Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Safarnama Maulana Mufti Inam ul Haq Naqshbandi, دہلی تا خاک بخارا وسمرقند سفرنامہ مولانا مفتی انعام الحق نقشبندی

Safarnama Maulana Mufti Inam ul Haq Naqshbandi

Safarnama Maulana Mufti Inam ul Haq Naqshbandi, دہلی تا خاک بخارا وسمرقند سفرنامہ مولانا مفتی انعام الحق نقشبندی

نام کتاب: دہلی تا خاکِ بخارا وسمرقند
مصنف: مولانا مفتی انعام الحق نقشبندی

یہ کتاب ہے تو ایک سفر نامہ جس میں دہلی ، بخارا ، سمرقند ، نسف ،ترمذ اور وسط ایشیا کے متعدد علاقوں کی رودادِ سفر ہے ۔ لیکن اس میں رودادِ سفر کے ساتھ ان علاقوں کی تاریخ، وہاں کے علماء ومحدثین اور علمی و روحانی شخصیات کے حالات وواقعات، ان کے ملفوظات اور ان چیزوں کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے جو ایمان ویقین میں اضافہ کا باعث بنیں۔ چنانچہ اس سفرنامہ سے جہاں مختلف علاقوں اور خطوں سے واقفیت ہوتی ہے وہیں اس کی قدیم تاریخ اور وہاں کے علماء ومحدثین اور صوفیاء کے احوال اور ان کی تعلیمات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔

کتاب کے مصنف مولانا مفتی انعام الحق قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور متعدد علمی وفقہی کتابوں کے مصنف ہیں ، دارالعلوم دیوبند سے ان کی فراغت ۱۹۸۷ء کی ہے، ان کے ساتھیوں میں مفتی اختر امام عادل اور مفتی محمد سلمان منصورپوری وغیرہ ہیں ۔ یہ ہمارے استاذ مولانا اعجاز احمداعظمی علیہ الرحمہ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں ، دارالعلوم دیوبند سے پہلے ان کی تعلیم مدرسہ دینیہ غازی پور میں جلالین شریف تک ہوئی ۔ وہاں انھوں نے حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ سے خصوصی استفادہ کیا، ان کی وفات تک میں دیکھتا تھا کہ جب کوئی کتاب لکھتے تو پہلے اس کا مسودہ اپنے استاذ کی نظر سے گزارنا ضروری سمجھتے تھے۔ موصوف ایک بہترین مدرس، اچھے ادیب و واعظ اور بافیض شیخ طریقت ہیں ، ابھی حال میں ایک پروگرام میں مولانا کے و عظ سے مستفید ہونے کا موقع ملا، بڑا ہی موثر وعظ تھا۔

اس وقت دارالعلوم عالی پور گجرات میں تقریباً تیس سالوں سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، بخاری شریف اور دیگر کتابیں زیر درس رہتی ہیں۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء میں انھوں نے نقشبندی سلسلہ کے ایک کارواں کے ساتھ سلسلۂ نقشبندیہ کے گل سرسبد شیخ بہاؤالدین نقشبندی کی قبر پر حاضری اور ایک تقریب میں شرکت کے لئے یہ سفر کیا۔ شیخ بہاؤالدین کے نام پر اس سلسلہ کا نام نقشبندیہ پڑا ، ورنہ اس سے پہلے یہ سلسلہ ’’صدیقیہ ‘‘ کہلاتا تھا،یہ اسی سفر کی روداد ہے ۔مفتی صاحب عصر حاضر کے مشہور نقشبندی شیخ پیر ذوالفقار صاحب کے اجل خلفاء میں سے ہیں۔ اس قافلۂ علم ومعرفت کے سربراہ ان کے شیخ تھے ، قافلہ کے ارکان میں مولانا سید محمد طلحہ قاسمی نقشبندی اور دوسرے حضرات اہل علم تھے ۔

کتاب کے آغازمیں مولانا مفتی عبید ا للہ اسعدی اور مولانا سید محمد طلحہ قاسمی کی تقریظات ہیں ، پھر مصنف نے ’’ حرفے چند‘‘ کے عنوان سے ’’ باعث سفر ‘‘ کو تفصیل سے لکھا ہے ۔ صفحہ ۸۷ تک دہلی کے احوال ہیں ، جس میں دہلی کی علمی وروحانی اور سیاسی جھلکیاں، یہاں کےعلماء ومشائخ کے حالات ، ان کی آخری آرام گاہوں اوریہاں کی دیگر تاریخی یادگاروں کا ذکر کیا گیا ہے ۔مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے ان آثار وعلائم کو دیکھ کر مصنف کے دل پر اس کا جو اثر پڑا اس کو انھوں نے بڑے درد و کرب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اخیر میں حدیث لاتشدوالرحال إلا لثلاثۃ مساجد پر بھی عمدہ گفتگو کی ہے۔

صفحہ ۸۸ سے بخارا وسمرقند کے سفر کی روداد ہے ، جس میں ہمارے ائمہ محدثین کے حالات ، وہاں کی یادگاریں ، بعض کتابوں کے قلمی نسخے اورکمیونسٹ دور کے عبرت ناک واقعات کا ذکر ہے جیسے کئی اہم مدرسوں کا ذکر جو نائٹ کلب اور شراب کے اڈوں میں تبدیل کردئے گئے ۔ ان واقعات کو پڑھ کر کلیجہ حلق کوآجاتا ہے کہ دین وعلم دین کے ان مراکز پر کیسا المناک دور آیا کہ اللہ کا نام لینا سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا۔ یہاں کی روداد صفحہ ۸۸ سے ۱۹۰ تک تقریباً سوصفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کے بعد صفحہ ۱۹۲ سے ۲۶۲ تک سات ضمیمے ہیں جو مفتی محمد افضال الحق کے مرتب کردہ ہیں ۔ یہ ضمیمے بے حد معلوماتی اور مفید ہیں ۔ ضمیمہ اول میں سلسلۂ نقشبندیہ کے مشائخ کا مختصر تعارف ہے ، جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خواجہ غلام حبیب تک ۳۹؍ مشائخ کے حالات پر مشتمل ہے۔ ضمیمہ دوم میں ان مشائخ نقشبندیہ کی فہرست ہے جس میں ان کی تاریخ ولادت ووفات اور مدفن کا ذکر ہے۔ ضمیمہ سوم میں علاقۂ ماوراء النہر کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ضمیمہ چہارم میں مقبرہ شاہ زنداں پر ایک دلچسپ مضمون ہے ، یہ مقبرہ حضرت عباس ؓ کے صاحبزادے قثم بن عباس کا ہے اور سمرقند میں واقع ہے۔پانچویں ضمیمہ میں بی بی خانم مسجد کا ذکر اور اس سے متعلق ایک مشہورداستان کا ذکر ہے ، جس کے متعلق مرتب نے لکھا ہے کہ معلوم نہیں یہ صرف افسانہ ہے یا اس کی کچھ حقیقت بھی ہے، اسی میں شیریں وفرہاد کا قصہ بھی بیان کیا گیا ہے۔

چھٹے ضمیمہ میں دہلی کے مسلم حکمرانوں کا اجمالی نقشہ اور ان کی مدت حکومت کا تذکرہ ہے،اور آزادی کے بعد ہونے والے صدور اور وزرائے اعظم کے نام اور ان کی مدت کار کا ذکر ہے، یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ ساتواں اور آخری ضمیمہ ’’ میں دلی ہوں ‘‘ مشہور صاحب طرز ادیب خواجہ حسن نظامی کے زور قلم کا شاہکار ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

دہلی تا خاکِ بخارا وسمرقند

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *