کیا ہم زندہ ہیں

کیا ہم زندہ ہیں

کیا ہم زندہ ہیں؟ خود آگاہی اورخود شناسی کی کتاب

تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
شکیل رشید صاحب کے شکریے کے ساتھ یہ تبصرہ پیش خدمت ہے۔

علیزے نجف کو نہ میں گزرے ہوئے کَل کو جانتا تھا اور نہ آج جانتا ہوں ، حالانکہ میں نے سوشل میڈیا پر اُن کی اکثر تحریریں ، تبصرے اور انٹرویو پڑھے ہیں ( اُن کا لیا ہوا اشعر نجمی کا ایک انٹرویو اپنے روزنامے میں شائع بھی کیا ہے ) اور پڑھ کر اُنہیں پسند بھی کیا ہے ۔ یہ تمہید علیزے نجف کی کتاب ’ کیا ہم زندہ ہیں؟ ‘ کے ضمن میں ہے ۔ جب یہ کتاب مجھے مِلی تھی تب ، میں نے اسے ایسی جگہ رکھ دیا تھا کہ مجھے نظر نہ آئے ۔ اس کی وجہ ’ سیلف ہیلپ ‘ یا ’ اپنی مدد آپ ‘ کے ژینر ، موضوع یا صنف کی کتابوں سے ، میری الرجی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے اس موضوع پر کتابیں نہیں پڑھی ہیں ، پڑھی ہیں اور خوب پڑھی ہیں ، اور بہت سی کتابیں پسند بھی کی ہیں ، لیکن ایک وقت گزرنے کے بعد مجھے اس موضوع کی اکثر کتابیں ایک دوسرے کا عکس یا چربہ یا ضد لگنے لگیں ، زبان و بیان کے فرق کے ساتھ ۔ کچھ کتابیں اپنی رواں زبان کے سبب پسند آئیں اور کچھ اس لیے پسند آئیں کہ ان میں اپنے موضوع کو سہل انداز میں پیش کیا گیا تھا ۔ لیکن بہت ساری کتابیں ایسی تھیں یا ایسی ہیں ، جن کی تفہیم ، بھاری بھرکم اصطلاحات اور طبّی لفظیات کے سبب ، سب کے لیے آسان نہیں تھی یا آسان نہیں ہے ۔ ایک بات اور سمجھ میں آئی ؛ سیلف ہیلپ کی کتابوں اور لیکچروں نے اب باقاعدہ ایک انڈسٹری کی شکل لے لی ہے ، اور یہ سارا کاروبار – استثناء کے ساتھ – اب لوگ عوام کی نہیں ، اپنی ہیلپ کے لیے چلا رہے ہیں ۔ میں نے علیزے نجف کی کتاب کو بھی مذکورہ کتابوں ہی جیسی ایک کتاب سمجھ لیا تھا ، لہذا اسے رکھ کر بھول گیا تھا ۔ علیزے کی طرف سے تبصرے کا کوئی تقاضا بھی نہیں تھا ، بس ایک میسج ملا تھا اور میں نے عرصہ بعد سیلف ہیلپ کی ایک اردو کتاب پڑھنے کا عزم کیا ۔ سچ کہیں تو یہ سیلف ہیلپ یا اپنی مدد آپ سے زیادہ خود آگاہی یا خود شناسی کی کتاب ہے ۔ جب کوئی انسان خود کو پہچانے گا ، خود سے آگاہ ہوگا یا وہ خود سے سوال کرے گا کہ وہ زندہ ہے بھی یا نہیں ، تب ہی اپنی مدد آپ کر سکنے کی بہتر حالت میں ہوگا ۔ اور علیزے نجف نے یہ سوال کر کے کہ ’ کیا ہم زندہ ہیں؟ ‘ ہمیں اور خود کو بھی – کہ ’ ہم ‘ لفظ سے سوال شروع کرکے انہوں نے اُن میں ، جن سے یہ سوال کیا گیا ہے ، خود کو بھی شامل کر لیا ہے – یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کہیں ہم مَر تو نہیں چُکے اور اپنی لاش کا بوجھ اٹھائے گھوم رہے ہیں؟

اس سوال پر آنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ ’ عرضِ مصنفہ ‘ میں خود علیزے اس کتاب کا کیا جواز دیتی ہیں ۔ وہ لکھتی ہیں : ’’ یہ کتاب لوگوں کی زندگی سے متعلق بنیادی مسائل کی اصل علّت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھی گئی ہے ؛ تاکہ لوگ اصل حقیقت سے واقف ہو سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر کرنے کے لیے صحیح سمت میں قدم اٹھا سکیں ۔ جیسا کہ خالد جاوید صاحب نے بھی کہا کہ زیادہ تر سیلف ہیلپ کی کتابیں انگریزی میں لکھی گئی ہیں ۔ اردو میں اس ضمن میں کم کام ہوا ہے ۔ یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے ۔ کئی سال پہلے جب میں اس موضوع سے واقف ہوئی تو مجھے بھی زیادہ تر کتابیں انگریزی میں ملیں ۔ اردو کی کتابیں بہت کم ملیں اور بیشتر اردو کی کتابیں انگریزی کی کتابوں کا ترجمہ تھیں ۔ یہ کتاب اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش میں لکھی گئی ہے ؛ تاکہ اردو داں طبقہ بھی اس موضوع سے مفید مواد سے استفادہ کر سکے ۔‘‘ اوپر دو باتیں اس کتاب کے موضوع سے متعلق ہیں ، ایک تو ’ بنیادی مسائل کی اصل علّت ‘ اور دوسری ’ اصل حقیقت ‘۔ کیا ہیں یہ ؟ مصنفہ نے دونوں ہی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ، اور سمجھا بھی ہے ، اسی لیے وہ بتاتی ہیں کہ ’’ یہ کتاب نفسیاتی بیماریوں کا احاطہ کرنے کی غرض سے نہیں لکھی گئی ہے ‘‘، پھر وہ لکھتی ہیں کہ یہ کتاب ’’ ان بنیادی اصولوں کی بات کرتی ہے جس کے ذریعے ہم اپنی عام اور روز مرہ کی زندگی کو تھوڑا بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے جذبات کو بیمار ہونے سے بچا سکتے ہیں ‘‘۔ مطلب یہ کہ ’ بیمار جذبات ، بنیادی مسائل کی اصل علّت ہیں ‘ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کم ہی لوگ واقف ہیں ۔ کتاب میں مجموعی طور پر بائیس مضامین ہیں ، جنہیں کتاب پر لکھے گیے ’ مقدمہ ‘ میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز ، سابق وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد نے ’ بیش قیمت تحریریں ‘ قرار دیا ہے ۔ اب ڈاکٹر صاحب کا نام آ گیا ہے تو ، مضامین پر بات کرنے سے قبل ، بہتر ہوگا کہ کتاب میں شامل دیگر دانشورانِ کی آراء بھی جان لیں ۔

کتاب کے سرورق کے دونوں طرف کے فلیپ پر چار دانشوروں کی آراء ہیں ۔ معروف فکشن نگار خالد جاوید لکھتے ہیں : ’’ یہ کتاب اردو میں اپنے طرز کی انوکھی کتاب ہے ۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور جہات کو موضوع بنا کر لکھے گیے یہ مضامین نہایت ہی عمدہ اور سنجیدہ علمی نوعیت کے ہیں ۔ اخلاقی ، سماجی ، نفسیاتی اور فلسفیانہ بصیرت ان مضامین کو ایک ’ چیزے دیگر ‘ بنا دیتی ہے اور جس کی کوئی مثال کم از کم مجھے اردو میں فی الحال نظر نہیں آتی ۔‘‘ آسٹریلیا کی ایک سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر جوئریہ سعید لکھتی ہیں : ’’ ان کی تحریروں سے خود احتسابی ہی نہیں ، بلکہ بلند ہمتی اور زندگی کے تئیں مثبت رویہ رکھنے کی بھی ترغیب ملتی ہے ۔‘‘ پاکستان کے اوپینئن لیڈر قاسم علی شاہ لکھتے ہیں : ’’ کتاب قاری کو اپنے رویوں اور سوچ پر نظر ثانی کی دعوت دیتی ہے ۔‘‘ ڈاکٹر ثنا یاسر نے کتاب کے نام کے حوالہ کے ساتھ لکھا ہے : ’’ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ہماری زندگی کس فلسفے کے تحت گزر رہی ہے ۔‘‘ کتاب کے بیک کور پر امریکہ کے ایک سابق اسسٹنٹ پروفیسر نیورولوجسٹ ڈاکٹر شیخ عبید کی رائے ہے : ’’ اس کتاب میں شامل ہر موضوع ہماری عام زندگی سے متعلق اور انتہائی اہم ہے ۔‘‘ کتاب کے اندرونی صفحات میں کینڈا کے سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر خالد سہیل نے کتاب اور علیزے کا تعارف کرایا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ کتاب ’ کیا ہم زندہ ہیں؟ ‘ اس خود شناسی کے سفر میں لگی اسٹریٹ لائٹ کی طرح ہے جو ہمیں خود کے اندر دیکھنے اور اپنے رویوں کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے ۔‘‘ آراء بھاری بھرکم ہیں ، کہیں کہیں دانشوروں نے علیزے کو سقراط کی راہ پر گامزن ایک دانشور قرار دیا ہے ، اور کہیں کسی نے صاحبِ بصیرت کہا ہے ۔

خیر ، اب آتے ہیں مضامین کی طرف ۔ کتاب کا نام ہی پہلے مضمون کا عنوان ہے ’ کیا ہم زندہ ہیں؟ ‘ اس مضمون میں جہاں اس کتاب کے موضوع کی بنیادی باتیں آگئی ہیں ، وہیں آگے کے مضامین کے اشارے بھی آگیے ہیں ۔ مضمون کا آغاز فرانسیسی فرماں روا نپولين بونا پارٹ کے ایک قول سے ہوتا ہے : ’’ موت کچھ بھی نہیں ہے ؛ لیکن شکست و ریخت کے ساتھ جینا روز روز مرنے جیسا ہے ۔‘‘ مضمون کے اندر بھی ، ابتداء ہی میں ایک سابق امریکی سیاسی فلاسفر بنجامن فرینکلن کا قول ہے : ’’ کچھ لوگ پچیس سال کی عمر میں مر جاتے ہیں ؛ لیکن پچھتر سال کی عمر میں انہیں دفن کیا جاتا ہے ۔‘‘ اس مضمون اور اس سوال کے کہ ’ کیا ہم زندہ ہیں؟ ‘ جواب کی بنیاد انہی مذکورہ دونوں اقوال پر رکھی گئی ہے ۔ علیزے لکھتی ہیں کہ لوگ اکثر اپنے رویّوں اور ارد گرد موجود اقدار اور طرزِ فکر کے اس قدر کنڈیشنڈ ( ڈھل جانا ) ہو جاتے ہیں کہ ان سے ہَٹ کر کچھ اور نہیں سوچ پاتے ، اور ’’ جب ہماری زندگی میں ان رویّوں کو غلبہ حاصل ہونے لگتا ہے تو ہم کہیں نہ کہیں اپنی اندرونی شخصیت کو مجروح کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہر روز جس پر ایک نئی ضرب پڑتی ہے ، وہ زخم پر زخم لگاتی ہے ؛ یہاں تک کہ زخم رس رس کر ہمیں پوری طرح مضمحل کر دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ہماری اندر سے موت واقع ہو جاتی ہے اور ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا ؛ کیونکہ ہم بظاہر سانس لے رہے ہوتے ہیں ۔‘‘ اس صورت میں انسان نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے ، وہ سکون ، خوشی ، آسودگی اور اطمینان سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں اُس کے سامنے ذہنی بیماریوں اور مسائل کا ایک بڑا انبار ہوتا ہے ۔ علیزے اس کا علاج خوش رہنا اور جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی ( روحانی ) صحت کے لیے فکر مند ہونا بتاتی ہیں ۔ وہ اس سوال کا جواب بھی دیتی ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے ۔ یہ ایک مدلّل مضمون ہے ، لیکن اگر اس میں کسی ایک ’ کیس ہسٹری ‘ کو شامل کردیا جاتا تو موضوع مزید قابلِ فہم ہو جاتا ۔ دوسرا مضمون ’ مسائل حل کرنے والا ذہن ‘ کے عنوان سے ہے ، جس میں وہ واضح کرتی ہیں کہ ’’ مسائل کو کیسے حل کیا جاتا ہے ، یہ باقاعدہ ایک اِسکل ہے ‘‘ یعنی ایک فن ہے ۔ مسائل کے حل کے لیے وہ سات اقدامات پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ ان اقدامات سے واقفیت کے لیے لوگوں کو کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔ ہاں ، یہ اب ضروری ہے کہ لوگ مسائل حل کرنے کا فن سیکھیں ، آج کی دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے یہ لازمی ہے ۔ ایک مضمون ’ نرگسیت ‘ پر ہے ۔ خود سے محبت یا خود پسندی کی عادت اگر حد سے تجاوز کر جائے تو نفسیاتی بیماری بن جاتی ہے ، اسی کو ’ نرگسیت ‘ کہا جاتا ہے ۔ علیزے کے مطابق یہ ایک ’ وبا ‘ ہے ۔ علیزے بتاتی ہیں کہ اس مرض کے شکار ’’ ایک الگ ہی خود کی بنائی ہوئی دنیا میں احساسِ برتری کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ خود کو نارمل خیال کرتے ہیں اور مسائل ہونے کی صورت میں اس کی وجہ اپنے باہر تلاشتے ہیں اور اس کا ذمہ دار وہ ہمیشہ دوسروں کوٹھہراتے ہیں ۔‘‘ آگے وہ ’ مثبت سوچ ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’ مثبت سوچ میں بھی توازن اور حقیقت پسند کا ہونا لازمی ہے ‘‘ کیونکہ ’’ مثبت پسندی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جائے تو اس سے کئی طرح کے مسائل کے پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔‘‘ آگے کے مضامین میں ’ ناکامی کی ذمہ داری ‘ ، ’ سوچنا ایک آرٹ ‘ ، ’ عادت کی طاقت ‘ کے علاوہ فیصلہ سازی ، ذہنی غربت اور کمفرٹ زون اور دیگر ایسے ہی موضوعات پر لکھے گیے مضامین بہترین ہیں ، یہ سوچ کے دروازے کھولتے ہیں ۔ ان کے مطالعہ سے لوگ اپنے رویّوں پر نظر ثانی کے لیے متوجہ ہو سکتے ہیں ، اور علیزے رویّوں کی تبدیلی کو اِن بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اہم قرار دیتی ہیں ۔ یہ اہم کتاب ہے ، اس کے لیے علیزے نجف بلاشبہ مبارک باد کی حقدار ہیں ۔ مضامین میں جگہ جگہ مفکرین کے حوالے دیے گیے ہیں ، اور بات کو سہل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ متن رواں ہے لیکن کہیں کہیں جملے کچھ اٹ پٹے ہو گیے ہیں ، جیسے کہ اوپر ایک جملہ دیا گیا ہے ’’ مثبت پسندی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جائے تو اس سے کئی طرح کے مسائل کے پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے ‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *