Web Analytics Made Easy -
StatCounter

المحدثات شیخ محمد اکرم ندوی

المحدثات شیخ محمد اکرم ندوی

المحدثات شیخ محمد اکرم ندوی

محدثات انسائیکلوپیڈیا ایک عمومی جائزہ
محمد طارق بدایونی

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کی ایک تحریر نظر سے گزری، جس میں انھوں نے محدث کی تعریف کی ہے۔ تحریر کا عنوان ہے ’محدث کسے کہتے ہیں؟‘ڈاکٹر صاحب کی یہ تحریر پڑھ کر خوشی بھی بہت ہوئی اور حیرت و تعجب بھی کہ ڈاکٹرصاحب نے جہاں ایک طرف محدث کی اتنی جامع و مانع تعریف کی ہے، شیخ الحدیث کہلانے والے شوقین حضرات کی زبردست گرفت کی ہے اور بجا کی ہے۔وہیں دوسری جانب ان کی وقیع کتاب ’’الوفا باسماء النساء، موسوعۃ تراجم اعلام النساء فی الحدیث الشریف‘‘ہے۔ جس کے بارے میں پچھلے ۱۶، ۱۷ برسوں سے عالمی پیمانہ پر مشہور کیا گیا کہ اس میں ’’محدثات‘‘کا تعارف کرایا گیا ہے اور اِس کتاب کی تمہید کے طور پر اس کا مقدمہ انگریزی زبان میں بنام
(Al-Muhaddithat: the women scholars in Islam)

شائع کیا گیا تھا جو بعد میں اردو زبان میں ’’محدثات: علم حدیث کے ارتقا میں خواتین کی خدمات‘‘کے نام سے شائع ہوا۔اس مقدمہ نے نہ صرف یورپ میں نہیں بلکہ برصغیر میں بھی بڑی پذیرائی حاصل کی۔ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر شخص کا تأثر یہی تھا کہ آئندہ ۴۳؍ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب میں لازماً صرف محدثات کا تذکرہ ہوگا۔ سنا تھا کہ اس میں دس ہزار سے بھی زائد محدثات کا مکمل تعارف اور حدیث کے میدان میں ان کی خدمات کو بیان کیا جائے گا۔ ذرا سوچیے! اتنےبڑے کارنامے پر کسے خوشی نہ ہوئی ہوگی؟بعض لوگوں کو تویہ گمان بھی ہو چلا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اُن خواتینِ اسلام کا تذکرہ کریں گے جو اب تک پردۂ خفا میں رہیں نیز یہ کہ ہمارے تاریخ نگاروں نے بڑی کوتاہی کی ہے کہ انھوں نے محدثات کے تذکروں سے منھ موڑ لیا ہے، اتنی محدثات کا تذکرہ چھوڑ دیا گیا کہ اکرم صاحب ۴۳ جلدیں تیار کر رہے ہیں، تذکرہ نگاروں نے کیسی نا انصافی کی ہے، یہی وجہ ہے کہ مستشرقین عورت کی علمی خدمات کے حوالے سے معترض رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یقین مانیے یہ وہ موشگافیاں ہیں جو میں نے اب تک اپنے ہم عمروں اور بعض بڑوں سے سنی تھیں؛ لیکن جب یہ کتاب ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ کی لائبریری کی زینت بنی تو اسے پڑھنے کا سنہرا موقع میسر آیا، تمام جلدیں الٹ پلٹ کر دیکھیں بالخصوص ساتویں صدی ہجری پر مشتمل تمام جلدیں اور آخر کی ۴۲، ۴۳؍ویں جلدوں کو بڑے شوق و ذوق سے پڑھا۔ان میں سے چار جلدوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا، اس وقت سب سے پہلے تو اس کتاب کا نام دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اس کتاب کا نام اگر ’الوفا باسماء النسا ء‘ہوتا تو کوئی حرج نہیں تھا؛ مگر اس پر ‘موسوعۃ تراجم اعلام النساء فی الحدیث الشریف‘ بھی لکھا ہے جس سے اس کتاب کا اکثر مواد میل نہیں کھاتا۔

ڈاکٹر صاحب کے قلم گہربار سے تحریر شدہ مضمون میں محدث بننےاور کہلانے کے لیے چھ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔وہ شرائط درج ذیل ہیں:

Muhaddisat

١. اس نے مؤطأ، اصول ستہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) اچھی طرح پڑھی ہوں، نیز اسے مسانید(مسند احمد بن حنبل وغیرہ)، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، طبرانی کی معجم کبیر، معجم اوسط، طحاوی کی شرح معانی الآثار اور بیہقی کی سنن کبری کا سماع ہو۔

٢. اس نے حدیث کے اجزا ء و اربعینات کا بکثرت مطالعہ کیا ہو، جن میں مشہور اجزاء ہیںجزء ابن عرفہ، جزء الانصاری. غیلانات وغیرہ۔

٣. تاریخ و رجال میں تاریخ ابن معین، تاریخ بخاری، تہذیب الکمال، سیر اعلام النبلاء وغیرہ کے مشتملات پر ناقدانہ نگاہ ڈالی ہو۔

٤. علل ابن المدینی، علل ابن ابی حاتم اور علل دار قطنی پر گہری نظر ہو۔

٥. اسانید و مصطلحات کی کتابوں جیسے الحاکم کی معرفۃ الحدیث، خطیب بغدادی کی الکفایۃ، الجامع لاخلاق الراوی، شرف اصحاب الحدیث، الرحلۃ فی طلب الحدیث، ابن نقطہ بغدادی کی تقیید، ابن حجر کی المجمع المؤسس، عبدالحی کتانی کی فھرس الفھارس کو بار بار پڑھا ہو۔

٦. وہ تصحیح و تضعیف کا ملکہ رکھتا ہو

امید ہے قارئین کو محدث کا حقیقی مفہوم سمجھ میں آ گیا ہوگا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ڈاکٹر صاحب کے ذکر کردہ شرائط کی روشنی میں ہماری وہ گزارشات پڑھیں، جو ہمیں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’الوفا‘ یعنی تذکرہ محدثات کے مطالعہ کے دوران میں محسوس ہوئیں۔

کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد سب سے پہلے یہ احساس ہوا کہ یہ کام کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل دیگر علما کرام بھی اس موضوع پر قلم اٹھا چکے ہیں۔ مثلاً ’اعلام النساء فی عالمی العرب والنساء‘’عمر رضا کحالہ‘کی ، ’اعلام النساء‘’علی محمد علی دخیل‘کی ، ’اعلام النساء المؤمنات‘’محمد الحسون اور امّ علی مشکور‘کی مشترکہ، ’تراجم اعلام النساء‘’شیخ محمد حسین الاعلمی الحائری‘کی، معجم اعلام النساء، تکملہ اعلام النساء، الروضۃ الغناء فی اعلام النساء، معجم اعلام النساء فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، اخبار النساء فی سیر اعلام النبلاء، اعلام النساء الدمشقیات، اعلام النساء الفلسطینیات، معجم اعلام النساء بالمغرب الاقصیٰ، الروضۃ الفیحاء فی تواریخ النساء، وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر صاحب نے تابعیات کے عہد تک کی جن خواتین کا تذکرہ کیا ہے، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام محدثات ہیں، اس کے بعد مجموعی اعتبار سے اس کتاب میں مذکور خواتین پر محدثات کا حکم لگانا عوام کے ساتھ خیانت بھی ہوگی اور خود ڈاکٹرصاحب کی ذکر کردہ شرائط کے ساتھ مذاق بھی! پھر یہ کہ وہاں تک کی خواتین کے تذکرے تراجم کی کتابوں میں بطور محدثات کے موجود ہیں اور ان کی علم حدیث کے متعلق نسبتوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے؛ لیکن ڈاکٹر صاحب کے اس مجموعہ میں مذکور خواتین کے بارے میں یہ بات اس وقت تک وثوق کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی ہے جب تک کہ اس میں سے ہر ایک کا مکمل فنی تتبع نہ کر لیا جائے۔

کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں ایسی خواتین کا بھی تذکرہ در آیا ہے جن کے بارے میں صرف گمان ہوا کہ ہو سکتا ہے اُنھوں نے علم حدیث کی کوئی خدمت انجام دی ہو۔

اِس میں ایسی خواتین بھی ہیں جن کے بیٹے، والد، شوہر، بھائی وغیرہ محدث رہے ہوں یا علم حدیث کے میدان میں کوئی خدمت انجام دی ہو۔ مثلاً بزو بنت عثمان، ان کے صاحب زادے عامر المرینی امیر المسلمین تھے، رقیہ بنت علاؤ الدین، ان کے شوہر محی الدین ابن الحرستانی تھے، مریم الشاریہ، ان کے والد اپنے زمانے میں پایہ کے عالم تھےوغیرہ۔

کتاب میں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں صرف خواتین کے نام پر اکتفا کیا گیا ہے باقی پورا صفحہ خالی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں۔ مثلاً: تاج خاتون بنت امیر فخر الدین ایاز سرکس، دار جوہر بنت صالح اسماعیل، درہ خاتون، دنیا خاتون، زاہدہ بنت عبدالرحمان وغیرہ۔ ظاہر ہے جب مؤلف نے ان کا شمار محدثات میں کیا ہے تو علم حدیث کے میدان میں ان کی کوئی نہ کوئی خدمت ضرور رہی ہوگی۔ کیا ہی خوب ہوتا اگر وہ ان کے وجہ شمولیت کی نشان دہی فرما دیتے۔ اس طرح ایک تو تذکرہ مجہول قرار پاتا ہے اور دوسرے اس طرح ایک ایک صفحہ پر ایک نام یا سطر دو سطر لکھ کے آگے بڑھ جانے سے خواہ مخواہ ضخامت بڑھانے کا گمان ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو بدگمانی سے محفوظ رکھے۔

بعض جگہوں پر ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ خواتین کے تذکرہ سے زیادہ ان کے شوہر، بھائی، بیٹے، ان کے والد یا شیخ کا تعارف یا ان کے علمی کارناموں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اُن جگہوں پر قارئین کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ محدثات کے بجائے محدثین کی سوانح عمریاں پڑھ رہے ہوں۔

اسی طرح بعض خواتین کے شعری و ادبی نمونے تو ذکر کیے گئے ہیں؛ لیکن حدیثی خدمات کا کوئی ذکر موجودنہیں ہے۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کسی خاتون کی مرویات ذکر کی ہیں، تو وہیں فقہی بحث بھی چھیڑ دی ہے اور پھر طویل بحثیں کی گئی ہیں۔مثلاً: جلد ۳؍ صفحہ ۱۱۰؍میں اسماء بنت سعید کی مرویات میں ایک حدیث ہے کہ ’’اگر کوئی وضو کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کا وضو نہیں ہوگا‘‘اس کے ضمن میں مؤلف نے تین صفحات پر مشتمل خالص فقہی بحث کی ہے۔

اسی جلد میں صفحہ ۶۸۴ میں مؤلف نے ’’آزادی عتق‘‘ اور ’’ولاء‘‘ کے سلسلے میں ۴۵؍صفحات پر فقہی بحث کی گئی ہے۔ یہ فقہی مباحث جہاں مصنف کی فقہی بصیرت کے عکاس ہیں، وہیں فنی طور پر یہ کتاب کسی قدر اپنی قیمت کھوتی نظر آتی ہے۔ اس طرح کے مباحث تمام جلدوں میں ملتے ہیں۔

بعض جگہوں پر ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی خاتون کی تالیف کا ذکر کرتے ہیں، وہیں ان کی کتاب کا مقدمہ یا پوری تحریر ہی علمی نمونہ کے طور پر پیش کر دیتے ہیں، جس سے کتاب کے اچھے خاصے صفحات بھر جاتے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ اُس نمونہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مثلاً جلد ۴۳؍ میں صفحہ ۵۱؍ میں امۃ السلام الیمانیۃ کا تذکرہ ہے، ان کی تحریر کا ذکر کرنے کے بعد موصوف نے ان کی پوری تحریر نقل کی ہے، جو ۲۲؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس طرح کی تحریریں کتاب کی اہمیت و افادیت میں کمی کے ساتھ ضخامت میں اضافہ کا باعث ہیں اور اس سے قاری کی طبیعت اکتانے لگتی ہے اور استفادہ مشکل ہوتا ہے۔

اس کتاب میں نہ جانے ایسی کتنی خواتین کے تذکرے موجود ہیں جنھوں نے قرآنیات کے باب میں کوئی کام کیا، یا کوئی تصنیف چھوڑی، ناظرہ پڑھایا یا کہیں تدریس کے فرائض انجام دیے، انھیں بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم ڈاکٹر صاحب نے یہ رویہ کیوں اپنایا ہے۔ نہ ان کی کسی حدیثی خدمت کی نشان دہی کی ہے اور نہ ہی علم حدیث سے کسی طرح کی نسبت کا ذکر ہے۔ مثلاً نجلاء بنت عبداللطیف نے جدّہ کی ایک یونی ورسٹی سے ماسٹر کیا ہے، ان کی’بلاغۃ التذییل فی سورتی البقرۃ و آل عمران‘نامی ایک تالیف ہے، ان کا بھی تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے۔

جب وفیقۃ العقادؒ کا تذکرہ پڑھا تو بہت حیرت ہوئی؛ کیوں کہ یہ خاتون حافظہ تھیں، انھیں شیخ ابو الحسن محی الدین کردی سے قرآن مجید میں اجازت حاصل تھی۔ بس اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے انھیں محدثات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ قارئین کی یہ حیرت اس وقت بالکل رفو چکر ہو گئی جب کہ اس طرح کی دوسری خواتین کے تذکرےپڑھتے ہیں، ان میں سے بعض کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا جا چکا ہے اور آگے مزید کیا جائے گا۔

ایسی خواتین کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنھوں نے دعوت و تبلیغ کے کارِ خیر میں حصہ لیا ہو یا اس میدان میں سرگرم عمل رہی ہوں؛ لیکن علم حدیث کے تعلق سے اُن کی کسی نسبت کا علم نہیں ہوتا ہے۔

اس کتاب کو ’’محدثات انسائیکلوپیڈیا‘‘ کے نام سے مشہور کیا گیا ہے جو اس کتاب کے ساتھ خیانت ہے۔ اس کا صحیح اور درست نام صرف ’’الوفا باسماء النساء‘‘ ہی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس کتاب کے نام کی دوسری سطر کا تعلق کتاب سے نظر نہیں آتا ہے؛ کیوں کہ علم حدیث کئی علوم وفنون کا مجموعہ ہے، اور اس کتاب میں تابعیات کے بعد جن خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے بہت سی ایسی ہیں، جو علم حدیث کے باب میں ان علوم و فنون سے واقفیت نہیں رکھتی ہیں، اگر وہ ان مطلوبہ علوم و فنون سے واقف ہوں بھی تو ان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں، بالخصوص جلد بیالیس اور تینتالیس میں اکثریت ایسی ہی خواتین کی ہے۔ مثلاً: بیالیسویں جلد میں ۲۷۶؍خواتین میں سے صرف ۸۰؍ خواتین ایسی ہیں، جن کے سلسلے میں حدیثی نسبت معلوم ہوتی ہے۔ اور اگر اس کا فنی طور پر تتبع کیا جائے تو چند ہی خواتین ایسی ملیں گی جن کا تعلق علم حدیث کی نسبت سے ہو اور محدثات کے ضمن میں تذکرہ کیا جا سکے۔

کیا اس کتاب کو موسوعہ کہا جا سکتا ہے؟

کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے ان تمام لڑکیوں کو محدثہ کے طور پر پیش کیا ہے جنھوں نے کسی بھی (Subject) میں ایم. اے. کر رکھا ہو اور ان سے وہ کسی نہ کسی حد تک واقف بھی ہوں۔

کہیں کہیں ایسی خواتین کا بھی تذکرہ در آیا ہے کہ جنھوں نے کسی صاحب علم و فضل سے ملاقات کی ہو۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر صاحب نے اس تعلق سے ائمہ حدیث کے اس اصول پر عمل کیا ہو کہ اگر کسی راوی کی اپنے شیخ سے ملاقات کا ثبوت فراہم ہو جائے تو اس سے سماع ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں ذرائع ابلاغ کی بہتات کے باوجود یہ اصول مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

ایسی خواتین کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنھوں نے کسی مدرسہ یا گھر میں قرآن مجید کی تعلیم دی ہو یا کسی کتاب کی تالیف میں کوئی حصہ داری رہی ہو، واضح ہو وہ حصہ داری کس نوعیت کی ہو، اس کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ مثلاً:عیشہ حمزہ صاحبہ کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’أنشأت کتّاباً لھا، و یقع فی العنبریۃ فی حوش ابو دراع، و کانت تعلم القرآن، والقراءۃ و الکتابۃ، و عندما افتتحت المدارس الحکومیۃ عملت بھا۔‘‘ [الوفا باسماء النساء، ڈاکٹر محمد اکرم ندوی،ج ۴۳، ص ۳۹۱] ڈاکٹر صاحب نے ایک جانب ان کا یہ کارنامہ بیان کیا ہے وہیں ان کو ایک فقیہ کے طور پر تعارف کرایا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’الفقیۃ عیشۃ حمزۃ ھو ساوی، زوجۃ محمد عمر أیوب، من المدینۃ المنورۃ‘‘ [محولہ بالا] اسی جلد میں صفحہ ۴۲۹؍ پر درج ہے کہ فاطمہ بنت عبداللہ ایک اسلامی کاتبہ/مصنفہ ہیں۔ وہ ’رحلۃ الإخوان إلي العمرۃ و فضل المسجد الحرام‘ کی تالیف میں شریک رہی ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں جلد ۴۳؍میں ایک صحافی خاتون (منیرۃ السعدؒ)ہیں،جو جریدہ ’الجزیرۃ‘ سعودی عرب میں کام کرتی تھیں۔ یہ بات نا قابل فہم ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان خاتون کو آخر کیوں محدثات کی فہرست میں شامل کیا ہے؟

اسی طرح روایت حدیث کے باب میں محدثین کے یہاں جرح و تعدیل کی شکل میں راوی پر حکم لگانے کا جو طریقہ ہے کہ فلاں راوی، ثقہ ہیں، مجہول ہیں، ضعیف یا مقبول ہیں۔ اس طرح کی اصطلاحات کا ذکر اس کتاب میں صرف تابعیات کے دور تک ملتا ہےباقی کے ادوار میں اس طرح کا حکم لگانے کے بجائے شیخۃ مسندۃمن بیت العلم و الحدیث، دینۃ مبارکۃ، عالمۃ فاضلۃ محدثۃ فقیہۃ، ذات فضل و صلوۃ وغیرہ کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے اور بس۔
مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب قبلہ کے اس انسائیکلوپیڈیا کا تذکرہ نگاری کے پہلو سے فنی جائزہ لیا جائے یا ان ہی کے مضمون”محدث کون؟“ کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے تو صرف مایوسی ہاتھ لگتی ہے، افسوس ہوتا ہے کہ جس کتاب نے منصہ شہود پر آنے سے قبل ہی مصنف کو شہرت کی معراج تک پہنچا دیا ہو معرض وجود میں آ کر اس نے صرف مایوس کیا، گویا بہت شور سنتے تھے…… اگر ڈاکٹر صاحب کے اس کام کی صحیح معنی میں تلخیص کی جائے تو چار سے پانچ جلدیں باقی رہ جائیں گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا مقدمہ ہی اصل ہے اور وہی اوریجنل اور قیمتی ہے باقی جو مواد چار پانچ جلدوں کا ہے وہ بھی کتب تراجم میں درج ہے، جن کے حوالے خود اس کتاب میں ہیں۔ کتاب کی افادیت کے لیے لازم ہے کہ مصنف دوسرے ایڈیشن میں اس کی تلخیص شائع کریں جو فنی معیار پر پورا اترے۔

هذا ما عندى والله اعلم بالصواب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *