Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Maulana Muhammad Tahir Maroofi, حیات طاہر مولانا محمد طاہر معروفی

مولانا محمد طاہر معروفی

Maulana Muhammad Tahir Maroofi, حیات طاہر مولانا محمد طاہر معروفی

نام کتاب:حیاتِ طاہر
مصنف:مولانا محمد عثمان معروفیؒ
تحقیق تعلیق : مولانا شاکر عمیر قاسمی

’’حیات طاہر ‘‘مولانا محمد طاہر معروفی ( ولادت: 1224ھ؍ 1808ء ،م: 24 ؍ربیع الثانی 1296ھ ؍ اپریل 1879ء) کی سوانح حیات ہے ،جومعروف ادیب ومورخ اور فن تاریخ گوئی کے امام مولانا محمد عثمان معروفی کی تصنیف ہے ، مولانا کا ذکراس سلسلہ کی قسط نمبر۴۴میں ان کی کتاب ’’سیرۃ الرسول ‘‘ کے تعارف میں آچکا ہے۔ مولانا طاہر صاحب کی شخصیت اس پورے علاقہ کے لئے بڑی اہم تھی ۔وہ پورہ معروف کے ایک جیدالاستعداد عالم دین،نکتہ رس ودیدہ ورمفتی وقاضی ، بہترین کاتب وخوش نویس ، حاذق طبیب ،فنون سپہ گری میں طاق زبردست پہلوان وشہ زور تھے۔ ان کی وفات کو ڈیڑھ صدی سے زائد کا عرصہ ہورہا ہے ۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم وطن میں ہوئی ، اس کے بعد جونپور چلے گئے جہاںمولانا سخاوت علی جونپوری سے مکمل عربی تعلیم حاصل کی اور 1249ھ میں اس وقت ان سے بخاری شریف پڑھ کر سند فضیلت حاصل کی تھی ، جب ہمارے دیار میں خال خال علماء تھے ۔ 1260ھ کے سفر حج میں شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی ؒ سے حدیث پڑھ کر سند اجازت حاصل کی ۔ راہ سلوک سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مولانا کرامت علی جونپوری کی خدمت میں رہ کر طے کی ، ان سے آپ کو اجازت بیعت حاصل تھی، مولانا کی طرف سے دیا گیااجازت نامۂ بیعت جو فارسی زبان میں ہے ، ترجمہ کے ساتھ کتاب میں درج ہے۔ مولانا کرامت علی صاحب کی طرف سے سلسلۂ قرأت وسماعت قرآن کی بھی سندعطا ہوئی تھی وہ بھی شامل کتاب ہے۔ شاہ اسحاق محدث دہلوی کی سند حدیث بھی کتاب میں موجود ہے۔ مولانا کی نسل میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ بعد تک جاری رہا ، اس لئے ان کے بہت سے آثار وباقیات محفوظ رہ گئے ۔ احیاء العلوم مبارکپور کے مدرس اول مولانا محمود معروفی(م: 14؍ اپریل 1951ء) آپ کے سگے پوتے تھے ۔
یہ کتاب پہلی مرتبہ 1967ء میں شائع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ اس کا پیش لفظ رئیس المحدثین مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ (م: 1992ء) نے لکھا ، وہ اس میں لکھتے ہیں

’’ہمارے دیار میں جن ربانی علماء نے کتاب وسنت کی مشعل جلائی اور دلوں کو ایمان ویقین اور توحید وجذبۂ اتباع سنت کے نور سے منور کیا،ان میں حضرت مولانا محمد طاہر صاحب کا نام نامی سنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے، مولانا کو علم و عمل اور ارشاد وہدایت کے علاوہ جسمانی قوت میں بھی وہ امتیاز خاص حاصل تھا، جس کوخرق عادت ہی ے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ علمی عملی کمالات سے تو وہی لوگ زیادہ واقف ہو سکتے ہیں، جن کوعلم و عمل سے کچھ لگاؤ ہو، لیکن آپ کی شہ زوری کے واقعات کو بلا امتیاز مذہب وملت بچہ بچہ جانتا تھا ۔میری تعلیم کے ابتدائی زمانہ تک مولانا کے دیکھنے والے لوگ موجود تھے اور اس وقت تک مولانا کی خارق عادت قوت جسمانی کے واقعات کا گھر گھر چر چا تھا ،لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آج وہ دن آگیا کہ موجود ہ نسل مولانا کے نام سے بھی آشنا نہیں ہے۔ یہ ہماری کتنی بڑی ناقدری وحق ناشناسی ہے کہ جو مایہ ناز ہستی اس لائق تھی کہ رہتی دنیا تک اس کے کارناموں کو یادرکھاجائے اور اس کی سیرت سے سبق حاصل کیا جائے ،ایک صدی بھی گزرنے نہیں پائی کہ ہماری غفلت کی وجہ سے اس کی یاددلوں سے محو ہونے لگی اور اگر ہماری غفلت کا سلسلہ آگے بھی یوں ہی جاری رہتا تو کچھ دنوں کے بعد اس نامور ہستی کی یاد کے نقوش شاید بالکل ہی مٹ جاتے ، مگر خدا بھلا کرے مولانا محمد عثمان معروفی اور ان کے احباب کا کہ انھوں نے اس خطرہ کو محسوس کرکے طے کیا کہ حضرت مولانا مرحوم کا ایک مفصل تذکرہ لکھا جائے ، لکھنے کی ذمہ داری مولانا محمد عثمان معروفی کو سونپی گئی ، انھوں نے تمام ممکن ذرائع سے کام لے کر یہ خدمت حسن و خوبی سےا نجام دی۔ ‘‘(ص:۲۶)

اس کا مقدمہ مورخ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارکپوری نے لکھا،جو مختصر ہونے کے باوجود ’’ گنجینۂ معلومات ‘‘ ہے، جس میں پورہ معروف اور خطۂ مشرق کی مختصر تاریخ ، مولانا طاہر صاحب کا ذکر ، ان کے اساتذہ مولانا سخاوت علی جونپوری ، شاہ اسحاق محدث دہلوی اور مولاناکرامت علی جونپوری کا ذکر، اس کے علاوہ مولانا کے بہت سےمعاصر علماء کا نام اس میں موجود ہے ۔ اس پُر ازمعلومات مقدمہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔مولانا عثمان معروفی کو تاریخ گوئی میں غیر معمولی حذاقت ومہارت حاصل تھی، اس کا کچھ نمونہ کتاب کے شروع میں موجود ہے، انھوں نے نظم ونثر میں بیسوں تاریخیں نکالی ہیں جن سے مولانا طاہر صاحب کی ہجری وعیسوی تاریخ ولادت ووفات اور کتاب کی تالیف کا سن برآمد ہوتا ہے۔

اس کے بعد دیباچہ میں اس کتاب کا مآخذ اور پورہ معروف کی تاریخ ، اس کی وجہ تسمیہ ، بانی قصبہ شیخ محمد معروف کے احوال ، قصبہ کی آبادی ، یہاں کےلوگوں میں حصول علم کا جذبہ اور یہاں کی صنعت وغیرہ کی تفصیلات ہیں ۔ اس کے بعد مولانا طاہر صاحب کے والد گرامی اور ان کے اساتذہ ومشائخ کا ذکرہے ۔ صفحہ ۹۷سے مولانا کا ذکر ہے ، جس میں ان کے خاندانی احوال، ان کی ولادت، ابتدائی تعلیم ، جونپور تحصیل علم کے لئے جانا،ان کے استاذ مولانا سخاوت علی جونپوری کی شفقت وعنایت اور توجہات، فراغت کے بعد دستار فضیلت کے لئے جلسہ کا انعقاداور وہاں کی دیگر تفصیلات کا ذکر ہے ۔ اس کے علاوہ مولانا کی خوبیاں وکمالات ، فراغت کے بعد وطن میں دینی خدمات، پہلے ودوسرے حج بیت اللہ کا ذکر اور وہاں شاہ اسحاق محدث دہلوی سے سند حدیث حاصل کرنا ۔ وطن میں جمعہ وعیدین کی امامت ، جمعہ کے بعد وعظ، تعزیہ داری کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنا اور بدعات کا استیصال اور ان کے معمولات کا بیان ہے۔

مولانا ایک بہترین خوش نویس تھے ، ان کے ہاتھ لکھے ہوئے متعدد قرآن مجید اور دیگر ۴۵؍کتابوں کا ذکر ہے،جو اس کتاب کی پہلی اشاعت ۱۹۶۷ ء تک موجود تھیں ، معلوم نہیں اب بھی ہیں یا مولانا کی بہت سی یادگاروں اور کارناموں کی طرح وہ بھی محو ہوگئے۔ان میں بخاری ومسلم شریف جیسی کتابیں بھی تھیں۔ مولانا کی پہلوانی وشہ زوری کے ایسے ایسے واقعات کا ذکر ہے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے ۔ مولانا کی ورزش کے سامان کتاب کے لکھنے کے وقت تک موجود تھے ، مصنف نے خود ان کا مشاہدہ کیا اوروزن کرکے مگدر اور دیگر سامانوں کا وزن بھی لکھا ہے ۔اخیر میں مولانا کی اولاد واحفاد کا ذکر ہے ۔

کتاب بہت دلچسپ ہے ، میں نے ابتدائی تعلیم کے زمانے میں متعدد بار اسے پڑھا ہے۔ آج سے دس سال پہلے جب کتاب بالکل ختم ہوگئی تو مدرسہ معروفیہ کے ذمہ داران نے دوبارہ اس کی اشاعت کا پروگرام بنایا ،اور قصبہ کے ایک نوجوان فاضل مولانا شاکر عمیر قاسمی(ولادت:۸/نومبر ۱۹۸۵ء) کو مکلف کیا کہ وہ کتاب کا مقابلہ اصل مسودہ سےکرکے اس کی تصحیح کریں، موصوف قرطاس وقلم سے دلچسپی رکھنے والے ایک باذوق عالم ہیں ، ۲۰۰۶ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا زین العابدین معروفی علیہ الرحمہ کی نگرانی میں دوسال جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں رہ کر تخصص فی الحدیث کیا ، اس وقت مظہر العلوم میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے اصل مسودہ سامنے رکھ کر پوری کتاب کا مقابلہ کیا ، اغلاط کی تصحیح کی، جہاں ضرورت محسوس ہوئی حواشی لکھے ، احادیث وآثارکواصل کتابوں سے ملاکر دیکھا ، جہاں کوئی کمی محسوس ہوئی حاشیہ میں اس کی اصلاح ووضاحت کردی ۔ جہاں جہاں فارسی عبارتیں اور اشعار آئے تھے قصبہ ہی کے ایک دوسرے فاضل مولانا رضوان الرحمٰن معروفی نے اس کا ترجمہ کیا

ضیاء الحق خیرآبادی

مولانا محمد طاہر معروفی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *