Web Analytics Made Easy -
StatCounter

تذکرہ اکابر انبہٹہ پیر از مولانا نجم الدین انبہٹوی

تذکرہ اکابر انبہٹہ پیر از مولانا نجم الدین انبہٹوی

تذکرہ اکابر انبہٹہ پیر از مولانا نجم الدین انبہٹوی

سرزمین سہارنپور اپنی علمی دینی اور ادبی خدمات کی وجہ سے اہل علم میں مشہور و معروف ہے۔ ہندوستان کی دو عظیم اور قدیم درسگاہ “دارالعلوم دیوبند” اور ” مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور” اسی ضلع میں واقع ہیں۔۔یہ ضلع زمانہ قدیم ہی سے اہل علم و فن کی آماجگاہ رہا ہے۔ یہ خطہ انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں کی خاک سے سینکڑوں نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا ہے۔ جن کے علمی کارناموں کو پورا ہندوستان ہی نہیں ؛ بلکہ عالم اسلام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سہارنپور کی علمی قصبات میں سے ایک قصبہ ” انبہٹہ پیر” ہے۔ اس چھوٹے سے قصبہ نے بہت سے علماء و دانشوران کو پروان چڑھایا ہے۔ جن میں شاہ ابوالمعالی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری(صاحب بذل المجہود )، مولانا عبداللہ انصاری،محمد میاں منصور انصاری، سید سخاوت علی، مولانا مشتاق، مولانا حامد الانصاری،مولانا عظیم الدین پروفیسر وقارعظیم وغیرہ ہیں۔ یہ قصبہ شہر سہارنپور سے 20/ کیلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

ہمارے زیر مطالعہ کتاب ” تذکرہ اکابر انبہٹہ پیر” اسی قصبہ کے علماء و دانشوران کی حیات و خدمات اور ان کے لازوال کارناموں پر ایک عظیم دستاویز ہے۔کتاب 388/ صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کے شروع میں انبہٹہ پیر کی تاسیس اور تحریک آزادی میں اس قصبہ کے کردار پر مختصرا روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں نہ تو انبہٹہ پیر کی مکمل تاریخ کا ذکر ہے نہ ہی محل وقوع کا، بہتر ہوتا کہ مختصر مگر جامعیت کے ساتھ دس بارہ صفحات میں “انبہٹہ پیر” کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی جاتی۔ کتاب کا پہلا خاکہ مولانا خواجہ نورالدین صاحب متوفی 1667ء کا ہے۔ اس کتاب میں 65/ علماء و دانشواران کی زندگی اور ان کی علمی و ادبی اور سماجی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

Tazkira Akabir e Ambehta Peer

اس کتاب کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے قصبے سے کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے جنم لیا ہے۔۔جن کے علمی کارناموں سے ایک عالم فیضاب ہورہا ہے۔ جہاں اس قصبہ میں بہت سی مشہور معروف شخصیتیں گزری ہیں؛ وہیں اس خاک سے پیدا ہونے والے بہت سے اہل علم کے حالات اور ان کے کارنامے ابھی تک پردہ خفا میں تھے، ان کے نام اور کارناموں سے صرف اہل خطہ ہی واقف تھے، اس کتاب نے دسیوں گمنام یا کم نام شخصیات کو حیات نو بخشی ہے اور ان کے کارناموں کو زندہ جاوید کردیا۔

کتاب کی زبان بہت سادہ ہے ہر عام و خاص بآسانی سمجھ سکتا ہے بالفاظ دیگر اہل علم اور عوام دونوں کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔ کتاب کی ترتیب، خاکوں کی ترتیب کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا، بہتر ہوتا کہ اگر قصبات و اضلاع کے خاکوں پر لکھی گئی چند کتابوں کو بطور نمونہ پیش نظر رکھا جاتا۔ بہر حال یہ کتاب کا نقش اول ہے، نقش اول میں معلومی خامیاں در آتی ہیں، مجموعی اعتبار سے کتاب بہت عمدہ ہے، معلومات سے پر ہے، اس کتاب کے ذریعہ دسیوں گمنام شخصیات کے کارناموں کا علم ہوتا ہے۔

ظاھر سی بات ہے کہ جن شخصیات پر ابھی تک کچھ نہیں لکھا گیا ہے، ان پر لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے لیے عرق ریزی اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایک طرف تاریخ اور شخصیات پر لکھی گئی کتابوں کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے وہیں مختلف رشتہ داروں اور تلامذہ سے مل کر معلومات حاصل کرنی پڑتی ہے۔ مصنف نے ان تمام دشوار گزار راستوں اور خار زار وادیوں سے گزر کر یہ پھولوں کا عظیم گلدستہ مرتب کیا ہے۔ جس میں دل و دماغ کو سرور و تازگی بخشںے والی خوشبو ہیں۔

کتاب کے مصنف مولانا نجم الدین انبہٹوی، نوجوان عالم دین ہیں۔ اسی قصبہ کے ایک عظیم علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اس اہم علمی خدمت کے لیے اہل علم کی جانب سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب کے شروع میں مولانا قمر الزماں الہ آبادی کے دعائیہ کلمات، مفتی ابوالقاسم نعمانی کے کلمات تبریک، مفتی خورشید انور صاحب کے کلمات شیریں، مولانا شاہد مظاہری اور ڈاکٹر شکیب قاسمی کے تاثرات، پروفیسر اختر الواسع کا پیغام اور مولانا شاہ مسیح اللہ انبہٹوی کا مقدمہ ہے۔ جس میں مصنف اور کتاب کے متعلق گراں قدر کلمات کہے گئے ہیں۔

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *