Web Analytics Made Easy -
StatCounter

دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروفیسر عبد القیوم مرحوم کے تیار کردہ خاکے کی بنیاد پرمرتب کیا گیا ہے۔

١۔ پروفیسر عبدالقیوم
عربی زبان و ادب کے مشہور استاد، علوم اسلامیہ کے فاضل محقق اور اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے ممتاز مدیر نے اسی برس کی عمر میں ٨ ستمبر١٩٨٩ء کو انتقال کیا۔ وہ١٩٠٩ء میں لاہور کے ایک معزز کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں فضل دین علماء و فضلاء کے خدمت گزار اور بڑے قدر دان تھے۔ پروفیسر صاحب نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں انھیں مولانا اصغر علی روحی جیسے نامور اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا۔ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ١٩٣٤ء میں ایم اے عربی کیا۔

پروفیسر عبد القیوم نے مولوی محمد شفیع صاحب کی زیرِنگرانی امام لغت ابن منظور الافریقی کی مشہور عالم لغت ”لسان العرب”پر چار برس تک کام کیا۔ یہ لغت اپنی پیشرو عربی کتب لغت کی جامع اور عربیت کا خزانہ ہے۔ پروفیسر صاحب نے ”لسان العرب” میں مذکور شعرا کے اسما، ان کے اشعارو شواہد اور قوافی کا انڈکس مرتب کیا۔ یہ فہارس اوّلین علمی و تحقیقی کام تھا جسے بین الاقوامی سطح پر مسلمان سکالروں اور مستشرقین نے بہت سراہا اور پسند کیا۔اسی طرح پروفیسر عبد القیوم نے پنجاب یونیورسٹی کے ایک قدیم قلمی نسخے ”نوادر الاخبار وظرائف الاشعار” کا متن ایڈٹ کر کے اسے اپنے قلم سے تحریر کیا۔ یہ کام بھی مولوی محمد شفیع مرحوم کے زیر نگرانی انجام پایا۔

بعد ازاں وہ سرکاری ملازمت میں چلے گئے اور گجرات ،ہوشیار پور اور لدھیانہ کے گورنمنٹ کالجوں میں بطور لیکچرار عربی کام کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی و علوم اسلامیہ کے استاذ رہے اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ایم۔ اے عربی کی کلاسوں کو بھی تعلیم دیتے رہے۔طلبہ سے ان کا سلوک ہمدردانہ اور ناصحانہ رہا۔شاگردوں میںاپنا علمی ذوق منتقل کرنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ان کی رہنمائی اور نگرانی میں بیسیوں طلبہ نے عربی اور اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کی۔

سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ان کی زندگی کا قابل فخر کارنامہ ” اردو دائرہ معارف اسلامیہ” کے سٹاف میں ان کی شمولیت ہے۔پروفیسر عبد القیوم صاحب نے ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم کی رہنمائی اور اپنے ساتھی رفقاء کی معاونت سے یورپی فضلاء کے مقالات کے تراجم پر نظر ثانی کی، ان کی غلطیوں کی تصحیح کی، ادھورے اور نامکمل مقالات کو بنیادی ماخذوں اور جدید تصانیف کی روشنی میں مکمل کیا، اسلامی ہند کے ممتاز علمائ، فضلاء اور صلحاء پرنئے مضامین لکھوائے گئے۔

پروفیسر عبد القیوم پاکستان بھرکی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے عربی و علوم اسلامیہ کے سبجیکٹ سپیشلسٹ رہے، اورپنجاب یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے رکن رہے۔ انھوںنے سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک عربی و اسلامیات کے طلبہ و طالبات کے لیے معاون نصابی کتب لکھیں جو کئی دہائیوں تک نئی نسل کی تعلیمی ضرورت پوری کرتی رہیں۔

پروفیسر عبد القیوم عربی زبان و ادب کے صاحب بصیرت عالم تھے۔ انھیںعربی ادبیات کی تاریخ پر بڑا عبور تھا۔عربی لغت کے ماہر تھے۔ عربی کے جدید ادب سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے اور جرمن زبان سے بھی شناسا تھے۔ عربی زبان و ادب کے بعد ان کی دلچسپی کا مرکز علم حدیث تھا۔و ہ آٹھویں، نویںصدی ہجری کے سرآمدہ روزگار محدث حافظ ابن حجرؒپرسند کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی بے نظیر تصنیف ”فتح الباری شرح صحیح البخاری” کی منہ بھر کر تعریف کیا کرتے تھے۔ ذات پاک رسالت مآبe سے انھیں محبت ہی نہیں بلکہ عشق تھا۔سیرت پاک کی جزئیات کا جیسا علم انھیں تھا ویسا کسی شیخ الحدیث کو بھی شاید ہی ہوگا۔

پروفیسر صاحب میں صبرو تحمل، بردباری کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ بحثا بحثی اور کٹ حجتی سے کوسوں دُور تھے۔ انھوں نے کسی کی عزت نفس کو کبھی مجروح نہیں کیا۔وہ نہایت منکسر المزاج تھے۔ انھوں نے اپنے علم و فضل پر کبھی غرور نہیں کیا اور نہ کسی کے سامنے اپنی علمی برتری جتائی۔ وہ عمر بھر طالب علم بنے رہے اور علم کے قافلے سے کبھی بھی بچھڑنے نہ پائے۔
( شیخ نذیر حسین، اورینٹل کالج میگزین، پروفیسر عبد القیوم نمبر،١٩٩٠، ص: ١۔٤ (استفادہ))

پروفیسر عبد القیوم نے سیرت نگاری کے لیے دو خصوصی خاکے مدوّن کیے، ایک مفصل اور ایک مختصر۔ یہ دونوں خاکے اورینٹل کالج میگزین میں ١٩٩٢ء میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک تیسرا خاکہ ”تاریخ علوم اسلامیہ” کے حوالے سے تحریر کیا۔ انھوں نے یہ خاکے کسی خاص علمی منصوبے کے لیے ترتیب دیے تھے، تاہم اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں ان پر کام نہ کر سکے۔

پہلا علمی خاکہ سیرت طیبہ پر مبسوط تصنیف کا متقاضی تھا۔ اس کی ابواب بندی کے مطابق زیرِنظر”دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ” ١١ جلدوں میں ١٤ سالوں کی مسلسل محنت سے مکمل کیا گیا۔ اس کے صفحات کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے۔ مشہور اشاعتی ادارے دارالسلام کا ١١ جلدوں میں ”سیرت انسائیکلو پیڈیا” بھی اسی علمی خاکے پر استوار ہے۔ یہ دونوں علمی منصوبے جداگانہ اور منفرد علمی خصوصیات کے حامل ہیں۔

دوسرا علمی خاکہ ”سیرت طیبہ ایک نظر میں” کے عنوان سے ہے۔ اس کا عربی نام ”الشمائم العُودیّۃ والعنبریّۃ فی السیرۃ النبویّۃ” رکھا گیاہے۔ اس میں واقعاتِ سیرت کی ترتیب ہجری سنین کے مطابق رکھی گئی ہے ۔اس خاکے پر بھی ایک ضخیم جلد میں علمی کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔

پروفیسر صاحب کا تیسرا علمی خاکہ ”تاریخ علوم اسلامیہ” کے عنوان سے ایک بڑا جامع اور وسیع منصوبہ ہے۔ اس پر تحقیقی کام جاری ہے۔ اب تک تاریخ علوم قرآن پر ١٢٠٠ کے لگ بھگ صفحات مدوّن کیے جا چکے ہیں۔

٢۔ دارالمعارف اور پروفیسر عبدالقیوم لائبریری کا قیام
پروفیسر عبد القیوم کے فرزند میجر زبیر قیوم (ر) نے ٢٠٠٨ء میں علمی و تحقیقی ادارے ”دارالمعارف” کی بنیاد رکھی۔ تحقیق کے لوازم پورے کرنے کے لیے عربی و اسلامی علوم سے مزین ایک شاندار لائبریری موسوم بہ ”پروفیسر عبدالقیوم لائبریری” قائم کی گئی جو لاہور کی بہترین لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔

میجر زبیر اپنے گھرانے کے علم و فضل اور اپنے والدپروفیسر عبد القیوم کے تحقیقی کارناموں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ بڑی کامیابی سے پچھلے چودہ سال سے دار المعارف کے علمی وانتظامی امور کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ ایک معروف صنعتی ادارہ بھی عمدگی سے چلا رہے ہیں۔ انھوں نے دائرہ معارف ِ سیرت کے منصوبے کی نگہداشت، علمی وفنی معیار اور تکمیل وطباعت کی جملہ ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھایا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہوگاجسے ایک آرمڈ کور کے سابق فوجی آفیسر اور صنعت کار نے اللہ کی توفیق سے خالص اس کی رضا اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے سرانجام دیا ہے۔

٢٠٢٠ء میں علی گڑھ یونیورسٹی انڈیا کے نامور سیرت نگار و محقق ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی مرحوم اور ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی دار المعارف لاہور تشریف لائے، انھیں پروجیکٹ کا تعارف کرایا گیا۔ انھوں نے اس منصوبے کو بہت پسند کیا، حوصلہ افزائی کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

٣۔دائرہ معارفِ سیرت، تعارف و خصوصیات
”دارالمعارف” میں سیرت کے علمی منصوبے کا آغاز ٢٠٠٨ء میں ہوا جواپریل ٢٠٢٢ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔

دائرہ معارف سیرت کا آغاز ہوا تو ابتدا میں افراد کار کا حصول بہت مشکل ثابت ہوا۔ تاہم کئی مشکلات کے بعد بتدریج افراد شامل ہوتے گئے۔ مقالہ نویسی کے اصول و قواعد مقرر کیے گئے۔ ایک مستقل علمی نگران ، ناظم اور ایڈیٹر کی سرپرستی میں کام کا آغاز ہوا۔ علمی نظرثانی کے ساتھ ساتھ نثری اصلاح کے لیے الگ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آٹھ، دس افراد کی ایک مستقل ٹیم کی چودہ سالہ طویل علمی کدّ و کاوش کے بعد آخر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ کئی اہم مشاورتی اجلاس اور غوروخوض کے بعد سیرت دارالمعارف کا نام ”دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” رکھا گیا۔

:اس دائرہ معارف سیرت کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں

١۔ ”دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”کو پروفیسر عبد القیوم کے مفصل خاکہ سیرت پر استوار کیا گیا۔ سیرت کا یہ خاکہ بڑا مستند، علمی اور جامع ہے۔ اس میں بعض نئے اور اہم عنوانات بھی داخل کیے گئے ہیں۔ اس خاکے میں سیرت کے مکی و مدنی دور کا قرآن کی مکی و مدنی سورتوں سے ربط مضبوط کیا گیا ہے اور تمام غزوات کے قرآنی مطالعے پر الگ باب مقرر کیے گئے ہیں۔ تدوین سیرت پر علمی اشکالات کو تدوین حدیث سے منسلک کیا گیا اور دونوں علوم کی حفاظت کا علمی، تحقیقی اور تاریخی جائزہ لیا گیا۔ سیرت دارالمعارف کی تدوین محض پروفیسر صاحب کے خاکے ہی پر استوار نہیں بلکہ یہ علمی و تحقیقی اور معتدل فکر کا حامل پروجیکٹ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی روایت کو جاری رکھنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

٢۔ ”دائرہ معارفِ سیرت ” قرآن و سنت اور فقہاء و محدثین کی علمی آراء کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔ دین کے محکمات پر زیادہ زور دیا گیا اور اختلافی مسائل میں مختلف آراء کی صحیح اور مستند نمایندگی کے بعد علمی اسلوب کے تحت وجہ ترجیح بیان کر دی گئی ہے۔ ناروا مناظرانہ اسلوب اور ناشائستہ کلام سے سختی سے پرہیز کیا گیا۔ سیرت کا عمومی بیان مثبت اسلوب میں ہے۔

٣۔ دائرہ معارفِ سیرت میں موضوع روایات سے حتی الامکان اجتناب کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایسی ضعیف روایات سے بھی پرہیز کیا گیا جو دین کے محکمات اور مسلّمات کے صریح خلاف ہیں، تاہم ائمہ سیرت کی عام روایات کو قبول کیا گیا اور ان کے حوالے بھی دیے گئے۔ سیرت اور احکام و مسائل کے ضمن میں احادیث سے بھی بکثرت استشہاد کیا گیا اور ضعیف مرفوع احادیث کا حکم واضح کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔

٤۔ دائرہ معارفِ سیرت کا اسلوبِ بیان سادہ، علمی اور سلیس ہے۔ مشکل الفاظ اور مرکبات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ضرورت کے تحت بعض جگہوں پر تاثراتی اسلوب بھی اختیار کیا گیا ہے۔ مشکل اَعلام و مقامات پر

٥۔ دائرہ معارفِ سیرت کو زیادہ سے زیادہ جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل طریقہ کار کا اہتمام کیا گیا ہے:
واقعاتِ سیرت اور ان کی جزئیات کو قدیم اوربنیادی مصادر سے مدوّن کیا گیا۔ جہاں روایات، واقعات اور تعلیمات میں کوئی ابہام، تعارض یا اشکال تھا اسے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض ضروری جگہوں پر معاصر سیرت نگاروں کے سہو کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ بعض جدید سیرت نگار کچھ مشہور روایات نقل نہ کر سکے انھیں اجاگر کیا گیا ہے۔ سیرت کے جس باب میں مستشرقین یا دیگر معترضین کا کوئی اشکال تھا تو اسے علمی اسلوب میں حل کیا گیا ہے۔ بعض مباحث کی تسہیل کے لیے شجروں، جداول اور نقشوںکا اہتمام کیا گیا اور مزید تفصیل کے خواہاں قارئین کے لیے دیگر متعلقہ مقامات کے حوالے دیے گئے ہیں۔

٦۔”دائرہ معارفِ سیرت” میں اہل سنت والجماعت کے تمام گروہوں جیسے فقہاء مذاہب اربعہ، اہل ظواہر، متکلمین اور محدثین، اسی طرح برصغیر کے عام دینی مسالک جیسے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث جو اہل سنت و الجماعت کا حصہ ہیں، ان سب کو نمایندگی دی گئی ہے۔

٧۔”دائرہ معارف سیرت” میں مستشرقین اور متجددین کے مقابلے میں اِصالت کے مکتب فکر کو ترجیح دی گئی ہے۔ نارواجمود اور سختی کا اسلوب اختیار نہیں کیا گیا۔اس میں قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عقلی آراء کو بھی درجہ بدرجہ اہمیت دی گئی ہے۔ نقل و عقل کی صحیح ترتیب اور درست قدر وقیمت کے تحت اہل سنت والجماعت کے ذیلی مکاتب ِ سیرت جیسے محدثین، مؤرخین ، اُصولیین اور جدید علمی و معاشرتی معتدل مکتب فکر سے بھی مقدور بھر استفادہ کیا گیاہے۔

٨۔ ہر باب کے بعد خلاصۃ الباب بھی پیش کیا گیا ہے۔

٩۔ ہر باب کے آخر میں سیرت سے حاصل شدہ اسباق کے لیے ”فقہ السیرہ” کا عنوان قائم کیا گیا ہے۔ اس کی جمع و ترتیب میں شرعی دلائل اور علمی استدلال کا اہتمام کیا گیا ہے۔ فقہ السیرہ کا مقصد فرد و معاشرے کی صحیح اور بہتر اسلامی تشکیل ہے۔ اس ضمن میں عقیدہ و تربیت اور دعوت و سیاست کے تحت حتی الامکان مربوط و منظم مواد پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے مختلف معاشرے مختلف مشکلات کا شکار ہیں، ان کے لیے حیات طیبہ کے کلیدی مراحل سے ٹھوس رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

٤۔مقدمہ دائرہ معارفِ سیرت، تعارف و خصوصیات
عربی اور اردو میں مقدمہئ سیرت لکھنے کی روایت ہر دور میں قائم رہی ہے۔ اسی روایت کے تحت ”دائرہ معارف سیرت” کا انتہائی علمی مقدمہ پہلی جلد پر مشتمل ہے جو تقریباً ٧٥٠ صفحات پر مشتمل ہے۔

یہ مقدمہ فکری اعتبار سے علم سیرت کے جامع تعارف پر مشتمل ہے۔ کوشش کی گئی کہ علم سیرت کے متعلق تمام قدیم وجدید، عربی و اردو لٹریچر کا جائزہ لیا جائے۔ اس کاوش میں قدماء و معاصرین سے خوشہ چینی بھی کی گئی اور نئے طبع زاد نکات بھی پیش کیے گئے۔ مقدمات سیرت میں مختلف مکاتب فکر سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ عام طور پر اُردو، انگریزی اور عربی میں اتنا جامع اورمبسوط مقدمہئ سیرت اس سے پہلے نظر نہیں آتا ۔

:مقدمہ سیرت میں درج ذیل موضوعات زیر بحث لائے گئے
تعارف علم سیرت، اصول سیرت نگاری، مصادر سیرت (چودہ صدیوں کا جائزہ)، معاصرزمانی اردو، عربی اور انگریزی سیرت، زمانی سیرت کی جہات، سیرت اور مستشرقین، موضوعاتی سیرت، بلاغت نبوی کا مطالعہ، فقہ السیرہ، سیرت کی جامعیت کبریٰ، غلبہئ دین کا نبوی منہج اور عصرحاضر وغیرہ۔

:اس مقدمے کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں
١۔ اس مقدمے میں سیرت نگاری کے اُصول وقواعد کی علمی تدوین کی کوشش کی گئی۔ امید ہے کہ یہ ایک بہتر کوشش ثابت ہو گی۔
٢۔ برصغیر کے سوا سو سالہ جدید زمانی سیرت کے ارتقا کو واضح کیا گیا۔ اس ضمن میں معاصر عرب سیرت نگاری کا تعارف اُردو زبان میں ایک نیا اضافہ ہے۔
٣۔ مقدمہئ سیرت میں بغیر کسی تعصب و امتیاز کے تمام مسالک و مکاتب کی خدمات اور ان کی نمایندہ کتب ِسیرت کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
٤۔ موضوعاتی سیرت میں علوم شرعیہ کے فکری وتصنیفی ارتقا کو علمِ سیرت کے تناظر میں سمجھانے کی سعی کی گئی جو علم سیرت کے طلبہ ومحققین کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی علوم کے متعلقین کے لیے بھی مفید ہے۔
٥۔ مقدمہئ سیرت کے آخری حصے میں ان مباحث کا تعارف کرایا گیا جن پر مزید محنت کی ضرورت ہے اور جو معاصر اسلامی مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔
٦۔ مقدمہ سیرت کے آخری باب میں ”دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ” کے آغاز ، تکمیل اور خصوصیات و امتیازات کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے۔
٥۔تکمیل کے بعد اہم مراحل دائرہ معارف سیرت تسوید، علمی نظر ثانی اور نثری اصلاح کے بعد کئی اہم مراحل سے گزرا۔تکمیل کے بعد مکمل منصوبہئ سیرت کا عربی اور اردو کی معروف کتب سیرت سے موازنہ کیا گیا اور ایک سال کی مزید محنت کرکے تشنہ مقامات کی تکمیل کی گئی ہے۔

دقیق علمی مباحث اور حساس نوعیت کے مقامات کو علمی، فکری اور ادبی لحاظ سے مزید بہتر کیا گیا۔کتاب میں سیرت کی علمی مشکلات، تعارض و اشکالات کے حل پر خصوصی توجہ دی گئی۔ ایڈیٹنگ کا ایک منظم اور جامع طریقہ کار متعین کیا گیا جس کے تحت کتاب کو اغلاط سے پاک کرنے اور مواد کو بہتر کرنے کی ہر ممکن سعی کی گئی۔

جلدوں کی تیاری کے دوران اور تیاری کے بعد انھیں مختلف اہل علم کے ہاں بھیجا گیا اور ان کی علمی آراء حاصل کی گئیں۔ ان اصحاب فکر و دانش کے ناموں کی تفصیل مجلس انتظامیہ و مشاورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ ایک علمی اور تحقیقی کاوشہے جسے انتہائی عقیدت و احترام اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جذبات سے سرشار ہو کر طلبہ ومحققین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی فکری، علمی اور ادبی اصلاح اور تصحیح کی ہر ممکن کوشش کی گئی، تاہم تمام تر احتیاط کے باوجود بتقاضائے بشریت سہو و نسیان کا امکان موجود ہے۔ دائرہ معارف سیرت کی افادیت کو بڑھانے کے لیے تمام علمی مشورے بصد شکریہ قبول کیے جائیں گے۔ان شاء اللہ!

ادارہ دارالمعارف ریاض احمد چودھری سیکرٹری بزمِ اقبال کا تہہ دِل سے شکر گزار ہے۔ انھوں نے حیاتِ طیبہ کے بابرکت عنوان سے منسلک اس دائرہ معارفِ سیرت کی اپنے مؤقر ادارے بزمِ اقبال کی طرف سے طبع و اشاعت کی اجازت دی۔


کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *