Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Aqliyati Huqooq Ka Tareekhi Pas Manzar, اقلیتی حقوق کا تاریخی پس منظر

Aqliyati Huqooq Ka Tareekhi Pas Manzar, اقلیتی حقوق کا تاریخی پس منظر

مصنف: تحسین سلطانہ

اقلیتی حقوق کا مفہوم: اقلیت سے مراد کسی ملک کی آبادی کا وہ حصہ ہے جو تعداد میں کم ، باقی آبادی سے الگ شناخت کا حامل اور اقتدار میں حصہ داری سے محروم ہو ۔ موجودہ دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں نسلی، مذہبی یا ثقافتی اعتبار سے یکسانیت پائی جاتی ہو۔ ایک ملک کے حدود میں طبقات کی یہ کثرت عام بات ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی تناظر بھی رکھتی ہے۔ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد یکجا ہوکر کسی محدود علاقہ میں آباد ہوجاتے ہیں، باہمی رشتے ناطے قائم کرلیتے ہیں، اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ معاشرہ میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، ریاست میں مواقع کے حصول کے لحاظ سے ان کا خاص طرز عمل انہیں عددی لحاظ سے وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی بناء پر اسے نسلی غلبہ یا اقلیت کہتے ہیں۔

غلبہ یا اقلیت کو ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں آزادی سے قبل سفید فام نسل کے لوگ عددی اعتبار سے کم ہونے کے باوجود معیار کے لحاظ سے غلبہ رکھتے تھے کیونکہ وہاں کے سیاہ فام لوگ عددی طور پر کثرت رکھنے کے باوجود ظلم اور ہر قسم کی پس ماندگی کا شکار تھے۔ ایک اور مثال امریکہ میں آباد یہودیوں کے بارے میں دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ امریکہ کی مجموعی آبادی میں صرف دو فیصد ہونے کے باوجود امریکی سیاست میں اتنی اہمیت حاصل کرچکے ہیں کہ اکثریت کی طرح غلبہ رکھتے ہیں۔

لفظ ’’اقلیت‘‘ (Minority) کا سماجی استعمال بالعموم وسیع پیمانہ پر ایک امتیاز کی نشاندہی کے لیے کیا جاتا ہے۔بعض انسانی گروہ بہ آسانی شناخت کردہ پہلوئوں کی وجہ سے اکثریت سے مختلف ہوتے ہوتے ہیں لیکن لفظ ’’اقلیتی گروپ‘‘ زیادہ زیر استعمال ہے۔ ایک ماہر سماجیات کے نزدیک کسی بھی قسم کا سماجی گروپ لوگوں کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جس کے رویہ کے قواعد اور مقاصد کا تعین ، اسے باقی سماج سے نمایاں طور پر مختلف ظاہر کرتے ہیں۔

اصطلاح میں ’’اقلیت‘‘ (Minority) کی کوئی ایسی تعریف موجود نہیں ہے جسے عالم گیر سطح پر تسلیم کیا گیا ہو۔ مجلس اقوام (League of Nations) نے بعض ممالک اور چند آبادیوں کو عمومی تعریف کے پہلو سے بحث کیے بغیر ’’عارضی اقلیتیں‘‘ (Adhoc Minorities) قرار دیا تھا۔

اقلیتی حقوق کی تعریفات: مستقل بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے اقلیتی طبقے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے۔ایسا گر وہ جو ایک ملک یا علاقہ میں مقیم ہو جس کی ایک نسل، مذہب، زبان اوراپنی روایت کے مطابق بچوں کی پرورش کرنا، ایک دوسرے کی باہمی مدد کرنا اور یکجہتی کی بنیاد پر متحد ہونا۔ اس تعریف کے مطابق نسل، مذہب، زبان اور روایات، اقلیتی گروہ کی خصوصی اور انتہائی نمایاں علامات ہیں۔

سماجی علوم کے بین الاقوامی انسائیکلوپیڈیا (International Encyclopaedia of Social Science) میں اقلیتوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : ’’معاشرہ میں عوام کا ایسا گروہ جو نسل، قومیت، مذہب یا زبان کے اعتبار سے دیگر افراد سے مختلف ہو، خود کو سماج میں مختلف حیثیت سے دیکھتا ہو اور دوسرے بھی اسے منفی رجحانات رکھنے والا گروپ سمجھتے ہوں۔ اس کے علاوہ نسبتاً کم اختیارات کا حامل ہو۔ اس تعریف میں اہم عناصر رویوں کا مجموعہ ہیں۔ وہ جو گروپ کے اندر ہی الگ تھلگ ہیں اور اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں‘‘۔

اقوام متحدہ (United Nations) کے خصوصی نامہ نگار فرانسکو کیپوٹارٹی (Francesco Capotorti) نے اقلیتوں کی تعریف یوں کی ہے۔ ایک گروپ جس کا مقصد اپنی ثقافت، روایات، مذہب اور زبان کا تحفظ ہو جو تعداد کے اعتبار سے کسی مملکت کی باقی آبادی کے مقابلہ میں کم تر ہو اور غیرغالب موقف میں ہو، نسلی، مذہبی اور لسانی خصوصیات کے اعتبار سے باقی آبادی سے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ یکجہتی کے احساس کا مظاہرہ کرتا ہوں۔

جے ۔ پیکر (J.Packer) نے اقلیتوں کی تعریف اس طرح کی ہے۔ عوام کا ایسا گروپ جو آزادانہ طور پر ایک مسلمہ گروہ سے وابستہ ہو اوراس کی مشترکہ خواہش اکثریت کے اصول کے اظہار سے مختلف ہو۔

لوئیس ورتھ (Louis Wirth) کے الفاظ میں ’’اقلیت ایک ایسا گروپ ہے جو اپنی خاص امتیازی شناخت کے سبب معاشرہ میں امتیاز کا شکار ہوجاتا ہے۔ مسلسل امتیاز کا سامنے کرتے ہوئے وہ خود کو معاشرہ میں مکمل طور پر ضم نہیں کرپاتا‘‘۔

مذکورہ بالا تعریفوں سے اقلیتوں کی حسب ذیل خصوصیات سامنے آتی ہیں:

۱۔ تعداد میں کم ہونا، ۲۔ سیاست میں عدم شرکت، ۳۔ امتیازی شناخت، ۴۔ اپنی شناخت کے تحفظ کی فکر، ۵۔ باہمی اتحاد کا شعور۔

اقلیتوں کے حقوق فرد کو نہیں بلکہ اقلیتی جماعت یا گروہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان کی نوعیت تیقنات اور تحفظات کی ہے۔ ان حقوق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ آئین اور قوانین میں ان کے تعلق سے دفعات کو شامل کرنے کا رجحان فروغ پاتا ہے اور اسے مہذب ریاست (Civilised State) کی خصوصیات کہا جاتا ہے۔

اقلیتی حقوق کے تعیین کے بعد ان کو عملی جامہ پہنانے کا مرحلہ آتا ہے جس کے لیے رواداری (Tolerance) اور بقائے باہم (Mutual Co-Existence) کا ہونا ضروری ہے جس کی عدم موجودگی کے نتیجہ میں تمام تیقنات اور تحفظات بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ نسل، رنگ، زبان، مذہب و عقیدہ کے فرق کو برداشت کرنا، اقلیتوں کے ساتھ مل کر رہنا اور ان کے حقوق کے احترام کے جذبہ کو فروغ دینا ضروری ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ ماحول نہایت ناگزیر ہے۔ عدم رواداری کے جذبہ کو پھیلانے کی کوششوں کے خلاف سخت کارروائی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ دراصل اکثریت کی ذمہ داری ہے۔ جہاں اکثریت اس ذمہ داری کو سمجھتی اور نبھاتی ہے، رواداری اور باہمی تال میل کا عملاً مظاہرہ کرتی ہے وہاں اقلیتوں کے حقوق کے لیے سازگار ماحول ہموار ہوتاہے۔

کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں کسی نہ کسی اعتبار سے ایسی اقلیتی تعریف کے حامل گروہ موجود نہ ہوں جن کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً تین ہزار ایسے قبائلی و نسلی گروپ ہیں جو اپنے حقوق اور شناخت کے بارے میں حساس ہیں۔ دنیا میں اس وقت ۱۹۲ سے زائد سیاسی طور پر آزاد و خود مختار ممالک ہیں جن میں سے ۱۷۵ وہ ہیں جو ان کی آبادی کے لحاظ سے کثیر تہذیبی ممالک کہلائے جاسکتے ہیں۔

نسلی گروپوں میں کشمکش کی وجوہات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی ہو یا دور حاضر، ملک میں سیاسی اقتدار اور فیصلہ سازی میں حصہ لینے سے بعض نسلی گروپوں کو محروم رکھنے کے نتیجہ میں کشمکش شروع ہوئی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اقلیتوں کو سیاسی اقتدار میں شریک کیا جائے، ان کو تحفظ کا احساس دلایا جائے اور انہیں عزت کا مقام عطا کیا جائے۔ اس کے بغیر ملک میں امن و امان کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔

گاندھی جی کا یہ قول مشہور ہے کہ کسی ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی سچائی کو پرکھنا ہو تو یہ دیکھا جائے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

لارڈ اکٹون (Lord Acton) کے مطابق ’’سب سے زیادی حقیقی معیار یہ ہے کہ جس ملک کا ہم جائزہ لے رہے ہیں کیا وہاں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے‘‘۔ اقلیتوں کے حقوق کے مسئلہ کو فرقہ واریت بمقابلہ سیکولرزم اور نیشنلزم بمقابلہ سیکولرزم کی بحث سے بالاتر ہوکر جمہوریت، مساوات اور حقوق کے نظریاتی دائرہ میں رکھ کر دیکھا جانا چاہیے۔ ایک جمہوریت بالخصوص تکثیری معاشرہ کے حامل ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرینکلن ڈی روزویلٹ (Franklin D.Rosevelt)نے کہا ہے کہ وہی جمہوریت برقرار رہ سکتی ہے جو اقلیتوں کے حقوق کو اپنے بنیادی اصولوں کے طور پر تسلیم کرے۔

اقلیتی حقوق کا تصور انسانی حقوق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انسانی حقوق (Human Rights) جسے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) ، پیدائشی حقوق (Birth Rights) ، انسان کے حقوق (Rights of Man) بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی کے بغیر اقلیتوں کے حقوق بے معنی ہیں۔ بنیادی حقوق میں سب سے اہم اور اولین حق ’’زندگی کا حق‘‘ (Rights of Life) ہے۔ اسی حق زندگی سے ایک اور حق جڑا ہوا ہے یعنی حق صیانت و سلامتی (Rights to Security

اقلیتوں کو حق صیانت و سلامتی کی ضمانت دیا جانا ضروری ہے ورنہ وہ خوف کے سایہ میں زندگی گزارتے ہیں۔ حق زندگی صرف زندہ رہنے کے حق کا نام نہیں بلکہ ایک آزاد انسان کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو ممکنہ حد تک پروان چڑھانے، زندگی سے لطف اندوز ہونے، ایک مہذب معاشرے کے رکن کی حیثیت سے عمدہ زندگی گزارنے ، مناسب و معقول معیار حاصل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔ اقلیتیں اپنی شناخت، تہذیب و تمدن ، مذہب و عقیدہ کو برقرار اور اس کے فروغ کے لیے سازگار ماحول وہیں پاسکتی ہیں جہاں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ تمام کو بنیادی حقوق اور بنیادی آزادیاں حاصل ہوں۔

اقلیتوں کے حقوق کی تاریخ: اقلیتوں کے حقوق کی تاریخ کا پتہ انیسویں صدی کی آخری دہائی سے لگایا جاسکتا ہے جب کہ یوروپ میں کثیر قومی مملکتوں نے اقلیتوں کے لیے عام حقوق کے علاوہ خصوصی حقوق کی ضرورت کو تسلیم کرلیا تھا۔ پہلی بار ۱۸۶۷ء میں آسٹریلیا کے دستوری قانون کی دفعہ ۱۹ کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ نسلی اقلیتیں اپنی قومیت اور زبانوں کو برقرار رکھنے اور ان کو ترقی دینے کا حق رکھتی ہیں۔ اسی طرح کی دفعات ہنگری کے قانون XLIV) )۱۸۶۸ء میں موجود تھیں۔ سوئس وفاق کے دستور ۱۸۷۴ء میں بھی شہری خدمات میں ملک کی تین زبانوں کو مساوی حقوق دیے گئے تھے۔ مقننہ اور عدلیہ کوبھی یہ حقوق حا صل تھے۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد وسطی اور مشرقی یوروپ میں کثیر نسلی معاشرے وجود میں آئے جنہوں نے قانون کی جانب سے سیاست میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نظریہ کو فروغ دیا۔ اس کے نتیجہ میں اقلیتوں کے حقوق بین الاقوامی عدلیہ کے طریقہ کار کا عام اصول بن کر ابھرے۔ پیرس امن کانفرنس میں بین الاقوامی برادریوں کی قیادتوں کو یہ احساس ہوا کہ جب تک اقلیتوں کے حقوق واضح طور پر تسلیم نہ کیے جائیں اور ایک بین الاقوامی نظام قانون کے تحت انہیں اس کی ضمانت نہ دی جائے مشرقی یوروپ مذہب ، زبان اور نسل کی بنیاد پر اختلافات رکھنے والوں گروپوں کے درمیان تصادم اور خانہ جنگی کی زد میں آجائے گا۔

اس تناظر میں پہلی عالمی جنگ کے بعد امن معاہدوں میں بطور خاص اقلیتوں کے حقوق پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو ان پانچ معاہدوں میں قانونی قرار دیا گیا جو اتحادیوں اور ان کے حلیفوں اور پولینڈ ، چیکو سلواکیہ ، رومانیہ ، یونان اور یوگوسلاویہ کے آسٹریا، بلغاریہ، ہنگری اور ترکی کے درمیان طے پائے تھے۔ البانیہ ، فن لینڈ اور عراق نے اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

اس سے بھی زیادہ اہم مشرقی یوروپ کے ممالک کا مجلس اقوام (League of Nations) میں داخلہ اقلیتوں کو حقوق عطا کرنے کی شرط پر تھا اور مجلس اقوام کو ان تیقنات پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ معاہدے اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک نمونہ فراہم کرتے تھے کیونکہ مملکتوں نے تمام شہریوں کے ساتھ پیدائش، قومیت ، زبان، نسل اور مذہب ہر اعتبار سے مساوی سلوک کرنے کا تیقن دیا تھا۔

اقلیتی گروہوں کو ان کی زبان اور مذہب کے آزادانہ استعمال کا حق دیا گیا۔ معاہدہ کی دفعات کی کسی طرح خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں شکایت کرنے کا موقع فراہم کرنے سے متعلق دفعات بھی وضع کی گئیں۔ یہ گنجائش بھی رکھی گئی کہ بعض مخصوص معاملات میں خطاکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز مجلس اقوام کرسکتی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے دو قابل ذکر فیصلوں کے ذریعہ اقلیتوں کے حقوق حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو ۱۹۳۰ء میں سنائے گئے تھے۔

یونانی ، بلغاریائی برادری کے مقدمہ میں عدالت نے مشاورتی رائے ظاہر کی جو تعداد کے اعتبار سے نہیں بلکہ مشترکہ مذہبی ، لسانی روایات کے لحاظ سے اقلیتوں کی تعریف کا تعین کرنے کے بارے میں تھی۔ کم سن بچوں کی تعلیم اوران کی سماجی تربیت ان کے اصولوں کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اگر برادری ان ثقافتی خصوصیات کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اس گروپ کو برادری قرار دینے کے لیے یہ وجہ کافی۔ البانیہ کے اقلیتی اسکولوں کے ایک اور معاملہ میں مستقل بین الاقوامی عدالت انصاف نے ۶؍ اپریل ۱۹۳۵ء کو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لازمی اصولوں کا تعین کیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اقلیتی حقوق کا مقصد ان کے گروپوں کے لیے باقی آبادی کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا ہے اور ان کے ساتھ خوش گوار تعاون کرنا، اقلیت کی جو خصوصیات اکثریت سے مختلف ہیں ان کا تحفظ کرنا اور ان کی اپنی مخصوص ضروریات کی تکمیل کرنا ہے۔ اقلیتوں کو مکمل مساوات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری مملکتوں کو سونپی گئی تھی اور اقلیتی گروپوں کی روایتوں کے تحفظ کی ہدایت مناسب محکمہ جاتی ذرائع سے کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

بیسویں صدی کی تقریباً تیسری دہائی تک بین الاقوامی رائے عامہ نے اس امر کو تقریباً تسلیم کر لیا تھا کہ اقلیتی گروپوں کو زندگی گزارنے کے ان کے اپنے طریقوں پر عمل کرنے کی اس طرح اجازت حاصل ہونی چاہیے کہ انہیں قانونی طور پر تحفظ حاصل ہو۔ تاہم اسی مدت کے دوران جب مشرقی یوروپ کے بیشتر ممالک میں اقلیتی حقوق نافذ کیے جارہے تھے دیگر ممالک نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اس کی بنیاد یہ بتائی گئی کہ یہ خود مختاری میں دخل اندازی ہے اور علاحدگی پسندی کی حوصلہ افزائی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ کلیت پسند ممالک جرمنی ، ہنگری اور اٹلی نے اقلیتوں کو تنگ کیا اور دوسری طرف ان ہی اقلیتی حقوق کو دیگر مملکتوں میں مقیم جرمن آبادی کے تحفظ کے لیے دخل اندازی کو بہانہ کے طور پر استعمال کیا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں توجہ اجتماعی حقوق سے ہٹ کر انفرادی حقوق پر مرکوز ہوگئی اور تجویز پیش کی گئی کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کافی ہونا چاہیے۔ جرمنی میں یہودیوں کے تجربہ نے اس یقین کو مستحکم کیا کہ افراد کو مملکت کے خلاف قانونی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ عدم تعصب اور افراد کو قانونی تحفظ سے متعلق فقرے ایک خودکار طریقہ پر ملحق گروپس کا تحفظ کریں گے۔

چنانچہ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اس طرح اقلیتی حقوق کے بارے میں کسی دفعہ کے بغیر منظور کرلیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ذیلی کمیشن نے اس کی سفارش کی تھی اعلامیہ کی دفعہ ۲ نے خود کو محض اس تیقن تک محدود رکھا کہ ’’ہرشخص تمام قسم کی آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلامیہ میں درج ہیں۔ نسل ، رنگ، صنف، زبان، مذہب، سیاسی و دیگر رائے ، قومیت یا سماجی وابستگی ، جائداد ، پیدائش یا دیگر کسی حالت کی بناء پر اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعصب روا نہیں رکھا جائے گا‘‘ ۱۹۶۶ء میں معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق کے ساتھ ، شہری و سیاسی حقوق کا اقرار نامہ منظور کیا گیا۔ اس میں بطور خاص اقلیتی حقوق پر توجہ دی گئی۔

اقوام متحدہ کے شہری ، سیاسی حقوق کے اقرار نامہ کی دفعہ ۲۶ کے مطابق تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں اور بغیر کسی امتیازی قانون کے مساویانہ حق دار ہیں، اس سلسلہ میں قانون کسی بھی طرح کے امتیاز کی مخالفت کرے گا۔ نسل ، رنگ ، جنس ، زبان ، مذہب ، سیاسی، جائداد، پیدائش جیسی کسی بنیاد پر امتیاز کے خلاف سب کو مساوی اور موثر تحفظ کی ضمانت دے گا۔

دفعہ ۲۷ کے مطابق ایسی مملکتوں میں جہاں نسلی ، مذہبی یا لسانی اقلیتیں موجود ہوں وہاں ان سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے گروپ کے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی ثقافت کو قائم رکھنے ، اپنے مذہب پر عمل کرنے یا اپنی زبان استعمال کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء میں قومی، نسلی ، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے اولین مکمل اعلامیہ کو منظور ی دی جو اقلیتی حقوق کو جواز عطا کرتا ہے۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں
 تحسین سلطانہ کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *