مولانا وحید الدین خان کی تفسیر تذکیر القرآن کی موشگافیاں
کسی عالم کی تفسیر پڑھنا ، اس کا مافی الضمیر سمجھنا اور اس کے افکار و نظریات کی نہج کو جاننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ، اور یہ کام ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے ، بیسویں صدی عیسوی میں سیکڑوں تفاسیر لکھے گئے اور آج بھی لکھے جاتے ہیں ، مگر عموماً قارئین ان تفاسیر کے ذریعے قرآن سے قریب آنے کے بجائے اس سے دور ہی ہوتے چلے جاتے ہیں ، چنانچہ اس وقت مولانا وحید الدین خان صاحب کی تفسیر ” تذکیر القرآن ” زیر نظر ہے اور یہ تفسیر اردو زبان و ادب اور عصری اسلوب کے اعتبار سے ایک شہکار ہے ، مگر حقیقی تفسیر کے اعتبار سے اس میں علمی خیانت و بد دیانتی اور تفسیر بالرائے سے بھر پور طریقہ سے کام لیا گیا ہے ، چنانچہ آج اسی تفسیر کے حوالے سے ایک مختصر مضمون آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ، امید ہے کہ آپ کو اس تفسیر کا احتیاط سے مطالعہ کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا ، اور آپ خان صاحب کے بعض گمراہ کن افکار و نظریات سے بچ سکیں ۔
لیکن خیال رہے سطحی اور بے معنی کمنٹوں کو فی الفور ڈلیٹ کر دیا جائے گا ۔
مولانا وحید الدین خان صاحب کی تفسیر ” تذکیر القرآن ” کو میں نے اتنی کثرت سے پڑھا ہے کہ شاید خود خان صاحب نے بھی اپنی اس تفسیر کو اتنی کثرت سے نہیں پڑھا ہو گا ، اس تفسیر میں مجھے صرف ترجمه قرآن پسند ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب ایک بہترین قلمکار اور زبان و ادب پر غیر معمولی عبور و دسترس رکھنے والے ادیب ہیں اور ان کے ترجمه قرآن کے اعتراف کے حوالے سے بہت پہلےعلی گڑھ سے شائع ہونے والے ایک رسالہ (غالبَا اس کا نام فکر امروز تھا یہ رسالہ آج بھی میرے پاس موجود ہے ، مگر تلاش کرنا مشکل ہے ، چنانچہ اس ) میں ایک مضمون شائع ہوا تھا اور جس میں تقابل کے طور پر خان صاحب کے ترجمه کو زیادہ جامع اور قرآن کے قریب تر بتایا گیا تھا ، اور میرے نزدیک بھی یہ بات صحیح ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ترجمه کو پڑھنے کے دوران اکثر مجھے محمد علی لاہوری مرزائی کا ترجمه و تفسیر ” بیان القرآن ” یاد آتا تھا ، کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ خان صاحب نے ترجمه قرآن کے وقت سب سے زیادہ استفادہ اسی ترجمه و تفسیر سے کیا ہو گا۔
لیکن جہاں تک تفسیر کا تعلق ہے تو حقیقی معنوں میں اس کا تفسیر قرآن سے بیس پچیس فیصد کا بھی تعلق نہیں ہے اور اکثر جگہوں پر یا تو اپنے خیالات کو زبردستی تفسیر میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور یا پھر جن علماء سے ان کو رقابت یا عداوت رہی ہے ، ان پر غیر ضروری تنقید کو بھی شامل تفسیر کیا گیا ہے ، اس لئے میرے نزدیک خان صاحب کی یہ تفسیر ، زیادہ تر ” تفسیر بالرائے ” کے دائرے میں آتی ہے ، تاہم اگرچہ میں نے اس تفسیر کی تنقید میں کافی کچھ لکھ رکھا ہے ، مگر عدیم الفرصت ہونے کی وجہ سے میرا یہ کام التوا میں پڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ بات تقریبًا سب جانتے ہیں ، بلکہ مولانا خان صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ میں بغیر ثبوت کے بات نہیں کرتا اور کرنی بھی نہیں چاہئے ۔ اس لئے اس وقت میں خان صاحب کی تفسیر بالرائے کا ایک نمونہ پیش کرنا چاہوں گا ۔ جیساکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ خان صاحب مولانا سید مودودی اور جماعت اسلامی کے بارے میں اپنی مخالفت میں کوئی موقع نہیں چھوڑ تے ہیں اور یہی طریقہ انھوں نے اپنی تفسیر ” تذکیر القرآن ” میں بھی اپنایا ہے ۔ مثال کے طور پر سورة الاعراف آیت 19 تا 21 میں سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی سیدہ حوا علیہا السلام کے حوالے سے شجرہ ممنوعہ کا ذکر آیا ہے اور یہاں پر مولانا سید مودودی یا ان کی جماعت کی طرف تنقيدى رخ اختیار کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا مگر خان صاحب نے اپنی شاطر دماغی کا بھر پور فائدہ اٹھا کر یہاں پر بھی بغیر نام لئے مولانا سید مودودی اور ان کی جماعت کو ہدف تنقید و ملامت بنایا ہے ، جیساکہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں
کسی کے پاس اپنے مخالف کو زیر کرنے کے کا قابل عمل طریقہ موجود ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو مستحکم بنائے مگر شیطان اس کے کان میں ڈالے گا کہ تمہارے لئے اپنے مخالف کو شکست دینے کا سب سے زیادہ کار گر طریقہ یہ ہے کہ اس کے خلاف تخریبی کار روائیاں شروع کردو ، کسی کے لئے ” اپنی تعمیر آپ ” کے میدان میں کام کر نے کے لئے بیشمار مواقع کھلے ہوئے ہوں گے ، مگر وہ سکھائے گا کہ دوسروں کے خلاف احتجاج اور مطالبہ کا طوفان برپا کرنا اپنے کو کامیابی کی طرف لے جانے کا سب سے زیادہ قریبی راستہ ہے ۔ کسی کے سامنے حکومت وقت سے تصادم کئے بغیر بیشمار دینی کام کرنے کے لئے موجود ہوں گے مگر وہ اس کو اس غلط فہمی میں ڈالے گا کہ غیر اسلامی حکمرانوں کو اگر کسی نہ کسی طرح پھانسی پر جڑھا دیا جائے یا ان کو گولی مار کر ختم کر دیا جائے تو اس کے بعد آنًا فانَا اسلام كا مکمل نظام سارے ملک میں قائم ہوجائے گا وغیرہ “
تذکیر القرآن _ص 362-363
اس اقتباس کو غور سے دیکھئیے ! کہاں قصہ آدم و حوا اور کہاں دور ایوبی اور علی بٹھو کی پھانسی کا معاملہ، گولی مار نے اور نظام اسلامی کے لئے جدو جہد کا مزاق اڑانے وغیرہ کی واہیات باتیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تفسیر قرآن ہے ؟ ہرگز نہیں ، لیکن اگر دیکھا جائے تو تحریف قرآن کی یہ بد ترین مثال ہے اور بلاشبہ اس طرح کے خرافات زیادہ تر قادیانیوں کی تفاسیر میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی اس طرح کی گمراہ کن روش سے حفاظت فرمائے ۔
غلام بنی کشافی سرینگر