نام کتاب: طیبہ طاہرہ میری ماں عائشہؓ
“اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو روز وشب کے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پھر ان دونوں کے ذیلی اور ضمنی شعبے بہت سے ہیں، تاہم بنیادی طور پر یہی دو شعبے ہیں۔ دن کی جلوتیں اور رات کی خلوتیں۔ عام انسانوں کا حال یہ ہے کہ دن کی روشنی میں ان کی جلوتیں نمایاں ہوتی ہیں، نگاہیں ان پر پڑیں یا نہ پڑیں، ان کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو۔ لیکن رات کی تاریکی میں ان کی خلوتیں ہر حال میں مستور ومخفی رہتی ہیں اور انھیں نمایاں کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
لیکن اللہ کے پیغمبروں کا معاملہ عام انسانوں جیسا نہیں ہوتا کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، کسی کی نگاہ پڑے یا نہ پڑے، سب ٹھیک ہے۔ عامۃ الناس کے برعکس پیغمبر کی زندگی ہر امتی کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ہر فردِ ملت اسے تلاش کرے، اس کی جلوتیں دیکھے اوراس کی خلوتوں کے بارے میں جانے تاکہ ہر شعبۂ حیات میں پیغمبر کے عمل کو اسوہ اور نمونہ بنایا جاسکے۔ اس لیے دن کی جلوتوں اوران میں ہونے والی سرگرمیوں اور کارگزاریوں کا دیکھنا، نیز فرمودات وہدایات کا سننا آسان کر دیا جاتا ہے۔ ماننے والوں کا جھرمٹ ساتھ لگا رہتا ہے۔ نہ ماننے والے بھی جانچ پرکھ میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایمان لانے والے سر جھکا کرسنتے ہیں اور تعمیل کرتے ہیں۔ نہ ماننے والے بھی سنتے ہیں، دل سے متاثر ہوتے ہیں، گو زبان سے انکار کرتے ہیں۔
اس طرح جلوت کے کام اور جلوت کی باتیں سب دیکھ رہے ہیں، سب سن رہے ہیں،مومنین بھی اور معاندین بھی، اور دونوں اپنے اپنے انداز میں یاد رکھتے ہیں اور دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ان دونوں راہوں سے اللہ کے رسول محمدﷺ کی جلوتیں آپ کی زندگی میں بھی عام ہوئیں اور وفاتِ نبوی کے بعد بھی ان کی بقاء وحفاظت کا ایسا حیرتناک اور عظیم الشان انتظام ہوا کہ کوئی ایسا عمل جو نبیِ اکرمﷺ سے صادر ہوا ہو اور کوئی ایسا کلام جو آپؐ کی زبان سے نکلا ہو، ایسا نہیں ہوا کہ ان کاموں اور باتوں میں سے کوئی چیز گم ہو گئی ہو اور آج تلاشِ بسیار کے باوجود اسے جاننا اور اس کے مطابق عمل کرنا محال ہوگیا ہو۔
جلوتوں کا یہ انتظام تو مسلسل رہا۔ ضروری تھا کہ نبیﷺ کی خلوتوں کے اظہار واعلان کا بھی نظم کیا جائے۔
مکہ کی پوری زندگی آزمائشوں اور انکار وتمرد کے مظالم کی بھٹیوں میں تپتی رہی۔ وحی ونبوت کی تیرہ سالہ مکی زندگی مسلسل جاں کاہیوں، مشقتوں، ایذائوں اور کفر وانکار کی تلخیوں میں گھری رہی۔ مدنی زندگی کا بھی ابتدائی دور مخالفت کی ہوائوں اور آندھیوں میں الجھا رہاجن کے بگولے مکہ اور اطرافِ مکہ سے اٹھتے رہے اور مدینے کو جھلسانے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر اخیر کے چند برسوں میں قدرے مہلت ملی،اگرچہ خرخشے اب بھی سکون کو درہم برہم کر رہے تھے، تاہم بقیہ چند سالوں میں ضروری تھا کہ دین کی تعلیم کی تکمیل کر دی جائے، تربیتِ نفوس کا کام پورا کر دیا جائے اور موجودہ امت کو اس لائق بنادیا جائے کہ بعد کی امت جو بہت کثیر تعداد میں مختلف طبقوں سے، مختلف ملکوں سے اور مختلف رنگ ونسل سے حلقۂ اسلام میں آئے گی ان کی تعلیم وتربیت کا فریضہ ٹھیک نمونۂ کامل اور اسوۂ حسنہ کے طرز وانداز پر یہ حضرات کر سکیں۔
چنانچہ حیاتِ مبارکہ کے آخری سالوں میں ارادۂ خداوندی ہوا کہ جس طرح مردوں میں قدوسیوں اور پاکبازوں کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی ہے جن کے ذریعے رسول اللہﷺ کی جلوتوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور انہی کے ذریعے یہ باتیں رہتی دنیا تک منتقل ہوتی رہیں گی، اسی ڈھب اور انداز میں آپؐ کی خلوتیں، خلوت کی باتیں، راتیں اور عبادتیں بھی روشنی میں آجائیں اور سیرت کا یہ شعبہ مخفی نہ رہ جائے۔
ہر آدمی کے لیے خلوت، نجی زندگی اور پرائیویسی ناگزیر ہے۔ کیا مرد اور کیا عورت۔ تو کیا اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا نمونہ درکار نہیں ہے؟ ہے اور یقینا ہے۔ پھر اگر اس کا انتظام نہ ہو تو نمونہ ادھورا رہ جائے گا۔ تلاش کرنے والا دن کو اور دین کے اعمال کو تو روشن اور اُجلاپائے گا، لیکن رات کے حصے میں جو زندگی کا نصف حصہ ہے، وہ اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔
پھر یہ بھی ہے کہ انسانیت کا نصف یا نصف سے زائد حصہ صنفِ نازک یعنی عورتوں پر مشتمل ہے۔ ان کے لیے متعدد معاملات میں اسوہ اور نمونہ عورتوں ہی کی زندگی میں مل سکتا ہے۔ عورتوں کے کچھ خصوصی معاملات ہیں جن کو سمجھانے اور بتانے کے لیے عورتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے ضروری ہوا کہ سارے جہاں کی عورتوں کے لیے اور قیامت تک نسلِ انسانی میں جو عورتیں پیدا ہونے والی ہیں؛ ان سب کے لیے، ان کی تعلیم وتربیت کے لیے اور ان کے نمونے کے لیے عورتوں کی بھی ایک جماعت تیار کی جائے۔
جس طرح حق تعالیٰ کی مشیت نے مردوں میں ایک سے بہتر ایک افراد آپؐ کی صحبت ورفاقت کے لیے انتخاب فرمائے اور ہر مذہب وملت سے منتخب فرمائے اور انھیں قبولِ اسلام کی توفیق دی تاکہ آپﷺ کی تعلیمات ہر طبقے اور ہر مذہب میں عام ہوں، اسی طرح مشیتِ حق کا تقاضا ہوا کہ ان مختلف مذاہب وطبقات میں سے بہتر سے بہتر عورتوں کا انتخاب کیا جائے تاکہ ان کے ذریعے سے انسانیت کے اس نصف حصے میں بھی اسوۂ حسنہ کا پھیلائو ہو سکے اور نورِ نبوت سے مستنیر ہونا ہر ایک کے لیے ممکن ہوجائے۔
نبیِ اکرمﷺ نے حیاتِ مبارکہ کی آخری قلیل مدت میں، یعنی صرف چار پانچ سال کی مختصر مدت میں متعدد شادیاں کیں، جب کہ اسلام کی روشنی میں پورا عرب چمکنے کے قریب ہورہا تھا اور عرب کے باہر بھی اس کی روشنی پھیلنے والی تھی، اسلام کا کام بہت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا، اب ضرورت تھی کہ جہاں مردوں کی تربیت ہورہی ہے توعورتوں کا بھی ایک گروہ-جو ہر لحاظ سے نمونے کا گروہ ہو- تیار کر دیا جائے۔ اسی بلند دینی مقصد کے تحت ایسا ہوا کہ آپﷺ نے خام فہم اور ناتجربے کار عورتوں کا انتخاب نہیں فرمایا کیونکہ انھیں دوسروں کے لیے نمونہ اور آئیڈیل بننا تھا۔ وقت بھی کم تھا اورفرصت بھی تنگ ہوری تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ چن چن کر مختلف طبائع اور مزاج، مختلف مذاہب اور دیانات کی سن رسیدہ، فہمیدہ اور سنجیدہ بیوہ عورتیں جو زندگی کے سردوگرم کا تجربہ کر چکی تھیں، ان کی ایک برگزیدہ، پاک اور منتخب جماعت کو مختلف اسباب ووجوہ کے پردے میں قدرتِ خداوندی نے آپﷺ کی خدمت میں اس وقت مہیا کر دیا جب آپؐ کے اپنے فرض سے سبکدوشی کا وقت آخر ہورہا تھا اورجس کے بعد آپ کا کام پورا ہوچکنے والا تھا۔
لہٰذا اس کام کو کامل واکمل طور پر پورا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ مردوں کے ساتھ چند عورتوں کی تعلیم وتربیت کا کام اپنی آخری زندگی میں اسی حیثیت سے انجام پاجائے جس حیثیت سے مردوں کی منتخب اور چیدہ جماعت کی تربیت آپﷺ نے فرمائی تھی۔ لیکن فراستِ نبوی کا یہ کیسا روشن تجربہ ہے کہ آپؐ نے مصنوعی مذہبی مقتدائوں اور نام نہاد روحانی پیشوائوں کی مجرمانہ پیش دستیوں کا راستہ ان عورتوں سے نکاح کرکے ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔
ماضی میں بیت المقدس کی خدمت کے لیے ایک بزرگ ہستی حضرت عمران کی بیوی نے صرف ایک لڑکی(حضرت مریمؑ) کو پیش کیا تھا۔ مگر دیکھو اس ایک کنواری کو آڑمیں اور اسے نظیر بناکر چرچوں اورگرجائوں میں ان کے پیشوائوں، خطیبوں، رہبانوں اور پادریوں پر کتنی کنواریاں روزانہ بھینٹ چڑھائی جانے لگیں۔ اگر شریعتِ اسلامیہ میں کسی ایک اجنبی عورت کو نزدیکی کی وہ حیثیت دے دی جاتی جو باہر مردوں کو حاصل تھی تو کون اندازہ کر سکتا ہے کہ بعد کو آدم کے لبادے میں کتنے ابلیسوں اور دجالوں کے لیے قرب ونزدیکی کا یہ حیلہ کن کن شرارتوں اور خباثتوں کی بنیاد اور نقطۂ آغاز بن جاتا۔
اللہ کے رسولﷺ نے ان عورتوں کو داشتائوں اور خادمائوں کے بجائے قانونی بیوی کا مقام عطا کیا اور جسے انسان سوچ نہیں سکتا اس حد تک ان کے ساتھ حقیقی عدل اور برابری کا نمونہ پیش کیا۔ اس وقت جب کہ آپﷺ کا ذہن عالمگیر سیاست وحکومت اور ملت کی ہمہ گیر تعلیم وتربیت کی الجھی ہوئی پیچ در پیچ گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا، عین اس وقت عائلی اور خانگی زندگی کی ژولیدگیوں کو بھی نہایت خندہ پیشانی سے حل کر رہا تھا۔
لوگوں نے حرمِ نبوی میں بہت سی خواتین کو تو دیکھا، لیکن یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ ان نکاحوں میں انسانی طبیعت کے تقاضے کتنا دخل رکھتے ہیں اور شریعت وحکمت کی کتنی مصلحتیں کار فرماہیں۔ان نکاحوں کی مصلحتوں اور حکمتوں پر گفتگو کی جائے تو بات بہت دراز ہوجائے گی، لیکن چند اشارے ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ ایک یہودی سردار کی صاحب زادی تھیں۔ ان سے نکاح سے پہلے جتنی جنگیں کفار نے اہلِ اسلام کے ساتھ کی تھیں ان سب میں یہودیوں کا ہاتھ تھا، مگر حضرت صفیہؓ سے نکاح کے بعد یہود علانیہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔قریشی لیڈر ابوجہل کے بعد مسلمانوں کے خلاف جنگ کی کمان ابوسفیانؓ نے سنبھالی،لیکن نبیِ کریمﷺ کا نکاح جب ان کی بیٹی حضرت ام حبیبہؓ سے ہوگیاتو اس کے بعد باپ نے مسلمانوں سے کوئی جنگ نہیں کی، بلکہ تھوڑے عرصے کے بعد خود ہی دائرۂ اسلام میں آگئے۔ ام المومنین حضرت جویریہؓ کا باپ مشہور رہزن تھا اور مسلمانوں سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ بنو مصطلق کا مشہور طاقتور اور جنگجو قبیلہ اس کے اشارے پر کام کرتا تھا۔ اس نکاح سے پہلے مسلمانوں کے خلاف ہر جنگ میں اس قبیلے کی شرکت ضرور پائی جاتی تھی، لیکن اس نکاح کے بعد یہ دشمنیاں یکسر معدوم ہوگئیں۔ پھر یہ قبیلہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شریک نہیں ہوا۔ ام المومنین حضرت میمونہؓ کے نکاح پر غور کیجئے کہ ان کی ایک بہن سردارِ نجد کے نکاح میں تھیں۔ اس نکاح نے علاقۂ نجد میں صلح اور امن اور اسلام کے پھیلانے میں بہترین کردار ادا کیا اور بہترین نتائج پیدا کیے۔
ام المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش، حضرت حفصہؓ، حضرت امِ سلمہؓ اور حضرت عائشہؓ صدیقہ کے نکاح خالص اسلامی اغراض اور مصالحِ دینیہ پر مبنی تھے۔ حضرت زینبؓ بنت جحش کے نکاح نے منھ بولے بیٹے کے بت کو توڑا جب کہ زمانۂ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے کی بیوی نے سگے بیٹے کی بیوی کا درجہ حاصل کر رکھا تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور حضرت امِ سلمہؓ کے نکاح نے قرآنِ کریم کی حفاظت اور احادیثِ نبویہ کی نشرواشاعت اور عورتوں کی تعلیم وتربیت کے میدان میں غیر معمولی فوائد پہنچائے۔”(علوم ونکات:۳/ ۵۴۶-۵۴۷)
اس امت کی یہ مائیں اور آپﷺ کی بیویاں اپنے علم وعمل میں،اخلاق وکردار میں اور حسب ونسب میں عالمِ نسوانی کا شاہ کار تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں شرفِ صحابیت کے ساتھ شرفِ زوجیت بھی جمع کر دیا۔ مگر اس شرف ومنزلت کے باوجود وہ دین کے کاموں میں کسی طور سے پیچھے نہ رہیں۔ ہر سردوگرم اور سخت ونرم حالات میں انھوں نے نبیِ کریمﷺ کی رفاقت وزوجیت اور نصرت وحمایت کا حق ادا کیا ہے۔ زندگی کی پریشانیوں میں ان کا رویہ صبر وشکیبائی کا تھا۔ مخالفینِ دین کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں اور ایذائوں کو انھوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ دین کی تبلیغ واشاعت کے راستے میں اللہ کے نبیﷺ کو جو مصائب وآلام پیش آتے تھے،وہ درونِ خانہ ماحول میں ممکنہ حد تک ان کے منفی اثرات کم یا ختم کر دیتی تھیں۔
مومنوں کی ہر ماں کی زندگی دین کے لیے جلنے اور پگھلنے والی شمع کی مانند تھی۔ امت کی خواتین کے لیے ان کی زندگی اسوۂ حسنہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کا گھر ایک اسلامی درسگاہ تھا جہاں وہ خیر خواہ معلم کا کردار ادا کرتی تھیں۔انھوں نے دینی تعلیم اور احادیثِ نبویہ کی نشر واشاعت کے ذریعے سے کبھی متاعِ دنیا طلب نہیں کی۔ سچ پوچھیں تو وہ ایسا کر بھی نہیں سکتی تھیں کیونکہ انھی کے گھروں میں سب سے پہلے یہ شرعی تعلیمات نازل ہوئی تھیں اور ان کا سب سے پہلا عملی نمونہ وہ خود بن گئی تھیں۔ انھوں نے اللہ کے نبیﷺ کی راست نگرانی میں دین کے احکام وشرائع کو عملی زندگی میں برتا تھا۔ چنانچہ کمی بیشی پر آپﷺ کی طرف سے اصلاح ہوجاتی۔ اللہ کے نبیﷺ نے بڑے اہتمام سے ازواجِ مطہراتؓ کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی اور اس دور کی تمام عورتوں کے لیے انھیں معلمات اور بعد کی تمام نسلوں کے لیے مشعلِ ہدایت کی حیثیت سے پیش کیا۔چنانچہ اس دور میں عام عورتوں کے اندر، بلکہ آدمیوں کے اندر جو ایک خوشگوار تبدیلی پیدا ہوئی،اس میں دیگر صحابۂ کرامؓ سے بڑھ کر حصہ مومنوں کی ان محترم ومقدس مائوں کا ہے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہن وأرضاہنوأرضاہن وأسبغ علیھن شآبیب النعم۔
ازواجِ مطہراتؓ میں سے کسی پر کچھ لکھتے ہوئے قلم کو بار بار مشکِ ادب سے بھگونا پڑتا ہے۔ لکھنے والا کسی اور کے بارے میں نہیں،بلکہ اپنی سگی ماں سے ہزاروں گنا بڑھ کر محترم ومقدس ماں کے بارے میں کچھ لکھنے چلا ہے۔نبیِ کریمﷺ کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنے کا حکم ہمیں قرآن نے دیا ہے۔ آپﷺ کی ازواج اور مومنوں کی مائوں کے ساتھ ادب واحترام کا رویہ برقرار رکھنا اور اسے نبھاتے رہنا اس حق کا لازمی تقاضا اور منطقی نتیجہ ہے۔
یہاں ذہن میں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ کیوں صرف حضرت عائشہؓ کے فضائل ومناقب بیان کیے جائیں اور کیوں دیگر ازواجِ مطہراتؓ کو چھوڑ کر انہی کے مقام ومرتبے کو اجاگر کرنے پر توجہ مبذول کی جائے۔ علامہ آجریؒ نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے اور خود اس کا بہترین جواب دیا ہے۔فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی کہنے والا کہے کہ کیا وجہ ہے کہ مشائخ ہمیشہ ام المومنین عائشہؓ کے فضائل ومحاسن گناتے ہیں،دیگر ازواجِ مطہراتؓ جن کی شادی ان کے بعد ہوئی، ان کے فضائل ومناقب کے بیان پر اتنی توجہ نہیں دیتے؟جواباً سائل سے کہا جائے گا کہ ہماری مائوں میں حضرت عائشہؓ ہی ہیں جنھیں عہدِ رسالت میں بھی منافقین نے بربنائے حسد نشانہ بنایا تھا اور ان کے دامنِ عفت وعصمت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں قرآنِ مبین نازل کرکے مبرأ ومنزہ قرار دے دیا ہے اور یوں اماںؓ جان کے تعلق سے ہرزہ سرائی کرنے والوں کو جھوٹا بتایا ہے۔ اس طرح اللہ نے اپنے پیارے نبیﷺ کے دل کو بشاشت وسرور سے ہم کنار فرمایا اور مومنوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں اور منافقوں کے دل کوئلہ ہوگئے۔ دشمنانِ دین کا یہ طرزِ عمل چونکہ صرف حضرت عائشہؓ کے ساتھ خاص رہا ہے،اس لیے ہر دور میں علمائے حق نے حضرت عائشہؓ کے فضائل ومحاسن گنانے پر خصوصی توجہ دی۔ وہ دنیا وآخرت میں اللہ کے آخری نبیﷺ کی شریکِ حیات ہیں اور تمام مومنوں کی ماں ہیں۔‘‘(الشریعۃ،آجریؒ:۵/۲۳۹۴)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔