Web Analytics Made Easy -
StatCounter

سفرنامہ محدثین کی تلاش میں

سفرنامہ محدثین کی تلاش میں

سفرنامہ محدثین کی تلاش میں

انسانی زندگی کی ہمہ جہت پہلوؤں سے روشناس رہنے کا بہترین ذریعہ سفر ہے۔سفر نامہ منظر کشی،آپ بیتی، جگ بیتی کا لطف بھی دیتی ہے اور انسانی زندگی کی ہمہ جہتی، معاشرتی اقدار، روایات کی بوقلموں پہلو ؤں سے روشناس بھی کرواتی ہے۔سفر نامہ پڑھنے والا بھی آدھا شریک سفر ہو ہی جاتا ہے۔ جہاں پہنچنے اور جس جگہ کا مشاہدہ کرنے سے زندگی کی مصروفیات اور دوڑ ، وسائل کی کمی یا کم ہمتی ہمیں روک لیتی ہے،تو مصنف کا قلم ہماری پرواز کو ان فضاوں میں ممکن بنا دیتا ہے۔

سفرنامے کا سفر جب ابن بشیر الحسینوی جیسی علمی اور قلم دوست شخصیت کے ساتھ ہو تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے ۔ “محدثین کی تلاش میں” کا مسودہ جب پڑھنا شروع کیا تو پانچ گھنٹے کی مسلسل نشست کے بعد تب اُٹھا جب کتاب اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوگئیں۔ یہ سفرنامہ محض ادب برائے ادب نہیں۔ اس میں آپ کو شاید منظر کشی کی کمی بھی نظر آئے اور گل و بو کی داستانیں بھی سننے کو نا ملے۔ کیونکہ مصنف پھولوں کا پارکھ نہیں، لافانی دنیا کے رنگ و بو کا خوگر نہیں۔

ابن بشیر الحسینوی محض سفرنگار ہی نہیں بلکہ تاریخ نویس بھی ہیں اور علم نبوت کے وارث بھی۔شاید اسی لئے ان طویل اسفار کی فہرست میں آپ کو پرفضا مقامات کے نام بمشکل ملیں گے۔لاہور کا تذکرہ ہوگا تو جامعات اور مکتبوں کے حوالے سے۔ چھانگا مانگا کا تذکرہ ہوگا تو درس و تدریس اور تصنیفات و شخصیات کے ضمن میں۔مصنف آپ کو کہیں محدثین کی تلاش میں ملتان، جلالپور اور مظفر گڑھ جاتے نظر آئیں گے تو کہیں حرمین، جدہ ،المحانی اور دوس میں علوم حدیث کی مشعل جلاتے نظر آئیں گے۔سفرنامہ میں جابجا علوم حدیث کا تذکرہ ہوگا۔مدارس اور مکتبوں کی اصلاح کی عملی مثالیں ہونگی۔مشفق اساتذہ کا تذکرہ بھی ہوگا اور علمی شخصیات کا ذکر خیر بھی۔ اسی سفرنامے کے ضمن میں آپ کو کہیں وہ طلبہ کو علل الحدیث، جرح وتعدیل کے دورہ جات کے لئے علماء و طلبہ کو بلاتے نظر آئیں گے تو کہیں جا بہ جا گھوم کر لوگوں محدث بننے کا طریقہ کار سمجھاتے نظر آئیں گے۔

یہ سفرنامہ فقط ایک سفرنامہ ہی نہیں بلکہ روداد زندگی بھی ہے۔ایک چھوٹی سے بستی کا ایک سادہ مزاج اور دنیا کے رموز سے ناآشنا نوجوان سے لیکر الجامع الکامل سمیت ستر کتابوں کے ناشر اور دو سو کے قریب کتب کے تصنیف و تالیف تک کے جہد مسلسل کے نشیب و فراز پر مشتمل آپ بیتی ہے۔ گھنٹوں مکتبوں میں علم کی تلاش سے لیکر بھوکے پیٹ بغیر بستر کے سونے کے ایک عزم طویل کے روداد ہے۔ قصور کے دیہاتوں سے لیکر کر سندھ کے دشت تک آبلہ پائی ہو یا امت کی تاریخ کے گوہر نایاب کے تلاش میں سفر حجاز ہو ، یہ اللہ پر توکل اور بلند و بالا عزائم رکھنے والے ایک فقیر منش انسان کی اولوالعزمی کی داستان حیات اور اس دور فتن کو دوبارہ محدثین کے دور بنانے کے عزم سے لبریز شخص کی صدا کی گونج ہے۔

جو لوگ ابن بشیر کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہوگا کہ اتنے بڑے مصنف اور ناشر کے اندر اب بھی وہی قصور کے دیہات کا معصوم بچہ زندہ ہے۔ علم رسوخ کے ساتھ ساتھ بے تکلفی، عاجزی، بے ساختگی سے مرکب ایسی شخصیت کہ گھنٹوں آپ ان کی صحبت میں نہیں اکتائیں گے۔ علمی رعب سوالات پوچھنے میں مانع نہیں ہوگی۔ اسی شخصیت کی جھلکیاں آپ کو اس روداد سفر میں جا بجا بکھری نظر آئیں گی۔

ابن بشیر کی روداد سفر طویل بھی ہے مگر اس کے باوجود میری رائے میں تشنہ بھی ہے۔کیونکہ ابھی بہت سے سفر باقی ہیں۔ محمد حیات لاشاری سندھی ﷫ کی طرح بہت سے فقیر منش علماء اور صلحاء کی روداد انہیں منظر عام پر لانی ہے۔ کتنے ہی علماء ہیں جو گمنامی میں رہ کر امت کی اصلاح و تربیت میں مصروف ہیں۔ چھوٹی چھوٹی مساجد میں بیٹھے کتنے ہی قرآن و حدیث کے بے مثل شناور ہیں جن سے دنیا ناواقف ہے۔ ان لوگوں کی روداد ہماری امت کا سرمایہ ہے۔ ہماری آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ امید ہے کہ ابن بشیر مسلک و فرقوں سے بالاتر ہوکر ان موتیوں کی چمک سے امت کو روشناس کرنے کا کام جاری رکھیں گے۔

العبد الفقیر ابن امۃ اللہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *