مسلمانوں کی دینی وعلمی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے حالات وواقعات سے دلچسپی اور ان سے متعلق روایات ومعلومات کو محفوظ ومرتب کرنے کا فطری داعیہ ابتدائی زمانے سے موجود رہا ہے۔ اس کے ساتھ دینی نقطہ نظر سے آپ کے اقوال وارشادات اور افعال واعمال کا علم آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کا جذبہ اور کوشش بھی ہمیں ابتدائی دور سے ہی دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے مقدم الذکر دلچسپی بنیادی طور پر تاریخی نوعیت کی ہے، جبکہ دوسری نوعیت کی کوششوں کا جذبہ محرکہ بنیادی طور پر دینی ہے۔ اسی وجہ سے ان دونوں مساعی کا دائرہ کار، منہج اور معیارات الگ الگ رہے ہیں اور علم سیرت اور علم حدیث، دو مستقل علوم کی صورت میں اسلامی روایت میں متشکل ہوئے ہیں۔ علم حدیث کے اہداف ومقاصد کی خاص نوعیت کی وجہ سے محدثین نے اس دائرے میں روایات کی تحقیق وتنقید کا ایک زیادہ محتاط اور سخت معیار مقرر کیا، جبکہ ارباب سیرت نے اپنے کام کی نوعیت مختلف ہونے کی وجہ سے اپنے معیارات بھی محدثین سے مختلف وضع کیے ہیں۔
ان دونوں دائروں کی نوعیت کا فرق اسلامی روایت میں عموما واضح رہا ہے، تاہم دور جدید میں بعض خاص اسباب سے اس فرق کو نظر انداز بلکہ اس کی نفی کرنے اور حدیث کی تحقیق وتنقید کے اسنادی معیارات کا اطلاق سیرت کے دائرے میں بھی کرنے کا رجحان سامنے آیا ہے۔ اس رجحان کے مظاہر جزوی واقعات کی تحقیق کے ضمن میں بھی نمایاں ہوئے ہیں اور سیرت نگاری کے ایک مستقل منہج کے طور پر بھی اس کی نمائندہ تحقیقات مختلف جوانب سے سامنے آئی ہیں۔ برادرم مولانا مفتی محمد سفیان عطاء صاحب نے زیرنظر تصنیف میں اس رجحان کا ایک ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے اور اسلامی روایت کے عمومی منہج کی نمائندگی کرتے ہوئے حدیث اور سیرت کے دائروں کا فرق ازسرنو علمی بنیادوں پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
فاضل مصنف صفات متشابہات اور صحیح بخاری پر اعتراضات سے متعلق اپنی تصانیف کے حوالے سے علمی حلقوں میں تعارف رکھتے ہیں اور ان کی زیر نظر تصنیف بھی ان کی علمی صلاحیت اور محنت کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ امید ہے کہ اس اہم بحث کے حوالے سے ان کی زیر نظر کاوش کو بھی علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس سے استفادہ کیا جائے گا۔
محمد عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
۲۶ اکتوبر ۲۰۲۱ء