نام کتاب: ایسا شکستہ حال غزل خواں نہ آئے گا
منصف: ڈاکٹر وسیم احمد بن ڈاکٹر کلیم عاجز
کتاب کا نام کلیم عاجز صاحب کے اس شعر سے لیا گیا ہے
ایسا شکستہ حال غزل خواں نہ آئے گا
پھر ہم سا کوئی چاک گریباں نہ آئے گا
یہ شعر کلیم عاجز صاحب کی آخری آرام گاہ پر بھی لکھا ہوا ہے۔
اس کتاب میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر وادیب ڈاکٹر کلیم عاجز کی کہانی ،ان کے شعروں کی زبانی بیان کی گئی ہے ۔ بیان کرنے والے ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر وسیم احمد ( ایم بی بی ایس، ڈی سی ایچ ، ایم ڈی ) ہیں ، ڈاکٹر وسیم احمد اردو ادب کے بجائے میڈیکل سائنس کے طالب علم رہے ، لیکن میخانہ کا محروم بھی محروم نہیں ہوتا، ادب وشاعری ان کےگھر کی چیز تھی ، والد گرامی کی معیت ، ان کی نظم ونثر کا مطالعہ اور نامور اداباء واہل قلم کی ملاقات وتبادلۂ خیال نے ان کے اندر ادب کا ایک خاص ذوق پیدا کردیا ۔ ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کی پہلی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ کے علاوہ جتنی بھی کتابیں ہیں خصوصاً مجموعۂ مضامین ومکاتیب ، ان سب کی ترتیب واشاعت میں ڈاکٹر وسیم صاحب کا بڑا حصہ ہے۔ وہ بھی اپنے والد گرامی طرح خاموش طبع اوراپنے کام سے کام رکھنے والے ایک خوددار انسان ہیں ۔ اپنے والد کے متعلقین کا خاص خیال رکھتے ہیں ، ابھی پٹنہ کے حالیہ سفر میں انھوں نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ کتاب عنایت فرمائی ۔
ڈاکٹرصاحب دیباچہ میں لکھتے ہیں :
جب کلیم عاجز موجود تھے ۔ ایک دن ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ کلیم عاجز کی کہانی شعروں کی زبانی لکھنی چاہیے ۔ میں نے اشعار جمع کرنا شروع کیا۔مگر کلیم عاجز نے تو اپنی شاعری کو آتش کدۂ نمرود سے تشبیہ دی ہے ۔جس کے اندر جانے کی آج تک کوئی ہمت نہ کر سکا ۔ بھلا ہماری صلاحیت کیا؟ چند اشعار جمع کرنے کے بعد میں ہمت ہار گیا۔ اور بات وہیں رہوگئی، پھر کلیم عاجز بھی چلے گئے ، زندگی میں ان کی بھی خواہش تھی کوئی ان کی کہانی لکھتا۔ ایک دو آدمیوں کے بارے میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ان کی شاعری کے اصل مفہوم کو سمجھتے ہیں اور وہ کچھ لکھ سکتے ہیں ۔ان سے انہوں نے تذکرہ بھی کیا کہ آپ لکھئے ۔ چند ماہ قبل بھی جب انہوں نے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا ، ان سے کہا تھا کہ آپ جلدی لکھئے کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اب وقت نہیں ہے ۔شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے سامنے لکھا جا تا تو وہ دیکھ لیتے مگر ان کو بھی موقع نہ مل سکا اور وہ لکھ نہ سکے۔ کلیم عاجز کے جانے کے بعد جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے یہ سب باتیں کہیں اور کہا کہ کوشش کروں گا جلد کچھ لکھ سکوں ۔
لیکن جب ہر طرف سناٹا رہا تو خود وسیم صاحب نے قلم اٹھایا اور اپنے والد کی کہانی ان کے اشعار کی زبانی بہترین انداز میں پیش کردی ۔ بقول ان کے ’’ یہ کتاب کلیم عاجز کے فن تک پہنچنے اور ان کی شناخت وپہچان کی ایک حقیر کوشش ہے ۔
وسیم صاحب کا خیال ہے کہ یہ مضمون تو کسی کے فیضانِ توجہ کا نتیجہ ہے ورنہ میں اس لائق کہاں کہ اس عظیم شخصیت کے بارے میں لب کشائی کرسکوں۔ وہ کہتے ہیں:
میں سمجھتا ہوں کہ مضمون میں نے خود نہیں لکھا ہے ، اس میں میری کوشش اور علم کا کوئی خاص دخل نہیں ۔ مضمون تو کسی نے لکھوایا ہے ۔ میں کیا ؟ میرا علم کیا ؟ میری صلاحیت کیا؟ اتنے سال ڈاکٹری پڑھنے کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ میں ڈاکٹری کے پیشہ میں صفر ہوں ، تو پھراردو؟
اس کتاب میں کلیم عاجز کے تیرہ مصرعوں کو کہانی کا عنوان بنایا گیا ہے، گویا یہ کتاب کے تیرہ ابواب ہیں ۔ اور ہرباب میں درجنوں اشعار ہوں گے ، جن کا پس منظر اور اس پس منظر میں جو واقعات ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سے کلیم عاجز کی کہانی کے ساتھ ان کے اشعار کو سمجھنے کی راہ بھی کھلتی ہے۔ واقعی یہ کتاب کلیم عاجز کے فن تک پہنچنے اور ان کی شناخت کی ایک کامیاب کوشش ہے ۔
صفحہ 240؍ سے 283یعنی کتاب کے اختتام تک کلیم عاجز سے بڑی متعلق اہم اور قیمتی معلومات کو چند عناوین کے تحت جمع کردیا گیا ہے ۔ پہلا عنوان ہے: ’’ کلیم عاجز کی زندگی کی چند اہم تاریخیں‘‘ ۔ جس میں ولادت سے لے کر وفات وتدفین تک کے اہم واقعات کو سن وار درج کیا گیا ہے، میرے علم میں اس طرح کی یہ پہلی مفصل ومحقق کوشش ہے۔دوسرا عنوان ہے : ’’ بیرونی ممالک کے کچھ اسفار ‘‘۔ اس میں کلیم عاجز کے 44؍ بیرونی اسفار کو سن وار ذکر کیا گیا ہے، مجھے اب تک یکجا یہ تفصیل کہیں نہیں ملی تھی۔ اس کے بعد انگلش میں چار صفحات میں مختصر سوانح دی گئی ہے۔ کتاب میں کمپوزنگ کی غلطیاں پریشان کن حد تک ہیں ، بعض جگہ املا کی غلطیاں بھی ہیں جنھیں اگلے ایڈیشن میں درست کرلینا چاہئے۔
اخیر کے 30؍ صفحات میں کلیم عاجز کی کہانی تصویروں کی زبانی ہے، جس میں ان کی نوجوانی سے لیکر اخیر حیات تک، مختلف مواقع کی تصویریں ہیں ۔ کلیم عاجز کو جو اعزازات دئے گئےان کے عکس بھی شامل ہیں ۔ہندوستان ، پاکستان، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور کناڈا وغیرہ میں جو جشن کلیم عاجز منایا گیا ان کی تصویریں بھی ہیں ۔
جی چاہتا ہے کہ مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی کی ایک تحریر کے اقتباس پر اپنی بات مکمل کروں ، وہ کلیم عاجز کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
آپ کی شاعری پر ایک دنیا فریفتہ ہے۔ ہر کہ از دل خیزد بردل ریزد………. لوگ کہتے ہیں آپ نے میرؔ کی زبان اور میرؔ کا انداز اپنایا ہے ۔اس پر ایک اضافہ میری طرف یہ ہے کہ اللہ تعالی کے بخشنے والے ہاتھوں نے آپ کو اس درد کا حصہ وافر عطا فر ما یا ہے ۔ جو میرؔ کے کلام کا مرکزی عنصر ہے۔…….بلکہ یہ کہئے کہ میر کی شاعری میں درد کا عنصر ہے اور آپ کے درد میں شاعری کا عنصر ہے…….. آپ جیسے اہل دل اور اہل درد مل جاتے ہیں تو ان اصطلاحات کو مجسم محسوس کرنے لگتا ہوں
ضیاء الحق خیرآبادی