پیر سائیں غلام رسول قاسمی صاحب کے مقالات کو دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ جلد اول پر اس سے پہلے بات ہو چکی ہے۔ جلد دوم میں پیر سائیں غلام رسول قاسمی صاحب کے بائیس مقالات شامل ہیں۔ اس میں پہلی جلد کی نسبت ناصرف مقالات کی تعداد زیادہ ہے بلکہ مصنف کے اسلوب اور طرزِ تحریر کو بھی زیادہ بہتر انداز میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
مقالات کو ان کے موضوعات کے لحاظ سے تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا باب ایمانیات سے متعلق ہے۔ اس میں پانچ مقالات شامل ہیں۔
پہلا مقالہ “القواعد من العقائد” کے نام سے ہے۔ اس مقالے میں علم الکلام کو جدید انداز میں میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت کے بنیادی عقائد کو بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
عقیدہ توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور شرک اس کی ضد ہے۔ اس لیے بھی اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے۔
شرک کی مختصر تعریف کرتے ہوئے پیر سائیں قاسمی لکھتے ہیں
“خاصہ خداوندی کو غیر میں تسلیم کرنا شرک ہے”
یہ شرک کی بہت مختصر اور قابلِ فہم تعریف ہے۔
عقیدہ توحید کے بعد عقیدہ رسالت بنیادی عقیدہ ہے۔ اس کے ضمن میں ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی مرکزیت کے عنوان سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نبی علیہ السلام کی ذات اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہوتی ہے۔ جو رب العزت کے پیغام کو بندوں تک اس کی قوت و برداشت کے مطابق پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ بندے براہ راست رب تعالیٰ سے پیغام اخذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
اس بات جدید ذہن کو سمجھانے کے لیے مصنف نے Adapter کی مثال دی ہے جو ایک طرف سے 230 وولٹ بجلی وصول کرتا اور دوسری طرف ریڈیو وغیرہ کی برداشت کے مطابق ڈیڑھ وولٹ تک بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
صحابہ کرام اور اہلبیت عظام رضی اللہ عنہم سے محبت بھی عقیدہ رسالت کی ایک فرع ہے کیونکہ ان ہستیوں سے ہماری محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے۔
اس مقالے میں اجماع پر بھی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ کچھ عقائد اجماع امت کی وجہ سے ہیں جن حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا افضل الامت ہونے کی ایک مثال پیش کی ہے۔
اس مقالے میں مصنف نہج البلاغہ کے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف انتساب کو بھی نادرست قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ بغیر سند کے ان کی طرف منسوب ہے۔
اس مقالے میں مصنف نے عقائد نسفی کا متن اس کے ترجمے کے ساتھ نقل کیا ہے۔
باب اول میں ایک اور مقالہ “اہلسنت کی پہچان” کے نام سے ہے۔ اس کا موضوع بھی عقائد اہلسنت ہے۔ اس میں مصنف نے بتایا ہے کہ اہل سنت کا منہج اعتدال و وسطیت کا ہے اور وہ تمام دلائل پر بیک وقت نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے مختلف احادیث سے حاصل ہونے والے سے اپنا عقیدہ قائم کرتے ہیں۔ مثلاً اہلسنت کے ہاں صحابہ کرام اور اہلبیت کی محبت میں کوئی تفریق نہیں۔ کسی کے دل میں بھی ان کے بارے میں میل ہے اس کی ایمان کی شمع بجھ چکی ہے۔
سورہ الشوری کی آیت نمبر 23 جس میں مودۃ فی القربی کی بات ہے اس پر پیر سائیں نے علامہ غلام رسول سعیدی رح کی تفسیر تبیان القرآن کے حوالے سے بتایا اس کی صحیح تفسیر قربت الہی ہے۔
اس ہی باب میں ایک مقالہ بنات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے جس میں چاروں شہزادیوں کے مختصر حالات پر بات کی ہے اور کتب شیعہ سے بنات اربعہ کے ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔
اس باب میں ایک مقالہ “عیسائیت سے اسلام تک” کے نام سے ہے۔ پیر سائیں غلام رسول قاسمی صاحب کا یہ مقالہ ایک بہترین کاوش ہے جس میں عیسائیت کی تاریخ اور مروجہ بائیبل پر اجمالی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نے بائیبل کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسیح تبلیغ کا دائرہ کار صرف بنی اسرائیل تک محدود تھا۔
موجود اناجیل اربعہ کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ اصلی انجیل نہیں ہے۔ ان کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصلی انجیل حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانے میں موجود تھی۔
انجیل میں تحریف کے اسباب پر بات کرتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ ان کتابوں کے ترجمے کے ترجمے کر کے ان کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ جیسے احمد کا ترجمہ فارقلیط کر دیا گیا۔
ایک اور سبب پادریوں کا اپنا مذہب کو فروغ دینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا ہے۔ پولوس نے یہ حرکت کی۔ نیز موجودہ بائیبل کے تحریف شدہ ہونے پر مصنف نے بائیبل کے اندر سے بھی مثالیں پیش کی ہیں۔ پھر اس بائیبل میں کچھ انبیاء علیہم السلام کی صریح گستاخی کی گئی ہے اور ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا گیا ہے۔ جیسے کہ تورات کی کتاب خروج میں بچھڑے کی پرستش میں حضرت سیدنا ہارون علیہ الصلٰوۃ والسلام کو معاذ اللہ معاونت کرنے والا کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی گھٹیا افعال کی نسبت انبیاء علیہم السلام کی طرف کی گئی ہے۔
عیسائیوں کے قرآن مجید پر اعتراضات کو بھی مصنف نے اس کتاب میں اٹھایا ہے اور ان کے جواب دئیے جن میں سے ایک ناسخ و منسوخ اور دوسرا جہاد کے حوالے سے ہے۔ مصنف نے بائیبل سے ہی ان دونوں کے بارے میں مثالیں دیکر ان کا جواب دیا ہے۔
اس مقالے میں برنباس کی انجیل پر بھی گفتگو کی گئی ہے جس کو مسیحی ماننے کو تیار نہیں مگر برنباس کی شخصیت کا ذکر بائیبل میں بھی موجود ہے اور ان کی پولوس سے ناراضگی کا ذکر بائیبل میں موجود ہے۔ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ تثلیث کا عقیدہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے جس کو پولوس نے عیسائیت میں داخل کیا جبکہ برنباس نے پولوس کی مذمت کی۔
برنباس کی انجیل میں متعدد باتیں اسلامی تعلیمات کی تائید کرتی ہیں۔ نیز تثلیث ، صلیب اور عیسائیت کے منفرد عقائد کے اوپر یہ کاری ضرب لگاتی ہے۔ یہ بہت واضح الفاظ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی بشارت دیتی ہے۔
مصنف نے تثلیث ، کفارہ ،مصلوبیت اور بپتسمہ وغیرہ پر بھی نقد کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیمات ہرگز نہیں ہیں۔ موجودہ بائیبل میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور ذکر موجود ہے۔ اس بارے میں بھی مصنف نے پانچ بشارات کو ذکر کیا ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا عیسائیت پر احسان ہے کہ اس نے حضرت سیدہ مریم علیہا السلام پر یہودیوں کے لگائے ہوئے الزامات کو مسترد کیا ہے ورنہ پوری انجیل یا عہد نامہ جدید میں اس بارے میں کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ ایسے ہی حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کی تصدیق بھی قرآن مجید نے کی ہے۔ یہ بھی عیسائیت پر اسلام کا ایک احسان ہے۔ ردِ عیسائیت کے حوالے سے یہ مقالہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد عیسائیت کے بارے میں ایک عام شخص کو بھی ٹھوس معلومات میسر آ سکتی ہیں۔
اس باب میں ایک مقالہ “ہیرا پھیری نہیں چلے گی” کے نام سے ایک فرضی کہانی ہے جس میں ایک احمدی لڑکا اسلام قبول کرتا ہے۔ ختم نبوت کے حوالے سے قادیانی جماعت کے فریب کو ایک فرضی داستان کے ذریعے بیان کیا گیا ہے اور قادیانی مربیوں کے فریب اور پھر ختم نبوت کے حوالے ان کو دلائل سے عاجز آتا دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مرزا صاحب کی شخصیت کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی ہے اور ان کی تحریروں میں پائی جانے والی زبان کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
دوسرا باب فقہیات سے متعلق مقالات کے بارے میں ہے۔ اس میں دو مقالات زیادہ اہم ہیں ۔ پہلا “اصول الفقہ” کے بارے میں ہے۔اس میں مصنف نے جدید مثالوں کے ذریعے سے اپنے نظریات کے حق میں بطور دلیل بیان کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس مقالے حدیث کے بابت بھی گفتگو کی گئی ہے اور احادیث کے حوالے سے احناف کے بارے میں جو خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے ان کا جواب دیا ہے۔
اس مقالے میں مصنف نے فقہاء کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کا مقام محدثین اور مفسرین سے بلند ہوتا۔ اس مقالے میں مصنف نے سب سے زیادہ استفادہ علامہ عبد الحئی لکھنوی رح کی کتاب “الرفع والتکمیل” سے کیا ہے۔ کتاب اللہ سے مسائل اخذ کے لیے مختلف اصطلاحات جیسے کہ مطلق اور مقید، مشترک اور ماوّل، حقیقت اور مجاز ، صریح اور کنایہ ،نص، مفسر ، محکم، خفی مشکل، مجمل اور متشابہ, عبارت النص ، دلالت النص ، اشارۃ النص اور اقتضا النص پر مختصر گفتگو ساتھ ان کی مثالوں کے کی ہے۔
اس کے بعد سنت اور حدیث کی بحث کی ہے۔ حدیث کی راویوں کی تعداد اور احوال کے ذریعے سے تقسیم کو ذکر کیا ہے ۔ سنت کے بعد اجماع کی بحث اور اس کے حجت شرعیہ ہونے کو بیان کیا ہے۔ احناف بالعموم اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے اوپر کچھ محدثین کی جرح کا جواب دیتے ہوئے پیر سائیں نے لکھا ہے کہ خود ان محدثین اور آئمہ اسماء الرجال پر بھی شدید جرح موجود ہے۔ علامہ عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی رح کی کتاب کے “الرفع و التکمیل” کے حوالے سے بتایا کہ امام بخاری ، امام احمد بن حنبل ، امام ذہبی ، امام ابن حجر عسقلانی سمیت متعدد محدثین کے اوپر بھی جرح موجود ہے۔
مصنف نے حدیث کے رد و قبول کے معیار پر بات کی ہے جس میں ایک جگہ لکھا ہے کہ صحیح البخاری کو بے جا ترجیح نہیں دی جائے گی اور کہا ہے کہ اس میں بے شمار تسامحات موجود ہیں۔ اجماع کے بعد قیاس کی حجیت پر بحث کی ہے اور آخر میں احکام شرعیہ فرض ، واجب ، سنت مؤکدہ ، سنت غیرمؤکدہ ، مستحب اور مباح اور ان کے مقابل حرام ، مکروہ تحریمی ، اساءت، مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ کو بیان کیا ہے۔
مستحب کی تعریف میں مصنف نے بتایا ہے کہ تقبیل ابہامین ، محافل میلاد اور گیارہویں یا عرس وغیرہ یہ سب مستحبات میں سے ہیں۔ علم دین کے طلباء کے لئے یہ مقالہ پڑھنے کے لائق ہے اور اس کو الگ رسالے کی شکل میں بھی شائع کیا گیا ہے۔
دوسرا اہم مقالہ “نظم الفرائض” کے نام سے ہے اس میں پنجابی نظم کی صورت میں میراث کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔اس لحاظ سے یہ کافی دلچسپ مقالہ ہے۔ علم المیراث ایک مشکل علم ہے اور اس کے حوالے سے میری ذاتی معلومات کچھ خاص نہیں اس لیے اس پر بات نہیں کر سکتا لیکن دین کے طلباء کے لئے یہ کافی مفید ہے۔یہ مقالہ بھی الگ سے رسالہ کی صورت میں شائع ہوا ہے-
ایک مقالہ عورت کی امامت کے حوالے سے ہے جس میں عورتوں کی الگ جماعت کو مکروہ تحریمی کہا ہے۔ اور اس پر مختلف کتب احادیث و فقہ سے اپنی بات کے حق میں حوالہ جات نقل کیے ہیں۔ اس میں عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کو ان کے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل قرار دیا ہے۔ میری حیثیت تو اختلاف کرنے کی نہیں ہے کیونکہ میں ایک عامی و طالب علم ہوں۔ لیکن عورتوں کے مسجد میں جانے کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے فقہاء کو نظر ثانی کی اور مزید غور کرنا چاہیے اور اپنی خواتین کا تقابل دیگر مسالک کی خواتین جو مسجد جاتی ہیں سے کریں تو اندازہ ہو گا کہ دینی تعلیم کے حوالے سے دونوں میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ یا تو ان کے الگ سے دن مختص کر کے ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ ظاہری بات ہے یہ میرا استحقاق نہیں کہ میں کوئی فیصلہ کر سکوں مگر اس حوالے سے اپنا مشاہدہ ہے کہ جو خواتین مسجد جاتی ہیں وہ دینی تعلیم میں زیادہ پختہ ہوتی ہیں اور اپنے عقائد و نظریات کے حوالے سے بھی ان کی معلومات زیادہ ہوتی ہیں
اس باب میں برطانیہ میں رویت ہلال ، داڑھی کی شرعی مقدار ، افطار کے وقت اور اس میں تعجیل کے بارے میں بھی مقالات شامل ہیں
تیسرا باب عصریات کے عنوان سے ہے۔ اس میں بھی کئی اہم مقالات ہے۔
پہلا مقالہ “سندالبقاء بتادیب النساء” کے نام سے ہے جس کا موضوع میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور شوہر کا اپنی بیوی کے خلاف تادیبی کاروائی کا حق کس قدر ہے اس پر بحث کی گئی ہے ۔
اس بارے میں شروع میں حدیث کی روشنی میں بتایا ہے کہ اسلام کامل ایمان والا ان لوگوں کو کہتا ہے جن کے اخلاق اپنی بیویوں سے اچھے ہوں پھر شرع میں بیوی کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کا خیال کرے۔ میاں بیوی کے جھگڑے میں آخری آپشن کے طور پر شوہر کو تادیب کی اجازت ہے مگر اس میں بھی لازم ہے کہ وہ ضرب فحش نہ ہو،عورت کے اعضاء کا سلامت رہنا بھی شرط ہے۔ اگر ضرب فحش ثابت ہو جائے تو شوہر پر تعزیر لگے گی۔ تادیب کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ فقط مباح کی حد تک ہے۔
ایک مقالہ طلباء کے اندر تقوی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے ہے۔ دین کے طلباء کو پہلے یہ سکھانا چاہیے کہ ان کے دین سیکھنے کا مقصد فقط رب تعالیٰ کی رضا ہونی چاہیے کہ وہ اس کے احکامات کو بہتر طریقے سے جان سکیں اور اس پر عمل کر سکیں۔
اس بارے میں اساتذہ کا متقی اور باکردار ہونا بھی لازم ہے۔ اس بارے میں مصنف نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے جو اس بات کی بہترین وضاحت کرتا ہے کہ
“اسلام کو تین چیزیں منہدم کر دیتی ہیں
عالم کا پھسل جانا
منافق کا قرآن پڑھ کر بحث کرنا
گمراہ حکمرانوں کی حکومت”
سنن دارمی
مصنف نے مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کو کہا ہے کہ ان کے پاس کچھ کتب تفاسیر ، احادیث و فقہ کا ہونا ضروری ہے جس کا وہ تسلسل سے مطالعہ کرتے رہیں۔ مصنف نے اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور عربی زبان میں مہارت کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس کو فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ زبانیں جانے بغیر ہم دین کا مقدمہ دوسرے کے سامنے نہیں پیش کر سکتے۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ فیس بک، ٹی وی یا کسی بھی سوشل میڈیا فورم پر دین کے حوالے سے اعتراضات سے آگاہ رہنا چاہیے اور ان کا جواب دینا چاہیے تاکہ یہ میڈیم استعمال کرنے والے لوگ گمراہی سے بچ سکیں
مصنف نے طلباء کو نصحیت کی ہے کہ تحقیق میں اپنی بات کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے اگر کہیں آپ کی غلطی واضح ہو جائے تو فوراً رجوع کر لینا چاہیے۔
مصنف نے خطاب، شاعری اور انعقاد محفل کے حوالے سے تین مختصر مگر قیمتی مقالات تحریر فرمائے ہیں۔ جس میں جاہل خطیبوں (جس میں مصنف کے ہم مسلک خطباء خصوصی مخاطب ہیں), نعت خوانوں، نعتیہ شاعری اور محافلِ میلاد اور نعت کے حوالے سے پائی جانے والی بے اعتدالیوں پر نقد کیا ہے اور ان کی اصلاح پر زور دیا ہے۔
جو کم علم خطبا ء موضوع اور من گھڑت روایات کو احادیث بیان کر کے عوام کو گمراہ کرتے ہیں ان کی مصنف نے شدید مذمت کی ہے۔
ایسے ہی چند نعتیہ کلام ایسے بھی ہیں جو کہ اسلامی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی درست نہیں ۔ اس بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ بہتر ہے کہ نعتیہ کلام پہلے علماء کو دکھا دیا جائے تاکہ اگر اس میں کوئی خلاف شرع بات ہو تو اس کی اصلاح کی جا سکے
محافل نعت و میلاد کا رات دیر دیر تک انعقاد کہ لوگوں کی فجر کی نماز فوت ہو جائے یہ بھی درست بات نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان محافل نعت و میلاد کا حکم مستحب کا ہے جبکہ نماز فرض ہے۔ اس لیے ان محافل کا فائدہ تب ہی حاصل ہو گا کہ ہم فرائض میں غفلت نہ کریں۔
کچھ نعت خوانوں کا گانے کی طرز پر نعتیں پڑھنا بھی ناپسندیدہ فعل ہے۔ ایسے ہی محافل میں پیشہ ور نقیبوں کی بھی پیر سائیں نے مذمت کی ہے- اصلاح عقائد و اعمال کے حوالے سے یہ تینوں مقالات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس باب کا ایک مقالہ “علم ترجیحات” ہے۔ یہ علم بقول مصنف کہ انہوں نے 2000 میں مدون کیا۔ اس کو اسلامی علوم میں ایک نئے علم کے طور پر مصنف نے متعارف کروایا ہے۔
یہ ایک دلچسپ مقالہ ہے اور بتایا ہے کہ اسلام میں ترجیحات کی اہمیت کس قدر ہے۔
دو اچھائیوں میں سے بڑی اچھائی کو چننا اور دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب ترجیحات میں ہے۔
ایسے ہی مصنف نے صحیح البخاری کی حدیث کے حوالے سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہوتا تو وہ آسان چیز کو ترجیح دیتے بشرطیکہ وہ آسان چیز گناہ نہ ہو- معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شراب پر دودھ کو ترجیح دینا بھی حدیث میں آیا ہے۔
یہ ترجیحات کا علم آپ کے تعلیمی شعبے کے انتخاب ، معاشی میدان میں ، سیاسی میدان اور روحانی میدان ہر جگہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس علم کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔ اس پر بنیادی باتیں تو مصنف نے کر دیں ہیں مگر یہ ایسا موضوع ہے جس پر مزید گفتگو کی گنجائش ہے اور اس علم کا دائرہ کار دیگر شعبوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس موضوع پر بہتر ہے کہ مصنف مزید کوئی کتاب لکھ دیں ورنہ ان کے شاگردوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے استاد کے قائم کردہ معیار پر اس علم کو باقاعدہ مدون کیا جائے اور اس کو دیگر علوم کے ساتھ شاملِ نصاب کیا جائے۔
ایک مقالہ خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے ہے۔ جس میں زیادہ تر استفادہ امام محمد بن سیرین کی طرف منسوب کتاب الرویا، علامہ دمیری کی کتاب حیات الحیوان اور علامہ عبدالغنی نابلسی کی کتاب تطہیر الانام سے کیا ہے
ایک اور مقالہ میں “اسلام اور نفسیات” کے موضوع پر ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ علم الاخلاق اور علم تصوف کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے۔ بچوں کی نفسیات پر بات کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ والدین کی طرف سے عدم توجہی اور زیادہ مار پیٹ بچے کو خراب کرتی ہے جبکہ بچے کو بالکل نڈر چھوڑ دینا بھی مناسب نہیں۔ اس لیے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ان سے مناسب وقت پر نرمی و سختی کا برتاو والدین کی ذمہ داری ہے۔
نوجوان نئی چیز سے جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔لیکن ہر نئی چیز فائدہ مند نہیں ہوتی۔بڑھاپے میں بچپنا لوٹ آتا ہے۔ عورتوں کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے وہ سسرال میں اپنے آپ کو باعزت دیکھنا چاہتی ہے اس لیے سسرال والوں کو اس کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔
دین کی تبلیغ کرتے ہوئے مخاطب سے نرمی سے گفتگو کرنا اس کی نفسیات پر اچھا اثر ڈالتی ہے اس لیے قرآن مجید میں دین کی طرف حکمت اور مواعظ حسنہ کے ذریعے بلانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نفسیات کے حوالے سے اور بھی کئی اہم باتیں اس مقالے میں موجود ہیں- آخری مقالہ”صوفیاء کی شطحیات کا محمل” کے نام سے ہے۔ اس بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ ان کی بابت محتاط ترین موقف یہ ہے کہ ان عبارات کو الحاقی قرار دیا جائے۔
اس کی دلیل یہ دی ہے کہ رسالہ قشیریہ اور فتوح الغیب جیسی کتب میں کوئی شطحیات مذکور نہیں۔ یہ معاملہ احادیث میں بھی ہے کہ تمام راوی ثقہ ہونے کے باوجود متن درست نہ ہو جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رجب میں عمرہ کرنا بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا ہے مگر عمرے کی بات درست ہے مگر رجب کے مہینے والی بات درست نہیں۔
اپنی بات کی تائید میں پیر سائیں غلام رسول قاسمی صاحب نے علامہ غلام رسول سعیدی رح کی بات کا حوالہ دیا ہے یہ اقوال ضروریات دین میں سے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو چیز قرآن و سنت کے مطابق ہے وہ مقبول ہے اور جو چیز کتاب و سنت کے مطابق اس کے بارے میں حسن ظن یہی ہے کہ یہ بعد کے لوگوں کا الحاق ہے۔
پیر سائیں کے قلم میں جامعیت و اختصار پایا جاتا ہے اور ان کی علم حدیث کا مطالعہ کافی مضبوط ہے اس لیے اپنے ہر مقالے میں احادیث کے بکثرت حوالہ جات ہیں اور اپنے بات کے استدلال میں احادیث کو پیش کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مصنف کا طرزِ تحریر بھی سادہ ہے، مشکل الفاظ کے استعمال سے گریز کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ قاری کو ان کی بات بآسانی سمجھ آ سکے