Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Allama Shibli Ki Seerat un Nabi Mein Naqd Masadir, Ek Jame Darayati Mutala, علامہ شبلی کی سیرت النبیؐ میں نقد مصادر, ایک جامع درایتی مطالعہ

Dr Muhammad Yasin Mazhar Siddiqi

Allama Shibli Ki Seerat un Nabi Mein Naqd Masadir, Ek Jame Darayati Mutala, علامہ شبلی کی سیرت النبیؐ میں نقد مصادر, ایک جامع درایتی مطالعہ

مصنف:   ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی

مصادر سیرت و حدیث: جدید امام سیرت شبلی نے سیرۃ النبیؐ میں بہت سے بلکہ تمام دستیاب مصادر سیرت وحدیث سے روایات و واقعات اخذ کیے ہیں۔ کتب حدیث میں بخاری و مسلم (صحیحین) کے علاوہ صحاح اربعہ بقیہ، مسانید احمد بن حنبل و طیالیسی وغیرہ، متاخر محدثین کی کتب و تالیفات حدیث بیہقی، زرقانی وغیرہ اور شارحین حدیث کی جامع کتب جیسے ابن حجر کی فتح الباری، عینی کی عمدۃ القاری، قسطلانی کی ارشاد الساری، نووی کی شرح مسلم وغیرہ قریب قریب تمام کتب حدیث شامل ہیں، تالیفا ت سیرت میں ابن اسحاق /ابن ہشام ، واقدی/ ابن سعد ، یعقوبی ، بلاذری ، طبری وغیرہ کے علاوہ ان کی شروح سے بہت استفادہ کیا ہے۔ ان میں سہیلی کی الروض الانف اور زرقانی کی شرح المواہب اللدنیہ بہت اہم ہیں خاص کر موخرالذکر، ان کی اور بیشتر جدید سیرت نگاروں کی وہی اصل متاخر ماخذ نظر آتی ہے۔ سیرۃ النبیؐ مولانا شبلی میں زرقانی سے اخذ کردہ مباحث سیرت پر ایک عمدہ تحقیقی مقالہ لکھا جاسکتا ہے اور دوسرے جدید سیرت نگاروں کے اس جامع الکتب سے استفادہ پر بھی۔ مولانا شبلی اپنے قبول و اخذ روایات میں اصل مصادر سے معلومات و واقعات ضرور لیتے ہیں لیکن ان پر شروح اور متاخر مصادر سے اضافہ بھی خوب کرتے ہیں۔ بخاری و مسلم یا دوسری کتب حدیث پر اور ابن اسحاق و ابن ہشام وغیرہ پراضافات زیادہ تر زرقانی سے ہی کرتے ہیں اور حواشی و متون دونوں میں اس کی صراحت بھی کرتے جاتے ہیں۔ بخاری و مسلم /صحیحین کے علاوہ دوسری کتب سیرت و حدیث کے جستہ جستہ واقعات و روایات پر قابل قدر اضافات کرکے وہ اجمال کی تفصیل اور اختصار کی تکمیل کرتے ہیں۔ مصادر سے استفادہ کے مشکل کام میں مولانا شبلی نے اپنے اصل مصادر کے اجمال و اختصار کا شکوہ بھی کیا ہے اور نقد بھی۔ مصادر حدیث ہوں یا مآخذ سیرت، ان دونوں میں بیشترکتب کی روایات و احادیث کے اختصار و اجمال کا اعلانیہ شکوہ ان کا درایتی نقد ہے، ایسا درایتی نقد و مباحثہ جو روایتی تجزیہ و تحلیل کا بھی حامل ہے۔ اس میں وہ ناقدین سیرت اور مبصرین حدیث دونوں کی آراء سے مدبرانہ استفادہ کرتے ہیں ۔

مصادر اصلی پر مبنی اور ضروری مباحث سیرت کی تالیف و ترتیب اور بحث و تمحیص اور تکمیل و تصحیح کی غرض سے مولانا شبلی نے خاص مقالات، کتابچوں، رسالوں اور تالیفات سے بھی استفادہ کرکے اپنی تالیف لطیف کو آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔ ان میں قدیم و جدید دونوں قسم کے ہیں مثلاً حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے اسلام پر حافظ مغلطائی کا رسالہ ’’التحفۃ الجسیمۃ، الخ‘‘، اصحاب صفہ پر ابن الاعرابی اور سلمی کے رسائل و کتب (حافظ سیوطی کا رسالہ اضافہ جامع ہے)، ابوعلی قالی کی امالی، محمود پاشا فلکی کا رسالہ درباب تاریخ ولادت وغیرہ، مولانا شبلی نے بیشتر مقامات پر تو ان خاص رسائل و نگارشات پر تائیدی روایات و مباحث لیے ہیں مگر بعض اوقات ان سے اختلاف بھی کیا ہے اورتبصرہ بھی۔ روایتی نقد اور درایتی تجزیہ کے لحاظ سے مولانا شبلی کا نقد و معارضہ مختلف روایا ت و آراء کے تقابلی مطالعہ اور متنی تحلیل سے زیادہ قابل قدر لائق تقلید ہے۔ متون و حواشی میں مولانا شبلی تنقیدات مصادر و مآخذ ان کے مقدمہ سیرۃ النبیؐ پر اصولی، متنی، تجزیاتی اور عملی تنقید و تبصرہ کے لحاظ سے گراں قدر اضافات ہیں، مقدمہ میں ان نقد مصادر کے جواہر منتشر وپراگندہ کو مباحث میں ان کے صحیح مقام وتناظر میں اضافہ کرکے ایک نیا مقدمہ سیرت شبلی تیار کیا جاسکتا ہے۔

مصادر سیرت پر نقد شبلی: مقدمہ کے علاوہ مولانا شبلی نے متن سیرۃ النبیؐ اور ا س کے مختلف حواشی میں قدیم مصادر سیرت کی روایات پر نقد و استدراک کیا ہے۔ وہ بالعموم ابن اسحاق کی روایت بکائی یعنی سیرت ابن ہشام سے معلومات لیتے ہیں لیکن وہ ان دونوں امامان سیرت کی روایات پر بھی نقد و تبصرہ کرتے ہیں ۔مصادر اصلی پر مولانا شبلی استدراک و نقد اور تبصرہ و تنقید متاخر مصادر سیرت و حدیث اور امامان علوم اسلامی کے حوالے سے بھی ہوتا ہے اور کبھی ان کے غور و فکر کا نتیجہ ،بسا اوقات وہ دوسرے مصادر سیرت جیسے ابن سعد ، بلاذری، مواہب لدنیہ زرقانی وغیرہ سے اضافات کرکے ان کی خلاؤں کو پُرکرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ابن ہشام وغیرہ پر ترک روایات کی بنا پر گرفت کرتے ہیں مثلاً:

سہیلی اور زرقانی جیسے جامع شارحین کی روایات کو بہ تفصیل بتاتے ہیں ، ان میں مدینہ کے سفر بی بی آمنہ، وفات عبدالمطلب وغیرہ کے واقعات ہیں۔

حضرت خدیجہ ؓ کے نکاح کی بابت متعدد حدیث و سیرت بالخصوص بخاری کے اختصار اور اجمال کے شاکی ہیں اور شارحین کے مدح خواں ۔

قبل بعثت تعمیر کعبہ دوم کے باب میں واقعات ابن ہشام ، طبقات ، طبری میں منفرداً اور زرقانی میں مجتمعا بتانے کے علاوہ ’’اخیر کا واقعہ بخاری میں بھی ہے‘‘ جیسے فقرے لاتے ہیں ۔

اسلام حضرات حمزؓہ و عمرؓ کی بحث میں بخاری کی روایت کو اختصار کا اور سہیلی میں تفصیل کا حوالہ دے کر تردد حضرت حمزہ ؓکا ذکر صرف سہیلی میں پائے جاتے ہیں۔

جوار مطعم بن عدی نوفلی کی بحث میں مولانا شبلی نے ابن سعد اور مواہب لدنیہ سے تفصیلی پیش کی ہے جو اصلاً امام سیرت ابن اسحاق کی روایت ہے پھر نقدکرتے ہیں: ’’تعجب ہے کہ ابن ہشام نے یہ حالات قلم انداز کیے ہیں‘‘۔ (۱/۱۷۹،حاشیہ:۲)

مہاجرین حبشہ کی تعداد اور ان کے اسماء کی گنتی پر حضرت جامع کا حاشیہ میں ابن اسحاق /ابن ہشام، واقدی، ابن سعد وغیرہ کی فروگذاشتوں پر نقد ملتا ہے۔

بیعت عقبہ اولیٰ، ثانیہ ، ثالثہ کی تقسیمات پر بحث جامع ہے اور اس میں اولاً چھ نفرخزرج کے قبول اسلام کا واقعہ بطور بیعت اولیٰ بیان کرنے پر متعدد مصادر پر نقد کیا ہے اور اس کی وجہ سے تین عقبات کا طریقہ یا خیال آیاحالانکہ وہ صرف دو تھیں اور اول واقعہ کو ابتدائے اسلام انصار کہنا صحیح بتایا ہے ۔

بیعت عقبہ اولیٰ کی شرائط میں صرف چوری ، قتل شرک و زنا وغیرہ سے اجتناب شامل تھا جس کا ذکر بخاری نے کیا ہے لیکن اخیر بیعت میں جان کی حفاظت پر بیعت لی گئی جو کتب سیرت میں ہے اور حدیث میں نہیں ہے۔ (۱/۱۹۰حاشیہ :۱)

مدینہ کے سربرآور دہ شخص سویدبن صامت کے بارے میں کہا ہے کہ ابن ہشام سے زیادہ سہیلی میں ہے، اصابہ میں بھی ہے لیکن نسب میں فرق ہے اور امثا ل لقمان کا ذکر نہیں البتہ طبری میں سوید کا پورا واقعہ مع اشعار کے مذکور ہے۔ (۱/۱۸۶: حاشیہ۲ اور بعد کے حاشیہ میں ایاس کا واقعہ طبری و اصابہ میں پورا ہے )

شہر مدینہ میں آمدنبویؐ پر خواتین انصار نے ’’طلع البدر علینا من ثنیات الوداع الخ‘‘ گایا تھا۔ اس کے متعلق حاشیہ میں بحث شبلی ہے اور تطبیق بھی’’….. اشعار کے متعلق زرقانی میں نہایت محققانہ بحث کی ہے اور ابن قیم کے اس اعتراض کاجواب دیا ہے کہ ثنیتہ الوداع شام کی طرف ہے نہ کہ مکہ کی طرف ، ….. بخاری میں یہ اشعار منقول ہیںمگر غزوہ تبوک کے موقع پر …. لیکن ان دونوں روایتوں میں کچھ تناقص نہیں، ممکن ہے دونوں موقعوں پر یہ اشعار پڑھے گئے ہوں‘‘ (۱/۱۹۹۲۰۰؛ حاشیہ: ۳، اس نقد شبلی میں ثنیتہ الوداع نامی مقام کے محل وقوع کے حوالے سے ابن قیم کے اعتراض و نقد کا جواب نہیں دیا گیا اورنہ تحقیق کی گئی )

سلسلہ غزوات میں نقد مصادر کے خاص خاص درایتی مباحث شبلی کے جواہر ریزے یہ ہیں:

عام مورخین اور مغازی بالعموم اور زرقانی بالخصوص جہاد کے اذن الٰہی کی تاریخ ۱۲؍صفر ۲؍ ہجری بتاتے ہیں اور اس سے واقعات کی ابتداکرتے ہیں اور سند میں قول زہری کے حوالے سے آیت حج: ۳۹: اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا الخ اور تفسیر ابن جریر کے حوالے سے سورہ بقرہ: ۱۹۰: وقاتلوافی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم الخ سے استدلال کرتے ہیں لیکن شبلی نے درایتی نقد سے نتیجہ نکالا ہے کہ ’’مسلمانوں کو صرف ان سے لڑنے کی اجازت ہے جو ان سے لڑنے آتے ہیں‘‘۔ (ا/ ۲۲۱؛ حواشی: ۱۲ بحوالہ سیوطی ، اسباب النزول، مسند دارمی اور زرقانی بحوالہ صحیح نسائی ، شبلی کاعام نظریہ ہے کہ تمام غزوات دفاعی تھے۔ ان آیات کریمہ میں اور دوسری آیات میں بھی و ہ دفاعی لگتے ہیں لیکن بہت سی آیات و احادیث میں اقدامی جہاد کا اعلان و فرض ملتا ہے۔ دوسرے اولین اذن جہاد مکی ہے )

بدر سے قبل مہموں -غزوات و سرایا- کا ’’مقصد ارباب سیر کے خیال میں قریشی کاروانوں کو لوٹنا اور مخالفین کے فکر میں صحابہ کو غارتگری کی تعلیم دینا تھا۔لیکن واقعاتی شہادتوں سے ان دونوں کی توجیہات صحیح نہیں ثابت ہوتیں۔ ان کا مقصد قرب و جوار کے قبیلوں سے دفاعی معاہدے اور قریش کی خبر رسانی تھی ‘‘۔ (۱/ ۲۲۲۲۲۳ و ما بعد مع حواشی …. شبلی کا حاشیہ درایت ہے … ’’میں واقعات کا پابند ہوں، رائے اور قیاس سے غرض نہیں….‘‘ بار بار کے تجربات سے بے تدبیری ثابت ہوتی ہے‘‘ شبلی نے حدیث و روایت میں راوی کے قیاس و ادراج کو جزو خبر‘‘ نہیں تسلیم کیا، روایتی نقد پر درایتی نقد شبلی کا خاص فکری عطیہ ہے)

آخری سریہ نخلہ میں عمر و بن الحضرمی کا قتل اتفاقاً ہوگیا تھا اور اس کے سبب بقول شبلی ثار یعنی انتقام خون کی بنیاد قائم ہوگئی اور اس کی وجہ سے غزوہ بدر اور غزوہ بدر کی وجہ سے تمام لڑائیاں پیش آئیں۔ سند وتائید میں طبری کا اقتباس اس معنی کا پیش کیا ہے۔ (۱/۲۲۴، حاشیہ بروایت حضرت عمر ؓ؛ شبلی کے اس نظریہ و فکر اور نقد و تبصرہ سے بیشتر محققین سیرت اور سیرت کے علماء و ناقدین کو اتفاق نہیں، دفاعی جہاد کی بہترین صورت بہرحال اقدامی سعی بھی ہے)

غزوہ بدر سے قبل قریشی کاروان تجارت شامی کی مالیت کے حوالے سے نقد شبلی ہے : ’’ہمارے مورخین کو اسباب و نتائج کی جستجو نہیں ہوتی اس لیے انہوں نے اس واقعہ کو محض ایک واقعہ کی حیثیت سے لکھ دیا،لیکن ان کو احساس نہیں کہ مکہ کو تمام سرمایہ کے اگل دینے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ (حاشیہ: ۱/ ۲۲۵: ۱) شبلی کا بیان ہے کہ کاروان شام جانے کے بعد عمرو بن الحضرمی کے قتل نے قریش کی آتش غضب کو اور بھڑکا دیا اور مسلمانوں کے قافلہ لوٹنے کی خبر سے قریشی غیظ و غضب کا بادل بڑے زور و شور سے اٹھا اور پورے عرب پر چھا گیا‘‘۔ (مورخین کو اسباب و نتائج کی جستجو ہوتی ہے، روایت پرستوں کو نہیں، قتل عمرو ابن الحضرمی غزوہ بدر کا فوری محرک بن گیا تھا )

مبارزت اور قتل اکابر قریش و شہادت صحابہ وغیرہ کے بارے میں حاشیہ میں زرقانی کا حوالہ دیا ہے اور تبصرہ کیا ہے: ’’ان واقعات میں روایتیں مختلف ہیں اور قریبا سب ہم مرتبہ ہیں اس لیے جو روایت اختیار کرلی جائے قابل الزام نہیں….‘‘۔ (۱/۲۳۱، حاشیہ :۱، اگلے صفحہ کے حاشیہ میں قتل ابوجہل کے بارے میں اختلاف روایات کا ذکر بحوالہ زرقانی کیا ہے۔ اور ان میں تطبیق کی صورت بھی دیکھی ہے۔ قتل ابوالبختری کے بارے میں بخاری کی روایت کے کتاب الوکالہ سے ارباب سیر کے نظر اوجھل ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (۱/ ۲۳۳؛ حاشیہ ۳؛ مختلف مصادر کے جداگانہ مباحث میں خاص کر بخاری کی مختلف کتب وابواب میں ایک ہی موضوع /مبحث /مسئلہ سے متعلق احادیث و روایات ہوتی ہیں جن کی طرف شبلی نے خاص اشارہ کرکے واضح کیا ہے کہ صرف ایک مقام خاص پر تلاش مواد سے اخذ و قبول کا فرض نہیں ادا ہوتا)

اسیران بدر کے زرفدیہ اور قتل کے مشوروں میں سے فدیہ کی قبولیت کے بعدان کی رہائی عمل میں آگئی۔ روایات میں ہے کہ اس پر عتاب الٰہی آیا جیسا کہ انفال:۶۸ میں ہے ۔ شبلی نے درایتی بحث کی ہے کہ ’’یہ روایت تمام تاریخوں اور احادیث میں موجود ہے لیکن سبب عتاب میں اختلاف ہے‘‘۔ روایات سے بحث کے بعد شبلی کا تبصرہ ہے کہ ’’صحیح مسلم اور ترمذی دونوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عتاب فدیہ لینے پر نہیں ، مال غنیمت لوٹنے پر تھا۔ سورہ انفال : ۶۷کا ماحصل یہ ہے کہ میدان جنگ میں جب تک کافی خوں ریزی نہ ہوچکے قیدی بنانا مناسب نہیں….‘‘۔ (۱/ ۲۳۷: ’’ماکان لنبی ان یکون لہ اسریٰ حتی یثخن فی الارض ….)

’’غزوہ بدر پر دوبارہ نظر ‘‘ شبلی کی درایتی ژرف نگاہی اور مصادر پر بحث مدلل کا ایک عمدہ شاہکار ہے۔ اس میں بہت اہم مباحث ہیں۔ (۱/ ۲۴۴۔ ۲۵۸)۔ ان تمام مباحث نقد و نظر پر ایک الگ تحقیقی مقالہ کی ضرورت ہے۔ ان میں روایتی نقد مصادر کے علاوہ نظری و اصولی اور عملی و اطلاقی مثالیں ہیں۔

غزوہ احد: شہادت نبوی کی خبر سن کر ’’عام ارباب سیر کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مایوس ہوکر ہتھیار پھینک دیے لیکن صحیح بخاری کے واقعہ مذکورہ میں حضرت عمر ؓکا نام نہیں۔ (۱/۲۶۸، حاشیہ: نیز ۱/ ۲۷۰۲۷۱) میں حضرت حذیفہؓ کے اپنے والد ماجد کے ہجوم قتال میں شہید ہونے کے واقعہ کو ابن ہشام میںمفصل اور بخاری میں مختصر بتایا ہے ، شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھنے کی روایات کتب سیرت و حدیث میں ہے کہ حضرت حمزہ ؓ پر آپ نے سات بار نماز پڑھی اور بخاری روایات میں صرف ایک بار کا ذکر ہے۔ (۱/۲۷۲: حاشیہ ۳، بحوالہ طحطاوی، شرح معانی الآثار، زیلعی نصب الرایہ اور واقدی مغازی، اضافہ و حاشیہ حضرت جامع ہے)

غزوہ احد سے متعلق استدراکات و تنقیدات شبلی میں سورہ آل عمران کی آیات کریمہ: ۱۴۴۱۴۸ سے بحث ہے نہ حوالہ ، ان سے اور احادیث و رایات سے صحابہ کے ایک گروہ کی پہلو تہی ثابت ہوتی ہے جو بعد میں ’’صابرین ‘‘ کی مثال سے دور ہوگئی۔ اس پر الگ مطالعہ کیا جاچکا ہے۔ عتاب الٰہی کا باعث بلا شبہ جہاد پر مال غنیمت کو ترجیح دینا تھا اور وہ شبلی کا اہم درایتی نقد ہے ۔ اس طرح نماز جنازہ حضرت حمزہ ؓ پر ان کا نقد روایات بھی صحیح ہے اوروہ’’ ترجیح اصح ‘‘ کا اصول درایت اجاگر کرتا ہے۔

غزوہ مریسیع میں بنو المصطلق پر حملہ کی نوعیت کی بابت صحیحین کی روایت ہے کہ وہ ان کی بے خبری میں کیا گیا جبکہ ارباب سیر کے مطابق ان کو خبر دار کرکے حملہ کیاگیا تھا۔ ابن سعد نے دونوں روایات بیان کرکے دوسری کو صحیح تر قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ صحیحین پرسیرت کی روایتوں کو ترجیح نہیں دی جاسکتی ۔ شبلی کا خیال ہے کہ صحیحین کی روایات بھی اصول حدیث کے رو سے قابل حجت نہیں کہ اس روایت کا سلسلہ نافع پر ختم ہوجاتا ہے …. اصطلاح محدثین میں منقطع ہے‘‘۔ ان کے سبب نقد پر ان کے جامع وغیرہ نے استدراک کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ روایات سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ فریق و حریف کو وارننگ دی جاچکی تھی اور پھر حملہ ہوا تو وہ اچانک تھا اور حریف بے خبر)

جامع گرامی نے استدراک کیا ہے کہ وہ حدیث متصل ہے کہ شریک غزوہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ جیسا کہ حدیث کے بعد تصریح آتی ہے لہٰذا وہ منقطع نہیں رہتی۔ (۱/۲۹۴ حاشیہ: ۴۵، محدثین کا یہ اصول کہ بہرحال روایات حدیث کو ترجیح عام حاصل ہے درایت کی کسوٹی پر بسا اوقات کھرا نہیں اترتا۔ اسی غزوہ کے بعد حضرت جویریہؓ بنت حارث خزاعی سے رسولؐ کی شادی سے متعلق شبلی نے متعدد مصادر حدیث و سیرت کی روایات پر درایتی بحث کی ہے۔(۱/۲۹۶۲۹۷ مع حواشی و استدراک جامع۔ محققین حدیث و سیرت بہرحال ’’اجماع اہل سیر ‘‘کی قوت ترجیح کے قابل ہیں جیسا کہ ہر فن کے ماہرین کا اجماع ہوتا ہے۔ دوسرے شبلی کے اصول اجمالی روایت /حدیث اور تفصیلی روایات اصحاب سیر کے مطابق بنو المصطلق کے باب میں حدیث مجمل ہے اور آخری واقعہ کو بیان کرتی جبکہ ارباب سیرنے تفصیل دی ہے کہ پہلے ا ن کو حملہ و قتال نہ کرنے کی صلاح دی گئی اور پھر ان پر حملہ کیا گیا اور وہ بھی ان کے طلیعہ پر، حضرت جویریہؓ کی شادی پر بحث شبلی درایتی نقد کی ایک اور مثال ہے )

غزوہ احزاب /خندق: کے بارے میں شبلی نے متعدد مصادرِ حدیث و سیرت سے روایات جمع کرکے احزاب کی تشکیل و کردار کی نوعیت اجاگر کی ہے۔

روایتی ودرایتی نقد کے بنا پر شبلی نے روایات سیرت اوراحادیث میںعمال نبوی کے اسماء و کردار کے بارے میں محدثین کے تطبیق کے اختلاف کو بتا کر واضح کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ محاصرین قریش کی تحقیق حال کے لیے گئے تھے اور بنو قریظہ کی تحقیق حال کے لیے حضرت زبیرؓ (۱/ ۳۰۲، حاشیہ: ۱، روایات کا اختلاف دور کیا گیا ہے ترجیح کے اصول سے)

چار نمازوں کی قضا ہونے کا موقف و نظریہ شبلی نے قبول کرکے محدثین کے اس سخت اختلاف کا ذکر کیا ہے کہ ’’چار قضا ہوئی تھیں یا ایک …. ‘‘ الخ۔ (۱/ ۳۰۴، حاشیہ:۲، اس بحث میں احادیث کا تصادم تو واضح ہے تو شارحین کا اختلاف و ابہام بھی، مولانا شبلی نے درایتی اصول سے ان دونوں کو دور کیا ہے)

قریش و بنو قریظہ کے ممکنہ اتحاد و معاہدہ کو توڑنے کے لیے شبلی نے ابن اسحاق پر نقد کیا ہے کہ حضرت نعیم بن مسعود اشجعیؓ نے غلط باتیں کہیں ’’….ابن اسحاق کی روایت میں سند نہیں اور کرتے بھی تو ابن اسحاق کا یہ پایہ نہیں کہ ایسا واقعہ ان کی سند سے قبول کرلیا جائے….‘‘۔ پھر واقعات کے درایتی تجزیہ سے معاہدہ توڑنے کا ذکر کیا ہے۔ (۱/۳۰۵۳۰۶۔ ’’…. اس کے لیے ایک صحابی کو دروغ بیانی کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ جامع گرامی نے مغازی موسیٰ بن عقبہ کی روایات سے مصنف کی تائید مزید تلاش کی ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ اور تاریخ ابن کثیر میں منقول ہے ۔ حاشیہ:۱، ابن اسحاق پر شبلی نقد بلاوجہ اور جارحانہ ہے ،وہ بلاشبہ ثقہ و بلند پایہ تھے ۔ شبلی نے دراصل دو عمدہ تنقید یں کی ہیں: ایک روایتی و درایتی دونوں کہ حضرت نعیم اشجعی ؓنے سفارتی حکیمانہ گفتگو کی اجازت لی تھی اور یہ عام طریقہ عصر تھا ۔ دوسرے روایات مصادر دیگر سے ثابت کیا ہے کہ بنو قریظہ نے رسول اللہؐ سے کیا گیا معاہدہ توڑ دیا تھا اور قریشی احزاب کی جنگی مدد کی تھی)

غزو ہ بنی قریظہ: کے ضمن میں شبلی نے واقعہ ریحانہؓ پر اپنے خاص درایتی انداز سے لکھا ہے اور اسے غلط واقعہ قرار دے کر مصادر سیرت پر نقد کیا ہے: ’’ریحانہ کے حرم میں داخل ہونے کی جس قدر روایتیں ہیںسب واقدی یا ابن اسحاق سے ماخوذ ہیں لیکن واقدی نے بہ تصریح بیان کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے ان سے نکاح کیا تھا‘‘ پھر ابن سعد کی روایتِ واقدی کے ضروری الفاظ کے علاوہ محمد بن الحسن کی تاریخ مدینہ سے ابن حجر کی نقل کردہ عبارت اور حافظ ابن مندہ کی کتاب (طبقات الصحابہ ) ’’جو تمام محدثین مابعد کا ماخذ ہے‘‘ کی عبارت نقل کرکے استدلال کیا ہے اور حافظ ابن حجر سے استشہاد اور ابن اثیر پر نقدکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ’’ آپؐ نے ان کو آزاد کردیا تھا اور وہ اپنے خاندان والوں کے پاس حجاب میں رہتی تھیں‘‘۔ شبلی نے حافظ ابن مندہ کا بیان نقل کرکے فیصلہ کیا ہے کہ ’’ہمارے نزدیک واقعہ یہی ہے اور اگر مان لیا جائے کہ وہ حرم نبوی میں آئیں تب بھی قطعاً و ہ منکوحات میں تھیں، کنیز نہ تھیں‘‘۔ (۱/ ۳۱۲۳۱۳، حاشیہ:۱، اضافہ سلیمانی میں حضرت ریحانہ ؓ کے بارے میں مصادر سیرت کی تین طرح کی روایات کا تجزیہ کرکے مصنف کے بیان کی تائید مزید کی گئی ہے)

غزوات یہود مدینہ: اکابر قریش نے ہجرت مدینہ کے بعد عمایدین یہود کے نام جو خط لکھا تھا اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے استیصال اور اخراج پر اکسایا تھا وہ ابوداؤد کی حدیث کے مطابق بنونضیر کے نام لکھا گیا تھا حالانکہ شبلی کے خیال کے مطابق ’’وہ عام یہودکے نام تھا اور نتیجہ بھی عام تھا‘‘۔ اس بنا محدث حاکم نے بنو نضیر اور نبو قینقاع دونوں کو ایک ہی واقعہ خیال کیا‘‘۔ (۱/ ۲۸۵: حاشیہ: ۲، سنن ابی داؤد، ذکر بنی نضیر، کتاب الخراج والامارہ؛ شبلی کا خیال صحیح ہے کہ وہ نامہ قریش تمام اکابریہود کے نام تھا لیکن محدث حاکم وغیرہ نے دونوں غزوات کو ایک سمجھنے کی غلطی صرف روایات غزوات بنی قینقاع و بنی نضیر کو صحیح طور سے نہ سمجھنے کی وجہ سے کی ہے۔)

بنو قینقاع کی جلاوطنی، اولین قبیلہ یہود بنو قینقاع نے عہد شکنی کی اور پندرہ دنوں کے محاصرہ کے بعد انہوں نے خود سپردگی کی اور ان خزرجی حلیف عبداللہ بن ابی بن سلول کی درخواست پر ان کو جلاوطن کردیا گیا۔ شبلی کا خاص حاشیہ نقد و درایت یہ ہے کہ ’’عام ارباب سیر کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ ان کو قتل کردینا چاہتے تھے۔ عبداللہ بن ابی کے اصرار سے مجبور ہوگئے لیکن سنن ابی داؤد…. میں جس طرح یہ واقعہ مذکور ہے اس سے اس قیاس کی غلطی ثابت ہوتی ہے‘‘۔ (۱/۲۸۶: حاشیہ: ۳، بحوالہ مذکورہ ۔ایک جدید تحقیق ہے کہ بنو قینقاع کو معاف کرکے مدینہ میں رہنے دیا گیا تھا:برکات احمد، محمدؐ اور یہود، میںاس پر بحث ہے؛ شبلی کا یہ نقد و استدراک بالکل صحیح ہے کہ آپ نے بنوقینقاع کے قتل کا فیصلہ یا خیال نہیں کیا تھا ۔ جلاوطنی کا کیا تھا جس سے دوسرے بھی متفق تھے )

قتل کعب بن الاشرف کے نازک مبحث میں شبلی نے مختلف مصادر سیرت خاص کر یعقوبی کے حوالے سے تحقیق پیش کی ہے کہ وہ قتل نبوی کی سازش کررہا تھا اور منصوبے کے مطابق قتل کے لیے لوگ جمع کردیے تھے۔ اس کی تائید حافظ ابن حجر کی فتح الباری کی ایک روایت جو حضرت عکرمہ سے ہوتی ہے مگر حافظ موصوف کا خیال ہے کہ اس روایت میں ضعف ہے بہ اعتبار سند شبلی کا درایتی نقد ہے کہ جب قرائن اور دیگر شواہد موجود ہیں تو یہ ضعف رفع ہوجاتا ہے….‘‘ ۔ اسی طرح قتل کعب کی مہم کے سردار حضرت محمد بن مسلمہؓ کے اذن نبوی کے بارے میں ’’ارباب سیر نے اس کے یہ معنی لگائے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ باتیں کہنے کی اجازت مانگی اور آنحضرتؐ نے اجازت دے دی لیکن بخاری کی روایت میں صرف یہ لفظ ہے : فاذن لی ان اقول‘‘ اس سے غلط گوئی کی اجازت کہاں نکلتی ہے؟‘‘ (۱/ ۲۸۸۲۸۹ بحوالہ زرقانی ۲/ ۱۳ و صحیح بخاری کتاب المغازی، باب قتل کعب…. الخ ۔ دوسرے مصادر سیرت میں ابن سعد، ابوداؤد، تفسیرطبری اور کتاب الخمیس ہیں، شواہد و قرائن سے خاص حدیث و روایت کے سندی ضعف کے رفع ہونے کا اصول محدثین کو بھی تسلیم ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کا معاملہ بھی حضرت نعیم اشجعیؓ جیسا ہے)

غزوہ بنی النضیر کے متعلق شبلی نے مصادر سیر ت و حدیث سے مواد لے کر بحث و تشریح کی ہے اور سنن ابی داؤد کی حدیث پر ان کو مبنی کیا ہے اوران کا تبصرہ ہے کہ ’’تعجب ہے کہ ارباب سیرت ابودؤد کی اس روایت سے بالکل بے خبرہیں‘‘ جس میں انہوں نے قریش سے ساز باز کرکے قتال کا منصوبہ بنایا تھا۔ (۱/ ۲۹۰۲۹۱؛ مع حواشی، لین نامی درختوں کے کٹوانے کی توجیہ اور بنو نضیر کی عیاری پر مزید بحث فتح الباری اور اصل بخاری سے کی ہے اور جامع نے امام احمد اور عمدۃ القاری سے مزید تائید کی ہے)

غزوہ بنی قریظہ میں ان کے استحصال کی روایات حدیث و سیرت کی بنا پر اور واقعات و معاملات کی درایتی تحلیل کی وجہ سے عام خیال قبول کیا ہے۔ (۱/۳۰۷۳۰۹ مع حواشی ؛ برکات احمد، ’’محمد اور یہود‘‘ اور ڈبلیو این عرفات کے مضمون BOAS میں یہ نظریہ ہے کہ صرف اکابر اور مجرمین کو قتل کیا گیا تھا اور ان کی تعداد ایک درجن سے کچھ زیادہ نہ تھی، عام افراد بنی قریظہ کاقتل اور غلام بنا کر بیچ دینا صحیح نہیں ہے۔ برکات احمد اور عرفات دونوں کے دلائل و شواہد قابل غور و فکر ہی نہیں صحیح روایتی و درایتی تنقید کی عمدہ مثالیں ہیں۔ شبلی ان پر غور و فکر کرنے سے چوک گئے یا فساد خوف خلق سے سکوت اختیار کرگئے)

حضرت زینبؓ سے نکاح نبویؐ کی مدلل و مفصل بحث اسی ۵ھ اور واقعہ ریحانہؓ کے معاً بعد کی ہے اور اس کے واقعات بیان کرکے مصادر پر سخت نقد کیا ہے۔ مخالفوں کے لیے اس واقعہ کذب و افترا کی رنگ آرائی کے لیے سیاہی ہمارے ہاں سے مستعار لینے کا واقعہ تسلیم کرکے تاریخ طبری کی ایک روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں جن میں ان کے عریاں دیکھنے کی بات آئی ہے۔ شبلی کا دلدوز تبصرہ ہے کہ ’’میں نے یہ بیہودہ روایت اپنے دل پر سخت جبر کرکے نقل کی ہے، نقل کفر، کفرنہ باشد، یہی روایت ہے جو عیسائی مورخوں کا مایہ استناد ہے لیکن ان غریبوں کو یہ معلوم نہیں اصول فن کے لحاظ سے یہ روایت کس پایہ کی ہے؟مؤرخ طبری نے یہ روایت واقدی کے ذریعہ نقل کی ہے جو مشہور کذاب اور دروغ گو ہے اور جس کا مقصد اس قسم کی بیہودہ روایتوں سے یہ تھا کہ عباسیوں کی عیش پرستی کے لیے سند ہاتھ آئے۔ طبری کے علاوہ اور لوگوں نے بھی اس قسم کی بیہودہ روایتیں نقل کی ہیں، لیکن محدثین نے ان کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان سے تعرض کیا جائے‘‘۔ حافظ ابن حجر کو ’’سخت روایت پرست‘‘ اور حافظ ابن کثیر کو ’’مشہور محدثین میں سے‘‘ ہونے کا توثیق نامہ دینے کے بعد ان کی عبارتوں کو نقل کیا ہے کہ ابن ابی حاتم، ابن جریر اور دیگر مفسرین کو سورۂ احزاب میں نقل کردہ روایتوں سے تعرض نہ کرنا چاہیے کہ وہ غلط ہیں اور اسی بنا پر ابن کثیر نے امام احمد کی غریب حدیث کو ترک کردیا ہے۔ پھر آخری تبصرہ کیا ہے کہ ’’یہی روایتیں ہیں جوبچی کھچی غیر محتاط کتابوں میں باقی رہ گئیں لیکن وہ محدثین، جن کا معیار تحقیق بلند ہے اور عدالت روایت کے حاکمان مجاز ہیں، مثلاً امام بخاری و امام مسلم وغیرہ ان کے ہاں ان روایتوں کاذکر تک نہیں آتا‘‘۔ (۱/ ۳۱۵۳۱۶، غلط روایات کے رد و تغلیط پر شبلی نقد روایتی و درایتی طور سے بجا ہے لیکن واقدی کے کذاب و دروغ گو ہونے کا الزام قطعی غلط ہے کہ وہ واقدی کے مقام و مرتبہ اور ان کے کام سے واقف نہ تھے اور صرف اسماء الرجال کے بعض ناقدین کے فکر سے متاثر تھے۔ ان کے مظالم قتل وغیرہ کسی سند و تائید مورخ کے محتاج نہ تھے)

صلح حدیبیہ /بیعت رضوان، سورہ فتح کی آیات ۲۴ و مابعد پر حاشیہ شبلی ہے۔ ’’ان آیتوں کے شان نزول میں سخت اختلاف ہے لیکن زیادہ معتبر روایت یہی ہے ‘‘ یعنی صلح حدیبیہ کے موقع پر قریشی حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا گیا تھاپھر صلح کی خاطر ان کو چھوڑدیا گیا۔ (۱/ ۳۲۲، حاشیہ:۱، ترجیح روایات کا اصول شبلی نیز واقعاتی شہادتوں کا نظریہ دونوں شبلی کی ترجیح و خیا ل کے موید ہیں)

کتاب صلح لکھنے کے بارے میں شبلی نے صحیحین کی روایات کا تجزیہ حاشیہ میں کیا ہے: ’’صحیح بخاری کی اس روایت میں جو صلح حدیبیہ میں ہے حضرت علیؓکا نام اور ان کی گفتگو مذکور نہیں: بہ تصریح بخاری کی اس روایت میں ہے جو کتاب المغازی باب عمرۃ القضا (۲/۶۱۰) میں مذکور ہے، صحیح مسلم ۲/ ۸۸ باب صلح حدیبیہ میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے‘‘۔ (۱/۳۲۳، حاشیہ:۲، مختلف روایات سیرت اور احادیث واقعہ سے صحیح صورت واقعہ اجاگر ہوتی ہے)

صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں حضرت عمر فاروق ؓ کے گستاخانہ معروضات پر حضرت موصوفؓ کے سخت رنج اوراس کے کفارہ کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ابن اسحاق نے تفصیل سے یہ تمام باتیں گنائی ہیں‘‘۔ (۱/ ۳۲۵؛ حاشیہ: ۲، بحوالہ سیرت ابن ہشام ۲/۲۱۶۔ بلاشبہ وہ سخت معروضات تھے لیکن حضرت عمرؓ صرف ان کے ترجمان عالی مقام تھے۔ صحابہ کرامؓکی اکثریت اس معاہدہ کی نوعیت سے متفق نہ تھی لیکن خاموش رہی۔ حضرت عمرؓ نے بحث کرکے ان کا نقطہ نظر پیش کیا جس کی معقولیت آپؐ نے تسلیم کی لیکن فیصلہ وحی الٰہی پر کیا)

واقعات صلح حدیبیہ پر محدثین وا ہل سیر کا فرق، صحیح مسلم کا حوالہ دینے کے بعد لکھا ہے کہ ’’صلح حدیبیہ کے واقعات صحیح بخاری میں نہایت تفصیل سے مذکور ہیں لیکن اصل موقع یعنی غزوات کے ذکر میں نہیں بلکہ کتاب الشروط میں، اس بنا پر ارباب سیر کی نگاہ سے یہ واقعات رہ گئے۔ غزوات میں جستہ جستہ واقعات ہیں، ہم نے ان کو بھی لیا ہے۔ باقی جزئیات صحیح مسلم اور ابن ہشام سے ماخوذ ہیں‘‘۔ (۱/ ۳۲۶، حاشیہ :۲، ارباب سیر کی اپنی تمام روایات و احادیث میں واقعات صلح حدیبیہ واضح ہیں اور وہ محدثین و رارباب سیر کے اتفاق فکر و عمل کودکھاتے ہیں۔ ارباب سیر کا نقد شبلی بجا نہیں )

سلاطین کو دعوت اسلام کی بحث میں شبلی نے مسند احمدبن حنبل کی ایک حدیث پر نقد کیا ہے کہ شاہ روم ہرقل نے سفیر نبوی حضرت دحیہ کلبیؓ کے بدست ایک خط جناب رسالت مآبؐ میں بھیجا تھا جس میں کچھ سوالات کے جوابات مانگے تھے۔ سفیر رومی نے نبوت کے بارے میں جوابات جاننے کے باوجود اسلام نہیں قبول کیا اور واپس گیا۔ شبلی نے تبصرہ کیا ہے کہ’’ یہ حدیث صحیح نہیں‘‘ کیونکہ قیصر کا خط پڑھنے کے لیے آنحضرتؐ نے حضرت معاویہؓ کو بلایا تھا اور وہ اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے‘‘۔ نقد شبلی پر استدراک جامع ہے کہ حسب تحقیق حافظ ابن حجر یہ دوسرا واقعہ ہے اور غزوہ تبوک کے زمانہ کا ہے جب حضرت معاویہ ؓ اسلام لاچکے تھے اگر چہ تبوک میں ان کی شرکت مذکور نہیں۔ یہ روایت اسی سند کے ساتھ کتاب الاموال ابوعبیدقاسم بن سلام میں بھی موجود ہے‘‘۔ (۱/ ۳۳۲، حاشیہ۲، مکاتیب نبوی اور مراسلات اکابر عرب کے بارے میں ایک اہم واقعیت ذہن نشین کرنی ضروری ہے کہ وہ مختلف اوقات میں لکھے گئے تھے۔ روایات کا تعدد اور ان کی بنا پر مراسلات و فرامین کا تعدد اسی وجہ سے لازمی امر بن جاتا ہے۔ یہی صورت واقعہ سفارتوں، تقرریوں اور کئی دوسر ے امور کے بارے میں بھی ہے۔ حضرت جامع کے استدراک او رحافظ ابن حجر وغیرہ محدثین و مورخین کے نظریہ ’’تعدد‘‘ کاارتقاء اسی بنا پر ہوا۔ حضرت معاویہ ؓ اور دوسرے اکابر و سپاہ قریش کی شرکت تبوک کی روایات عام مصادر میں مفقود ہیںاوریہ تحقیق طلب امر ہے)

وفات نجاشی کا ذکر اسی دعوت اسلام کے حوالے سے آگیا ہے ’’عام ارباب سیر لکھتے ہیں کہ نجاشی نے ۹ھ میں وفات پائی۔ آنحضرتؐ نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھائی‘‘ لیکن یہ غلط ہے۔ صحیح مسلم میں تصریح ہے کہ جس نجاشی کی نماز جنازہ آپ نے پڑھی وہ یہ نہ تھا۔ اضافہ متن سلیمانی میں ہے کہ ’’ابن قیم نے ارباب سیر کی روایت کی تائید کی ہے اور مسلم کی روایت کے اس ٹکڑے کو راوی کا وہم بتایا ہے‘‘۔ حاشیہ میں محشی دوم ’’ض‘‘ نے اسے حضرت جامع کاتسامح قرار دیا ہے اور علامہ ابن قیم کی بات کو مولف سیرت کا مقصود بتایا ہے اور پوری عبارت نقل کی ہے۔ (۱/۳۳۵، حاشیہ :۵ وماقبل ) اصحمہ عہد نبوی میں حبشہ کے دو نجاشی حکمراں رہے ایک حضرت اصحمہ/اصحم جن کے زمانے میں مہاجرین حبشہ نے وہاں پناہ لی تھی اور دوسرے ان کے فرزند گرامی حضرت ….‘‘ اس موضوع پر بعض جدید تحقیقات ہوچکی ہیں۔ فتح الباری میں حضرت نجاشی کی نماز جنازہ کے بارے میں ابن حجر کی تحقیق ہے (۳/۱۵۰وبعد؛اور ابن اسحاق کی سہیلی میں ، سہیلی ۲/۱۱۷وبعد)

عزیز (مقوقس) مصر کے نام مکتوب گرامی اور اس کے جواب اور ہدایا کے حوالہ سے شبلی کا موقف یہ ہے کہ ’’خاتونیں لونڈیاں نہ تھیں اور اسلام قبول کرچکی تھیں۔ اس لیے آنحضرتؐ نے حضرت ماریہؓ سے نکاح کیا ہوگا، نہ کہ لونڈی کی حیثیت سے وہ آپ کے حرم میں آئی تھیں‘‘۔ (۱/۳۳۶، حاشیہ۱، میں مزید صراحت کی ہے کہ’’ ہم نے اس وجہ سے جاریہ کا ترجمہ لڑکی کیاہے کیونکہ مقوقس کے الفاظ میں ان کی نسبت لکھا گیاہے کہ مصریوں میں ان کی بڑی عزت ہے‘‘ یہ لونڈیوں کی شان میں استعمال نہیں کیے جاتے‘‘۔ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بارے میں احادیث و روایات نے ایک گورکھ دھندا کھڑا کردیا ہے۔ وہ تجزیہ و تحقیق کا طالب ہے۔ بعض مختصر تالیفات آئی ہیں مگر ایک مفصل و مدلل تحقیق کی ضرورت باقی ہے۔ ویسے مصنف سیرۃ النبی کا خیال و قیاس صحیح ہے کہ وہ ازواج مطہرات میں شامل تھیں)

غزوہ خیبر کے باب میں قتل اسیر بن رازم یہودی پر حاشیہ شبلی ہے : ’’یہ تمام واقعات ابن سعد، ج۲، قسم اول، صفحہ ۶۶، ۶۷سے منقول ہیں ۔ بہت سی کتابوں میں لکھا ہے عبداللہ بن انیسؓ نے خود ابتدا کی اور اسیر بن رازم کو قتل کر ڈالا لیکن صحیح واقعہ وہی ہے جو ابن سعد سے منقول ہے اور وہی اس معرکہ کی وجہ ہوسکتا ہے‘‘۔ (۱/۳۳۹، حاشیہ ۲، ’’آگے ذکر آتا ہے کہ اسیر نے مدینہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا تھا اس لیے اس کو قتل کیا گیاتھا‘‘)

غزوہ ذی قرد ۷ھ کی توقیت پر شبلی نے واقعہ توبخاری و مسلم سے بھی لیا ہے لیکن زیادہ تفصیل ابن سعد و ابن اسحاق سے لی ہے۔ ’’ارباب سیر نے متفقاً اس واقعہ کو خیبر کے واقعہ سے ایک سال ماقبل بیان کیا ہے لیکن (طبری نے بروایت سلمہ …. جو اس غزوہ کے ہیرو تھے اور نیز) امام بخاری نے صاف تصریح کی ہے کہ خیبر سے تین دن پہلے کا واقعہ ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر کی ترجیح صحیح بخاری کے علاوہ ان کی دونوں روایتوں میں تطبیق کا ذکر کیا ہے کہ حضرت عیینہؓ بن حصن نے ذوقرد پر دو دفعہ حملہ کیا۔ اول بار جس کا ذکر ارباب سیر کرتے ہیں اور یہ بالکل قرین قیاس ہے(حاشیہ و اضافہ میں)۔ شبلی کا تبصرہ عام ایک یہ ہے کہ ’’عام ارباب سیر کو غزوہ خیبر (بلکہ تمام غزوات) کے متعلق چونکہ کسی سبب کی تلاش و جستجو نہیں۔ اس لیے ان کو اس سے بحث نہیں کہ واقعات کا تسلسل اور غزوات کے اسباب کیا ہیں۔ لیکن زیادہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں‘‘۔ (۱/۳۴۱۔ ۱۲ قوسین کے اضافے حضرت جامع کے ہیں۔ شبلی کا یہ بیان کہ ارباب سیر غزوات کے اسباب سے بحث نہیں کرتے تعمیم کا نشان ہے اور پورا صحیح نہیں ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ روایات و بیانات کا اختلاف وتصادم واقعات مختلفہ کو ایک سلسلہ کی کڑیاں بنانے میں حارج ہوتا ہے تعمیم یہ بحث طلب ہے)

غزوہ خیبر کا آغاز اور غزوات کی بہ نسبت ایک امتیاز خاص رکھتا ہے اور اگرچہ ارباب سیر کی نظر اس نکتہ پر نہیں پڑی کہ اس امتیاز کے اسباب کیا تھے؟تاہم واقعہ کی حیثیت سے امتیازی امور ان کی زبان سے بلا قصد نکل گئے ہیں‘‘۔ (۱/۳۴۱۳۴۲؛ شبلی کی جرح ارباب سیر پر کہ بلاقصد و امتیاز ان کی زبان سے نکل گئے جارحانہ اورغیر صحیح ہے ۔ خود ان کی روایات اور شارحین کی تشریحات اس کی شاہد ہیں)

قلعہ قموص کامعرکہ ’’خاص تھا کہ مرحب کا تخت گاہ تھا‘‘۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرات شیخین ناکام رہے اور حضرت عمرؓ پر بطور خاص ان کے پاؤں جم سکنے اور ان کی نامردی کی شکایت فوج نے اور سالار نے ان کی نسبت یہی شکایت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ شبلی نے ایک مفصل و مدلل پیرا گراف میں اس کے سلسلہ سند پرنقد کیا ہے کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس کے راوی عوف نامی ثقہ ہیں لیکن بندار نے ان کو رافضی اور شیطان بتایا۔ اگرچہ یہ لفظ بہت سخت ہے لیکن ان کی شیعیت سب کو تسلیم ہے۔ بقول شبلی ’’اور گو شیعہ ہونا بے اعتباری کی دلیل نہیں لیکن ایک شیعہ کی روایت سے حضرت عمرؓ کے باب میں کچھ مخالفانہ کہنا اس روایت کے رتبہ کو گرادیتا ہے۔ دوسرے اس کے اوپر کے راوی عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں لیکن محدثین ان کی روایت کو شبہہ کی نظر سے دیکھتے ہیں…..‘‘۔ (۱/ ۳۴۵۳۴۶، حواشی :۱۲ بحوالہ تاریخ طبری ۳/۵۷۹، اورمیزان الاعتدال ۲/۳۰۹)۔ حضرات شیخین اور بالخصوص حضرت عمرؓ کی ناکامی اکیلی نہ تھی۔ دوسرے بعض امراء بھی کامیاب نہ ہوسکے، اسباب سے سردست بحث نہیں لیکن وہ معرکہ خاصا مشکل تھا اور متعدد حملوں کے بعد سر کیا جاسکا۔ اس کی فتح میں ان اولین معرکوں کا بھی ہاتھ تھا۔ بخاری /فتح الباری ۷/۵۹۴۵۹۷: حاکم نے اکلیل میں اور بیہقی نے دلائل میںدس صحابہ کی ناکامی کاذکر کیاہے)

قتل مرحب کے متعلق ’’عجائب پسندی کی مبالغہ آمیز افواہیں پھیلانے‘‘ کا ذکر کرکے معالم التنزیل، ابن اسحاق اور حاکم کی روایتی مبالغہ آرائی کو’’ بازاری قصے‘‘ قراردیا ہے۔ اور علامہ سخاوی کا تبصرہ مقاصد حسنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ’’سب لغو روایتیں ہیں‘‘۔ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ا س کو منکر کہا ہے اور ابن ہشام کی روایات میں سندی اسقام انقطاع کے علاوہ کہا ہے کہ اس کے ایک راوی بریدہ بن سفیان کو امام بخاری ، ابوداؤد اور دارقطنی قابل اعتبار نہیں سمجھتے ۔(۱/۳۴۸مع حاشیہ:۱)

ابن اسحاق و موسیٰ بن عقبہ اور واقدی کا بیان ہے کہ مرحب کو محمد بن مسلمہؓ نے مارا تھا، مسند احمد ابن حنبل اور نووی شرح صحیح مسلم میں بھی ایک روایت ہے لیکن صحیح مسلم (اور حاکم ۲/۳۹)میں حضرت علیؓ ہی کو مرحب کا قاتل اور فاتح خیبر لکھا ہے اور یہی اصح الروایات ہے‘‘۔(۱/۳۴۸مع حواشی ۲۳ و تبصرہ محشی) لیکن مصنف گرامی نے فتح الباری کا حوالہ نہیں دیا جس میں قتل مرحب کی روایات پر بحث ہے ۷/۵۹۷؛ جزم اصحاب سیرت کاایک وزن ہے دوسرے فاتح خیبر کا عام لقب محض عقیدت کا زائیدہ ہے ۔امام احمد اور حاکم بھی اصحاب سیرت سے متفق ہیں : سہیلی ۴/۷۵ومابعد)

حضرت صفیہؓ کے واقعہ کی تحقیق میں شبلی نے کتب حدیث و سیرت میں ان کے حسن کی تعریف والی روایات پر نقد کیا ہے’’ اور اس کانہایت بدنما پیرایہ بتایا ہے لیکن مختلف روایات میں فرق بھی ہے‘‘۔ بخاری، مسلم ، ابوداؤد اور موخر الذکر کی شرح مازری (مشہور محدث) کے بیان کو ترجیح دی ہے کہ آپ نے حضرت صفیہؓ کو حضرت دحیہ کلبی سے لے کر خود ان سے نکاح اس لیے کیا کہ و ہ عالی رتبہ اور رئیس یہود کی صاحبزادی تھیں، اس لیے ان کا کسی اور کے پاس ہونا ان کی توہین تھی۔ اور حافظ ابن حجر سے اس کی قریب قریب تائید تلاش کی ہے‘‘۔ بعد میں مدلل طریقہ سے درایتی بحث کی ہے کہ’’ ان کی بلند مرتبت حیثیت اسی کی متقاضی تھی اور یہی سنت آپ نے حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقیؓ سے نکاح میں ادا کی تھی اور اس کے دور اس اثرات نکلے تھے۔ (۱/۳۴۸۳۵۰مع حواشی؛ ملا حظہ ہو بخاری /فتح الباری، ۷/ ۵۹۷۶۰۰: حدیث بخاری :۴۲۱۱ وغیرہ؛ سہیلی ۴/۷۷۷۹؛ نیز ۸۰۸۲ )

قتل کنانہ بن ابی الحقیق کے متعلق ’’ارباب سیر نے ایک سخت غلط روایت نقل کی ہے اور وہ اکثر کتابوں میں منقول ہوکرمتداول ہوگئی کہ یہود پر شرط عاید کی تھی کہ وہ کچھ نہ چھپائیں گے مگرکنانہ نے جب اپنا خزانہ بتانے سے انکار کیا تو اس پر سخت تشدد کیاگیااور بالآخر اسے قتل کردیا گیا۔ اس کا قتل تو واقعہ اور صحیح بھی ہے لیکن وہ خزانہ کاچھپانا نہ تھا بلکہ ایک صحابی محمود بن مسلمہ کو قتل کرنا تھا۔ طبری میں تصریح ہے‘‘۔ …. شبلی نے روایتی نقد و درایتی تجزیہ میں بحث کی ہے کہ ’’مذکورہ بالا غلط روایت طبری و ابن ہشام اصل میں ابن اسحاق سے مروی ہے اور محدثین کے مطابق ابن اسحاق یہودیوں سے مغازی نبوی کے واقعات روایت کرتے تھے۔ اس روایت کو بھی ان ہی روایتوں میں سمجھنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ابن اسحاق اور راویوں کا نام نہیں لیتے، کسی شخص پرخزانہ بتانے کے لیے اس قدر سختی کرنا …. رحمۃ للعالمین کی شان اس سے بہت ارفع ہے‘‘۔ (۱/۳۵۱۳۵۴ مع حواشی، اس کے بعد شبلی نے دوسری غلط روایات و واقعات پر سخت درایتی نقد کیا ہے جو بہت مفصل و مدلل ہے اور صحیح بخاری، ابن حجر کی شرح فتح الباری، ابن قیم کی زادالمعاد وغیرہ سے بحث کی ہے اور موخر الذکر پر صحیح بخاری کی روایت نظر انداز کرنے کا حکم لگایا ہے جو کنانہ کے دونوں بیٹوں کے قتل کو تسلیم کرتے ہیں۔ ابو داؤد سے صرف قتل کنانہ کا واقعہ تسلیم کیا ہے، ابن اسحاق پر شبلی کا الزام جارحانہ ہے اور سب نے کہا ہے کہ وہ یہودیوں سے مغازی میں روایات لیتے تھے۔ اول تو دوسرے بھی لیتے ہیں، دوم سب مغازی میں نہیں لی،صرف یہودی قبائل و افراد کے بارے میں لی ہیں ۔ قتل کنانہ کاسبب صحیح بتایا ہے)

ماہ حرام میں قتال کی بحث میں شبلی نے اس کے جواز کے قائلین کا نقطہ نظر بیان کرکے اس پر ابن قیم کا تبصرہ نقل کیا ہے کہ قتال کاآغاز حرام ہے مگرضرور ی دفاع بالا تفاق جائز ہے۔ پھر ابن قیم اور ان کے شیخ ابن تیمیہ کے نظر یہ پر کہ بدر و خیبر دفاعی نہ تھے، باقی سب غزوات مدافعانہ تھے، شبلی نے ابن قیم کے گرہ نہ کھول سکنے پر اور ان کے شیخ پر اشتباہ کا ذمہ ڈال کر ان کو بھی مدافعانہ /دفاعی غزوات قرار دیا ہے کہ قریش اور یہود /غطفا مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرچکے تھے اس لیے ان کو دفاع کیا گیا۔ (۱/ ۱۵۴۱۵۵: بدر کے لیے اس کے بیان غزوہ کا حوالہ دیا ہے؛ یہ بحث تحقیق طلب ہے۔ شبلی دفاعی جہاد کے نظریہ بلکہ عقیدہ کے قایل ہیں لہٰذا وہ سب کو دفاعی بتاتے ہیں)

عمرۃ القضاء کے ضمن میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی صاحبزادی حضرت امامہؓ کی تولیت ان کے خالو حضر ت جعفر بن ابی طالب ؓ اور خالہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کی رشتہ داری اور قرابت کی بنا پر سپرد کی۔ شبلی نے حاشیہ میں صراحت کی کہ ’’اس واقعہ کا بڑا حصہ صحیح بخاری سے ماخوذ ہے، بعض زائد تفصیل زرقانی سے لی گئی ہیں جو کتب حدیث کے حوالے سے زرقانی نے نقل کی ہیں‘‘۔ (۱/۳۵۸؛ حاشیہ۲؛ بخاری /فتح الباری ۷/۶۲۴ومابعد)

غزوہ موتہ ۸ھ کو شبلی نے شکست خوردہ قرار دے کر اس کی مدینہ واپسی کا ذکر کیا ہے لیکن حضرت جامع نے اس پر نقد کیا ہے کہ ابن اسحاق کی روایت پر اعتماد کرکے اس فوج کوشکست خوردہ لکھا ہے لیکن صحیح بخاری میں اس کو ازروے وحی فتح سے تعبیر کیا گیا ۔ حضرت جامع کا حاشیہ و استدارک بہت جامع اور درایتی نقد کا ہے لیکن اس سے اتفاق مشکل ہے۔ (۱/۳۶۱؛ حاشیہ۲: صرف فوج کے ایک حصہ کو فراری قرار دیا گیا تھاپوری فوج کو نہیں ۔ یہ تو جیہ الگ ہے) اس میں شبلی کے ابن اسحاق پر اعتماد کرنے کاخیال دلچسپ ہے کہ شبلی خود ابن اسحاق کے ناقد ہیں، یہ بحث تحقیق طلب ہے، ملاحظہ ہو: فتح الباری ۷/ ۶۳۹ ومابعد ؛ سہیلی ۴/ ۱۲۰۱۴۰ وغیرہ دوسرے ماخذ حدیث و سیرت ۔

فتح مکہ رمضان ۸؍جنوی ۶۳۰: خزاعہ پر قریشی حملہ کاذکر بطور خاص شبلی نے زرقانی ۲/ ۳۳۶ سے لیا ہے جو مغازی ابن عائذ سے نقل کیا ہے۔ اس پر شبلی کا یہ تبصرہ ہے ’’تعجب ہے کہ اور مورخین اور ارباب سیر ایسے ضروری واقعہ کو قلم انداز کرگئے‘‘۔ (آپؐ نے خزاعی وفد کی فریاد پر ’’قریش کو تین شرطوں میں سے ایک منظور کرنے کو لکھا تھا اور قرط بن عمرو نے قریش کی زبان سے کہا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے‘‘ / یعنی صلح حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ (۱/۳۶۳ حاشیہ ۲:دلچسپ بات ہے کہ زرقانی نے یہ روایت ایک مغازی نویس سے لی ہے اور حافظ ابن حجر نے اس پر بحث کی ہے۔ مزید بحث کے لیے حکیم محمود احمد ظفر، سیرت خاتم النین ۸۱۴۸۱۵ومابعد ، مزید مراجع میں بھی ہے)

مرالظہران میں اسلامی لشکر کے خیمہ گاہ اور اکابر قریش کی آمد کے بارے میں شبلی کا حاشیہ ہے کہ ’’اصل واقعہ بخاری میں کافی تفصیل کے ساتھ موجود ہے لیکن مزید تفصیل اور جزیبات حافظ ابن حجر نے بخاری کی شرح میں موسیٰ بن عقبہ اور ابن عائذ وغیرہ سے نقل کیے ہیں۔ میں نے ان کو بھی لے لیا ہے۔ بعض واقعات طبری سے ماخود ہیں‘‘۔ (۱/۳۶۴؛ حاشیہ :۲)

مکہ میں داخلہ نبویؐ، شبلی نے بہ تصریح نہیں لکھا کہ حضرت خالدؓ کو مکہ کے بالائی حصہ سے داخل ہونے کا حکم دیا۔ حضرت جامع نے استدراک کیا ہے کہ حضر ت مصنف نے صحیح بخاری کی حضرت عروہؓ کی مرسل روایت لے لی ہے مگر صحیح اور مرفوع روایات میں تصریح ملتی ہے کہ’’ آپؐ بالائی حصہ سے اور حضرت خالد ؓزیریں حصہ سے داخل ہوئے تھے‘‘۔ (۱/۳۶۶، حاشیہ ۳، اسی طرح مقام حنیف پر قیام نبویؐ کی بحث و روایات میں جامع ندوی نے ارشاد نبوی کا موقع محل فتح مکہ اور ذوالحجہ دونوں کا بتا کر ابن حجر کی تطبیق کا ذکر کیا ہے اور آیت جاء الحق وزھق الباطل کے بارے میں روایت ابن سعد اور حدیث بخاری کا فرق دکھایا ہے۔ ۱/۳۶۷، حاشیہ :۲) استشہاریان قتل کی تعداد بقول مصنف دس اور پندرہ بہ تحقیق سید جامع اور بحوالہ مغلطائی نقل کرکے متعدد ارباب سیر کی تعداد یں بیان کی گئی ہیں اور ان کو غیر محتاطانہ کہا ہے۔ (۱/۳۷۱، حاشیہ ۵:اضافہ سید میں اور بھی نقد مصادر ہے)

ہجویہ شعر گانے والی کے قتل پر شبلی نے روایت پر درایتی نقد کیا ہے کہ ’’محدثانہ ‘‘ تنقید کی رو سے یہ بیان صحیح نہیں ، اس جرم کا مجرم تو سارا مکہ تھا پھر ذاتی انتظام نہ لینے اور عفو عام نبوی کی روایات سے بحث کرکے مزید لکھا ہے کہ اگر درایت پر قناعت نہ کی جائے تو روایت کے لحاظ سے بھی یہ واقعہ بالکل ناقابل اعتبار رہ جاتا ہے، صحیح بخاری میں صرف ابن خطل کا قتل مذکور ہے اور عموما یہ مسلم ہے کہ وہ قصاص میں قتل کیا گیا…. باقی جن لوگوں کی نسبت قتل کی وجہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ کسی زمانہ میں آنحضرتؐ کو ستایا کرتے تھے وہ روایتیں صرف ابن اسحاق تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں یعنی اصول حدیث کی رو سے وہ روایت منقطع ہے جو قابل اعتبار نہیں ہے، ابن اسحاق کا فی نفسہٖ جو درجہ ہے وہ ہم کتاب کے دیباچہ میں لکھ آئے ہیں…… سب سے زیادہ معتبر روایت ابوداؤد کی روایت ہے(جس میں صرف چاراشخاص کے لیے امان نہ تھی) اور خود ابوداؤد کو اس کی مطلوبہ سند نہ ملی، اس کے روا ۃ میں سے ایک منکرالحدیث اور دوسرا غیر قوی بتایا گیا ہے۔۔۔‘‘ واقعہ جس قدر اہم ہے اس کے لحاظ سے راوی کی اس قدر جرح بھی روایت کے مشکوک ہونے کے لیے کافی ہے‘‘۔ (۱/ ۳۷۲۳۷۴۴ مع حواشی اور استدراکات و اضافات جامع گرامی ، حسب روایت و عقیدہ شبلی نے روایت منقطع کا سارا الزام ابن اسحاق پر رکھ کر ان کا درجہ ثقاہت تک خطرہ میں ڈال دیا۔ روایات کاضعف اپنی جگہ مگر درایت اور شواہد سے یہ واقعہ ثابت ہوتا ہے کہ قتل صرف مجرموں کا ہوا تھا اور وہ چند تھے یہ بحث بھی دقیق ہے اور مزید تحقیق چاہتی ہے)

غزو ہ حنین و اوطاس وطائف: اول وہلہ میں ہزیمت، طلقائے مکہ کی عدم ثباتی، جدید الاسلام کی بے تدبیری وغیرہ پر شبلی کے تجزیاتی و درایتی مباحث و بیانات پر جامع سید کے متعدد استدراکات و اضافات ہیں اور بعض بعض خاصے مفصل بھی ۔ ان میں حضرت مصنف کے اغلاق، غیر مسلم /کافر کی مراد وغیرہ شامل ہیں۔(۱/۳۷۷ومابعد مع حواشی۔ بیشتر سیرت نگار اس کا الزام طلقائے مکہ پر لگاتے ہیں لیکن وہ صحیح نہیں ہے ۔ حالات اور حملہ کی سنگینی نے سب کے پیر اکھاڑ دیے تھے اور اس کی ابتدا مقدمہ لشکر کے پلٹ پڑنے سے ہوئی تھی مصادر سیرت اور تحقیقات جدید میں اس پر مفصل بحث ہے)

واقعہ ایلا و تخییر و مظاہرہ، سورہ تحریم کے حوالہ سے شہد نہ کھانے کی قسم نبوی پر بحث میں علامہ عینی نے شرح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی کمسنی اور ازواج دیگر کے رشک کی تدبیروں کی تشریح پر نقد شبلی ہے کہ ’’علامہ موصوف کا جواب تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اول تویہ واقعہ ایلاء کے سلسلہ میں ہے جو ۹ھ میں واقع ہواتھا ۔اس وقت حضرت عائشہ ؓ سترہ برس کی ہوچکی تھیں ، دوسرے حضرت عائشہ ؓ کم سن تھیں لیکن اور ازواج مطہرات جو اس میں شریک ہوئیں وہ تو پوری عمر کی تھیں۔ خود حضرت حفصہؓ کی عمر آنحضرتؐ کی شادی کے وقت ۲۱؍برس تھی۔ ہمارے نزدیک مغافیر کی بو کا اظہار کرنا کوئی جھوٹ بات نہ تھی…. لیکن ازواج مطہرات کا ایکا کرنا بظاہر محل اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن یہ کسی کا اعتقاد نہیں کہ ازواج مطہرات معصوم تھیں یا اپنے انجاح مقصد کے لیے جائز و سائل نہیں اختیار کرتی تھیں‘‘۔ (۱/ ۳۹۱۴۹۲؛ شبلی کے نقدمیں ازواج مطہرات کے ایکا کرنے کو انجاح مقصد کا ایک جزو / وسیلہ مانا گیا ہے۔ وہ دراصل کئی واقعات اور ان کے بہت سے اسباب کا معاملہ تھا اوریہ بحث تحقیق طلب ہے )

شبلی نے درایت و روایت دونوں کی مضبوط بنیادوں پر اپنے موقف کوثابت کیا ہے کہ یہ تینوں واقعات۔ایلا و تخییر اور مظاہر ہ ’’ہم زمان اور ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ روایتی طور سے بخاری کی حدیث حضرت ابن عباس ؓ (باب موعظۃ الرجل لابنتہ) حافظ ابن حجرؓ کی شرح و رائے اور سورہ تحریم سے کی ہے۔ درایتی تجزیہ روایات سے بتایاہے کہ ازواج کے ذریعہ نفقہ کی توسیع چاہتی تھیں اور حضرت ماریہ قبطیہؓکی علاحدگی نہیں۔ شبلی نے اس پر ایک ادبی طنزیہ شاہکار لکھا ہے: ’’…. یہ ایسی کیا اہم باتیں تھیں اور حضرت عائشہؓ و حضرت حفصہؓکی کسی قسم کی سازش ایسی کیا پر خطر ہوسکتی ہے جس کی مدافعت کے لیے ملأ اعلیٰ کی اعانت کی ضرورت ہو‘‘؟ مصنف سیرت نے بدلائل ثابت کیا ہے کہ بعضوں کا قیاس اور خیال کہ وہ ان ازواج مطہرات کے ذریعہ حضرات شیخینؓ کو اشتعال دلا کر رسول پاکؐ کے خلاف کردیں قطعی غلط ہے۔ ’’ان واقعات میں کذابین روایت نے اس قدر تلبیسات اور خدا عیاں کی ہیں کہ بڑے بڑے مورخین اور ارباب سیر نے اپنی تصانیف میں اسناداً درج کردیں‘‘۔ پھر بہت تفصیل سے ان پر روایتی و درایتی بحث کی ہے اور ان کی کمزوری اور ناقابل اعتبار حیثیت واضح کی ہے۔ یہ پوری بحث شبلی ایک مفصل درایتی تجزیہ ہے۔ (۱/۳۹۰۴۰۰ مع حواشی )

غزوہ تبوک، رجب ۹ھ/ نومبر ۶۳۰ء: آخری غزوہ نبوی کے مبحث میں شبلی کی درایتی تحلیل کے متعدد جواہر موجود ہیں جیسے : غسانی حاکم اور قیصر روم کا ماتحت و باج گزارعرب حکمراں دونوں مل کر اسلامی ریاست کے خلاف ریشہ دوانیاں او رجنگی کارروائیاں کرتے رہے تھے اور جنگ کرنے کے بھی در پے تھے۔ مصنف گرامی نے روایت غزوہ کے علاوہ حضرت کعب بن مالک ؓ کے نام رئیس غسان کے اشتعال انگیز خط سے اس کو مدلل کیا ہے ۔ (۱/۴۰۱، حاشیہ ۲بحوالہ زرقانی از ابن جریر ۳/۹۱)

غزوات پر دوبارہ نظر: سیرۃ النبی کا آخری مبحث جلد اول ہے او روہ بقول شبلی سرتاپا درایتی تجزیہ و تحلیل کا ایک شاندار تاریخی فن پارہ ہے روایتی علماء سیرت اور دوسرے غیر مورخ ناقدین فن نے اس کی قدر و قیمت نہیں پہچانی۔ شبلی نے غزوات کے اسباب و مقاصد پر مدلل و مفصل بحث کی ہے ’’جن کو غیرمذہب والوں، بدنیتوں، نیک نیتوں، دوستوں اور دشمنوں میں سب نے غلط سمجھاہے۔ ان کے غلط سمجھنے کے اسباب ایسے ہیں کہ ہم ان کو معذور رکھ سکتے ہیں‘‘۔ اس بحث کے اہم ترین عناوین ہیں۔ ۱-عرب اور جنگ و غارت گری، غنیمت کامفہوم لوٹ کا مال، غزوہ کا مفہوم۔ ۲– ثار کا عقیدہ۔ ۳-لوٹ کامال، غنیمت سے شغف اور اسے کم کرنے کی سعی نبوی، جہاد فی سبیل اللہ۔ ۴-جنگ میں وحشیانہ افعال کا تدارک۔ ۵– غزوات نبوی کے اسباب وانواع ،سرایا صرف فوجی مہمیں نہ تھیں ، مختلف المقاصد تھیں۔ خبر رسانی ،دوستی ، معاشی روک ٹوک مدافعت اورتبلیغی۔ غزوہ کی دو قسمیں : دارالاسلام پر حملہ کا دفاع اور پیش قدمی کرکے دشمن کے حملہ /منصوبہ کو ختم کرنا۔ اسی میں سرایائے نبوی پر مختصر مگر جامع اور اصولی و درایتی بحث شبلی ہے جو ان کی انواع کے تحت ہے ۔ ۶-جنگی اصلاحات نبوی: لڑائی عبادت بن گئی، جہاد فی سبیل اللہ کے تصور وعمل سے۔ ۷-فاتح اور پیغمبر کا امتیاز۔ (۱/ ۴۰۸۴۴۲، حواشی و متون دونوں میں کتب سیرت وحدیت کے بکثرت حوالے ہیں)

سیرۃ النبیؐ جلد دوم کے مباحث نقد و نظر: امام شبلی و جامع ندوی کی مصنفہ و مرتبہ جلد دوم اپنی تصنیفی منزلت اور فنی مرتبت میں سیرۃ النبی اول سے جامع تر اور وسیع و بلند تر ہے۔ اولین جلد واقعات سیرت کا ایک تاریخی ارتقا اور توقیتی نشوو نما بیان کرتی ہے اور اس کاتتمہ و تکملہ جلد دوم پیش کرتی ہے ۔ وہ سیرت نبوی کا عطر مجموعہ بھی ہے۔ ان دونوں جلدوں کے فنی، دینی، سیرتی اور اسلامی عطایا کا ایک تقابلی مطالعہ ایک جداگانہ تحقیق کا موضوع ہے جو ابھی تک محققین و علماء پر قرض ہے۔ جلد دوم کے روایتی مباحث میں قریب قریب تمام ابواب شامل ہیں کیونکہ وہ مختلف مآخذ کی روایات و احادیث کے تجزیاتی مطالعہ کے بعدایک ایک باب میں گوندھے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر مصنف کے مرتبہ ابواب ہیں اور بعض ناقص ابواب میں ان کے تشنہ مباحث ہیں کہ وقت ستم گر اور دوسری بلاؤں نے ان کو تکمیل کی مہلت نہ دی اور ان کے جامع شاگرد نے ان کو اپنے تجزیاتی مطالعہ و نگارش سے مکمل کیا اور جامع کا کمال یہ ہے کہ استاذ امام کے خاکے کے مطابق کیا۔ جامع سید سلیمان ندوی کے بعض بعض اضافات اور تکملہ کامل ابواب و زیادات کی صورت اختیار کرگئے کہ استاذ امام نے صرف عناوین ہی لکھے تھے جیسے اولین باب: اسلام کی امن کی زندگی (صفحہ۱۸) اضافہ سلیمانی ہے یا تاسیس حکومت الٰہی وغیرہ۔ اس موضوع پر علاحدہ تحقیقی مقالے میں بحث کی گئی ہے۔ شبلی کے مصنفہ و مرتبہ ابواب میں تبلیغ و اشاعت اسلام میں عرب کے قبائل اور دوسرے لوگوں کے اسلام لانے کا ایک مجموعی بیان ہے جو مقامات ومقاصد بھی بتاتا ہے۔ وفود عرب کا ملحقہ باب بھی اسی طرح کا جامع باب مصنف ہے، مذہبی انتظامات کا متعلقہ باب بھی قلم مصنف سے ہے اور تاسیس و تکمیل شریعت کا باب بھی سوائے افتتاحی پیروں کے۔ اسلامی تعلیمات کے بعد شبلی نے تاریخی توقیت کے لحاظ سے سال اخیر کے واقعات میں حجۃ الوداع، اختتام فرض نبوت، وفات، متروکات، شمائل، معمولات، مجالس نبوی،عبادت نبوی، اخلاق نبوی لکھے اور ان کا سلسلہ خاندان نبوت سے جوڑا اور ازواج مطہرات اور ان کے ساتھ حسن معاشرت کا آئینہ دکھایا ، یہ تمام ابواب خالص روایتی و درایتی مباحث ہیں کہ وہ متعلقہ روایات و احادیث و اخبار کی معلومات کو یکجا کرکے مرتب کیے گئے ہیں۔ ابواب شبلی میں خاص خاص مباحث و موضوعات پر ان کے روایتی اور درایتی تنقیدات و معارضات کا وہی طریقہ یگانہ ملتا ہے جو جلد ال کے سیرتی مباحث میں تھا۔

احادیث و روایات کا اخذ و قبول: ان میں ایک طریق نقد و تبصرہ ہے جو شبلی نے مختلف مصادر سیرت کی تدوین و جمع میں اپنے اخذ و انتخاب خاص کی خاطر اپنایا تھا اور ان کے مصادر پر محاکمہ پیش کیا تھا جیسے صحیحین میں سے بخاری کی پوری روایت و قصہ اسلام حضرت ابوذر غفاری ؓ نقل کیا اور صحیح مسلم سے موازنۂ حاشیہ کرکے بتایا کہ اس میں بہت سی باتیں زائد اور مختلف ہیں اور پھر حافظ ابن حجرؒ کی تطبیق کا بھی ذکر کیا ہے (۲/۱۳، حاشیہ ۱۲بحوالہ مختلف ابواب صحیحین و فتح الباری )

حضرت علیؓ کی مہم یمن کا واقعہ تفصیل سے ابن سعد سے لیا ہے اور تمام حدیث کی کتابوں میں اسے تشنہ پایا ۔آگے مختلف روایات بخاری کو یکجا کرنے کا طریق حاشیہ میں واضح کیا ہے۔ (۲/ ۲۳، حاشیہ: ۱ اور ۴)

بحرین کے قبیلوں عبدالقیس ، بکر بن وائل اور تمیم میں اول الذکر کے قبو ل اسلام کا ذکر زرقانی سے بحوالہ کرمانی متن میں لکھا ہے اور حاشیہ میں صراحت کی ہے کہ بخاری کی روایات، جو کتاب الایمان، کتاب العلم اور کتاب المغازی کے مختلف ابواب میں اس باب خاص میں ہیں، وہ ان کے زمانہ اسلام کے وقت کا تعین خاص سفارت، وفد عبدالقیس سے قبل کا کرتی ہیں، پہلی سفارت چھٹی ہجری سے پہلے کی تھی، اصابہ، زرقانی اور مسند ابن راہویہ کے اختلاف روایات وغیرہ پر کلام بھی درایتی ہے۔ (۲/ ۲۵، حاشیہ :۱)

اسلام وفضائل اشعر یین کے باب میں صحیح مسلم کی روایت بیان کرکے تصریح کی ہے کہ صحیح بخاری میںوارد روایت سے ان کے رقت قلب کا ذکرملتا ہے۔(۲/۳۲)

متعدد دوسرے واقعات و مباحث میں اسی طرح شبلی تفصیل کسی ایک ماخذ سے بیان کرتے ہیں اور دوسرے کا نقص بیان یا اختلاف واضح کرتے ہیں جیسے وفد ثقیف میں طبری سے تفصیل کا اور ابن ہشام کے اختلاف نام کا ذکر کیا ہے اور دوسرے مآخذ کا بھی (۲/۳۸، ۲/۴۱، صحیحین کی روایات کا فرق و اختلاف وفد ربیعہ اور ان کے برتنوں وغیرہ کے بارے میں ظاہر کیا ہے۔ ۲/ ۴۲، حاشیہ ۳، عام واقعات ابن اسحاق، زرقانی اور ابن ہشام سے منقول ہیں اور صرف ایک واقعہ بخاری سے ۲/ ۶۸، اشعری وفد یا دوسرے وفود کی تعداد کا اختلاف صحیح بخاری وغیرہ سے ظاہر کیا ہے)

درایت کی بنا پر روایت و واقعہ کی تعیین مقصود:       شبلی نے سرایا ئے نبویؐ کے باب و بحث میں یہ تحقیق کی ہے کہ اشاعت اسلام کی غرض سے جو جماعت دعاۃ بھیجی جاتی تھی اس کو خطرات کے پیش نظر مسلح کردیا جاتا تھااور ان کے شرکاء سے قرآن پڑھواکر سنایا جاتا تھا اور جو سب سے زیادہ حافظ قرآن ہوتا اسے امیر بنایا جاتا ۔ تاریخ طبری میں اشاعت اسلام کے مقصود کی تشریح نہیں لیکن شبلی نے قرآن کے حفظ کاامتحان لینے کے واقعہ پر درایتی لحاظ سے قرائن کی بنا پر اسے تبلیغی جماعت قرار دیا (۲/ ۱۸۔ ۲۳ ومابعد، خاص تبلیغ اسلام کے لائق اور اسلامی تعلیمات کے ماہرین کی ’’تفحص‘‘ سے دعا ۃ کی جدولیں متن میں دی ہیں اور ان کو مختلف مصادر سے جمع کیا ہے)۔

روایات اور راوی کے خیال وحسن ظن پر درایتی محاکمہ: شبلی نے احادیث و روایات میں راوی کے اضافہ /ادراج سے دونوں جلدوں میں برابر بحث کی ہے اور پوری پوری روایت کو غیر صحیح بتایا یا ان میں کسی صحیح روایت میں کسی راوی بالخصوص اول کے حسن ظن پر درایتی طنز کیا ہے جیسے یمن کے قبیلہ ہمدان کے مبلغ و مجاہد اسلام حضرت علیؓ کے ڈر سے قبول اسلام کی روایات، شبلی نے صرف صحیح روایت متن میں دی ہے اور حاشیہ ۱، میںان غیر صحیح روایات کے ترک کا ذکر مع نقائص کیا ہے اورمواہب اللدنیہ سے زرقانی کا مقصود روایات بتایا ہے (۲/۲۱۲۲، حاشیہ ۱، ثقیف و ہمدان کو جنگ و قتال کرنے کی ہدایت نبویؐ کو قطعاً غلط قرار دیا ہے جیسا کہ ابن قیم نے لکھا ہے۔ دونوں قبیلے جغرافیائی لحاظ سے شمال و جنوب میں تھے۔ ایسا حکم تو دو پڑوسی قبیلوںکو دیا جاسکتا تھا۔ یہ خاص درایتی استدلال ہے)

عام مصادر سیرت پر درایتی نقد: ’’…. یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ایک ایک غزوہ کی تفصیل سینکڑوں صفحات میں ہے لیکن نماز ،روزہ ، زکوٰۃکے متعلق دودو چار سطروں سے زیادہ واقعات نہیں ہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ جب کوئی سنہ ختم ہوتا ہے تو اس قدر لکھ دیتے ہیں کہ اسی سال فرض نماز کی رکعتیں دوسے چار ہوگئیں۔ اس کی وجہ یہ نہیںکہ خدانخواستہ ارباب سیر دیگر فرائض کی اہمیت اور عظمت پیش نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ غزوات کی مصروفیت…. اکثر فرائض دیر سے فرض ہوئے اور جو پہلے فرض ہوچکے تھے ان کی تکمیل بھی بہ تدریج اسی زمانہ میں ہوتی رہی….‘‘۔ (۹/۷۷۷۹: فرضیت ارکان اربعہ وغیرہ پر شبلی اور ان کے جامع گرامی سے راقم خاکسار کو اختلاف ہے اور بحث کے لیے مکی عہد نبویؐ میں اسلامی احکام کا ارتقاکا مطالعہ کرنے کی التماس ہے)

واقعہ قرطاس پربحث، مصادر سیرت و حدیث دونوں کی بنا پر مرض الوفات میں وفات سے چار دن قبل جمعرات کو آپ نے دوات و کاغذ طلب کیا تاکہ گمراہی سے بچنے کے لیے ایک تحریر لکھ دیں۔ صحابہ میں اختلاف ہوا اور شور و غل کی وجہ سے آپ نے ارادہ ترک کردیا، اکابر کااحساس تھا کہ آپ کو مزید تکلیف نہ دی جائے۔ کسی نے ہجر(ہذیان) کا خیال ظاہر کیا اور بعض رواۃ نے اس کا الزام حضرت عمرؓ کے سر دھر دیا۔ شبلی نے بدلائل روایتی و درایتی محاکمہ کرکے واضح کیا ہے کہ حضرت فاروقؓ اس کے قائل نہ تھے، نہ صحابہ ہذیان کا خیال بھی لاسکتے تھے۔ شبلی نے قرطاس کے واقعہ کا اصل مقصود بتایا ہے کہ وہ کسی طرح ایمانی اور ضروری طلب نہ تھی۔ (۲/ ۱۳۶۱۳۷ مع حواشی، مفصل بحث کے لیے شبلی، الفاروق، بحث واقعہ قرطاس، نیز خاکسار راقم کا مقالہ اسی عنوان پرعالمی السیٹر کراچی ۲۰۱۴ء۔ تمام متعلقہ احادیث بخاری و مسلم اور مباحث ابن حجرؒ وغیرہ محدثین کرام کا تجزیہ کرکے شبلی نے توقیت یوم کی ہے ، ہجر کے قائل کی تشخیص کی ہے اور تعارض روایات پر محاکمہ کیا ہے )

معارض روایات پر محاکمہ، مصنف گرامی اور ان کے جلو میں حضرت جامع نے متصادم روایات پر نقد درایتی کرتے ہوئے صحیح کو قبول او رمرجوح یا غلط کو مسترد کیا ہے جیسے سورہ نصر کے نزول کے باب میں واحدی کی اسباب النزول کی روایت کہ وفات سے دو برس پہلے اتری اور ابن قیم کی روایت مکہ کہ ۱۰ھ میں اتری کا تعارض بیان کرکے دوسری روایت کا ضعف ابن حجر و زرقانی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ سیوطی اور عبدالرزاق کے اتفاق سے واحدی کی روایت کوترجیح دی ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ ’’سورہ کا طرز بیان ظاہر کررہا ہے کہ وہ فتح مکہ کے متصل ہی اتری ہے…. بقیہ روایات نزول روایت و درایت دونوں حیثیتوں سے ضعیف ہیں‘‘۔ (۲/۱۱۶؛ حاشیہ۲،ابن قیم کی روایت اصلاً بیہقی کی روایت بھی بتائی ہے)

حج نبوی کی روایات پر ابن ماجہ سے نقل کیا ہے کہ ہجرت سے قبل آپ نے دوحج فرمائے۔ جن حدیثوں میں ہے کہ آپ نے صرف ایک ہی حج کیا تھا اس سے مقصود ہجرت ہے‘‘۔ (۲/۱۱۷؛ حاشیہ۱، اسلامی احکام کا ارتقا،باب حج و عمرہ ؛مکی زندگی میں آپ نے متعدد حج و عمرے ادا کیے تھے)

حجۃ الوداع کے بارے میں متعدد کتب حدیث و سیرت سے روایات نقل کی ہیں اور ان میں محاکمہ بھی کیا ہے۔ (۲/۱۱۷۱۳۰ مع حواشی مفیدہ :)۔ محاکمہ درایتی کے خاص امور ہیں: روایات میں نقص و تشنگی، کسی خاص ماخذ میں تفصیل، تعداد شرکاء /حجاج کم و بیش ایک لاکھ شامل تھے، مختلف ماخذ سے خطبات نبویؐ یا خطبہ منیٰ کے مختلف حصوں کے جمع و تدوین شبلی ، ۲/۱۱۹۱۲۰: روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اس حج میں تین دفعہ خطبہ دیا، ۹؍یوم عرفہ ، ۱۰؍یوم النحر، ۱۱؍یا ۱۲؍ کو ایام تشریق میں۔ ’’ان خطبوں میں بعض باتیں اصولی طور پر مشترک ہیں اوربعض مختص المقام ہیں…‘‘۔ بعض بعض فقرے جملے مکررارشادفرمائے بحوالہ محدثین عام اور ابن تیمیہ منتقی الاخبار؛ موخرالذکر خاص ماخذ شبلی ہے۔ نیز ۲/ ۱۲۸ ومابعد مع حواشی جن میں مختلف مقامات، مزدلفہ ، عرفات و منیٰ میں نمازوں کی ادائیگی سے متعلق روایات پر بحث ہے۔ اخیر میں شبلی تصریح ہے ۲/۱۳۰، حاشیہ ۲، ’’حجۃ الوداع کے تمامتر واقعات صحیح بخاری، صحیح مسلم،سنن ابوداؤد اور نسائی سے لیے گئے ہیں….‘‘۔

زمانہ بیماری میں نماز کی امامت اور حضرت صدیقؓ کی نیابت پر شبلی نے جمعرات کے دن آپ کے شریک جماعت ہونے کو راوی کا سہو قرار دیا ہے اور شافعی ، ابن سعد پر نقد کیا ہے ۔دوسرے مرض الوفات کے واقعات میں اول بحث لشکر اسامہ بن حارث سے متعلق ہے لیکن حاشیہ۲، کا اضافہ سلیمانی ہے جس میں حضرات شیخینؓکی شرکت پر بحث ہے (۲/۱۳۲، حاشیہ ۲۔ شبلی کے حاشیہ۳، میں ابتدائے مرض کے دن، مدت علالت اور تاریخ وفات کی تعیین میں اختلاف روایات ہے لیکن چند امور پر اتفاق ہے۔ اختلافی امور پر تجزیہ روایات کرکے چہار شنبہ کو علالت کاآغاز اور ۱۳ دن مدت علالت اور وفات کی ارباب سیر کی متصادم روایات میں ۱۲؍ربیع الاول کی روایت کو قطعاً ناقابل تسلیم قرار دیا ہے کہ اس دن دوشنبہ نہیں پڑتا جو سب میں متفقہ امر ہے ۔ ایک مفصل بحث اور تاریخ جدول کے مشکل باب کے بعد شبلی کا خیال ہے کہ ’’…. وفات نبوی کی صحیح تاریخ ہمارے نزدیک یکم ربیع الاول ۱۱؍ہجری ہے….‘‘ ۲/۱۳۴ حاشیہ: ۱،ماقبل صفحہ سے ، مرض الوفات میں نمازوں میں شرکت و عدم شرکت کی روایات مختلفہ پر بحث کرکے درایتی نقد و تبصرہ کیا ہے۔۲/۱۴۰۱۴۱، حاشیہ خاص۳، درایتی بحث کے لیے وقت وفات پر درایتی محاکمہ کیا ہے کہ دوشنبہ کے اخیردن میں وفات پائی اور روایات ابن اسحاق، بخاری، ابن ماجہ کے اختلاف کے بارے میں ابن حجر کی تطبیق سے بحث کی ہے۔(۲/۱۴۲حاشیہ:۲۳ )

تدفین صحیح روایات ابن سعد کے مطابق سہ شنبہ کو ہوئی، بقیہ روایات تمام تر کذب او رجھوٹ ہے البتہ تدفین سے فرصت چہارشنبہ کی شام کو ہوسکی۔ ۲/۱۴۳؛ حاشیہ ۲؛ قبر میں اترنے والے اور آخری دیدار کرنے والے کی معارض روایات میں اور قبر میں اتارنے والوں کی تشخیص پر لکھا ہے کہ ’’ارباب نظر جانتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں ترجیح کس کو حاصل ہے‘‘۔ حاشیہ ۸، متن میں شبلی نے حضرت اسامہ بن زیدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓکے قبر میں اتارنے والی روایت کو ترجیح دے کر یہ درایتی جملہ لکھا ہے۔

متروکات نبویؐ : اس باب جامع میں شبلی نے جو روایتی اور درایتی نقد مصادر کیا ہے وہ ان کی بالغ نظری اور تبحر نقد کے شاہکار ہیں جیسے :

فرمان نبوی لانورث ماترکنا صدقۃ کی بابت لکھا ہے کہ یہ فقرہ تمام حدیث کی کتابوں میں ہے، بخاری کے متعدد مقامات میں ہے۔ ۲/۱۴۵حاشیہ ۱۔ باغات مدینہ جو ہدایائے مخیر یقؓ وغیرہ کے تھے یا بنو النضیر کے مال سے تھے ان کو اپنی زندگی ہی میں مستحقین میں تقسیم فرمادیا تھا۔ (ایضاً)

فدک اور خیبر کی جائداد وں کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے اختلاف سے بحث شروع کی کہ اول الذکر ذاتی جائداد سمجھتے ہیں اور موخرالذکر والی کی وراثت اور خود اسے دوسرے نقطہ نظر کے مطابق فیصل کیا ہے۔ البتہ اختلاف کا سراغ صحابہ کرام کے زمانہ سے لگایا ہے کہ حضرت عباس اور حضرت فاطمہؓ اسے ذاتی جائداد قرار دے کر اہل بیت کو دینے کے وکیل تھے اور حضرت شیخین و اکابر صحابہ اسے وقف عام سمجھتے تھے اور سرکاری ملکیت قرار دیتے تھے۔ اسی پر خلفاء اسلام کا عمل رہا۔ (۲/ ۱۴۶ معہ حواشی ، حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت عمرؓبن عبدالعزیز کے زمانے میں باغات فدک کی تولیت سادات کو دی گئی تھی نہ کہ ملکیت جیسا کہ متن میں اظہار ہے۔ حاشیہ :۶ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے)

مویشی /جانور کے ترکہ کی درایتی بحث میں شبلی نے طبری پر نقد کیا ہے کہ ’’اگر وہ قابل اعتبار نام ہوتے تو حقیقت میں نہایت دلچسپ تھے لیکن اس کے متعلق طبری کی جس قدر روایتیں ہیں سب بلا استثنا واقدی سے ماخوذ ہیں‘‘۔ پھر پچھلے مصنّفین پر جن میں بڑے بڑے محدثین مثلاً یعمری، مغلطائی، عراقی وغیرہ شامل ہیں بلا سند بیان کرتے ہیں اور لوگ ان کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سلسلہ سند واقدی سے آگے نہیں بڑھتا‘‘۔ (۲/ ۱۴۷، حاشیہ متن میں ہے بحوالہ ابوداؤد، صحیح بخاری وغیرہ۔ ’’اتنی بڑی فہرست جو طبری وغیرہ نے درج کی ہے اور جو ایک تاج دارسلطنت کے شایان حال ہے کیوں کر تسلیم کی جاسکتی‘‘۔ متروکات میں صرف ایک جانور تسلیم کیا ہے اور احادیث صحیحہ کے استقراء سے چند دوسرے متروکات مانے جاتے ہیں۔ اس طرح دوسرے تمام متروکات، اسلحہ، آثار متبر کہ میں لباس وغیرہ مسکن مبارک، دایہ خدام خاص۔ کے مباحث میں روایات واحادیث پر نقد موجود ہے۔ (۲/۱۴۷۱۵۳مع حواشی )

شمائل کے باب میں شبلی نے مختلف کتب حدیث و سیرت کی روایات سے بحث کی ہے اور درایتی و روایتی نقد حضرت جامع کیا ہے (۲/۱۵۴۱۶۵مع حواشی لیکن بعض بعض معاملات پر شبلی کا نقد متن میں موجود ہے جیسے معمولات طعام میں گوشت کو چھری سے نہ کاٹنے کی ہدایت بروایت ابوداؤد کو ضعیف کہا ہے اور خود امام حدیث کا تبصرہ نقل کرکے یہ دلچسپ درایتی تبصرہ کیا ہے کہ ’’اس حدیث کے ایک راوی ابومعشر نجیح ہیں جن کی نسبت بخاری نے لکھا ہے کہ وہ منکرالحدیث ہیں اور ان ہی منکرات میں سے یہ بھی ہیں‘‘۔ ۲/۱۶۰ دوسرے معاملات میں کتب حدیث کے بہت سے حوالے ہیں اور ان پر بحث بھی ہے۔

معمولات کے مبحث میں مصادر کی روایات بالخصوص کتب حدیث کی احادیث کا ایک گراں قدر خزینہ ہے لیکن نقد و تبصرہ نہیں ہے۔ (۲/۱۶۶۱۷۶) البتہ اس میں مختلف مصادر کی روایات و احادیث کے اخذ و قبول کا سلسلہ شبلی ملتا ہے۔

مجالس نبوی کا باب بھی احادیث و روایات کاایک اہم مجموعہ اور تجزیاتی بحث ہے اور نقد و استدراک سے خالی ہے (۲/۱۷۷۱۸۴) مختلف کتب حدیث سے اخذ و قبول روایات کے بارے میں شبلی کی یہ نشاندہی ان کے تبحر کی دلیل ہے کہ کون سا حصہ کس مصدر سے لیاہے اور اصل ماخذ کو بھی بتایا ہے۔

اخلاق نبوی کے باب میں کتب حدیث سے احادیث لینے کے ضمن میں یہ ضروربتاتے ہیں کہ بخاری .4سے کتنا مواد لیا ہے اور .4مسلم .4سے کتنا اور دوسروں سے کس قدر (۲/۲۲۵۳۱۹) .4حواشی میں بالخصوص یہ تشریح شبلی .4ملتی ہے کہ اس باب میں اور دوسرے ابواب میںکس مصدر نے کتنا مواد جمع کیا اور کون سا ماخذ تشنہ ہے۔

ازواج مطہرات اور اس کے تکملہ ازواج مطہرات کے ساتھ معاشرت (۲/۳۲۰) میں اول الذکر سیدھا تاریخی بیانیہ ہے جبکہ دوسر ے اور تکمیلی باب میں روایات و احادیث پر روایتی و درایتی تبصرے اور جائزے بھی ہیں، مثلاً آیت حجاب کی شان نزول میں اختلاف کا ذکر کرکے حافظ ابن حجر ؒ کی ان میں تطبیق دینے کی طریقت کی تحسین کی ہے کیونکہ اس کے نزول کے اسباب متعدد تھے ، حضرت حفصہؓ کے نکاح کے باب میں ان کے شوہر کی وفات کی تعیین کی ہے کہ وہ غزوہ بدر کے بعد ہی واصل بحق ہوئے تھے اور نکاح نبوی ۳ھ میں ہوا ورنہ ۴ھ میں ہوتا۔اسی میں ایک حاشیہ میں تنبیہ کی ہے کہ’’ ازواج مطہرات میں اس قسم کی روایتیں صرف حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ کے متعلق مذکور ہیں ۔ اس کے اسباب کی تلاش کرنی چاہیے، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ کے ساتھ منافقین کو جو عداوت تھی وہ قابل لحاظ ہے‘‘۔ ازواج مطہرات کی تاریخ ہائے وفات میں مختلف و متصادم روایات میں سے کسی ایک کو درایتی ترجیح دی ہے جس طرح حضرت علیؓ کے قبول اسلام کی تاریخ یا سن دس سال کا بتایا ہے اور آٹھ سال والی روایت مسترد کی ہے (۲/ ۳۴۳، حاشیہ۲) ازواج مطہرات میں حضرت عائشہؓ کی ترجیح کے وجوہ و اسباب سے درایتی بحث بھی کی ہے۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کے مزید مضامین سب سے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *