Web Analytics Made Easy -
StatCounter

خلیفہ بن خیاط

تاریخ خلیفہ بن خیاط

خلیفہ بن خیاط

خلیفہ بن خیاط (١٦٠ھ۔ -٢٤٠ھ) کا شمار اولین اسلامی تاریخ نویسوں میں ہوتا ہے۔ مشہور مسلم مورخ ابن کثیر نے خلیفہ کو ائمہ تاریخ میں سے ایک امام قرار دیا ہے۔ خلیفہ کا تعلق بصرہ کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ خلیفہ کے ہم نام دادا ابوہبیرہ خلیفہ بن خیاط کا شمار اہل الحدیث میں ہوتا تھا۔ خلیفہ بن خیاط نے تین عباسی خلفاء (مہدی، ہادی اور ہارون الرشید) کا زمانہ پایا۔ خلیفہ کو حدیث، ایام الناس، تاریخ، انساب کے ساتھ ساتھ فن قرأت سے بھی تعلق تھا۔ خلیفہ کے معروف شاگردوں میں امام بخاری، امام حنبل، ابویعلیٰ الموصلی، عبدالرزاق الصنعانی شامل ہیں۔

ابن ندیم نے خلیفہ کی درجِ ذیل پانچ کتابوں کا ذکر کیا ہے:١۔ طبقات، ٢۔ تاریخ، ٣۔ طبقات قراء، ٤۔ تاریخ الزمنی والعرجان والمرضی والعمیان، ٦۔ اجزاء القرآن واعشارہ و اسباعہ و آیاتہ

اسلامی تاریخ نویسی میں خلیفہ بن خیاط کی تاریخ کو دو پہلوؤں سے اہمیت حاصل ہے۔ ایک تو یہ اولین اسلامی تاریخوں میں سے ایک ہے، اور دوسرے یہ تاریخ سن وار اسلامی تاریخ کی سب سے قدیم محفوظ مثال ہے۔ خلیفہ کے سن وار تاریخ کے طریقۂ کار کو بعد کے تقریباً ہر بڑے مؤرخ نے اپنایا۔ مثلاً: طبری، ازدی، ابن اثیر، ذہبی، ابن کثیر وغیرہ۔

طبری، ابن حجر، ابن ماکولا، ابوالفرج اصفہانی جیسے مؤرخین نے خلیفہ بن خیاط کی روایتیں اپنی اپنی کتب میں لی ہیں۔ جب کہ بخاری، ابن ابی حاتم، ابن ندیم، ابن خلکان، ذہبی، سخاوی، ابن حجر، ابن عمار اور رزکلی وغیرہ نے بھی خلیفہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کے باوجود خلیفہ اور ان کی طبقات و تاریخ دونوں سے قدرے بے اعتنائی برتی گئی۔ ان کی تاریخ بطور ماخذ متداول نہیں۔ یہاں تک کہ اس اہم تاریخی ماخذ کے نسخے تک کتب خانوں میں محفوظ نہیں، اور محققین تاریخ ِخلیفہ کا اب تک ایک ہی نسخہ دریافت کرپائے ہیں جو رباط (مراکش) میں محفوظ ہے۔

خلیفہ سے ان کی تاریخ کو بقی بن مخلد اور ابو عمران موسیٰ بن زکریا تستری نے اخذ و روایت کیا۔ خلیفہ کی یہ تاریخ رسول اللہ ﷺ کی ولادت تا 232ہجری کی مختصر تاریخ ہے۔ سنین وار تذکرہ کرتے ہوئے بعض جگہ خلیفہ نے محض ایک ہی سطر درج کی ہے۔ خلیفہ نے کتاب کی ابتدا میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ہجری تاریخ کی ابتدا کیسے ہوئی، پھر تقریباً ٥٠ صفحات میں اختصار کے ساتھ سیرتِ نبوی کے واقعات تحریر کیے ہیں۔

”تاریخ خلیفہ بن خیاط“ میں بہت سی منفرد اور مفصل معلومات ملتی ہیں جو دیگر تواریخ میں موجود نہیں۔ خلیفہ نے بنو امیہ کے دورِ خلافت کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ کُل کتاب کا نصف حصہ بنو امیہ کی خلافت پر مبنی ہے، جب کہ بقیہ نصف سیرتِ رسولؐ، خلفائےاربعہ اور خلفائے بنو عباس کے احوال پر ہے۔ اس تاریخ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں ہر خلیفہ کے تحت مقرر و معزول ہونے والے گورنروں، قاضیوں، کاتبوں اور دیگر حکومتی افسران کی مفصل اور جامع فہرستیں ہمیں مل جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عباسی دور میں ہونے کے باوجود خلیفہ کا جھکاؤ بنو امیہ کی جانب نظرآتا ہے۔

١٩٦٧ء میں خلیفہ کی تاریخ پہلی بار طبع ہوئی اور حُسنِ اتفاق سے دو الگ الگ محققوں نے اسے شائع کیا۔ ایک سہیل زکار نے دمشق سے، اور دوسرا اکرم ضیاء عمری نے نجف سے۔ اس اہم تاریخ کی قدامت و اہمیت کے باوجود اردو زبان میں اس کا ترجمہ نہ ہونا افسوس ناک تھا۔ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اس کتاب کا ترجمہ اور اب اشاعت نہایت خوش آئند ہے۔

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *