نام کتاب: مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمیؒ اور ان کی علمی خدمات
مصنف: مولانا ڈاکٹر محمد صہیب
پیش نظر کتاب مولانا ڈاکٹر محمد صہیب الہ آبادی کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس پر انھیں لکھنؤ یونیورسٹی نےڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔ اس کتاب میں مولانا حبیب الرحمٰن محدث الاعظمی(1901-1992) کے سوانحی حالات کے ساتھ پون صدی پر محیط ان کی علمی وتحقیقی خدمات کا نہایت کاوش وتحقیق اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے ۔ حضرت محدث الاعظمی کی علمی خدمات بڑی متنوع تھیں ، علم حدیث تو ان کا اختصاصی میدان تھا ، اس کے علاوہ فقہ و تفسیر، لغت وادب اور فن عروض سب پر ان کی گہری نظر اور ان موضوعات پر ان کے رسائل اور مضامین ومقالات ہیں ۔
ایک مرتبہ رسالہ المآثر میں ’’ بحر سریع اور بحر رمل ‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک مضمون پڑھنا یاد ہے۔ انھوں نے علامہ سید سلیمان ندوی کے انتقال پر ایک نظم لکھی تھی جو قاضی اطہر صاحب کو بھیج دی کہ اسے روزنامہ’ ’انقلاب‘ممبئی‘ میں شائع کرادیں، قاضی صاحب نے اس کے بعض اشعار کو وزن سے ساقط خیال کر کے ان میں کچھ تبدیلی کر دی۔اس کے بعد محدث اعظمی نے ان کو ایک خط لکھا اور فن عروض پر ایسی محققانہ گفتگو فرمائی کہ محسوس ہوتا ہے کہ علم حدیث کے بجائے علم عروض ان کا اختصاصی موضوع ہو،یہی حال دیگر موضوعات کا بھی تھا ۔ مولانا ریاست علی ظفر بجنوری اپنے ’’ تعارف ‘‘ میں محدث الاعظمی کی جامعیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
ان کی خدمات صرف علم حدیث تک ہی محدود نہیں ہیں،بلکہ دیگربہت سے علوم وفنون بھی ان کی خدمت کے دائرے میں آتے ہیں۔ تفسیر ، فقہ، تاریخ و تذکرہ ، مناظرہ وغیرہ میں ان کی با قاعدہ تصانیف کی ایک وقیع تعداد ہے، اس کے ساتھ وہ زبان وادب کے بھی شہ سوار ہیں اور اردو فارسی عربی پر ان کو یکساں قدرت ہے، اور ان تینوں زبانوں میں نظم و نثر میں ان کے نقوش زندہ وتابندہ ہیں ، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قدرعلوم وفنون کی جامع ہے۔
ان علمی خصوصیات کے علاوہ ان کی عظیم شخصیت اور بھی بے شمار اوصاف کمال سے متصف تھی ، تصوف وسلوک میں ان کا مقام بہت بلند تھا ،اصابت رائے ان کا خاص جو ہر تھا، جس کی بنیاد پر وہ معاملات میں صحیح فیصلہ تک بآسانی پہنچ جاتے تھے، علمی تنقید اور اس میں دیانت پر کار بند رہنے کے عادی تھے، نہایت درجہ مردم شناس تھے، مزاج میں اہل کمال کی طرح نزاکت تھی ،لیکن تمام اوصاف کمال کے باوجود تواضع اور اکابر کا احترام حد درجہ پایا جا تا تھا ، ان کی ذات علم عمل کی جامع تھی ، اور بلاشبہ ان کا شماران اہل کمال میں تھا جن کی مثالیں کم پیدا ہوتی ہیں ۔ جو ’’در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق ،،کی صفت سے متصف ہوتے ہیں، جن کی شخصیت نہ تو علم وفن کے کسی ایک شعبہ تک محدود ہوتی ہے اور نہ صرف علم یا صرف عبارت کو ان کی پہچان قرار دیا جا سکتا ہے، بلکہ ان کی ذات علوم وفنون اور اخلاق وکردار دونوں میں مقام بلند پر فائز ہوتی ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتاب کے لئے مواد اکٹھا کرنے اور اس کی ترتیب میں مصنف کو کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ۔کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کا آغاز محدث الاعظمیؒ کے صاحبزادےمولانا رشید احمد الاعظمی کے عرض ناشر سے ہوتا ہے، اس کے بعد مولانا ڈاکٹر مسعوداحمد الاعظمی کا دیباچہ ہے۔ یہ تھیسس ڈاکٹر شمس تبریز خان صدر شعبہ عربی لکھنؤ یونیورسٹی کے اشراف اور نگرانی میں لکھی گئی ہے، اس پر ان کا مقدمہ ہے جو زبان وبیان اور تحقیق کا شاہکار ہے، اس میں وہ مصنف کی محنت وکاوش کی تحسین ان الفاظ میں کرتے ہیں :
حضرت مولانا اعظمی کی نا قابل فراموش و گراں قدرعلمی وتحقیقی خدمات کا یہ تقاضا تھا کہ ان کا تفصیلی وتحقیقی جائزہ لیاجائے، ان کے موضوعات کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان کے غیر جانبدارانہ اور معروضی اسلوب نقد وتحقیق کے محاسن کی نشاندہی کی جائے اور ان کی تمام کتابوں اور مضامین کے تذکرے کے ساتھ ان پر حقیقت پسندانہ اور بصیرت افروز تبصرہ بھی کیا جائے۔
اس سلسلے میں عزیزی ڈاکٹر محمد صہیب الہ آبادی سلمہ ہم سب کے شکریے اور قدردانی کے پوری طرح مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑی حد تک حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی کی حیات وخدمات پرعلمی وتحقیقی تبصرے کاحق ادا کر دیا، اور مولانا کی علمی فتوحات وتحقیقات کا اس طرح تحلیل و تجزیہ کیا جس سے ان کی قدرو قیمت اور افادیت اجاگر ہوگئی ، مولانا کی ہر کتاب ومضمون پر تبصرہ ان کے مقالے کی خصوصیت ہے جس میں انھوں نے بڑے اعتدال وتوازن، حقیقت پسندی اور علمی طرز استدلال سے کام لیا ہے ۔ اپنے موضوع سے انھوں نے بڑی محنت اور سنجیدگی وشائستگی کے ساتھ انصاف کیا ہے، ان کے طرز بیان میں بھی ایجاز واختصار ، بے تکلفی و برجستگی اور سادگی کے ساتھ شگفتگی موجود ہے۔
یہ مصنف کے لئے ایک بڑی سند ہے۔اس کے بعد مولانا سعید الرحمٰن الاعظمی کا پیش لفظ اورڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کے تاثرات ’’ حرفے چند ‘‘ کے عنوان سے ہیں جن سے محدث الاعظمی کا بہترین تعارف سامنے آتا ہے، انھوں نے یہ بات بالکل بجا لکھی ہے :
’’(محدث الاعظمی ؒ کا)علم ایسا راسخ ، مرتب اور منقح تھا کہ جس مسئلے میں ایک بار جو رائے قائم فرمالیتے وہ ایسی صائب اور درست ہوتی کہ اختلاف کرنے والا مہینوں نہیں ، برسوں بھٹک بھٹکا کر بالآخر وہیں پہنچتا۔
پھر مرتب کی تمہید ہے جس میں کتاب کا جامع تعارف ، اپنی تلاش وتحقیق کی داستان اور ان لوگوں کے لئے کلمات تشکر وامتنان ہیں جنھوں نے اس راہ میں ان کا کسی بھی طرح تعاون کیا ہے۔
پہلا باب: ’’ ہندوستان بیسویں صدی کے اوائل میں ‘‘ ہے ، جس میں اس وقت کےسیاسی ، علمی اور ثقافتی حالات اور اس دور کی سیاسی وتعلیمی تحریکات کا ذکر ہے ، تاکہ معلوم ہوکہ محدث الاعظمیؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولیں اس وقت کا ماحول کیسا تھا ۔
دوسرا باب: سوانحی حالات پر مشتمل ہے ، جس میں ولادت سے وفات تک کےحالات جمع کردیئے گئے ہیں ۔
تیسرا باب: مختلف علوم وفنون سے متعلق خدمات ‘‘ ہے ، یہ اس کتاب کا سب سے طویل باب اور اس کتاب کی جان ہے، یہ ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، مناظرہ ، تاریخ وتذکرہ اور ادب ( جس میں عربی ، اردو اور فارسی نثر ونظم شامل ہیں ) پر محدث الاعظمی کی تصنیفات، تالیفات، تعلیقات، استدراکات اور مضامین ومقالات کا جائزہ لیا گیا ہے ، ان کی تعداد سو کے قریب ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان سب کو پڑھنا اور ان کا تعارف وتجزیہ کس قدر مشکل کام ہے۔
چوتھا باب: متفرقات کے عنوان سے ہے جس میں محدث الاعظمی کے چھ رسائل کا تعارف وتجزیہ اور ۶۲؍ مضامین ومقالات کی ایک فہرست دی گئی ہے ۔
پانچواں باب: ’’ مولانا اعظمی اہل علم کی نظر میں ‘‘ ہے۔ جس میں عرب وعجم کی چالیس سے زائد اہم وعبقری شخصیات کی آراء کو پیش کیا گیا ہے جس سے علمی دنیا میں مولانا اعظمی کے مقام بلند کا پتہ چلتا ہے۔ اخیر میں مراجع کی فہرست ہے جس میں دو سو سے زائد کتابوں اور رسائل ومجلات کا ذکر ہے۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد صہیب ( و: 26؍ جنوری 1982ء) ایک جواں سال صاحب قلم عالم ہیں ، آبائی وطن بلتھرا روڈ اور موجودہ وطن الہ آباد ہے۔ عالمیت تک تعلیم مدرسہ وصیۃ العلوم الہ آبادمیں حاصل کی ، فضیلت کی تکمیل دارالعلوم وقف سے 1997ء میں کی۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے 2005ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔
اس وقت الہ آباد کے ایک جونیر ہائی اسکول میں تدریس سے منسلک ہیں۔ تصنیفی کاموں میں اس کتاب کے علاوہ ایک اہم کام ترجمہ تاریخ ابن خلدون( مترجم : حکیم احمد حسین عثمانی الہ آبادی ) کی ترتیب وتدوین ہے ، جس کی تین جلدیں قومی کونسل سے شائع ہوچکی ہیں۔ جمیلہ فاروقی کے انتقال پر لکھی گئی تعزیتی تحریروں کو ’’ داغہائے سینہ ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے جسے ایم آرپبلیکیشنز دہلی نے شائع کیا ہے۔ ان کے علاوہ مشہور ناقد ومبصر شمس الرحمٰن فاروقی کے تبصرے ’’ فیض معنیٰ ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے، جو زیر طبع ہے۔ اسی طرح اردوادبیات پر مضامین کا ایک مجموعہ پریس میں جانے کو تیار ہے۔ تدریس کے ساتھ تصنیف اور ترتیب وتدوین کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
نوٹ: استاذ محترم مولانا ریاست علی بجنوری نے اپنے پیش لفظ کے اخیر میں ’’اختتامیہ ‘‘ کا ذکر کیا ہے، یہ اصل تھیسس میں ہے جسے مولانا نے ملاحظہ کیا تھا ، لیکن اسے مطبوعہ کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے کردی تاکہ قارئین اس کو کتاب میں نہ پاکر الجھن کا شکار نہ ہوں۔
ضیاء الحق خیرآبادی