Web Analytics Made Easy -
StatCounter

یہ تھے اکابر مظاہر

یہ تھے اکابر مظاہر

یہ تھے اکابر مظاہر

جدید ترقی یافتہ دنیا میں چیزیں بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی ہیں۔ قلم کی جگہ کیبورڈ نے لے لی،صفحات اب سیاہ نہیں ہوتے ہیں؛ بلکہ اسکرین پُر ہوتی ہے۔ دستی کتابوں کے بجائے برقی کتابوں کا چلن تیزی سے ہورہا ہے۔ رسائل و جرائد کے بجائے شوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر لکھنا اور پڑھنا پسند کیا جارہا ہے۔ پہلے ایک قلمکار اپنی نگارشات کو مختلف رسائل و جرائد کے ذریعہ اہل علم و فن کی نظر میں لاتا تھا، اور پھر اس کو کتابی شکل دی جاتی تھی؛ لیکن آج کے ترقی یافتہ زمانے میں شوشل میڈیا پر طویل طویل قسطوں میں مضامین و مقالات لکھنے کا رواج بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، ابھی حال ہی میں چند ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں ہیں جنہیں متعدد قسطوں میں شوشل میڈیا پر شائع کیا گیا تھا، انہیں قارئین کی طرف سے اتنی پذیرائی ملی کہ یہ کتابیں ہارڈ فائل میں بھی طبع ہوگئی ہیں۔ یقینا ایسی کتابوں کو “شوشل میڈیائی ادب” کہا جاسکتا ہے۔

ہمارے زیر مطالعہ کتاب ” یہ تھے اکابر مظاہر ” کچھ اسی طریقے پر منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب کے مصنف مفتی ناصر الدین مظاہری پیش لفظ میں اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Yeh The Akabir e Mazahir

پیش نظر کتاب ” یہ تھے اکابر مظاہر” کوئی مستقل تالیف نہیں ہے، واٹس ایپ پر “علم و کتاب ” نامی ایک گروپ ہے جس میں دنیائے اسلام کی بہت سی اہم شخصیات اور قابل قدر علماء شامل ہیں، مجھے بھی اس گروپ کے ایڈمن محترم مولانا عبدالمتین بھٹکلی (دبئی)نے ازراہ محبت و عنایت شامل اور برداشت کر رکھا ہے، ایک دن بعض احباب نے مشورہ دیا کہ علماء مظاہر کے بے شمار واقعات جو سینوں، سفینوں،کتابوں،کتابچوں، رسالوں، جریدوں اور منتشر طور پر ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں کیوں نہ ان واقعات کو قسط وار گروپ میں پیش کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں شوشل میڈیا سے مربوط افراد واقف ہوسکیں۔

بنام خدا یہ سلسلہ “یہ تھے اکابر مظاہر” کے عنوان سے شروع کیا، قارئین نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا،گروپ سے دیگر گروپوں میں منتقل ہوتے ہوتے ملکی حدود سے دور بہت دور تک یہ سلسلہ پہنچنا شروع ہوا، جس کو بھی ملا،اس نے کار خیر سمجھ کر اگے بڑھا دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ تحسین آمیز بے شمار میسج،پیغامات اور براہ راست حوصلہ افزاء کلمات سے نوازا گیا،بہت سے حضرات نے اس کی فوٹو کاپیاں کراکے تفسیم کیں،بہتوں نے مستقل کتاب کا تقاضا شروع کردیا،مجھے تو تصور بھی نہیں تھا کہ سلسلہ اتنا مقبول و مشہور ہوگا، مستقل کتاب کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احباب کا مشورہ ہوا کہ سو قسطیں پوری ہونے پر سلسلہ موقوف کرکے پہلے کتابی شکل میں لایا جائے،بعد میں یہ سلسلہ کسی اور نام سے گروپ میں جاری رکھا جائے۔ اس لیے تین مہینہ دس دن پورے ہونے پر الحمد للہ سو قسطیں پوری ہوگئیں۔ “

زیر نظر کتاب 312/ صفحات پر مشتمل ہے، سرورق پر اس کا مختصر مگر جامع تعارف کچھ یوں درج ہے کہ ” علماء مظاہر کے تقوی و تقدس، زہد و تقثف، علمی تبحر، فقہی تعمق، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت پر مشتمل بے مثال واقعات کا شاندار مجموعہ”
اس کتاب میں فضلاء مظاہر اور وابستگانِ مظاہر علوم میں سے تقریبا 70/ شخصیات کے واقعات قلمبند کئے گئے ہیں، ایمان کو تازگی، روح کو طمانینت،فکر میں بالیدگی، دماغ کو سکون اور جسم میں ایمانی حرارت پیدا کرنے والے واقعات کا یہ حسین مجموعہ ہے۔ علماء مظاہر کے ان دل نشیں واقعات و قصص پڑھ کر بس یہی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے۔
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

مزید برآن مصنف کے اسلوب کی شگفتگی و سائستگی اور انشاء پردازی نے اس کو مزید چار چاند لگا دیا ہے، تحریر اتنی سلیس اور واقعات کا اتنا عمدہ اور حسین انتخاب کہ آدمی بغیر تکان کے ورق گردانی کرتا چلا جائے۔ کتاب کے شروع میں فاضل مصنف کے پیش لفظ “باتیں ہماریاں” کے علاوہ مولانا محمد سعیدی کی “فکر عالی” مولانا بدرالحسن قاسمی کی “اکابر مظاہر کا ذکر جمیل” اور مولانا محمد ساجد کھجناوری کی ” زبان میری بات ان کی ” کے عنوانات سے تحریریں ہیں۔ مزید برآن مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا مقدمہ ہے۔ واقعات و قصص کے علاوہ کتاب کے شروع میں شہر سہارنپور اور مظاہر علوم کا اختصار مگر جامعیت کے ساتھ تذکرہ ہے۔ اسی طرح آخر میں کاندھلہ، تھانہ بھون، رائے پور، سہارنپور اور ہردوئی کی خانقاہوں کا ذکر ہے۔

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *