Web Analytics Made Easy -
StatCounter

سیدنا عمر فاروق

سیدنا عمر فاروق

نام کتاب: “امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
مقدمۂ کتاب

ہمارا دین، دینِ اسلام ایک امانت ہے جسے حق تعالیٰ کی جناب سے برگزیدہ فرشتے حضرت جبریلِ امین لائے اور رسولِ امینﷺ کے سینۂ مبارک میں ودیعت فرمایا۔ رسولِ امینﷺ نے یہ امانت اپنے اصحابؓ وتلامذہ کے سپرد کی اور ان کی امانت ودیانت پر کامل اعتماد کیا اور اس لیے اعتماد کیا کہ حق تعالیٰ جو خالق ومالک اور علیم وخبیر ہے، اس نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے جانچ کر اپنی دائمی رضامندی کا اعلان کر دیا ہے۔

صحابۂ کرامؓ نے دین کی یہ امانت جیسی انھیں ملی تھی بعینہ بعد والوں تک پہنچادی ہے۔ صدیاں گزر گئیں اور وہ دین جسے حضراتِ صحابہؓ نے رسول اللہﷺ سے حاصل کرکے دنیا میں پھیلایا تھا آج بھی تروتازہ حالت میں موجود ہے۔

رسول اکرمﷺ کے بعد دنیائے انسانیت اور امتِ محمدیہ پر سب سے بڑا احسان انھی حضرات کا ہے۔ اگر کوئی شخص یا گروہ صحابۂ کرامؓ کی خردہ گیری یا عیب چینی کرتا ہے یا صحابۂ کرامؓ کی تخفیف وتضحیک کا ذہن بناتا ہے تو وہ درپردہ دین کی بنیادیں کھودنے کا کام کر رہا ہے، پھر چاہے وہ زبان سے دین کی سربلندی کا دعویٰ اور نفاذِ اسلام کا نعرہ کیوں نہ بلند کرے۔

Amir ul Momineen Syedna Umar Farooq

ادھر کچھ عرصے سے غالباً ایک پلاننگ کے تحت مسلمانوں میں سے کچھ لوگ کھڑے کیے جارہے ہیں جو صحابۂ کرامؓ کے بارے میں بدگوئی کرتے ہیں اور انھیں درباری خوشامدی اور حکمراں طبقے کا غلام کہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کے پاس ان باتوں کے حق میں کوئی دلیل یا ثبوت موجود ہے۔ ان کا محرک بس وہ پوشیدہ ذاتی مفادات واغراض ہیں جو دشمنانِ دین ان کے لیے پورے کر رہے ہیں۔ ایسے منافقین کا نشانہ یہ ہے کہ امت کو جماعتِ صحابہؓ کی طرف سے بد ظن اور مشکوک کرکے اسے اس کی قوت وطاقت اور حوصلے اور ہمت کے ایک بنیادی سرچشمے سے محروم کردیا جائے۔

صحابۂ کرامؓ کا تذکرۂ خیر جہاں بجائے خود ایک بڑی نعمت اور سعادت ہے، وہیں امت کی ایک اہم بنیادی ضرورت بھی ہے۔یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم قرنِ اول کے مسلم معاشرے کو مثالی اور آئیڈیل تسلیم کرتے ہیں اور دین کے اس فہم اور تصور کو معتبر جانتے اور مانتے ہیں جو صحابۂ کرامؓ نے نبیِ اکرمﷺ کی راست نگرانی میں قرآن وسنت سے اخذ کیا تھا۔ یہ اعتراف افراط وتفریط کے شکار مسلم فرقوں میں امت کے سوادِ اعظم اہلِ سنت والجماعت کا مابہ الامتیاز وصف ہے۔

حق تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب اور اس کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے دینِ اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس وعدے کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس کتاب اور اس کی شرح وتفسیر اور تشکیل وتکمیل کے جتنے عناصر واسباب ہیں ان سب کی حفاظت کی جائے تاکہ قرآن بھی محفوظ رہے اور اس کے لانے والے پیغمبر کے حالات، ان کے ارشادات وفرمودات بھی محفوظ رہیں اور ان کے اخلاق وسیرت کے جلوے بھی روشن اور نمایاں رہیں اور یہ کہ ان میں کسی طرح کے تغیر وتبدل کو راہ نہ ملے۔ اس اہم اور نازک کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓ کی شکل میں ایسے مردانِ کار تیار کیے جنھوں نے اللہ کے رسولﷺ کا لفظ لفظ یاد رکھا اور اسے بعد والوں تک پہنچایا۔ انھوں نے آپﷺ کی سیرت کو اپنے اندر جذب کیا اور بعد والوں کے لیے نشانِ راہ اورنمونۂ ہدایت بنے۔

ہدایت کی راہ بتانے کا سب سے آسان ذریعہ یہی ہے کہ جولوگ اس راہ پر چلے ہیں ان کا اور ان کے طریقۂ عمل کا تعارف کرادیا جائے۔ اسی لیے قرآنِ کریم میں صالحین کا تذکرہ بہ کثرت کیا گیا ہے اور اسی لیے ہر دور میں علمائے حق نے حضراتِ صحابہؓ کے تذکرے کو زندہ رکھا ہے اور نت نئے انداز میں ان کے احوال وسوانح مرتب ومدوّن کرنے اور ان کی عظمتوں کے پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔

ماہتابِ رسالتؐ کے جاں نثار ستاروں کے جھرمٹ میں حضرت عمرؓ فاروق سے کون مسلمان واقف نہیں ہوگا؟ خلیفۂ راشد حضرت ابوبکرؓ صدیق کے بعد امت کے افضل ترین فرد آپ ہیں۔ جن دس صحابۂ کرامؓ کو دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی بشارت سنا دی گئی تھی ان میں آپ شامل ہیں۔ علماء وزاہدینِ صحابہؓ کی فہرست جب کبھی تیار کی جائے گی تو سرِ فہرست چند ناموں میں سے ایک نام آپ کا رہے گا۔زبانِ رسالتﷺ نے انھیں ’’الفاروق‘‘ کا خطاب بخشا، یعنی جس کی ذات حق وباطل میں امتیاز کرنے والی کسوٹی بن جائے۔ اللہ رب العالمین نے حق اور صداقت کو آپ کی زبان کا ہم نوا بنا دیا۔ بارہا آپ کی رائے کی موافقت اور آپ کے موقف کی تائید میں قرآنِ مبین نازل ہوا۔ حضرت علیؓ بن ابی طالب فرمایا کرتے تھے: ’’ہمیں تو ایسا لگتا تھا کہ قرآن میں کچھ باتیں اور کچھ رائے آپ کی بھی پائی جاتی ہے۔‘‘[إنا کنا لنری أن فی القرآن کلاما من کلامہ ورأیا من رأیہ](مناقب عمربن الخطاب:ص۸۲)

ان کے صاحب زادے حضرت عبدؓاللہ بن عمر نے ان کے بارے میں بتایا ہے کہ جب بھی کوئی اجتماعی مسئلہ پیش آتا تھااور لوگوں کی رائے سے حضرت عمرؓ کی رائے مختلف ہوتی تو قرآن انہی کی بات کی تائید میں نازل ہوتا تھا۔[مانزل بالناس أمر فقالوا فیہ وقال عمر إلا نزل القرآن بوفاق قول عمر](الریاض المستطابۃ:ص۳۹)

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حسنات میں ان کا یہ کارنامہ بھی شامل ہوگا کہ انھوں نے اپنی وفات کے وقت منصبِ خلافت کے لیے امت کے بہترین فرد اور افضل ترین بندۂ حق کا انتخاب فرمایا۔ ایک ایسا فردِ یگانہ جو طاقتور، بہادر، بھروسے مند، خدا ترس، عالمِ دین، زاہدِ مرتاض، حق کے دفاع میں سینہ سپر اور حکیم ودانا تھا۔وہ امیر المومنین حضرت عمرؓ فاروق تھے۔

میں جب سے علومِ دینیہ کی تدریس سے جڑا ہوں، گاہے بہ گاہے خاکسار کو خطبۂ جمعہ کی ذمے داری ادا کرنا پڑ جاتی ہے۔ ذاتی طور پر میرا ماننا ہے کہ نظریاتی باتوں پر زور دینے کے بجائے اگر ہم عوام کے سامنے اسلام کے عملی نمونے پیش کریں اور زیادہ سے زیادہ صحابۂ کرامؓ کی سیرت وکردار پر زور دیں تو یہ نسبتاً زیادہ مفید، نتیجہ خیز اور جذبۂ عمل بیدار کرنے والا کام ہوگا۔ خود سورۂ فاتحہ میں بھی صراطِ مستقیم کی تشریح کے لیے عملی نمونوں اور مثالوںکو پیش کیا گیا۔

بہرحال میں نے ایک خطبۂ جمعہ میں حاضرین کے سامنے حضرت عمرؓ فاروق کی پاکیزہ سیرت وحیات کے درخشاں پہلو بیان کیے تھے۔ الحمد للہ، لوگوں نے اسے پسند کیا۔ نوٹس کی شکل میں جو مواد میرے پاس اکٹھا تھا، اسے سامنے رکھ کر یہ مختصر کتاب تیار کی گئی ہے۔ اردو اور عربی زبان میں حضرت عمر فاروق کی حیات اور کارناموں پر بڑا علمی کام ہوا ہے، ان کتابوں کو بھی میں نے سامنے رکھا ہے اور ایک طرح سے زیرِ نظر کتاب انہی کوششوں کا خلاصہ اور لبِ لباب ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کوشش کو بھی قبول فرمائے اور نفع بخش بنائے۔آمین یا رب العالمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *