فتویٰ نویسی کے رہنما اصول

فتویٰ نویسی کے رہنما اصول

فتویٰ نویسی کے رہنما اصول
نکات: مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ
تحریر: محمد فائق، فاضل و متخصص جامعہ دارالعلوم کراچی

چند سال قبل جب میرا داخلہ تخصص فی الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی میں محض اللہ کے فضل سے ہوا تو ابتداء میں فتویٰ کی تمرین میں ایک مشکل ہر وقت درپیش رہی کہ جب بھی رفقائے مصلحین کی خدمت میں فتویٰ رکھتا تو کٹ کٹا کر ہی سامنے آتا، اور صرف یہی نہیں بلکہ تقریبا ہر فتوے میں لکھا ہوتا تھا کہ “تبویب دیکھ کر جواب لکھا کریں”!
تبویب در اصل دار الافتاء جامعۃ دار العلوم کراچی کا ایک ایسا قیمتی ذخیرہ ہے جس میں اکابر کے خود نویشتہ کے ساتھ ساتھ، اکابر کی تصدیق سے جاری ہونے والے فتاویٰ بھی محفوظ ہیں۔ چنانچہ فتویٰ نویسی میں تبویب سے استفادہ ناگزیر ہے۔

ہوا یوں کہ بندے کو اس بات کی فکر رہتی تھی کہ اگر تبویب سے دیکھ دیکھ کر فتوے لکھتے رہے تو استعداد کیسے بنے گی؟! اِدھر حال یہ تھا کہ فتوے مجروح حالت میں سامنے آتے اور اساتذہ تبویب سے جواب تحریر کرنے کا فرماتے۔

ایک روز جب بے چینی بڑھی تو استاذ مکرم مفتی محمود اشرف صاحب رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں روداد چمن پیش کردی اور یہ کڑھن بھی عرض کردی کہ دیکھ دیکھ کر لکھیں گے تو استعداد تو کبھی نہیں بنے گی، بس ناقل بن جائیں گے۔

تو جناب استاذ مکرم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عمدہ تطبیقی صورت پیش فرمائی جسے نقل کرنے سے شاید میرے جیسے کسی طالب علم کو فائدہ ہوجاۓ۔ فرمایا کہ:
“جب بھی استفتاء (سوال) ملے سب سے پہلے اسے تین عربی کتب (مراد فقہی کتبِ فتاوی تھے) میں تلاش کرلیں، اس کے بعد تین مستند اُردو فتاوی میں پڑھ لیں، پھر اپنی تعبیر اُردو فتاوی اور فقہی کتب کے مجموعہ کی روشنی میں تیار کر لیں۔ اس مرحلہ کے بعد تبویب میں اس نوعیت کے فتوے اگر پہلے سے جاری ہوچکے ہوں تو ان میں سے کسی تصدیق شدہ فتوے کو سامنے رکھ لیں اور پھر موازنہ کریں کہ میری تحریر اور جاری شدہ فتوے میں کیا فرق ہے۔ تصدیق شدہ فتوے سے ہوسکتا ہے آپ کو اپنی تعبیر میں کسی جگہ کوئی قید چھوٹی ہوئی ملے یا کوئی اہم شرط جو ضروری تھی وہ نہ لگائی ہو، تو ان قیود اور شرائط کو اپنی تحریر میں شامل کرلیں۔ اس طرح آپ کو جو استعداد بنانا مطلوب ہے وہ مقصد بھی حاصل ہوجائے گا اور اساتذہ کو بھی آپ سے شکایت نہیں رہے گی”۔

اس کے علاوہ استاذ مکرم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک دو اہم تجویز اور بھی بتلائی تھیں وہ بھی عرض کیے دیتا ہوں:

عربی کتب فتاویٰ میں جس باب سے متعلق مسئلہ (استفتاء) ہو، وہ باب مکمل پڑھیں، کیونکہ بسا اوقات فقہائے کرام قیود کو متفرق ذکر فرماتے ہیں، کبھی باب کے ابتداء میں کبھی درمیان میں، کبھی آخر میں، وہ ضروری نہیں کہ مسئلہ کے ساتھ ہی ہوں، مگر وہ شرائط اہم ہوتی ہیں۔

جب استفتاء کے جواب میں فقہی جزئیہ اور عبارت مل جائے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر ذرا غور کریں کہ آخر یہ بات قرآن و حدیث میں کہاں جاکر لوٹتی ہے، کیونکہ فقہائے کرام کا مرجع بھی قرآن و حدیث ہی ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *