Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Taraqqi Wa Urooj Ki Asal Buniyad Taleem Hai, ترقی و عروج کی اصل بنیاد تعلیم ہے

Taraqqi Wa Urooj Ki Asal Buniyad Taleem Hai, ترقی و عروج کی اصل بنیاد تعلیم ہے

مصنف: محمد توصیف صدیقی

تاریخ گواہ ہے کہ بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ماضی قریب تک اسلام اور اہلِ اسلام کو ترقی اور عروج’ علم اور اہلِ علم سے ہی حاصل ہواہے-

کتابِ ہدایت قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالٰی نے “إقرأ” سے پڑھنے کا حکم دیا ہے، وہیں پڑهے لکھے اور انپڑھ کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے معلم انسانیت، اولین و آخرین کے علوم کے جامع، ہادئ برحق، رسول أفضل صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا حکم بهی دیا ہے:

قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون…..الخ
(سورة الزمر، آية: 9)■
کہ اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے-

اور ہمارے آقا و مولیٰ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا:

إنما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا.
کہ مجھے (ساری انسانیت کے لیے) معلم، أستاذ بناکر بهیجا گیاہے-

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم اپنے مخالف سے جنگ وجدل کے بعد مفتوح قوم اور مغلوب علاقے کا صرف مال و اسباب چھیننے، قتل و غارت گری کرنے، عورتوں کی عزت کو تار تار کرنے، عوام کو قیدی بنانے اور حقوق انسانی کو پامال کرنے کا معاملہ کرتی تھی (جیسا کہ آج بھی یہ سلسلہ عرب وعجم میں جاری ہے اور ماضی میں ہوئی دو عالمی جنگوں  میں اس کا کهل کر مظاہرہ ہواہے) اور کوئی بھی فاتح قوت’ مفتوح قوم اور مغلوب قیدیوں کے علم و ہنر سے فائدہ نہیں اٹھاتی

لیکن! قربان جاؤں اس قائداعظم، رہبرِ انسانیت اور مسیحائے مظلومین پر کہ جس نے1436 سال پہلے ایک چھوٹی سی تعداد کے ساتھ اپنے سے تین گنا بڑی جماعت پر قابو پانے کے بعد غریب اور مسکین قیدیوں کی رہائی، اور آزادی کے لیے فدیے کا جو إعلان فرمایا وہ یہ تها کہ: آپ ہمارے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکهادیں تو آپ رہا کردیے جاؤگے-

الله اکبر! مسلمانوں کی جان کے دشمنوں، ان کے خون کے پیاسوں اور مکہ مکرمہ میں رات دن اسلام، اہلِ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کو صفحۂ ہستی سے ختم کرنے کی سازش اور کوشش کرنے والوں کو اتنا بڑا اعزاز کہ انہیں اپنے یہاں استاذ اور پڑھانے لکھانے کے عہدے پر فائز کرکے انہیں عزت دی جارہی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی روشنی میں کہ: “جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑهایا میں اس کا غلام ہوں” جنگ بدر کے ان قیدیوں کے بارے میں یہ بهی کہا جاسکتا ہے کہ: “غلاموں اور قیدیوں کو آقائی اور سرفرازی عطا کی جارہی ہے”-

کیوں، کیا وجہ ہے؟ اور وہ کونسی طاقت ہے جو ایک قیدی کو تمام مال و اسباب، سفارش اور تعلقات کے سہارے سے بے نیاز کرکے اسے قید

اور غلامی سے نکلنے کے لیے مددگار ثابت ہو رہی ہے؟
اس کا ایک ہی جواب ہے کہ وہ طاقت “علم” ہے!

بلاشبہ! علم ہی ایک ایسی طاقت ہے جو، ہر طرح کا طوق غلامی اپنے گلے سے نکال پھینکنے کا حوصلہ اور دنیا پر حکمرانی کا جذبہ عطا کرتا ہے اور علم اور اہلِ علم کے سامنے بڑے بڑے بادشاہوں اور فاتح حکمرانوں نے سر تسلیم خم کیا ہے-
مشہور عباسی خلیفہ”ہارون رشید” نے دیکھا کہ اس کے بیٹے کا استاذ وضو کر رہا ہے اور شہزادہ’ استاذ کے ہاتھ، پاؤں پر صرف لوٹے سے پانی ڈال رہا ہے اور استاذ اپنے ہاتھ سے اعضائے وضو دهو رہے ہیں، یہ دیکھ کر خلیفہ ہارون رشید فوراً آگ بگولہ ہوگیا شہزادے کے استاذ نے جب خلیفہ کے بگڑے ہوئے تیور دیکھے تو کانپنے لگا اور خلیفہ سے جان کی امان چاہی کہ شہزادہ سے خدمت لیتے ہوئے جہاں پناہ نے دیکھ لیا اور انہیں ناگوار گزرا-

ہارون رشید نے کہا: جناب! “مجھے غصہ اس لیے نہیں آرہا کہ آپ شہزادہ سے خدمت لے رہے ہیں، بلکہ غصہ اس بات پر ہے کہ میرا بیٹا اپنے استاد کی صحیح خدمت نہیں کر رہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ہاتھ سے وہ پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے ہاتھ پیر رگڑ کر اچھی طرح وضو کراتا”-

شام کے مشہور عالم شیخ سعید حلبی ایک بار درس دے رہے تھے اور تکلیف کی وجہ سے پیر پھیلاکر بیٹھے تھے، درس کے دوران شام کا گورنر ابراہیم پاشا آنکلا، اس کی دہشت پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی، لیکن شیخ حلبی پر اس کی آمد کا کوئی اثر نہیں ہوا، انہوں نے اپنے پاؤں نہیں سمیٹے، اور درس کو اسی طرح جاری رکھا۔ پاشا کو غضب ناک کرنے کے لئے یہ بہت تھا، مگر اس نے ضبط کرلیا، اور مجلس سے نکلنے کے بعد ان کے پاس اپنے کارندے سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بھجوائی، شیخ نے اس تھیلی کو واپس کرتے ہوئے کہا: ’’یہ واپس لے جاؤ، اور پاشا سے کہہ دو جو اپنے پاؤں پھیلاتا ہے وہ اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا‘‘۔

مشرقی ممالک کا بے تاج بادشاہ اور کئی ملکوں کا فاتح، شہنشاہِ اعظم امیر تیمور لنگ کے دربار میں جب اس وقت کے مشہور زمانہ عالم “علامہ سعد الدین تفتازانی” حاضر ہوئے تو دیکھا کہ امیر تیمور لنگ پاؤں پھیلا کر بیٹھا ہوا ہے تو علامہ بهی پاؤں پھیلا کر بیٹھ گئے – امیر تیمور نے یہ دیکھ کر کہا: “مرا لنگ است” (میرے پاؤں میں لنگڑا پن ہے، اسی لیے اس طرح بیٹھا ہوں)
علامہ نے کہا: “مرا تنگ است” (مجھےمجبوری ہے)
امیر تیمور نے کہا: کس طرح کی مجبوری؟

علامہ نے فرمایا: “میرا علم مجھے مجبور کر رہا ہےمیں کسی کے سامنے نہ جهکوں اور نہ اس حالت میں بیٹھوں کہ دیکھنے والا مجھے کسی حاکم کے سامنے جهکا ہوا محسوس کرے”-

ایک دفعہ کا واقعہ اور ہے کہ: امیر تیمور نے کسی جگہ اپنا قاصد بهیجا اور جاتے وقت یہ ہدایت کی کہ کہیں رکنا مت، راستے میں اگر تمہارا گھوڑا تهک جائے تو جس کسی کے گھوڑے پر نظر پڑے اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر بغیر پوچھے اس کا تازہ دم گھوڑا لے لینا- دورانِ سفر قاصد نے دیکھا کہ ایک باغ میں خیمے لگے ہوئے ہیں اور بہت سے گھوڑے بهی بندهے ہوئے ہیں، امیر تیمور کی ہدایت کے مطابق قاصد نے سواری بدلنے کے لیے ان میں سے ایک گھوڑا کھولنا چاہا تو کچھ لوگوں نے پکڑ کر خیمے کے اندر موجود علامہ سعد الدین تفتازانی کے سامنے پیش کردیا- علامہ نے چور سمجھ کر خدام سے فرمایا کہ اس کو کوڑے لگائے جائے –

واپسی پر قاصد نے امیر تیمور سے علامہ کی شکایت کرکے ان کے خلاف کارروائی کی درخواست کی-
امیر تیمور نے قاصد سے کہا: اس شخص پر کیسے کارروائی کروں! کہ جس کے علم اور قلم نے میری تلوار سے پہلے ہی دنیا کو فتح کرلیا-

 محمد توصیف صدیقی کے مزید مضامین

اپنی رائے نیچے کمینٹ مے ضرور دے

4 thoughts on “Taraqqi Wa Urooj Ki Asal Buniyad Taleem Hai, ترقی و عروج کی اصل بنیاد تعلیم ہے

  1. ماشاءاللہ بہت خوب
    خدا کرے کہ زور قلم اور زیادہ
    اللھم زد فزد

  2. بہت عمدہ اور چشم کشا مضمون ہے جو قلمکار کی وسعت علمی کا غماز ہے۔ اللہ مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔

  3. کسی بھی قوم کی ترقی اس کی تعلیم پر منحصر ہوتی ہے، ترقی کا راستہ تعلیمی میدان سے گذر کر ہی طے ہوتا ہے
    موصوف نے جو مضمون لکھا ہے وہ مضمون نگار کی فکری بلندی کی عکاسی کرتا ہے-

    علم و قلم کے بارے میں ایک شاعر نے
    کیا ہی خوب کہا ہے:

    “میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
    مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

    مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم

    میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا”

  4. کسی بھی قوم کی ترقی اس کی تعلیم پر منحصر ہوتی ہے، ترقی کا راستہ تعلیمی میدان سے گذر کر ہی طے ہوتا ہے
    موصوف نے جو مضمون لکھا ہے وہ مضمون نگار کی فکری بلندی کی عکاسی کرتا ہے-

    علم و قلم کے بارے میں ایک شاعر نے
    کیا ہی خوب کہا ہے:

    “میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
    مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

    مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم

    میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *