا ہی چھوڑدیا ہے۔ اپنے شعبے کی تازہ ترین تحقیق سے آگاہ رہنا ، نئی کتابیں پڑھنا اور اس علم کو شاگردوں تک منتقل کرنا استاد کے فرائض میں شامل ہے، جو لوگ کچھ نہیں پڑھتے کمال کرتے ہیں۔ میں آج بھی روزانہ باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ۔ میرے خیال میں جاہل کی تعریف یہ ہے کہ جو شخص کتاب پڑھے بغیر خوش رہ سکتا ہے وہ جاہل ہے، چاہے پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ ہو۔مغرب میں ہر شخص پڑھتا ہے ۔مغرب کے عروج کی ایک وجہ ان کی علم سے محبت ہے۔

س: میڈیا کے بارے میں عام شکایت ہے کہ اُردو زبان کے معیار کا خیال نہیں رکھتے اور ان کی وجہ سے زبان بگڑ رہی ہے ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ج:طباعتی ذرائع ابلاغ یعنی پرنٹ میڈیا کے مقابلے میںزیادہ بگاڑ الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے ہوا ہے۔ہمارے ہاں نت نئے ٹی وی چینل کھل گئے لیکن تجربہ کار صحافی دست یاب نہ تھے۔ جو نوجوان لڑکایا لڑکی مل گئی اسے مائک تھما کر کیمرے کے سامنے کھڑا کردیا۔ اُردو تو کیا انھیں کچھ نہیں آتا ۔ایک محترمہ نے ٹی وی پر بتایا کہ بسنت اب ’’پاکستان کے سارے کنٹریز‘‘ میں منائی جاتی ہے۔صوبے کہنا چاہتی تھی۔اس بے چاری کو ملک اور صوبے کا فرق بھی معلوم نہیں تھا۔ٹھیک اُردو بھی نہیں آتی تھی۔ اب نئے صحافیوں میں بھی محنت اور مطالعے کی وہ عادت نہیں رہی، جو پرانے صحافیوں کی ہے، جو جتنا زیادہ پڑھے گا، وہ اتنا ہی زیادہ اچھا صحیح لکھے گا اور بولے گا۔کئی پرانے لوگ اب بھی صحت کے ساتھ زبان استعمال کررہے ہیں ۔نئے صحافیوں اور نئے اساتذہ کو محنت اور مطالعے کی شدید ضرورت ہے۔

س: اُردو زبان کا کیا مستقبل ہے؟
ج: میں اُردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں ۔ زبان وہ زندہ رہتی ہے، جو بولی اور لکھی جاتی ہے۔ اُردو لکھی اور بولی جارہی ہے،البتہ یہ ضرور ہے کہ اب لکھنؤ اور دہلی کی اُردو کا معیار نہیں چلے گا۔ اب پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پشتو اور دوسری پاکستانی زبانوں کے الفاظ و محاورات اور لب و لہجے کو اُردو میں سمونا ضروری ہے۔ یہ عمل اب قومی یکجہتی کے لیے ناگزیرہوگیا ہے ۔ایک مضبوط وفاق ایک ایسی قومی زبان کا تقاضا کرتا ہے، جسے سب اپنا سمجھتے ہوں۔ہندوستان میں اُردو کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک ہورہا ہے ، لیکن خصوصاًپنجاب میں اُردو خوب بولی جارہی ہے۔ اُردو کے بڑے بڑے شاعر اور ادیب پنجابی تھے اور پنجابی ہیں۔ پنجاب نے اُردو کو گلے لگایا ہے، وہاں بلا مبالغہ سیکڑوں طالب علم ہر سال اُردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ پوری دنیا میں اُردو کا مستقبل سب سے زیادہ پنجاب میں محفوظ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اُردو کے مستقبل کا دارومدار اب بڑی حد تک پنجاب پر ہے۔ پنجاب نے اُردو کے لیے ہمیشہ اپنی باہیں کھلی رکھی ہیں ۔ امید ہے کہ اُردو ہمیشہ زندہ رہے گی، اس میں پنجاب کی کشادہ دلی کا سب سے بڑا کردار ہوگا۔فتح محمد ملک تو کہتے ہیں کہ اُردو پنجاب کی مادری زبان ہے۔

س: رومن اُردو میں ای میل اور ایس ایم ایس کرنےسے اُردو زبان پر کیا اثرات پڑرہے ہیں ؟
ج: یہ ایک طرح سے اُردو کے خلاف سازش ہے۔ کسی بھی زبان کا اپنا رسم الخط ہی اس کی آوازوں اورالفاظ کے تلفظ کودرست اور مکمل طور پرادا کرسکتا ہے۔ زبان کی تو شناخت ہوتی ہی رسم الخط سے ہے ۔ رومن میں اُردو کا تلفظ درست ادا نہیں ہوسکتا بلکہ اچھا خاصا مضحکہ خیز ہوجاتا ہے، اگر ہم رومن میں اُردو لکھنے سے باز نہ آئے تو اُردو زبان کا مستقبل مخدوش ہوجائے گا۔
س:آپ نے سلینگ اُردو کی لغت مرتب کی ہے ، کیا سلینگ سے زبان کو نقصان پہنچتا ہے؟
ج: نہیں، بلکہ سلینگ زبان کے لیے مفید ہوتا ہے۔ اس کا اپنا ایک مقام اور درجہ ہے، وہ معیاری زبان کی بلندسطح پر نہیں ہوتا،نہ ہی ہر سلینگ لفظ یا محاورہ فوراً ہی معیاری لغت میں شامل ہونے کا اہل ہوتا ہے، لیکن جب کسی سلینگ کو کوئی ماہر فن نگینے کی طرح جڑ دے، اس کا کوئی متبادل بھی نہ ہو تو وہ سلینگ لفظ ناگزیر ہوجاتا ہے۔مثلاً لفظ ہیروئنچی، جس نے بھی بنایا، اس نے ایک ضرورت پوری کردی اور آج یہ لفظ اخبارات بھی لکھ رہے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج کی معیاری اُردو یا انگریزی زبان کے کئی لفظ کسی زمانے میں سلینگ تھے۔ ان کو کوئی غالب یا شیکسپیٔر مل گیا اور وہ قبولِ عام پاگئے۔ سلینگ عوام میں جڑیں رکھتا ہے اور زبان میں عوامی ذرائع سے ہونے والی تبدیلیوں کی مثال ہے۔ ہر زبان بدلتی ہے اور زندہ بھی وہی زبان رہتی ہے، جو تبدیلی کو قبول کرے۔ سلینگ سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ شعور ہونا چاہیے کہ کون سا لفظ کب اور کہاں استعمال ہوسکتا ہے اور کہاں نہیں ہوسکتا۔

س:اُردو کے قومی زبان ہونے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور دیگر زبانوں کو بھی قومی زبان بنانے کے مطالبے ہورہے ہیں ۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: ہر شخص کو اپنی ماں سے پیار ہوتا ہے اور اسے اپنی ماں کی زبان بھی عزیز ہوتی ہے ۔ اسے یہ حق ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت اور ترقی کی کوشش کرے ۔تمام پاکستانی زبانیں ہمارے لیے محترم ہیں۔بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے، اس پر ماہرین تعلیم بھی متفق ہیں۔ پاکستان کے آئین کی شق دوسواکیاون (۲۵۱)میں صوبوں کویہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی دفتری و سرکاری زبان کسی بھی زبان کو بنا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے کثیر لسانی ملک میں وہی زبان قومی زبان ہوسکتی ہے جو پورے ملک کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جاتی ہو۔ ایسی زبان کو لنگوا فرینکا (lingua franca) کہتے ہیں اور پاکستان میں ایسی زبان اُردو ہی ہے۔ اُردو کے ساتھ کسی اور زبان کو قومی زبان بنایا گیا تو باقی تمام زبانیں بولنے والے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان کی زبان بھی قومی ہونی چاہیے،پاکستان میں ستتر زبانیں بولی جاتی ہیں اور کسی ملک میں اتنی زبانیں قومی نہیں ہیں۔

س:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی تیرہ چودہ زبانیں رائج ہیں تو یہاں کیوں نہیں؟
ج:ہندوستان کی غلط مثال دی جاتی ہے ۔ اصل میں وہاں تیرہ چودہ بڑی زبانیں ہیں۔ وہ اسٹیٹ لینگویجز (state languages)کہلاتی ہیں اور انڈیا میں اسٹیٹ صوبے کو کہتے ہیں۔ یہ انڈیا کی قومی زبانیں نہیں ہیں۔یہ بڑی بڑی صوبائی زبانیں ہیں ۔ وہاں انگریزی بطور بین الاقوامی زبان ، ہندی بطور قومی زبان اور بڑی زبانیں بطور صوبائی زبان رائج ہیں۔پاکستان میں قومی زبان کے طے شدہ مسئلے کو چھیڑنے کا مقصد انتشار پیدا کرنا اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچانا ہے ۔ سندھ میں سندھی کے ساتھ اُردو اور انگریزی، دفاتر میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ باقی تینوں صوبوں میں اُردو اور انگریزی بطور دفتری زبان رائج ہیں تو یہ صوبوں کاآئینی اختیار ہے۔کے پی کے میں اکثر دفتری کام اُردو میں ہوتے ہیں ۔ پنجاب اور بلوچستان میں اُردو اور انگریزی دونو ں دفاتر میں رائج ہیں ۔ یہ ان کا اختیار ہے۔ کسی نے زبردستی نہیں کی، لیکن وفاق کا مسئلہ یہ ہے کہ وفاق کو صوبوں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا وفاق میں اُردو ہی دفتری زبان ہونی چاہیے جو مشترک زبان بھی ہے۔

س: اُردو کو صحیح معنوں میں سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
ج: جب تک سرکاری اور عدالتی احکامات اُردو میں جاری نہیں ہوتے اور پبلک سروس کمیشن کے امتحان اُردو میں نہیں لیے جاتے تب تک اُردو سرکاری زبان کا خواب خواب ہی رہے گا۔ عدالتوں کی زبان اُردو ہے ، بحث اُردو میں ہوتی ہے، لیکن فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں ۔ عدالتی فیصلوں کی زبان بھی اُردو ہونی چاہیے۔اسی طرح اعلیٰ ملازمتوں کے انٹرویو اور امتحانات ، پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور انٹرویو اُردو میں ہونے چاہییں ۔

س: کیا اُردو کو ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے؟
ج: بنیادی تعلیم اگرآسانی سے ممکن ہو تو مادری زبان میں ہونی چاہیے۔بعد میں کسی ایسی زبان میں جس پر طالب علم کو عبور ہو اور وہ نفس مضمون کو سمجھ سکے بلکہ سوال اور اختلاف کرسکے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارے اکثر طالب علموں کو انگریزی پر پورا عبور نہیں ہوتا اور وہ اس میں اظہار خیال پر قدرت نہیں رکھتے۔ وہی بات وہ اُردو میں آسانی سے کرلیتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا مقصد طالب علم کی سوچنے ، سوال کرنے ، اختلاف کرنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنا ہے۔ کچھ شعبوں اور درجوں میں جہاں مجبوری ہے، ان کو چھوڑ کر اُردو میں تعلیم سے ہماری تخلیقی صلاحیتیں ابھریں گی۔

س: اُردو لغت بورڈ کی لغت کے بارے میں کچھ بتایئے۔ اب اس میں کیا کام ہونا چاہیے ؟
ج: میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر لب کشائی مجھے نہیں کرنی چاہیے ۔ اسے کسی اور تناظر میں لیا جاسکتا ہے۔ بہتر ہے اس پر کوئی اور بات کرے۔

س:شادی کب ہوئی، کتنے بچے ہیں ،کیا اولاد میں ادبی ذوق پایا جاتا ہے؟
ج:اب تو یاد بھی نہیں کہ اس قیدِ بامشقت میں کتنا عرصہ بیت گیا۔ خیر ،تفنن برطرف،۱۹۸۳ء میں شادی ہوئی، تین بیٹے ہیں، بڑا بیٹا اُردو شاعری کا عمدہ ذوق رکھتا ہے ۔ دونوں چھوٹے میری ادبی مصروفیت کے سبب پوری طرح میرے ہتھے نہیں چڑھ سکے، لہٰذا سائنس اور کامرس کی تعلیم میں گم ہوگئے۔بڑے بیٹے کو خود اُردو اور انگریزی پڑھائی اس لیے وہ دونوں زبانوں پر عبور رکھتا ہے۔

س: کیا کبھی عشق کے تجربے سے بھی گزرے؟
ج: بقولِ غالب : کہتے ہیں عشق جس کو خلل ہے دماغ کا ۔ میں نے محبت کی شادی نہیں، بلکہ جس سے شادی ہوئی اس سے محبت کی۔

س: کبھی زندگی میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: بارہا۔کئی بار دل، بقول ِغالب ، دیکھ کر طرزِ تپاک ِ اہل دنیا جل گیا

س:والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گے؟
ج: دنیا کے ان معدودے چند رشتوں اور تعلقات میں سے ایک جو سراپا خلوص ہوتے ہیں۔

س:دولت ،شہرت اور محبت میں سے کس کو ترجیح دیں گے؟
ج: محبت کے بغیر دولت اور شہرت سب بے کا رہے ،بلکہ محبت کے بغیر تو دنیا بھی وجود میں نہ آتی، بقول ِ میرتقی میرمحبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نو رنہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

س:کوئی ایسا دوست ملا ،جس سے دوستی پر فخر ہو؟
ج: کئی ۔ سب کے نام بتانا مشکل ہے،لیکن دوستوں کی محبت کے بغیر زندگی مشکل ہوتی۔

س:کوئی ایسی یاد، جو کبھی آپ کے دل سے جدا نہیں ہوتی؟
ج: والدین کی شفقت اور خلوص کا بار بار خیال آتا ہے اور پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین۔

س:بچپن اور لڑکپن میں کیا مشاغل رہے؟
ج: کرکٹ بہت کھیلی، پتنگیں بھی اڑائیں ، گلی ڈنڈا بھی کھیلا اور لڈو بھی،تیراکی بھی کی، لیکن مطالعے کا شوق سب پرحاوی رہا۔

س:زندگی کا کون سا دور سب سے اچھا لگا؟
ج: بچپن میں انسان بادشاہ ہوتا ہے، بے فکرا اور مست۔ ویسے بھی ماضی ہمیشہ سہانا لگتا ہے۔ موجودہ دور بھی دل کش ہے، بیوی بچوں ،پوتوں پوتیوں اورنواسوں نواسیوں کے ساتھ کے ساتھ ہنسنا بولنا بڑی مسرت ہے۔

س: کیاآپ نے کبھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچا؟
ج: پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے ۔ اسی کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔اگر صحیح جمہوری روایات کا تسلسل رہا اور لوگوں کو ان کے حقوق ملتے رہے تو پاکستان ان شا ء اللہ ایک خود مختار اور خوش حال ملک کی حیثیت سے تا قیامت قائم رہے گا۔پاکستان کا مستقبل جعلی نہیں حقیقی جمہوریت میں پوشیدہ ہے ۔’’ کنٹرولڈ ڈیموکریسی ‘‘کا نظریہ کسی مذاق سے کم نہیں ۔

س:سیاست دانوں کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
ج: کچھ تو ان میں خود خاصی خرابیاں ہیں اور کچھ ان کو بدنام بھی زیادہ کردیا گیا ہے۔ بقول منیر نیازیکجھ شہر دے لوگ وی ظالم سنکجھ ساہنوں مرن دا شوق وی سیلیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خان بھی تو سیاست دان تھے ۔ علامہ اقبال عملی سے زیادہ نظری سیاست دان تھے ۔ ان کی اصل قوت ان کا بے داغ کردار تھا۔ سیاست دانوں کو مثالی کردار کانمونہ پیش کرنا چاہیے، تاکہ کوئی جمہوریت پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ قوم کے لیڈروں کو قوم کے مثالی افراد ہونا چاہیے۔

زندگی کا یادگار واقعہ
ایک واقعہ بھلائے نہیں بھولتا۔ میری عمر تقریباً آٹھ برس تھی ۔ میں والد صاحب ، ان کے دوستوں اور اپنے بھائیوں کے ساتھ پکنک پر ساحل سمندر پر گیا تھا۔ نادانی میں گہرے پانی میں چلا گیااور ڈوبنے لگا۔ دو تین بار غوطے کھائے اورہاتھ پائوں مارنے لگا ۔ بس ڈوب ہی چلا تھا،لیکن وہاں کچھ یورپین تیراکی کررہے تھے۔ ان میں سے ایک نے میرا پانی سے باہر نکلا ہوا ہاتھ دیکھ لیا اور گھسیٹ کر کنارے پر لے آیا۔ بس ڈوبتے ڈوبتے بچا ۔
مصروفیات سے ازدواجی زندگی متاثر نہیں ہوئی
اگر بیوی تعاون نہ کرتی،ضرورمتاثرہوجاتی، کیونکہ میں چھٹی کے دن، یہاں تک کہ عید کے دن بھی لکھتا پڑھتا رہتا ہوں۔اللہ کا شکر ہے کہ بیوی بہت اچھی ملی۔میری زندگی میں جو چھوٹی موٹی کامیابیاں آئیں ان میں میری بیوی کا سب سے اہم کردار ہے۔ میں نے شادی کے بعد ایم اے کیا ، پھر پی ایچ ڈ ی کی۔ دو بچے بھی تھے، لیکن بیوی نے گھر کی تمام ذمے داریوں سے مجھے آزاد کردیا اور کہا آپ پڑھنے لکھنے کا کام کریں، گھر مجھ پر چھوڑ دیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *