Web Analytics Made Easy -
StatCounter

ایمان کی تجدید

ایمان کی تجدید

ایمان کی تجدید

نام کتاب: ایمان کی تجدید

مصنف: شیخ عبدالرزاق عبد المحسن البدر

مترجم: ذکی الرحمٰن غازی مدنی

دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہر بندۂ خدا کے لیے سب سے اہم اور توجہ طلب اور لائقِ اہتمام مسئلہ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ ذریتِ آدمؑ کو ایمان سے بڑھ کر قیمتی کوئی دولت وصول نہیں ہوئی۔ قلبِ انسانی نے اس سے عظیم کوئی سعادت نہیں پائی۔ ایمان کی وجہ سے بندہ دنیا اور آخرت میں بزرگی اور بڑائی سے ہم کنار ہوتا ہے،بلکہ اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی اور کامرانی ہمارے ایمان کی درستی اور پختگی پر ہی موقوف ومنحصرہے۔

ایسے میں ہر بندۂ مومن جسے اپنی فکر ہے اور وہ اپنا خیر خواہ ہے، اس کے لیے لازم ولابد ہے کہ ہمہ آن اپنے ایمان کا جائزہ لیتا رہے اور اپنے ایمانی شعور کی پختگی وبالیدگی کے لیے کوشاں ومصروف رہے۔ اسے بار بار دیکھتے رہنا چاہیے کہ آیا اس کا ایمان نمو پذیر اور روز افزوں ہے کہ نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی ایمانی حس مفلوج ہوگئی ہے اور وہ ایمانی ضعف وناتوانی اور نقص ونارسائی کا شکار ہوگیا ہے؟ ہربندۂ حق کو شدید ضرورت ہے کہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر موقعے پر اپنے ایمان کی تجدید وتزئین کرتا رہے۔ اس کی تکمیل واتمام کے لیے ہر ممکن سعی وجہد کرے اور اسے کم یا ختم کر دینے والی چیزوں اور خطروں سے پوری طرح ہوشیار اور خبردار ہوجائے۔

Iman Ki Tajdeed

اسے اپنے ایمان کی قوت وصلابت اورصحت وسلامتی کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے کیونکہ ایمانی شعور پر مختلف احوال وکوائف وارد ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا کی فتنہ پردازیاں اور تباہ کاریاں اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایمانی شعور شل اور ایمانی احساس کمزور ہوجاتا ہے۔ شیطانی وساوس واوہام، برے اصحاب ورفقاء، شرپسند ہم نشیں وہم نوا، برائیوں پر ہمہ دم اُکسانے والا نفسِ امارہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے امور وعوامل ہیں جن کی وجہ سے بندۂ مومن کا ایمان مضمحل اور کمزور ہوجاتا ہے اور اس وقت اسے شدیداحتیاج ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید واصلاح کرے اور اسے ازسرِنوتازہ وتابندہ اور مضبوط وتوانا بنائے اور اس کی خاطر کوئی پتھر الٹائے بغیر نہ چھوڑے۔

امام حاکمؒ نے ’’مستدرک‘‘ میں اور امام طبرانیؒ نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن العاص کی ایک روایت نقل کی ہے جسے علامہ البانیؒ نے اپنی تحقیق سے درست قرار دیا ہے۔حضرت عبدؓاللہ بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: ’’بے شک تمہارے ایمان پر بھی اسی طرح کہنگی اور بوسیدگی طاری ہوجاتی ہے جیسے کپڑا بوسیدہ اور پرانا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ سے دعا کرو کہ تمہارے دلوں میں ایمان تازہ کرتا رہے۔‘‘[إنَّ الإِیْمانَ لَیَخْلَقُ فِیْ جَوْفِ أَحَدِکُمْ کَمَا یَخْلَقُ الثَّوْبُ فَاسْأَلُوا اللّٰہَ أَنْ یُجَدِّدَ الْإیْمَانَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ] (مستدرک حاکمؒ:۱/۴۔ المعجم الکبیر:۱۳/۳۶۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃؒ: ۱۵۸۵)

اس حدیثِ پاک میں ایمان کے سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کبھی کبھی کپڑے کی مانند میلا، کمزور اور بوسیدہ ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس میں نقاہت پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی جن گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے ان کی نحوست سے ایمان میں نقص اور خلل در آتا ہے۔ اسی طرح زندگی کی رنگینی،دلفریبی اور آرائش وزیبائش میں مشغول ہو کر وہ اپنے ایمانی سرچشمۂ قوت سے دور ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دنیا کے شرور وفتن میں پھنس کر اس کے ایمان کی تازگی، زندگی اور توانائی مدھم یا بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی رعنائی وربرنائی پرگہن طاری ہوجاتا ہے اور اس کی رونق وشوکت مٹ جاتی ہے۔

اس خطرے سے خبردار کرتے ہوئے اللہ کے نبیﷺ نے اپنی امت کو بتایا ہے کہ دل میں ایمان کی نمو وافزائش اور ہمہ وقت اس کی آب سیری وتخم ریزی بے حد ناگزیر ہے اور اس کی خاطر درگاہِ خداوندی میں گریہ وزاری کے ساتھ دستِ سوال دراز کرنا چاہیے۔ آپﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ اللہ سے دعائیں مانگو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کو تازہ وتابندہ رکھے۔تازگیِ ایمان کی خاطر ضروری ہے کہ بندہ صدقِ دل سے ربِ کریم کی جانب لوٹے اور مکمل عاجزی اور فروتنی سے بارگاہِ رب میں عرضِ مدعا کرے اور ایمانی افزائش اور بالیدگی کا طلبگار ہو۔ وہ بارگاہِ قدس میں فریاد کناں ہو کہ اس کا ایمان تازہ اور اُجلاکر دیا جائے اور ضمیر وجدان کی گہرائیوں میں کھبا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہرطالبِ صادق بندے کی مراد لامحالہ پوری کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{یُثَبِّتُ اللّہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّہُ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّہُ مَا یَشَائ}(ابراہیم،۲۷) ’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے کہ جو چاہے کرے۔‘‘

اس مقصد کے لیے نفس کا احتساب اور روحانی مجاہدہ ناگزیر ہے۔اپنی طبیعت اور مذاق کو حق کا پابند ودست نگربنانے اور اپنی انانیت اور خودرائی کو حق کے آگے سرنگوں کردینے کی ادا جب تک نہ آئے تب تک ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ } (عنکبوت،۶۹)’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اطمینان دلارہا ہے کہ تم میں سے جو بھی اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ قدم آگے بڑھائے گا، اسے اللہ تعالیٰ بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا، بلکہ وہ اس کی دست گیری ورہنمائی فرمائے گا اور اپنے تک پہنچانے والی راہیں اس کے لیے کھول دے گا۔ وہ قدم قدم پر بندے کو بتائے گا کہ میری خوشنودی تم کس طرح حاصل کر سکتے ہو۔ زندگی کے ہر ہر موڑ پر اسے روشنی دکھائے گا کہ راہِ راست کدھر ہے اور غلط راستہ کونسا ہے۔ یعنی بندے میں جس قدر نیک نیتی، خیر طلبی اور ایمان کو لے کر فکرمندی اور حساسیت ہوتی ہے اتنا ہی اللہ کی مدد اور توفیق اور ہدایت بھی اس کے ہم رکاب ہوجاتی ہے۔

ایمان جیسی متاعِ بے بہا پر ڈاکہ ڈالنے والے بہت سے شیاطینِ جن وانس اس دنیا میں موجود ہیں اور مصروفِ کارہیں اور حق تعالیٰ شانہ نے اپنی حکمت کے تحت اور بندوں کو آزمانے کے مقصد سے ایسے شوریدہ سروں اور فتنہ پردازوں کو اپنی شرارتیں اور خباثتیں پھیلانے کی پوری آزادی بھی یہاں بخشی ہوئی ہے۔ ایسے میں بہت ضروری ہوجاتاہے کہ بندۂ مومن ایسے فتنوں اور بہکاووں سے پوری طرح ہوشیار وخبردار رہے، بالخصوص اس زمانے میں جب کہ فتنوں کا سیلاب امڈا چلا آرہا ہے اور برائیاں ہر باندھ توڑ کر بے لگام ہوا چاہتی ہیں اور اچھے اچھے لوگوں کو بھی ایمان ویقین کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ایمان کی کمزوری وناتوانی کا نوحہ ہر زبان پر ہے؛ توایسے زمانے میں اس احتیاط کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔اب خطرہ صرف ان خرابیوں کا نہیں رہ گیا ہے جو بندے کا ایمان زیروزبر کر ڈالتی ہیں، بر وقت جو فتنے اورابلیسی ہتھکنڈے عام ہیں وہ پوری طرح انسان کو بے دینی اور الحاد کی دلدل میں ڈال دیتے ہیں اور ایمان ویقین کی اعلیٰ کیفیت پر شنجون مارتے ہوئے بندے کو زمرۂ کفار ومشرکین میں داخل کر دیتے ہیں۔

اس کائناتِ رنگ وبو میں ہر بندے کے لیے عزیزترین شے اس کا ایمان ہونا چاہیے۔ یہی دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ اور خزانہ ہے۔ جو اس سے محروم رہا اس نے گویا اپنا مقصدِ وجود کھو دیا اور عرصۂ زیست کی حقیقت وغایت سے بے خبر ہوگیا۔ ایمان سے خالی زندگی سرتاپا لعنت ہے۔ زندگی کی حقیقی لذت اور آسودگی ایمان ہی سے ممکن ہے۔ ورنہ محض دو پیروں پر چلنا، ہاتھوں سے چیزیں پکڑ لینااور زبان سے کچھ اناپ شناپ بک دینا جانوروں والی زندگی ہے۔ ایمان نہ ہوا تو ہم بہ حیثیتِ انسان جو عمل بھی یہاں کرتے ہیں، وہی عمل تھوڑے نچلے درجے میں اور قدرے غیر مہذب انداز میں مختلف حیوانات بھی کرتے ہیں۔ اگر انہی کاموں کے لیے انسان جیا تو اس میں اور جانوروں میں فرق کیا ہوا؟

سچی زندگی وہی ہے جو اللہ عز وجل کی عبادت وطاعت میں بسر ہو۔ جو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی سنت وسیرت کے مطابق گزرے۔ مومن کے لیے اس کا ایمان ہی زندگی ہے، اگر یہ نہ ہوا تو اس کا جینا اور مرنا؛دونوں برابر ہے۔ زندگی، بے بندگی محض تاسف اورشرمندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَجِیْبُواْ لِلّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَحُولُ بَیْْنَ الْمَرْء ِ وَقَلْبِہِ وَأَنَّہُ إِلَیْْہِ تُحْشَرُون}(انفال،۲۴)’’اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔‘‘

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *