Web Analytics Made Easy -
StatCounter

وادی نیل سے صحرائے نجد تک

وادی نیل سے صحرائے نجد تک

وادی نیل سے صحرائے نجد تک

سرزمینِ مصر اپنی قدیم تہذیب و تمدن، عجائبات اور تاریخی قدیم آثار کی وجہ سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے۔ دنیا کے سات عجائب میں سے ایک “اہرام مصر” یہی واقع ہے۔ مصر کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ قدیم زمانے کے بادشاہوں کے قرائن و آثار آج بھی مصر کے چپے چپے پر نظر آتے ہیں۔ خلیفہ دوم حضرت فاروق اعظم کے دور خلافت میں مصر فتح ہوا، اس کے بعد ہی سے مصر کا شمار اسلامی علوم و فنون کے اہم مراکز میں سے ہوتا ہے، مسلمانوں کی عہد رفتہ کے قلعے اور قدیم مساجد آج بھی زائرین مصر کو اپنی طرف کھنیچتی ہے۔

وادی نیل سے صحرائے نجد تک

ہمارے زیر مطالعہ مختصر مگر دلچسپ سفرنامہ ” وادئ نیل سے صحرائے نجد تک” اسی سرزمین کی سیاحت کی ایک روداد اور لفظی منظر کشی ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر عبدالستار دلوی اردو داں طبقہ میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ادبیات اور لسانیات کے حوالے سے ایک معتبر اور مستند نام ہیں۔ 1988ء میں حکومت مصر کی دعوت پر مصر تشریف لے گئے، جہاں پندرہ دن اردو کے حوالے سے مختلف پروگراموں میں شرکت اور خطاب کرنا تھا، پروفیسر صاحب کا اس کے بعد بھی مصر کا دو سفر ہوا؛ لیکن یہ سفرنامہ صرف پہلے سفر کی روداد ہے۔اس سفرنامہ میں مصر کے تاریخی مقامات کی سیر، مصریوں کی رہن سہن،مصر کے خاص پکوان ، مصر کی تعلیمی صورت حال، مصر کی لائبریری اور میوزیم وغیرہ کے سلسلے میں گراں قدر معلومات ہیں۔

چوں کہ مصنف کا مقصد سفر ہی اردو زبان تھی،اسی لیے جا بجا مختلف یونیورسٹیوں میں اردو کے تعلق سے خطاب، شعبہ اردو کی صورتحال، اردو زبان میں مصر میں ہوئے کام کا تعارف اور مصر کی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ اور پڑھانے والے اساتذہ سے ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ اس سفرنامہ سے اندازہ ہوتا ہے، بیسویں صدی کے اواخر ہی میں اردو نے کتنی ترقی کرلی تھی۔ اس کے علاوہ مصنف نے مختلف تاریخی مقامات، یونیورسٹیوں اور مساجد کی بھی زیارت کی، جس کی قلمی تصویر اور منظر کشی خود سیاحت پر ابہارتی ہے،ان مقامات میں جامعہ ازہر، الشمس یونیورسٹی، ادارہ السنۃ والترجمہ مدینۃ النصر، ایوبی قلعہ، سلطان حسن مسجد، امام شافعی کا مزار، قاہرہ یونیورسٹی، مینار قاہرہ، اہرام مصر اور شہر اسکندریہ وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ مصنف کی زبان اور اسلوب کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے، ساحل نیل پر واقع اپنے ہوٹل کے پانچویں منزل سے باہر کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں

دریائے نیل کے دوسرے کنارے پر ہوٹل شیرٹین کے قریب مشہور قاہرہ کا مینار بھی تھا جو طلوع آفتاب کے بعد بقعہ نور بنا رہتا، آس پاس کنارے پر بجلی کی روشنی رہتی اور یہ زرد رنگ کی روشنی دریائے نیل میں ایک عجیب سماں پیدا کردیتی ہے، وقت شب دریا میں چراغاں کا عالم اپنے اندر جو حسن و جاذبیت رکھتا ہے اس کا بیان مشکل ہے، یہ حقیقتا دیکھنے کی اور بار بار دیکھنے کی چیز ہے، صبح سورج کے طلوع ہوتے وقت درختوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ سے یہ منظر مختلف ہو جاتا، چڑیوں کی چہچہاہٹ گویا خداوند قدوس کی حمد و ثنا ہوتی، آہستہ آہستہ سورج کے آسمان پر نمودار ہونے کے ساتھ سورج کی کرنیں نیل کے سطح آب پر پڑتیں تو پانی میں ایک خاص قسم کی چمک پیدا ہوتی موجوں میں طلاطم کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا جیسے سونے کی گیندیں سطح آب پر ابھرتی اور ڈوبتی رہی ہوں، پھر صبح کے وقت کشتی رانی اور موٹر لانچوں کی آمد و رفت شروع ہوتی،یہ سلسلہ حرکت و حرارت پھر نصف شب تک قائم رہتا، قاہرہ میں مسجدوں کا جال بچھا ہوا ہے چناں چہ ہوٹل کے سامنے دریائے نیل کے کنارے بھی ایک خوبصورت مسجد ہے، جہاں صبح و شام قرأت کی آواز اور آذان کی صدائیں گونجتی رہتیں، قرأت کا وہ عالم کہ قلب کو گرمادے اور روح کو تڑپا دے، واقعتا قرأت سن کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے، کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو تلاوت قرآن کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اور ارکان اسلام کی پابندی بھی انہیں نصیب ہے۔ “
کتاب کے شروع میں فاضل مصنف کا مقدمہ، ڈاکٹر الیاس الاعظمی کا پیش گفتار اور فاضل مرتب کا “وادی نیل کا عکس” ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *