نام کتاب: تخلیق آدم اور نظریۂ ارتقاء جدید فکریات کے تناظر میں
شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی اپنے مشہور خطبات (Reconstrution of Religious Thought in Islam)میں قرآنی قصوں کی غلط تفہیم وتعبیرکی ہے اور اس سلسلے میں عقائدِ حقہ سے اعراض کیا ہے۔وہ قرآن میں مذکور حضرت آدم اور حضرت حواء کے قصے کو رمز واشارہ مانتے ہیں اور اسے اساطیر (Mythology) کے زمرے میں رکھتے ہیں۔
انھوں نے لکھا ہے: ’’ہم اپنی پریشانی کو صحیح طور سے سمجھنے کا ایک اظہار اس قصے میں پاتے ہیں جسے انسان کے سقوط کی کہانی کہا جاتا ہے۔ قرآن نے اسے نقل کرتے ہوئے اس سے جڑے کچھ قدیم رموز کو باقی رکھا ہے، مگر پھر اس میں نمایاں ردّوبدل کردیا ہے تاکہ اب یہ کہانی ایک نیا معنی عطا کرے جو اس کے پچھلے معنی سے مکمل طور سے مختلف ہو۔ قرآن کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ قصے کہانیوں میں جزوی اور کلی تبدیلیاں لاکر ان میں نئے معانی پیدا کردیتا ہے اور یوں ان قصے کہانیوںں کو زمانے کی رفتار اور روح سے ہم آہنگ بنادیتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے مسلم وغیر مسلم تمام اسکالرس نے تقریباً دائمی طور سے نظر انداز کیا ہے۔ایسے قصص پیش کرنے کا مقصد قرآن میں شاذ ونادر ہی تاریخ کا بیان ہے۔ تقریباً ہر جگہ قرآن کا ہدف یہ ہے کہ قصے سے کوئی عام سبق یا کوئی فلسفیانہ مضمون ادا ہوجائے۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ گاہے لوگوں اور جگہوں کے ناموں کو بھی حذف کر دیتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے وہ قصہ تاریخی واقعے کی حدودِ اربعہ سے باہر نہیں نکل پائے گا۔‘‘
’’اسی طرح قرآن ایسے قصے سے وہ تفصیلات بھی حذف کر دیتا ہے جو کسی دوسرے احساس وشعور کی طرف لے جاسکتی ہیں۔ ویسے قصص وحکایات کی پیش کش میں یہ اسلوب کوئی غیر مانوس یا اجنبی نہیں ہے۔غیر دینی موضوعات پر جو ادب تیار ہوا ہے اس میں یہ اسلوب بہ کثرت استعمال ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر فاؤسٹ کا قصہ ہے جس میں گوئٹے کی عبقریت نے بالکل ہی نیا معنی پیدا کر دیا ہے۔”
“اب ہم آدم کے جنت سے ہبوط کے قصے کو لیتے ہیں۔ یہ قصہ دنیا کی مختلف اقوام کے یہاں الگ الگ شکلوں میں پایا جاتا ہے۔یہ بات سچ مچ محال ہے کہ ہم اس قصے کے ارتقائی ادوار کی نشاندہی کر سکیں۔اور نہ یہی ممکن ہے کہ ہم پوری وضاحت کے ساتھ وہ مختلف انسانی محرکات بیان کر پائیں جنھوں نے لازماً الگ الگ زمانوں میں اس قصے پر اثر ڈالا ہے اور سست رفتاری کے ساتھ اس میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔لیکن اگر ہم قصے کی اس صورت تک اپنی بحث کا دائرہ محدود رکھیں جو سامی اقوام کے یہاں ملتی ہے تب بھی راجح یہی ہے کہ یہ قصہ دراصل ابتدائی انسانی نسلوں کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ اپنی انتہائی لاچاری اور کسمپرسی کی کوئی تاویل وتوجیہ کرنا چاہتے تھے۔ ایک ناموافق ماحول میں اپنی بدحالی کا سبب جاننا چاہتے تھے۔ وہی ماحول جو انسانوں پرموت اور مرض لاتا ہے اور زندگی باقی رکھنے کی جدوجہد میں ہر پہلو سے اس کے آڑے آتا ہے۔”
“چونکہ انسان کو قدرتی طاقتوں پر کنٹرول حاصل نہیں تھا، اس لیے زندگی کے تئیں اس کا نقطۂ نظر قدرتی طور سے نحوست آمیز اور سوداوی رہا ہے۔اسی لیے ہم قدیم بابلی نقش ونگار میں ایک اژدہا پاتے ہیں جو آلۂ تناسل کا رمز تھا، اور پیڑ پاتے ہیں، اور وہ عورت پاتے ہیں جو مرد کو ایک سیب دیتی ہے جو کہ بکارت (Virginity)کا رمز ہے۔ اس کہانی کا مطلب واضح ہے کہ سعادت کے مفروضہ حالات سے نکلنے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ آدمی گندگی میں گر گیا اور اس گندگی کا سبب وہ جنسی ملاپ ہے جو مرد وعورت کے درمیان پہلی مرتبہ قائم ہوا تھا۔ اس قصے کی پیشکش میں قرآنی اسلوب کا اظہار اس وقت بھی ہوتا ہے جب ہم اس کا موازنہ کتاب پیدائش میں اس کی تفصیلات سے کرتے ہیں۔تورات کی روایت میں جو اختلافی نقاط ملتے ہیں وہ صاف اشارہ کررہے ہیں کہ اس قصے کو پیش کرنے کا قرآنی مقصد کیا ہے۔‘‘
[But the clue to a better understanding of our difficulty is given in the legend relating to what is called the Fall of Man. In this legend the Quran partly retains tha ancient symbols, but the legend is materially transformed with a view to put an entirely fresh meaning into it. The Quranic method of complete or partial transformation of legends in order to besoul them with new ideas, and thus to adapt them to the advancing sprit of time, is an imprtant point which has nearly always been overlooked both by muslim and non muslim students of Islam. The object of the Quran in dealing with these legends is seldom historical. it nearly always aims at giving them a universal moral or philosophical Import. And it acheives this object by omitting the names of persons and localities which tend to limit the meaning of a legend by giving it the colour of a specific historical event, and also by deleting details which appear to belong to different order of feeling. This is not an uncommon method of dealing with legends. It is common in non religious literature. An instance in point is the legend of Faust to which the touch of Goethe’s genius has given a wholley new meaning. Turning to the legend of the Fall we find it in a variety of forms in the literature of the ancient world. It is, indeed, impossible to demarcate the stages of its growth, and to set out clearly the various human motives which must have worked in its slow transformation. But confining ourselves to the Semitic form of the myth, it is highly probable that it arose out of the primitive man’s desire to explain to himself the infinite misery of his plight in an uncongenial environment which abounded in disease and death and obstructed him on all sides in his endeavour to maintain himself. Having no control over the forces of nature, a pessimstic view of life was perfectly natural to him. Thus in an old Babylonian inscription, we find the serpent (phallic symbol), the tree, and the woman offering an apple (symbol of virginity) to the man. The meaning of the myth is clear, the fall of man from a supposed state of bliss was due to the original sexual act of the human pair. The way in which the Quran handles this legend becomes clear when we compare it with the narration of the Book of Genesis. The remarkabale points of difference between the Quranic and the Biblical narrations suggest unmistakabaly the purpose of the Quranic narration.](ریکنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ ان اسلام[تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ]،ڈاکٹر محمد اقبال:ص۵۱)
اس کے بعد انھوں نے قرآن اور بائبل کی کتاب پیدائش (Genesis) میں ہبوطِ آدم کے قصے کا موازنہ کرکے اختلافی نقاط بیان کیے ہیں، بعد ازاں فرماتے ہیں:’’اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں حضرت آدم کے نزول (Descension)کا قصہ جیسا کچھ بیان ہوا ہے اس کا کوئی تعلق اس مسئلے سے نہیں ہے کہ اس کوکبِ خاکی پر پہلے انسان کا ظہور کیسے ہوا۔اس قرآنی قصے سے ترجیحی طور پر بس یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کیسے انسان نے جبلی وشہوانی جذبات سے اوپراٹھ کر یہ احساس کرنا شروع کیا تھا کہ اس کی خودی آزاد ہے اوروہ شک کرنے اور نافرمانی کرنے کی صلاحیت وقدرت اپنے اندر رکھتا ہے۔ہبوط کا مطلب اخلاقی فساد نہیں ہے، بلکہ یہ عبارت ہے اس حقیقت سے کہ انسان سادہ احساس وشعور کے تنگ نائے سے نکل کر پہلی بار احساسِ خودی کی روشنی سے متعارف ہوا۔ یہ فطرت کے خواب سے ایک نوع کی بیداری ہے جسے شعور کی ایک کروٹ نے ابھار دیا اور نوعِ انساں کو احساس ہوا کہ اس کا کوئی تعلق ہے جس پر اس کے وجود کا دارومدار ہے۔
‘‘[Thus we see that the Quranic legend of the fall has nothing to do with the first appearance of man on this planet. its purpose is rather to indicate man;s rise from a primitive state of instinctive appetite to the concious possession of a free self, capable of doubt and disobedience. the Fall does not mean any moral depravity, it is man’s transition from simple consciousness to tha first flash of self consciousness, a kind of waking from the dream of nature with a throb of personal causality in one’s own being.](ریکنسٹرکش آف ریلیجیس تھاٹ ان اسلام:ص۵۲)
قصۂ آدم کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد اقبال کی ان باتوں کو پڑھنے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ ان میں قرآنی تفسیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔یہ محض پریشاں خیالات وافکار ہیں جو ان کے دل میں آئے اور انھوں نے رمز واشارے کا نام دے کر انھیں قرآنی افکار کی حیثیت سے پیش کردیا۔ ان باتوں میں اور قرآنی بیانات میں سرے سے کوئی تعلق پایا ہی نہیں جاتا۔
انھوں نے جن اصولوں کو وضع کرکے قرآن سمجھنے کی کوشش کی ہے چونکہ وہ غلط ہیں اس لیے نتائج بھی غلط ہی برآمد ہوئے۔قرآن کے مطابق حضرت آدم پہلے انسان ہیں اور ان کے اور ان کی بیوی کے ملاپ سے نسلِ انسانی بڑھی ہے۔ مگر ڈاکٹر محمد اقبال نے اس حقیقت کی بالکلیہ نفی کی ہے۔حضرت آدم نے رب کا حکم نہ مان کر جو غلطی کی تھی، وہ اقبال کی نگاہ میں انتخاب واختیار کی آزادی تھی۔قرآن کے مطابق حضرت آدم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مغفرت ورحمت کے طالب ہوئے، مگر اقبال کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ نے توبہ یوں قبول کی کہ انھیں اختیار وانتخاب کی آزادی بخش دی۔ یہ افکار وتصورات بالکلیہ غیر اسلامی ہیں، انھیں قرآن کے نام پر پیش کرنے کی کوشش کرنا فی نفسہ اللہ کے مقابلے میں جرأت وجسارت کی بات ہے۔ یہ بھی ان انحرافات میں شامل ہیں جنھیں تفسیر کے نام پر دورِ جدید میں عام مسلمانوں کے اندر پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہم یہاں شاعرِ مشرق کی ذاتیات پر بات نہیں کر رہے ہیں اور نہ ان کے عقائد اور اخروی انجام کے بارے میں لب کشائی کی ہمت وجرأت رکھتے ہیں۔ تاہم جب تک ان کے فلسفیانہ خطبات کا یہ مجموعہ موجود ہے، چھپ رہا ہے، پھیل رہا ہے اور ہر انحراف پسند اس کی اوٹ میں اپنی ضلالت کو سندِ جواز بخش رہا ہے، تب تک اس مجموعۂ خطبات کے مندرجات پر نقد کیا جاتا رہے گا۔ اقبال کا احترام بجا ہے، مگر حق کا پاس و لحاظ اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اقبال ہمیں عزیز ہیں، مگر اسلام عزیز تر ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔