Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Seerat un Nabi Mein Maulana Shibli Ke Darayti Mabahis, سیرۃ النبیؐ میں مولانا شبلی کے درایتی مباحث: ایک تنقیدی تجزیہ

Dr Muhammad Yasin Mazhar Siddiqi

Seerat un Nabi Mein Maulana Shibli Ke Darayti Mabahis, سیرۃ النبیؐ میں مولانا شبلی کے درایتی مباحث: ایک تنقیدی تجزیہ

مصنف:   ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی

روایتی تنقیح اور درایتی تنقید کے اصول و قواعد صرف کسی خاص علم و فن سے وابستہ نہیں اور نہ ہی ان کے فن پاروں کو جانچنے اور پرکھنے تک محدود ہیں، وہ تو اصلاً اسلام اور حق اور دین کے تمام امور و معاملات کے صحیح و غلط جہات کو متعین کرنے کے الٰہی قوانین ہیں۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات بینات میں اخبار و روایات، معلومات و بیانات کی صحت و بیماری بتانے کے میزان ہیں۔ کلام الٰہی اور وحی ربانی کی توام تنزیل۔ حدیث شریف۔ میں ان قرآنی اصول روایات و درایت کی تشریح و تعبیر اور تفصیل مزید آئی ہے۔ ترسیل و تدوین کے لحاظ سے قرآن مجید کی آیات کریمہ کو روایتی و درایتی اعتبارات سے حتمی طور سے رسول اکرمؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں مدون کردیا۔ حفظ و کتابت، ابلاغ و ترسیل، تشہیر و اشاعت جیسے ذرائع انسانی کے وسیلے سے قرآن مجید بہمہ وجوہ لوح محفوظ جیسا قطعی بن گیا۔ وحی الٰہی کی دوسری غیر متلو قسم ۔

حدیث و سنت نبوی۔ کی صحت و معتبریت قائم کرنے کے لیے روایتی و درایتی دونوں اصول ہمیشہ برتے گئے۔ حدیث و سنت کی ایک بشری اور عملی جہت یہ بھی رہی کہ وہ ذات رسالت مآبؐ کے اقوال مبارکہ، اعمال صالحہ اور تقریرات حسنہ اور شمائل و خصائل عبدیت کو جریدہ عالم پر مدام ثبت عطا کرتی رہی اور عالم ناسوت کے باسیوں کے لیے کامل ترین اور پسندیدہ ترین اسوہ بھی فراہم کرتی رہی۔ قرآنی قصص الانبیاء اور ان میں خاص الخاص ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کا اسوہ حسنہ سیدالانبیاءؐ تک کے لیے نمونہ و مثال ٹھہرا۔ اسی بشری جہت اور اطاعت نبوی اور اسوہ رسولی کے التزامی وصیت و حکم الٰہی نے سیرت الانبیاء کو بھی اسوہ بنادیا ۔

سیرت نبوی اپنی اصل میں حدیث نبوی کی ایک شاخ ثمربار رہی اور آج بھی فن سیرت اپنے امتیاز خاص کے باوجود توام اصولوں سے وابستہ ہے۔ ماہر و محقق سیرت نگاروں نے پارکھ محدثین کرام اور ناقدین فنون کی مانند روایات و اخبار سیرت نبوی کی صحت و معتبریت روایتی اور درایتی دونوں اعتبارات سے جانچی اور پرکھی۔ عیار نقد و صحت میں خالص محدثین کرام اور فنی سیرت نگاروں کے اصول و ضوابط اور ان کے اطلاق کے فروق ملتے ہیں لیکن ان سب کا عقیدہ و فکر بھی تھا اور عمل و طریقہ بھی کہ سیرۃ النبیؐ کی تدوین و تالیف اور نگارش و تصنیف میں صحت کا التزام بہرحال کیا جائے۔

اردو سیرت کے امام مولانا شبلی نے اپنی عہد ساز و رجحان نویس سیرۃ النبیؐ کی تالیف و تدوین اپنے مقدمہ سیرت نگاری کے تناظرمیں اس کے اولین حصہ میں فن روایت سے ایک عالمانہ بحث کی اور دوسرے حصہ میں فن سیرت پر ناقدانہ تبصرہ کیا۔ وہ دونوں روایتی و درایتی جہات کو محیط ہیں۔ تمام بحث و تمحیص کا لب لباب یہ ہے کہ سیرت کی امہات الکتب اور ان پر مبنی شروح و مختصرات اور دوسری ثانوی نگارشات میں صحت کا مطلوبہ معیارنہیں قائم رکھا جاسکا۔ روایت پسند علماء کرام اور دیگر سیرت نگاروں نے اپنی تالیف کردہ کتب سیرت میں صحیح روایات کا التزام نہیں رکھا۔ مولانا شبلی کا دعویٰ بھی ہے اور فکر و طریق بھی کہ اپنی سیرۃ النبی میں صحیح روایات و اخبار سیرت کو جمع کرکے ایک معتبرو صحیح کتاب سیرت تصنیف کر ڈالی۔ ناقدین شبلی نے بڑی کدو کاوش سے شبلی کی گراں مایہ کتاب سیرت میں ضعیف و کمزور روایات کے علاوہ ان کے اپنے بنا کردہ اصول کی خلاف ورزی اجاگر کی۔

بلاشبہ کوئی بھی انسانی علمی و فنی کاوش خطاو غلطی سے بالکل مبرا نہیں ہوسکتی کہ بقول امام مزنی محفوظیت کی یہ اعلیٰ قدر صرف کتاب الٰہی کی تقدیر ہے مولانا شبلی کی سیرۃ النبی میں روایتی نقد بھی متعدد مباحث سیرت میں ملتا ہے اور درایتی تنقیح بھی برابر نظر آتی ہے۔ روایات کے نقد میں بھی درایتی نقد موجود ہے۔ مولانا شبلی کی التزام صحت کی انتہا یہ بھی ہے کہ وہ بہت سی مقبول عام روایات سیرت کو قابل اعتنانہیں سمجھتے اور ان سے قطعی صرف نظر کرتے ہیں۔ اپنی ادبی پیشکش اور تاریخی نگارش اور تنقیدی طریقت کا ایک مظاہرہ و ہ روایت پرستوں کی روایت و اخبار کی سطحیت دکھانے میں کرتے ہیں۔ بسا اوقات وہ بہت ہی پسندیدہ روایات سیرت کو اپنے ادبی اور خطیبانہ انداز بیان میں ان ہی کے حوالے سے بیان کرکے اپنا دامن قلم جھاڑ لیتے ہیں۔ بہت سے واقعات سیرت کے بارے میں غلط روایات اور ضعیف اخبار پر روایتی و درایتی دونوں طرح مفصل تنقیدی بحث کرتے ہیں۔

بعض بعض امامان حدیث اور شارحین روایات حدیث کا روایتی سقم دکھاتے ہیں اور درایتی میزان میں اس کو تول کر اس کی حیثیت بتاتے ہیں۔ مولف سیرۃ النبی کا عیار نقد نہ تو کسی امام حدیث کی تنقیص ہے اور نہ کسی شارح حدیث اور راوی سیرت کی مذمت و دشنام طرازی، وہ راوی و اخباری کی غلطی یا غلط فہمی اور امام و ماہر کی بلاغت کی عدم صحت سے بحث کرتے ہیں کہ روایت و فہم میں غلطی راہ پاسکتی ہے۔ مولانا شبلی کا یہ اصول نقد آب زر ہی سے لکھنے کے لائق نہیں بلکہ اس کو نگارش و تصنیف سیرت کا خالص معیار بنانے کے قابل ہے کہ کسی راوی محدث یا شارح کی روایتی غلطی اور درایتی کمی زیادہ قابل قبول ہے بجائے اس کے کہ ذات رسالت مآبؐ کے خلاف نکتہ چینی کا دروازہ کھولا جائے۔ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی روایتی ودرایتی تنقیدات و تعبیرات کا باب خاصا وسیع ہے۔ اس مختصرمقالہ میں صرف چند مباحث کا ہی احاطہ کیا جاسکتا ہے۔

شبلی نقد مصادر سیرت: درایتی مباحث و تنقیدات شبلی میں اصل ہدف نقد و نظر تو سیرت نبوی کے اصل مصادر اور ان پر مبنی شروح و ثانوی کتب ہیں جدید امام سیرت اور ان کے جامع و مرتب دونوں بخوبی اس راز سربستہ کو جانتے تھے کہ درایتی نقد و تبصرہ روایتی تجزیہ و تحلیل کے بطن سے نکلتا ہے۔روایتی نقد درایت و عقل و منطق اور تدبر و تفکر سے جس طرح جنم لیتا ہے اسی طرح وہ سیرت طیبہ کے مزاج و آہنگ اور مقام و مرتبت نبوی کے دائرہ کار اور تناظر حقیقی کا بھی پروردہ ہے۔

روایتی نقد میں صرف سلسلہ اسناد کے رواۃ کے تسلسل و ارتقاء اور ان میں سے ہر ایک راوی کی ثقاہت کا معاملہ ہی نہیںان کے سلسلہ کے بیان کردہ متن سے اس کے اتفاق صدق اور امکان کذب کا نازک اور اہم ترین معاملہ بھی ہے کہ غلط کی نسبت ذات رسالت مآبؐ کی طرف دانستہ کرنے کی سزا جہنمی قیام گاہ ہے اور نادانستہ یا بلا علم روایت کرنے کی صورت میں جھوٹ بولنے اور کذب پھیلانے کے جرم کی حرکت ناشائستہ ہے۔ درایتی نقد حدیث و سیرت کے اصول امامان حدیث اور ناقدین فن ان دونوں۔ روایت و درایت۔ کے تلازم اور تفاعل باہمی کے تناظر میںمرتب کے ہیں۔

مولف سیرت النبی نے ان تمام جہاتِ نقد روایت و درایت کا ایک عالمانہ، محققانہ اور مفکرانہ ادراک کیا تھا جو دوسرے مولفین سیرت کے فکر سے پرے تھا۔ مقدمہ سیرت النبی میں مولانا شبلی نے محدثین کرام کے اصول روایت و درایت اور ان کے اطلاق و انطباق سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے جو مدلل بھی ہے۔ اس کے زیر اثر مولف سیرۃ النبیؐ نے مولفین سیرت اور اس فن شریف کے امامانِ عالی مقام کے عطایائے سیرت کے ساتھ انصاف و توازن نہیں برتا:

اول یہ کہ وہ امامانِ سیرت میں سے ابن اسحاق، واقدی، ابن سعد، طبری وغیرہ کے فن حدیث میں بلندی مرتبت اور ثقاہت و عظمت کا ادراک کرنے سے قاصر رہ گئے۔

دوم وہ امامانِ سیرت و حدیث کی تالیفات سیرت کا مقام و مرتبہ فن سیرت کے اصول و ضوابط کے مطابق متعین کرنے سے قاصر رہے اور ان کو فروتر مقام دیا۔

سوم طریق محدثین کرام اور طریقت امامان سیرت کے جوہری فرق کو نظر انداز کردیا کہ اول الذکر کا خبرو حدیث کا یگانہ طریق ہے اور امامان سیرت کا بیانیہ واقعات کا مجموعی نہج ۔

چہارم ان پر کیا منحصر عظیم ترین ناقدین حدیث و سیرت پر یہ حقیقت مخفی رہ گئی کہ محدثین کرام نے اور ان کے صحابی و تابعی رواۃ عظام نے بھی مسلسل بیانیہ کے لیے طریق سیرت اختیار کیا۔

پنجم یہ کہ شبلی نے مغلطائی، زرقانی اور ان جیسے پیشرو و جانشین امامانِ حدیث و سیرت کے محدثین کرام پر تنقیدات اور تبصروں کو بیان کرنے کے باوجود نظر انداز کردیا۔ نقد مصادرِ سیرت نبوی میں شبلی کے ایسے دوسرے تصرفات و رجحانات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ اس خاص فن میں بے مثال ناقد و مبصر ہیں۔ مصادر اصلی اور عظیم ترین کلاسیکی مآخذ سیرت پر مولانا شبلی کی تنقیدات و انتقادات ایک الگ بحث کے متقاضی ہیں، درایتی مباحث کے حوالے سے ان کے چند ابعاد و جہات پیش ہیں۔

امہات الکتب کی روایات کی جزوی تنسیخ: محققین سیرت کا امتیاز خاص ہے کہ وہ بنیادی کتب و مآخذ سیرت کی روایات و اخبار میں غیر صحیح فقروں اور ٹکڑوں سے صرف نظر کرکے ان کو اپنے بیانیہ سیرت میں نہیں لاتے ۔یہ جزوی تنسیخ روایات کا طریقہ بھی ہے اور نقد و تصحیح مواد سیرت کا ایک سلبی قسم کا معاملہ بھی۔ صرف نظر اور گریز نقد خالص کا عیار نہیں اور نہ ہی میزان عدل ہے۔ غیر صحیح اجزاء روایات کا ’’غلط واضح‘‘ سامنے لانا بہرحال ضروری ہے۔ مولانا شبلی نے سیرۃ النبی کے بعض سیرتی مباحث میں اس جزوی تنسیخ کے طریقہ کو خاص وجوہ سے برتا ہے اور ان وجوہ کا پتہ لگانا بہرحال قیاس پر مبنی ہے۔ اس کی بعض مثالیں مختلف مباحث سے پیش کی جاتی ہیں:

رضاعت نبوی کے مبحث میں مولانا شبلی نے اختصار کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’سب سے پہلے آنحضرتؐ کو آپؐ کی والدہ نے اور دوتین روز کے بعد ثویبہ نے دودھ پلایا‘‘۔ حضرت ثویبہ ؓ کا تعارف مصدر مصنف گرامی نے نظر انداز کردیا تھا مگر جامع گرامی مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اسے قوسین میں بڑھا دیا ’’(جو ابو لہب کی لونڈی تھی)‘‘۔ مولانا شبلی کا ترک اور جامع کا اضافہ بالترتیب نقد و قبول کا معاملہ ہے اور مولانا شبلی کا موقف صحیح ہے۔ اس کی ایک دلچسپ دلیل یہ ہے کہ مولانا شبلی نے حضرت ثویبہؓ کی مبینہ آزادی کے اجراخروی میں ابولہب کے عذاب جہنم سے تخفیف کی روایات نہیں دیں اور حضرت جامع نے بھی ان سے گریز کیا ہے۔ ان دونوں کے نزدیک وہ روایات سیرت و حدیث قابل اعتبار نہیں جس طرح ان کو رواۃ قدیم اور متاخر سیرت نگاروں نے ان کو صحیح بنانے کی کوشش کی ہے۔

اسلام حضرت عمربن خطاب ؓ کے باب میں امام سیرت ابن اسحاق وغیرہ کی روایات میں وہ روایت یا جزو شبلی نے ترک کردیا جو ان کے اسلام کے بارے میں اکابر قریش کی مجالس میں ایک کبیر قوم حضرت جمیل بن معمر جمحیؓ کی بے تابانہ مساعی سے ہے اور جسے مولانا شبلی کے علاوہ قریب سب ہی نے بیان کیا ہے۔ 

اہل سیر کی روایات سے گریز کا طریقہ: ضعیف و کمزور اور بسا اوقات اصل مصادر سیرت میں منکر و موضوع روایات و اخبار کا ایک سلسلہ بلا نقد اورکبھی کلمات تضعیف کے ساتھ ملتا ہے۔ محققین علماء و سیرت نگار ان کو درخور اعتناہی نہیں سمجھتے اور زیر بحث لاتے بھی ہیں تو نقد و تبصرہ کے ذریعہ ان کی روایتی و درایتی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ مولانا شبلی نے بھی یہ دونوں طریق نقد مختلف مباحث میں اختیار کیے ہیں اور اسی طرح کے ساتھ ان کاایک البیلا،ادبی اور خطیبانہ گریز و تعرض کا طریقہ بھی ملتا ہے۔ ولادت باسعادت کے محبوب باب میں مصادر سیرت میں سے بیشتر نے اور ان کے خوشہ چیں متاخرین سیرت نے زیادہ تر عجائب و کرامات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا شبلی ان کی کمزوری اور خامی سے واقف تھے لہٰذا ان کا ذکر تو کیا مگر طنزیہ گریز کا اسلوب اپنایا…..

ارباب سیر اپنے محدود پیرایہ بیان میں لکھتے ہیں کہ: ’’آج کی رات ایوان کسریٰ کے ۱۴ کنگرے گرگئے، آتش کدہ فارس بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہوگیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوان کسریٰ نہیں شان عجم، شوکت روم، اوج چین کے قصرہائے فلک بوس گر پڑے، آتش فارس نہیں بلکہ جحیم شر ، آتش کدہ کفر، آزر کدہ گمرہی سرد ہوکر رہ گئے…..‘‘۔

ظہور قدسی کا فصیح و بلیغ ورق ادب سیرۃ النبی میں شبلی اظہار کا بہت ہی مقبول عوام و خواص فن پارہ ہے لیکن واقعیت و حقیقت سے دور مگر اسی پیرایہ بیان میں وہ اس باب کی تمام موضوع و منکر روایات سے گریزاں گزر گئے 

لیکن مقدمہ سیرت میں شبلی نے اس روایت پر اور ایسی دوسری ضعیف و ناقابل اعتبار روایات پر سخت اور صاف تنقید کی ہے: ’’جس قدر تحقیق و تنقید کا درجہ بڑھتا جاتا ہے مبالغہ آمیز روایتیں گھٹتی جاتی ہیں، مثلاً یہ روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ عالم وجود میںآئے تو ایوان کسریٰ کے ۱۴ کنگرے گر پڑے، آتش فارس بجھ گئی،بحیرہ طریہ خشک ہوگیا‘‘۔ بیہقی، ابونعیم، خرائطی ابن عساکر اور ابن جریر نے روایت کی ہے لیکن صحیح بخاری اور مسلم بلکہ صحاح ستہ کی کسی کتاب میں اس کا پتہ نہیں چلتا‘‘ (۱/ ۳۷۳۸: صحیحین یا صحاح ستہ میں ان کا پتہ نہ چلنا ایسی روایات کی تضعیف یا تغلیط کے لیے کافی نہیں کہ کتب حدیث میں بہت سی صحیح روایاتِ سیرت نہیں ملتیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دوسرے میدان کی ہیں۔ اصل نقد یہ ہے کہ وہ مذکورہ بالا راویان خوش عقیدہ کی بیان کردہ ہیں اور ان میں ابن جریر طبری قدیم ترین ہیں جن سے دوسروں نے اخذ کی ہیں) مقدمہ سیرت میں ایسی اور مبالغہ آمیز روایات کا ذکر کرکے ان پر سخت نقد کیا ہے اور مواھب لدنیہ کا حوالہ دیا ہے۔ اس سے قسطلانی مراد ہیں یا زرقانی یا موخرالذکر کے حوالے سے اول الذکر۔ (۱/ ۳۸؛ حاشیہ: ۱)

سیرۃ النبی کی ضعیف /موضوع روایات: متعدد وجوہ و اسباب سے مولانا شبلی نے کئی ضعیف و ناقابل اعتبار روایات و اخبار اپنے متن و حواشی دونوں میں بیان کی ہیں۔ ان کے جامع مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ان پر نقد و استدراک سے با ادب و با ملاحظہ کام لیا ہے اور کچھ ایسی بھی ہیں جن کو میزان نقد میں وہ نہیں تول سکے۔ تنقید و تبصرہ سلیمانی کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ پہلے پیش کیا جاچکا ہے۔ اس میں خاص سیرت نبویؐ سے متعلق بعض غیر مستند روایات یہ ہیں:

اعزہ و اقربا کو دعوت اسلام دینے کے واقعہ میں طبری کی ایک روایت قبول کرکے بیان کیا ہے کہ اکابر خاندان عبدالمطلب کے لیے ایک شاندار ضیافت کا اہتمام آپؐ نے نو عمر حضرت علیؓ سے کرایا اور اس موقع پر سب کو اسلام لانے کی دعوت دی لیکن تمام شرکائے مجلس ساکت رہے۔ دفعتاً حضرت علیؓ نے آپؐ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس پر سید صاحب نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اس ر وایت میں ’’وجوہ ضعف بلکہ وجوہ وضع ہیں‘‘۔ 

مہاجرین حبشہ کی تعداد پر سید صاحب نے ایک مفصل وطویل حاشیہ رقم کیا ہے اور اس میں مختلف امامان سیرت کی فروگذاشتوں سے بحث کی ہے اور بیان شبلی کی تصحیح کی ہے۔ 

اسلام و کفر ابوطالب کے نزاعی مبحث میں حضرت مصنف نے بخاری اور ابن اسحاق کی روایات پر بحث کرتے ہوئے بخاری کی روایت کو عموماً صحیح تر مانے جانے کا موقف علماء و محدثین نے بیان کیا ہے اور پھر ’’محدثانہ حیثیت سے بخاری کی یہ روایت چنداں قابل حجت نہیں کہہ کر دونوں کی روایات کی مرسل حیثیت دکھائی ہے اور دونوں کے درجہ استناد میں چنداں فرق نہیں پایا۔ جامع سید نے اپنے تنقیدی حاشیہ میں مولانا شبلی پر روایتی اور درایتی دونوں اعتبار سے سخت نکیر کی ہے اور مولانا شبلی کی رائے، تبصرہ اور موقف سب کی غلطی واضح کی ہے۔ 

غلط کی صحیح روایات سے تصحیح: مقدمہ سیرت اور متن سیرت کے مباحث میں مولانا شبلی نے کتب سیرت میں صحیح و سقیم کے خلط ملط ہونے اور موخرالذکر کے بھرپور ہونے کی فکر نہیں کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سیرت کی امہات الکتب اور مصادر اصلی سے لے کر ثانوی جلیل القدر مآخذ تک اور ان پر مبنی دیگر کتب سیرت ان سے بھری پڑی ہیں۔ مولانا شبلی اپنی سیرۃ النبی میں ان غلط روایات کو روایت و درایت دونوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں اور ان کے زبردست اور ایمان پرور دلائل دیتے ہیں۔ان کا مطمح نظر شروع سے اپنی کتاب مستطاب کو صحیح ترین روایات و احادیث سے منور کرنا اور غلط و ضعیف روایات و اخبار سے پاک رکھنا تھا۔ اس بنا پر انہوں نے بہت سے مباحث میں ان غلط و منکر روایات پر نقد خالص سے کام لیا ہے مگر روایات پرست اہل سیر ان کی تنقیحات سے گریزاں و ناخوش ہیں۔

بحیرا راہب کا قصہ: بہت مقبول و محبوب مبحث سیرت ہے، اس کا لب لباب یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کی عمر شریف قریب بارہ سال کی تھی جب آپؐ کو عم مکرم ابوطالب اپنے تجارتی سفر شام پر لے گئے اور بصریٰ کے مقام پر قیام کے دوران ایک عیسائی راہب بحیرا نامی نے آپؐ کو سید المرسلین قراردیا کہ اس کی کتب میں مذکور علامات اور درخت کے نیچے قیام کے معجزات یہی بتاتے ہیں۔ مولانا شبلی کی تحقیق دل پذیر ہے کہ ’’یہ روایت مختلف پیرایوں میں بیان کی گئی ہے ۔ تعجب یہ ہے کہ اس روایت سے جس قدر عام مسلمانوں کو شغف ہے اس سے زیادہ عیسائیوں کو ہے۔ سرولیم میور، ڈریپر، مارگولیتھ وغیرہ سب اس واقعہ کو فتح عظیم خیال کرتے ہیں اور اس بات کے مدعی ہیں کہ رسولؐ نے مذہب کے حقائق و اسرار سب اسی راہب سے سیکھے‘‘ پھر عیسائی مصنّفین کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’اگر اس روایت کو صحیح مانتے ہیں تو اس طرح ماننا چاہیے جس طرح روایت میں مذکور ہے‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔ ان کے دلائل ہیں:

’’سب طریقے مرسل ہیں اور سب سے زیادہ مستند طریقہ ترمذی کا ہے اور پھر اس پر روایتی نقد کرکے حاکم کا تبصرہ و درایتی نقد علامہ ذہبی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے بعض واقعات کو موضوع او رمنکر خیال کرتا ہوں‘‘۔ مزید روایتی اسقام سے بحث کرکے حافظ ابن حجر کی روایت پرستی کی بنا اس کی صحت تسلیم کرنے کے خیال پر بھی سخت درایتی نقد کیا ہے۔ مولانا شبلی کے جامع و مرتب مولانا سید سلیمان ندویؒ جلد سوم کی بحث میں قصہ بحیرا راہب کی وضعیت پر دلائل لاتے ہیں (۱/ ۱۲۷۱۲۸ مع حواشی ؛ دور جدید کے ہمامین سیرت کے روایتی نقدکے باوجود بیشتر جدید سیرت نگاروں نے محض روایت پرستی میںاس قصہ نامعقول کو قبول کیا ہے)

حضرت خدیجہ بنت خویلد اسدیؓ سے نکاح نبوی: رسول اللہؐ کا عقد نکاح ان کے عم مکرم ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کے ولی و چچا عمرو بن اسد نے انجام دیا تھا مگر بعض روایتوں میں حضرت خدیجہ ؓ کے والد خویلد بن اسد کے پڑھانے کا ذکر آتا ہے۔ مولانا شبلی نے امام سہیلی کی تحقیق سے لکھا ہے کہ : موخر الذکر روایت صحیح نہیں ،امام سہیلی نے بتصریح اور بدلیل ثابت کیا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کے والدجنگ فجار کے قبل انتقال کرچکے تھے‘‘ (۱/ ۱۳۳، حاشیہ: ۱: الروض الانف ۱/ ۱۲۲، ابن سعد ۱/۸۵، ’’ض‘‘) نیز ۱/ ۱۳۴ حاشیہ شبلی ۱: میں شبلی کا بیان ہے کہ ’’حضرت خدیجہؓ کے نکاح کے واقعات ابن ہشام، ابن سعد و طبری میں بہ اختلاف اجمال و تفصیل و اثبات و نفی مذکور ہیں۔ میں نے قرائن سے جو روایت زیادہ قابل اعتبار پائی وہ نقل کی ہے ،یک جا تمام حالات دیکھنے ہوں تو زرقانی جلد اول ص۲۳۲سے ۲۳۶ تک دیکھنا چاہیے‘‘ محشی دوم ’’ض‘‘ (مولانا ضیاءالدین اصلاحیؒ) نے مسند ابن حنبل، مسند ابن عباس ۱/۳۱۲ کا اضافہ مزید کیا ہے)

فرزند اکبر کا اولین تسمیہ: امام بخاری کی تاریخ صغیر میں بھی آپؐ کے فرزند اکبر کا نام عبدالعزیٰ رکھنے کی روایت موجود ہے اور اس سے نصاریٰ نے استدلال فاسد عقائد و معمولات نبوی کے بارے میں کیا ہے۔ مولانا شبلی نے اولاً اس روایت کی صحت پر سوالیہ نشان لگا کر تسمیہ کی ذمہ داری حضرت خدیجہؓ کی بت پرستی پر ڈالی ہے اور آپ کے عدم تعرض کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ آپ ابھی تک منصب ارشاد پر مامور نہیں ہوئے تھے اور آخر کار تصریح کی ہے کہ ’’یہ روایت فی نفسہ بھی ثابت نہیں۔ اس روایت کا سب سے زیادہ صحیح سلسلہ وہ ہے جو امام بخاری نے تاریخ صغیر میں روایت کیا ہے‘‘۔ پھر اس کے پہلے راوی اسماعیل کی عدم ثقاہت پر محدثین کرام کا تقریباً اجماع نقل کیا ہے۔

اس سے زیادہ اہم یہ بیان و صراحت شبلی ہے کہ ’’یہ امر واقعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرتؐ نے نبوت سے پہلے بت پرستی کی برائی شروع کردی تھی اور جن لوگوں پر آپؐ کو اعتماد تھا ان کو اس بات سے منع فرماتے تھے (۱/ ۱۳۶۱۳۷؛ حاشیہ:۲ میں مسند احمد بن حنبل ۴/۲۲۲ کے حوالے سے حضرت خدیجہؓ سے رسول اکرمؐ کی ایک حدیث کا ذکر کیا ہے جس میں لات و عزیٰ کی عبادت سے انکار کیا تھا۔ اسی میں مارگولیتھ پر خاصا نقد ہے جو فریب کاری سے لات و عزیٰ کی پوجا کا الزام لگاتے ہیں اور دوسری مراسم شرک میں ذات نبوی کے شریک ہونے کی بات کہتے ہیں)

مشہور حنیف حضرت عمرو بن زید بن نفیل عدویؓ کے تمام مشرکانہ عقائد سے کلی اجتناب اور خالص توحید و دین ابراہیمی کی کامل پیروی کی بحث میں مولانا شبلی نے بتوں کے چڑھاوے خاص کر ان کے نام پر ذبیحہ کے گوشت کھانے کی مشہور عام روایت و حدیث کا ذکر کرکے بخاری کی روایت و حدیث نقل کی ہے کہ قریش کے پیش کردہ ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانے سے آپؐ نے انکار فرمادیا۔ حاشیہ میں انہوں نے احادیث بخاری کے الفاظ میں اجمال رہ جانے کا بھی شکوہ کیا جو دوسری حدیث سے دور ہوگیا اور بخاری کے سامنے دوسری روایت مسند احمد بن حنبل ۱/۱۸۹ کی روایت کو بلا وقعت قرار دیا۔ یہ صحیح حدیث اور واقعہ سے غلط کی تردید کی ایک بڑی روایتی اور درایتی بحث ہے۔ 

مورخین میں سے کسی ایک کی ترجیح/تطبیق: ابواب سیرت ہوں یا اسلامی تاریخ کے مباحث، مورخین و ارباب سیرت اور بسا اوقات محدثین کرام متعدد متصادم روایات و بیانات نقل کرتے ہیں۔ عام روایت پرست علماء و اہل قلم ان کو بلامحاکمہ نقل کردیتے ہیں اور قارئین کو مصیبت میں ڈال دیتے ہیں کہ کون سی روایات صحیح ہیں ۔ محققین علماء و محدثین اور سیرت نگاران گرامی دو یا زیادہ متعارض روایات و بیانات میں تطبیق و ترجیح کے دو اصول سے کام لے کر کسی ایک کوترجیح دیتے ہیں یا تطبیق دے کر ان کی صحت کا دائرہ طے کرتے ہیں۔ مولانا شبلی ان ہی محققین علمائے سیرت میں سے ایک ہیں کہ وہ تطبیق کا کام خوش اسلوبی سے کرتے ہیں۔ گرچہ وہ خوش اسلوبی خالص تطبیقی ہی ہوتی ہے۔ ایسی تطبیقات شبلی کی متعدد مثالیں ہیں اور ان میں سے چند ہیں:

شارح ابن ہشام امام سہیلی کا خیال و توجیہ کہ ’’عرب میں دودھ پلانا اوراس کی اجرت لینا شریفانہ کام نہیں خیال کیا جاتا تھامگر حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے رضاعت کاکام قحط کی بدحالی کی وجہ سے اختیار کیا تھا‘‘۔ مولانا شبلی نے اما م موصوف کی توجیہ و تنقید قبول نہ کی کہ مکہ میں ہر سال باہر سے عورتیں اس کام کے لیے آیا کرتی تھیں۔ ان کا تطبیقی استدلال ہے: ’’ ہمارا خیال ہے کہ اس کام کو معیوب سمجھنا عرب کا عام خیال نہ تھا، اہل شہر اور امراء کے ساتھ مخصوص ہوگا‘‘ (۱۲۲؛حاشیہ:۳) ۔رضاعت کے شریفانہ و غیر شریفانہ تصور و خیال میں مولانا شبلی کی توجیہ بھی غیر معیاری ہے۔

حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے قیام و پرورش نبوی کے بارے میں مولانا شبلی نے اختلاف کا ذکر کرکے ابن اسحاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۶ برس کا عرصہ لگا تھا۔ مولانا شبلی کا جملہ کہ’’ ابن اسحاق نے وثوق سے لکھا‘‘۔ مصدر مذکورہ بالا کے بیان کے قطعی خلاف ہے اور حاشیہ نگار دوم ’’ض‘‘ کا حاشیہ (۱) ’’علامہ زرقانی نے اموی کا قول یہی بتایا ہے ‘‘ اور بھی باعث خلجان ہے۔ زرقانی کے متاخر مصدر سے اموی کے قول کو ابن اسحاق سے کیا نسبت جبکہ اصل مصدر صرف دو برس بتاتا ہے۔

حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے نبوت محمدی سے قبل وفات پانے کی روایت و بیان ابن کثیر کو شبلی نے ابن ابی خیثمہ کی تاریخ، ابن جوزی کی ’’حدا‘‘، منذری کی مختصر سنن ابی داؤد، ابن حجر کی اصابہ اور حافظ مغلطائی کے رسالہ التحفۃ الجسیمۃ فی اثبات اسلام حلیمہ کے حوالے سے مسترد کرکے وضاحت کی کہ وہ اسلام لائی تھیں 

حضرت آمنہؓ کی وفات اور سفر مدینہ کے باب میں مولانا شبلی نے مورخین کے دو خیالات کا ذکر کیا ہے: ۱– دادا عبدالمطلب کے ننہیال والوں کی زیارت کو گئی تھیں اور ۲– شوہر عبداللہ کی قبر کی زیارت کی خاطر سفر کیا تھا۔ مولانا شبلی نے دوسرے خیال کے مورخین کی تائید کی ہے او ردور کے رشتہ کی وجہ سے اول کو مسترد کیا ہے (۱۲۴)۔ اصلاً مولانا شبلی کو بلاذری کی روایت کا علم نہ ہوا یا صرف نظر ہوا کہ وہ عبدالمطلب کا سفر زیارت اخوال تھااور اس میں وہ شریک تھیں۔

ہجرت نبوی کے بعد عالیہ یا قبا ء کے خاندان بنو عمر و بن عوف میں ان کے افسر کلثوم بن الہدم کے کاشانہ سعادت میں قیام فرمایا : ’’تمام مورخین ار باب سیر لکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے یہاں صرف دو چار دن قیام فرمایا لیکن صحیح بخاری میں چودہ دن ہے اور یہی قرین قیاس ہے‘‘ (۱/ ۱۹۷، حاشیہ ۴ میں مقدم النبیؐ و اصحابہ الی المدینہ؛ وردو قباء کی تاریخ بھی اکثر مورخین کے اتفاق سے دی ہے جس کا ذکر تحقیقات جدید میں آتا ہے، نیز ۱/ ۲۱۳ بیت کلثوم بن الہدم میں قیام نبوی )۔

شہر مدینہ میں بنو النجار کے درمیان قیام کے بارے میں اکثر مورخین و اہل سیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے اصرار اور ان کی دل شکنی سے بچنے کی خاطر آپؐ نے فرمایا کہ میری ناقہ مامور ہے اسے چھوڑ دو۔ وہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی اس لیے آپؐ نے ان کے گھرپر قیام فرمایا لیکن صحیح مسلم (باب فی حدیث الھجرۃ) میں ہے کہ جب لوگوں میں آپ کی میزبانی کے متعلق جھگڑا ہوا تو آپ نے فرمایا کہ:’’ میں بنو النجار کے ہاں اتروں گا جو عبدالمطلب کے ماموں ہیں‘‘۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ نے عمداً ایسا کیا تھا۔ حضرت ابوایوب انصاریؓاس خاندان سے تھے۔ امام بخاری نے تاریخ صغیر میں تصریح کی ہے کہ ابو ایوبؓکے گھر اترنا اسی قرابت کی وجہ سے تھا‘‘۔ 

اذان کی ابتدا کی بحث میں مولانا شبلی کا موقف یہ ہے کہ اذان کی تجویز حضرت عمرؓ نے پیش کی تھی: ’’صحاح ستہ کی بعض کتابوں میں ہے کہ اذان عبداللہ بن زیدؓ نے پیش کی تھی جو انہوں نے خواب میں دیکھی تھی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ کو بھی خواب میں توارد ہوا تھا لیکن صحیح بخاری کی روایت کے مقابلہ میں کسی اور روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی‘‘ (۱/ ۲۰۳۲۰۴؛ حاشیہ ۴ میں حضرت جامع کا استدراک ہے کہ حضرت عمرؓ نے بخاری والی روایت کے مطابق آدمی بھیج کر نماز کا اعلان کرنے کا مشورہ دیگر صحابہ کی مانند دیا تھا۔ حضرت جامع کا خیال ہے کہ مروجہ اذان کے الفاظ آپ نے اور بعض صحابہ نے خواب میں دیکھے تھے اور ان کو منجانب اللہ سمجھ کر قبول فرمالیا‘‘۔ بحوالہ فتح الباری ، نووی، زرقانی اور روض الانف)

حضرت فاطمہ زہرؓا کی شادی کے ضمن میں مولانا شبلی نے ابن سعد کی یہ روایت کہ پہلے ان کا ہاتھ حضرات شیخین نے مانگا بظاہر صحیح نہیں تسلیم کی اور ابن حجر کی اصابہ میں حضرت فاطمہؓ کے بارے میں اکثر روایات ابن سعد قبول کرنے کے واقعہ کے بعد اس خاص روایت کو نظر انداز کرنے سے استدلال کیا ہے۔ 

دوسرے واقعات خاص کر غزوات اور ان کے بیانیے میں گتھے ہوئے سماجی واقعات کے باب میں بھی مولانا شبلی نے کسی ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دے کر قبول کیا ہے جیسے:

غزوہ حنین کے موقع پر آپؐ نے عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لیے۔ یہ امام احمد کی مسند میں روایت ہے، حاشیہ میں اصابہ کی روایت بخاری میں دس ہزار تعداد ہے۔ 

شارحین حدیث کی ترجیح: متون قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر اور مراد میں محدثین اور ان کے شارح عالی مقام کے اختلافات فکر و نظر کا ایک انبار عظیم ملتا ہے۔ مباحث سیرت میں مولانا شبلی نے بسا اوقات ان میں سے دو متصادم تفسیروں اور مرادوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے اور وجہ ترجیح صاف نہیں کی یا خود اس کی تحقیق کی ہے اور وجہ ترجیح بھی بتائی ہے۔ ان دونوں یا تینوں جہات ترجیح کا ذکر ان کی سیرۃ النبی کے متن و حواشی دونوں میں ملتا ہے۔ تحقیق و تنقید سیرۃ النبی کے اس وسیع الجہات اور عظیم المقاصد باب سے چند ترجیحاتِ شروح کا ذکر بطور نمونہ کیا جاتا ہے:

رعی غنم: لڑکپن میں رسول اکرمؐ کا ایک مشغلہ حیات اور کار منصبی رہاتھا جیسا کہ دوسرے تمام انبیائے کرام کا اپنے وقتوں میں رہا تھا۔ مولانا شبلی نے اس مبحث سیرت کے حاشیہ میں دو نقطہ نظر یا دو تفسیروں میں محاکمہ کرکے ایک کی ترجیح کا کام کیا ہے: ابن سعد اور بخاری کے حوالے سے حدیث نبوی ’’رعی الغنم علیٰ قرار یط‘‘ میں وارد لفظ قراریط کے معنی و مراد کے بارے میں مذکورہ بالا دونوں مصادر سیرت کے علاوہ ابن ماجہ کے شیخ سویدبن سعید کی رائے نقل کی ہے کہ قراریط، قیراط کی جمع ہے اور قیراط درہم یا دینار کے ٹکڑے کا نام ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اجرت پر لوگوں کی بکریاں چراتے تھے۔ دوسرا قول ابراہیم حربی کا ہے کہ قراریط اجیاد پہاڑ کے قریب ایک مقام کا نام تھا۔ ابن جوزی نے اس کو ترجیح دی ہے اور علامہ عینی اور مولف نور النبراس نے اس کو ترجیح دی ہے۔ مولانا شبلی بھی اس دوسری رائے و تفسیر سے متفق ہیں۔ (۱/۱۲۵، حاشیہ :۱، درایتی وروایتی دونوں اعتبار سے اول تفسیر قابل ترجیح ہی نہیں صحیح متین ہے)

قس بن ساعدہ کا خطبہ: ’’مختصر و مطول بہ عبارات مختلفہ بغوی ، ازدی، بیہقی، جاحظ وغیرہ نے نقل کیا ہے لیکن وہ سرتاپا مصنوعی اور موضوع ہے۔ اس کے روات عموماً ناقابل سند بلکہ کذاب ہیں‘‘۔ مولانا شبلی نے اپنی مفصل بحث اللآلی المصنوعہ مطبوعہ مصر ص ۹۵۱۰۰ سے نقل کی ہے اور حاشیہ میں اس کا حوالہ دے کر شارحین حدیث سیوطی، ذہبی، حجر وغیرہ کے اقوال و مباحث سے اپنی بات کو مدلل کیا ہے۔ اخیر میں ابن حجرکی تضعیف روایت پر خاتمہ کیا ہے۔ 

محدثین و شارحین حدیث پر نقد: جدید امام سیرت شبلی کا ایک خاص امتیاز ان کا تبحر حدیث بھی ہے جس سے روایت پرست علماکو اختلاف ہی نہیں انکار ہے۔ مولانا شبلی بلاشبہ شارحین حدیث اور ان کے مراجع و منابع امامانِ حدیث کے تبحر علم و فن کے قائل تھے اور ان سے استناد و استشہاد بھی کرتے تھے لیکن وہ شارحین کرام تو خیر بعد کی سوغات ہیں امامان عالی مقام کی روایات و احادیث میں سے بعض پر روایتی ودرایتی نقد کرتے ہیں اور اسے سیرت و حدیث کا ہی نہیں اسلام و دین حق کا ایک فریضہ سمجھتے ہیں۔

سیرت نگاری میں وہ شان و عظمت نبوی اور عصمت و طہارتِ محمدی پر ایسا پکا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کے پاک دامن پر کوئی دھبہ برداشت نہ کرسکتے اور بڑے سے بڑے امام سے اختلاف کرجاتے ہیں ان کا ایک سنہری اصول اور واقعی ضابطہ یہ ہے کہ نبی خاص کر سید الانبیاء کی مرتبت صدق و منزلت ملکوتی سے متصادم کوئی روایت قبول نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے وہ شارحین حدیث میں امام ابن حجر، سیوطی، بیہقی وغیرہ کے علاوہ امام زہری جیسے عظمائے فن کی روایات و تشریحات کو نقد کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور ان میں سے کسی شرح و تفسیر یا روایت وحدیث کو شان و عظمت نبوی کی خلاف ورزی کرتے پاتے تو اسے مسترد کردیتے ہیں وہ اس باب میں تنہا نہیں ہیں۔ متعدد شارحین حدیث بھی ان کے اصول و بیان اور نقد سے اتفاق رکھتے ہیں اور مولانا شبلی کو تائید میں لاتے ہیں۔

فترہ وحی کے دوران پہاڑ کی چوٹی سے مارے حزن و ملال کے اپنے آپ کو گرا دینے کی روایت صحیح بخاری، کتاب التعبیر سے نقل کرنے کے بعد مولانا شبلی نے حافظ ابن حجر پر سخت نقد کیا ہے اور ان جیسے روایت پرستوں میں سے بیہقی،مسلم اور صحاح ستہ وغیرہ سے درختوں کی شاخیں جھک آنے، شجر و حجر کے سلام کرنے اور فرشتوں کے سینہ مبارک چاک کرکے جسمانی آلائش نکال کر باہر کرنے کی احادیث و روایات کے بل پر نقد کیا ہے کہ آپؐ کی کیفیت ملال و حزن اور فرشتوں کی تسکین اور باربار حضرت جبریلؑ کی تسلی، تشفی اور آپؐ کو آپؐ کی نبوت کی یقین دہانی کی کیا ضرورت تھی اور کیا کسی اور پیغمبر بالخصوص حضرت موسیٰؑ کو اول بار کلام الٰہی سن کر کوئی شبہ ہوا تھا جو آپؐ کو ہوتا۔ اس لیے مولانا شبلی کا بیان صریح ہے کہ حافظ ابن حجر وغیرہ کی پیروی کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں، کیونکہ یہ روایت امام زہری کے بلا غات میں سے ہے یعنی سند کا سلسلہ زہری تک ختم ہوجاتا ہے اور آگے نہیں بڑھتا۔ چنانچہ خود شارحین بخاری نے تصریح کردی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے عظیم الشان واقعہ کے لیے سند مقطوع کافی نہیں‘‘۔ (ا/ ۱۴۴۱۴۵ مع حواشی؛ سند متصل و مرفوع بھی ہو تو ذات رسالت مآبؐ سے ایسی حرکت حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتی کہ وہ آپؐ کی نبوی عظمت و عصمت کے خلاف ہی نہیں آپؐ کی عظمت کردار وطہارت بشری کے بھی منافی ہے)

حضرت ابوذر غفاریؓ کا واقعہ حاشیہ مولانا شبلی کے مطابق ’’بخاری و مسلم دونوں میں مذکور ہے لیکن باہم اختلاف ہے۔ میں نے دونوں سے کچھ کچھ لیا ہے لیکن اختصار کے لحاظ سے بہت سے باتیں چھوڑ دیں ‘‘ (محشی دوم ’’ض‘‘ نے بخاری کی کتاب المناقب، باب قصۃ زمزم اور باب بنیان الکعبۃ، باب اسلام ابی ذرؓ سے دو جگہ اور صحیح مسلم باب من فضائل ابی ذرؓکا مع جلد و صفحات نمبرحوالہ دیا ہے)

غرانیق کی روایت پر نقد شبلی ان کے تبحر حدیث اور روایتی و درایتی نقد دونوں کا ایک شاہکار ہے۔ سورہ نجم کی آیت سجدہ :۶۲ ’’پر آپؐ کے ساتھ تمام جن و انس اور اکابر قریش نے سجدہ کیا جیسا کہ صحیح بخاری باب قولہ فاسجدوا للّٰہ واعبدوا‘‘ میں مذکور ہے مگر باقی قصہ بے ہودہ اور ناقابل ذکر ہے اور اکثر کبار محدثین مثلاً بیہقی، قاضی عیاض،علامہ عینی ، منذری ، علامہ نووی نے اس کو باطل اور موضوع لکھا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت سے محدثین نے اس روایت کوبہ سند نقل کیا ہے۔ ان میں طبری، ابن ابی حاتم، ابن المنذ، ابن مردویہ، ابن اسحاق، موسیٰ بن عقبہ، ابو معشر شہرت عام رکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر تعجب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کو جن کے کمال فن حدیث پر زمانہ کا اتفاق ہے، اس روایت کی صحت پر اصرار ہے۔ مولانا شبلی نے واقعاتی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ کفار مکہ تلاوت قرآن کے وقت شور وغوغا مچاتے تھے اور اپنی طرف سے فقرے بڑھاتے تھے اور منوۃ الثالثۃ الاخریٰ کی آیت کے بعد کسی شیطان (کافر) نے تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتہن لترجی‘‘ ملادیے جن کو الفاظ نبوی قرار دیا گیا۔ مولانا شبلی نے اسے صرف اپنا قیاس نہیں ظاہر کیا بلکہ اگلے محققین کی تصریح زرقانی کی مواہب کے حوالے سے کی ہے۔ 

ہجرت نبوی کے دوران غارثور میں سہ روزہ قیام سے قبل روایات میں بعض معجزات کا ذکر ملتا ہے جیسے ببول کے درخت کی شاخوں نے آپؐ کو چھپا لیا، دو کبوتروں نے وہاں آکر گھونسلہ بنایا اور انڈے اس میں دیے، حرم کے کبوتر ان ہی کی نسل سے ہیں وغیرہ۔ مواہب لدنیہ /زرقانی نے ان کو تفصیل سے نقل کیا ہے لیکن یہ تمام روایتیں غلط ہیں، اس روایت کا اصل راوی عون بن عمرو، بقول بخاری وغیرہ منکرالحدیث اور مجہول ہے‘‘۔ (۱/ ۱۹۵؛ حاشیہ ۵: سیرۃ النبی جلد سوم میں ان پر سید صاحب کی مفصل بحث ہے)

تحقیقات جدید سے اختلافی روایات میں ترجیح: ولادت نبویؐ کی تاریخوں میں مصادر سیرت و حدیث کا بہت اختلاف ہے مگر بقول مولانا شبلی ’’اس قدر متفق علیہ ہے کہ و ہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور تاریخ ۸ سے لے کر ۱۲ تک میں منحصر ہے ربیع الاول مذکور کی ان تاریخوں میں دوشنبہ کا دن نویں تاریخ کو پڑتا ہے‘‘۔ اس لیے مولانا نے مصر کے مشہور ہیئت داں عالم محمود پاشا فلکی کی تحقیق قبول کرکے ابن اسحاق/ ابن ہشام کی بارہ ربیع اول کی تاریخ مسترد کردی۔ 

      قباء میں آپؐ کا داخلہ اسلام کے دور خاص کی ابتدا ہے، اس لیے مورخین نے اس تاریخ کو زیادہ اہتمام سے محفوظ رکھا ہے۔ اکثر مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ ۸؍ ربیع الاول ۱۳؍ نبوی (مطابق ۲۰؍ ستمبر ۶۲۲) تھی۔ محمد بن موسیٰ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جمعرات کا دن اور فارسی ماہ تیرکی چوتھی تاریخ اور رومی ماہ ایلول، اسکندری کی دسویں تاریخ تھی۔ مورخ یعقوبی نے ہیئت دانوں سے یہ زائچہ نقل کیا ہے۔ آگے زائچہ مذکور ہے۔ حاشیہ میں ہے کہ رومی ایلول کی دسویں کے بجائے جدید حساب سے بیسویں ثابت ہوتی ہے۔ خوارزمی نے جمعرات کا دن بتایا ہے لیکن جدید حساب سے دوشنبہ کا دن آتا ہے، آگے متن میں ہے کہ ۱۴ دن بعد (جمعہ کو) آپؐ شہر کی طرف تشریف فرما ہوئے۔ اس کا حاشیہ کہتا ہے کہ ’’خوارزمی کے حساب کے مطابق روز ورود (جمعرات) نہ لیا جائے تو ۱۴ دن کے بعد جمعہ ہوگا‘‘۔ 

مستشرقین پر نقد: بہت سے مباحث سیرت میں مولانا شبلی نے مستشرقین کے بیانات، تحقیقات اور خیالات سے تعرض کیا ہے اور وہ دو انواع کا ہے: ایک قسم میں وہ ان کے صحت مند و صحیح بیانات و افکار کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ ان کی دادبھی دیتے ہیں اور روایات و احادیث کی تائید و تشریح کا کام لیتے ہیں۔ دوسری نوع وہ ہے جس میں وہ ان کے افکار و نتائج اور تحقیقات پر نقد کرتے ہیں اور روایت و درایت اور عقل و منطق کے لحاظ سے ان کی قلعی کھولتے ہیں۔ بیشتر اردو، عربی، اور انگریزی کے صاحبان علم نے مولانا شبلی کے نگارشات سیرت و تاریخ کو ان کے صحیح تناظر میں نہیں پرکھا اور نتیجہ یہ کہ ان کو غلط سمجھا۔

غلط فہمی کا دائرہ جہالت یہ ہے کہ مولانا شبلی کو صرف ناقد و نکتہ چیں مستشرقین قرار دیا گیا اور بعض بعض اہل فکر نے تو سیرۃ النبی کو نقد مستشرقین کی کتاب قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ صرف ان کی کاٹ کرنے اور تردید کرنے کے لیے تصنیف کی تھی اور دلائل و شواہد اس فکر و خیال سے کتاب سے ڈھونڈھے۔ مشرقی مزاج اور روایت پرست علماء و اہل سیرت نے اور دیگر مفکرین و سوانح نگاروں نے بھی اسی معنی تنگ و تاریک میں مولانا شبلی کو متکلم اسلام ثابت کیا حالانکہ سیرت نگاری اور تاریخ نویسی کے فنون نازک میں مولانا شبلی نے علم کلام کے تناظر میں تدوین و تصنیف کو وقت کا ایک تقاضا اور زاویہ ہی بنایا ہے۔یہ ایک طویل اور تحقیقی مطالعہ کا موضوع ہے جس کے چند نمونے درایت و روایت کی بنیادوں پر نگارش کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں:

نسب نبویؐ : سیرت و نسب کی غلطیوں کی وجہ سے ابہام و اختلاف بیان کر کے عیسائی مورخین بالخصوص ولیم میور نے آپؐ کے سلسلہ ابراہیمی پر وار کیا اور مولانا شبلی نے اس خیال کی تردید کی اور اسی میں آپؐ کے خاندان کو فروتر اور مبتذل ثابت کرنے کی بہ دلائل تردید کی، ان کے تمام دلائل کو درایتی طور سے غلط ثابت کیا ۔

بنو سعد میں رضاعت: سرولیم میور لکھتے ہیںکہ ’’محمدؐ کی جسمانی حالت بہت اچھی تھی۔ ان کے اخلاق آزاد اور مستغنی عن الغیر تھے جس کی وجہ ان کاپانچ سال تک ہی سعد میں بسر کرنا تھا اور اسی وجہ سے ان کی تقریر جزیرہ نمائے عرب کے خالص نمونہ کے موافق تھی۔ (۱/۱۲۲؛ حاشیہ: ۱)۔ عبدالمطلب کی کفالت پر مارگولیتھ نے جوخامہ فرسائی کی ہے اس پر مولانا شبلی کا تبصرہ خاصا تلخ ہے: ’’مارگولیتھ صاحب کو دادا کا پوتے پر مہربان ہونا بھی گوارا نہیں، فرماتے ہیں کہ یتیم لڑکے کی حالت کچھ اچھی نہ تھی‘‘۔ 

رعی غنم: فرانس کے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ ابوطالب چونکہ محمدؐ کو ذلیل رکھتے تھے اس لیے ان سے بکریاں چرانے کاکام لیتے تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عرب میں بکریاں چرانا معیوب کام نہ تھا۔ بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چراتے تھے، خود قرآن مجید میں ہے ’’وَلَکُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ(نحل:۶)اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا۔ (ا/۱۲۵) اس پر یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ رعی غنم کا مشغلہ کار انبیائے کرام تھا جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے،موسیٰؑ اور ان پیشرؤوں، معاصروں اور جانشینوں نے یہ کار سرفرازی کیا تھا۔

بحیرا راہب کا قصہ بقول مولانا شبلی ’’عیسائی سیرت نگاروں خاص کر ڈریپر، سرولیم میور، مارگولیتھ وغیرہ کو بہت پسند ہے اور وہ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر میں آپؐ کو اس عیسائی راہب نے مذہب کے حقائق و اسرار سکھا دیے تھے اور انہیں پر آپؐ نے عقائد اسلام کی بنیاد رکھی‘‘۔ مولانا شبلی نے متن و حواشی دونوں میں اس پر روایتی و درایتی نقد کرکے ان کے بیانات و تحقیقات کی پول کھولی ہے۔ 

نبوی معارف و معلومات کے تجارتی اسفار سے ماخوذ ہونے حتی کہ قرآن مجید میں جہازوں کی رفتار اور طوفان کی کیفیات وغیرہ کے مذکورہ ہونے کو بھی مستشرقین نے آپؐ کے ذاتی تجربات کا نتیجہ قرار دیا ہے اورمصر کے سفر اور بحر میت کے معاینہ کا بھی حوالہ دیا ہے جس کے بارے میں تاریخی دفتر بقول مولانا شبلی ان واقعات سے خالی ہے۔ مولانا نے اس باب میں نقد کرتے ہوئے خوب لکھا ہے کہ ’’مورخین یورپ، علوم غیبی کے منکر ہیں اور صرف مشاہدات کو مانتے ہیں‘‘۔ 

فرزند اکبر کے مشرکانہ تسمیہ پر بھی مولانا شبلی نے مارگولیتھ اور مورخین یورپ کی فریب دہ حرکات کا پردہ چاک کیا ہے اور آپؐ اور حضرت خدیجہؓ کے مراسم شرک بلکہ لات و عزی کی پوجا تک کا نادر خیال تارتار کیا ہے اوران کے قیاس و رائے پر سخت نکیر کرکے ان کے فاسد بیانات کی مفصل تردید کی ہے۔ 

ہجرت حبشہ کے بارے میں مولانا شبلی نے مارگولیتھ کی بڑی نازک اور دوراز نظر وجہ تلاش کرکے پیدا کرنے پر سخت نقد کیا کہ آپؐ نے شاہ نجاشی کو ابرہہ کی طرح مکہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور بعد میں اپنے ہاتھ کچھ نہ آنے سے باز رہے۔ مولانا شبلی کا طنز و تاریخی استدلال غضب کا ہے۔ 

سلسلہ غزوات کے پہلے دوپیرا گراف سیرۃ النبی کے مولف کے جوہر نقد و نظر کے ساتھ مصادر سیرت اور مباحث غزوات پر ارباب سیر اور مستشرقین کی نگارشات، ان کے طول و عرض اور وسعت اور ان کے مقاصد کو بھی بڑی ژرف نگاہی سے اجاگر کرتے ہیں: ’’کیا عجیب بات ہے، ارباب سیر مغازی کی داستان جس قدر دراز نفسی اور بلند آہنگی سے بیان کرتے ہیں یورپ اسی قدر اس کو زیادہ شوق سے جی لگا کر سنتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ داستان اور پھیلتی جائے، کیونکہ اس کو اسلام کے جور و ستم کا جو مرقع آراستہ کرنا ہے، اس کے نقش و نگار کے لیے لہو کے چند قطرے نہیں، بلکہ چشمہ ہائے خون درکار ہیں۔ یورپ کے تمام مورخوں نے سیرت نبوی کو اس انداز میں لکھا ہے کہ وہ لڑائیوں کا ایک مسلسل سلسلہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ زبردستی مسلمان بنائے جائیں، لیکن یہ خیال چونکہ واقع میں غلط اور سرتاپا غلط ہے اس لیے مغازی کی ابتدا سے پہلے ضرور ی ہے کہ اس بحث کا فیصلہ کیا جائے‘‘۔ 

مولانا شبلی نے صرف اس ابتدائی بحث میں ہی نہیں غزوات کے طویل و مفصل بیانیے میں بھی اور بعد میں ایک خاص مدلل بحث ’’غزوات پر دوبارہ نظر‘‘ میں اپنی درایتی تنقید اور روایتی تمحیص کے بہت سے لعل و جوہر پیش کیے ہیں اور غزوات و سرایائے نبویؐ کے بارے میں امامانِ سیرت اور مستشرقین یورپ کے بیانات و تحقیقات پر نقد کیا ہے۔ اس کا ایک سرسری تجزیہ اور غزوہ بہ غزوہ تحلیل اور آخری مبحث کا جایزہ کافی طول بیانی کا موجب ہے لہٰذا صرف چند نکات و اشارات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

غزوہ بدر میں قلیل مسلم فوج کے تین گنی بڑی قریش فو ج پر غالب آنے پر مولانا شبلی نے تبصرہ کیا ہے: ’’مغربی مورخین کو جن کے نزدیک عالم اسباب میں جو کچھ ہے صرف اسباب ظاہری کے نتائج ہیں حیرت ہے کہ تین سو پیدل آدمیوں نے ایک ہزار پر کیوں کر فتح پائی۔ وہ تائید آسمانی کے منکر ہیں‘‘۔ (۱/ ۲۳۴)۔مولانا شبلی نے آگے اسباب ظاہری سے بھی بحث کی ہے۔

غزوہ بنی قریظہ: مولانا شبلی کا خیال ہے کہ رسول اللہؐ نے قبیلہ بنو قریظہ کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ اوسیؓکے فیصلہ کو اس لیے قبول فرمایا تھا کہ اس باب میں آپؐ کے پاس قرآن مجید میں خاص حکم نہیں آیا تھا اور ایسی صورت حال میں آپؐ کے سامنے توراۃ کے احکام رہتے اور ان کی پابندی فرماتے۔ متعدد مسلم علماء و فقہا اور سیرت نگاروں نے اس فیصلہ کو سخت سزا تسلیم کرنے کے باوجود یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے سوا اب کوئی اور چارہ نہیں رہا تھا۔ مستشرقین میں سے مولانا شبلی نے بعض کے بیان و تبصرہ پر نقد کیا ہے: ’’سرولیم میور صاحب ارباب سیرت کی یہ روایت نہیں تسلیم کرتے کہ بنو قریظہ نے اس جنگ میں کوئی عملی حصہ لیا تھا۔

ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو قرآن مجید میں جہاں احزاب کا ذکر ہے وہاں اس کا ذکر ضرور ہوتا لیکن قرآن مجید میں صاف یہ الفاظ ہیں: ’’وانزل الذین ظاہر وہم من اھل الکتب، مظاہرہ (امداد) سے بڑھ کر اور کون لفظ درکار ہے‘‘۔ (۱/ ۳۰۸ حاشیہ: ۲)۔ حضرت سعد بن معاذؓکی بابت ایک دوسرے مغربی سیرت نگار کابیان ہے : ’’مارگو لیتھ صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ سعد بن معاذؓ کو اس جنگ میں ایک قریظی نے تیر سے زخمی کیاتھا جس سے وہ بالآخر ہلاک ہوگئے اس لیے انہوں نے بنو قریظہ کی نسبت ایسا بے رحمانہ فیصلہ کیا۔ لیکن وہ تیر انداز ابن العرقہ قریشی تھا، قریظہ نہ تھا، صحیح بخاری و مسلم میں صاف یہ تصریح ہے‘‘۔ (۱/۳۰۹، حاشیہ:۲: صحیحین کے ابواب کے حوالے اضافہ سلیمان ہیں۔ بحث کے آخر میں مولانا شبلی نے مخالفین اسلام کے اعتراض ظلم و بے رحمی پر بحث مدلل کی ہے)

ریحانہ کا غلط واقعہ: اسیران بنی قریظہ میں سے ایک ریحانہ نامی باندی تھی۔ اس سے تعلق ازدواج پر ایک عیسائی مورخ نے نہایت طعن آمیز انداز میں لکھا ہے۔ (۱/۲۱۲: اس کے نام کی تصریح کی ہے، نہ حوالہ دیا ہے)

نکاح حضرت زینب بن جحشؓ: عیسائی مورخوں نے اس واقعہ کو نہایت آب و رنگ دے کر لکھا ہے اور آنحضرتؐ کی تنقیص و نکتہ چینی (عیاذا باللہ) کے لیے ان کے نزدیک اور کوئی واقعہ بکار آمد نہیں ہوسکتا۔ (۱/۲۱۳) واقعہ کی اصل اور سادہ حقیقت بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ مخالفوں میں اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، سرتاپا کذب و افترا ہے لیکن ہم کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے رنگ آرائی کے لیے سیاہی ہمارے ہاں سے مستعار لی ہے‘‘۔ 

غزوہ حنین میں ہوازن و ثقیف کے جنگی رد عمل اور اسلام کی شدت سے مخالفت کے تبصرہ پر مولانا شبلی نے حاشیہ میں نقد کیا ہے: ’’ مارگو لیتھ صاحب لکھتے ہیں: حکومت اسلامی کی وسعت اور استحکام سے بدوی قبائل جن کوریگستان کی آزادی بہت عزیز تھی نہایت خائف تھے‘‘۔ (۱/ ۳۷۷، حاشیہ: ۴۔ اسی طرح غزوہ تبوک میں بعض انصاری صحابہ کی عدم شرکت کا عذر تراش کرکے مارگولیتھ نے غزوہ تبوک میں عام انصاری صحابہ کے جنگ میں شرکت کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ان کو حنین کے اموال غنیمت کی محرومی کا صدمہ تھا، ۱/۴۰۱،حاشیہ ۴ )

تنقید و تحسین مستشرقین: ناقد مستشرقین کے ایک منصفانہ اور تقابلی مطالعہ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ مستشرقین کے ایک طبقہ کی غلطیوں پر استدراک و نقد کرکے انہیں کے دوسرے طبقہ کی صحیح تعبیرو تشریح کو سامنے لاکر مغربی اہل علم اور ان کے کورانہ مقلدین کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ ایسے بعض معاملات یہ ہیں:

نسب نبویؐ پر متعددمغربی مورخین کی تحقیق میں فارسٹر کے جغرافیائی تاریخی عرب کے علاوہ بیسیوں علمائے مغرب کا بیان نقل کیا ہے کہ آپؐ بلاشبہ نسل ابراہیمی سے تعلق رکھتے تھے اور ولیم میور تنہا منکر حقیقت ہیں۔ (۱/ ۱۱۴۱۱۵؛ حاشیہ: ۱ : ولیم میور نے جس طرح کے سلسلہ گھڑنے کا الزام لگایا اس کی تردید شبلی عمدہ ہے)

سفر طائف کے مبحث کے حاشیہ خاص میں مولانا شبلی نے لکھا ہے: ’’کیا عجیب بات ہے کہ ایک ہی واقعہ دو مختلف نگاہوں کو کس طرح مختلف نظر آتا ہے۔ مارگولیتھ نے (نعوذباللہ) اس سفر کو سوئے تدبر میں داخل کیا ہے‘‘ اور ان کا ایک اقتباس نقل کرکے مستند کیا ہے ’’لیکن سرولیم میور صاحب لکھتے ہیں کہ محمدؐ کا زور اعتقاد اور اعتماد علی النفس تھا کہ باوجود ناکامیوں کے وہ تنہا ایک مخالف شہر میں گئے اور تبلیغ اسلام کا فرض ادا کیا: ع الفضل ما شہدت بہ الاعداء‘‘ (۱/۱۷۹،حاشیہ:۱)

تحسین و تعریف مستشرقین: مولانا شبلی کی میزان عدل و تحسین میں سے ایک جوہر حقیقت یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ مستشرقین اور مغربی سیرت نگار کی صحیح تحقیقات اور معتبر بیانات کی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور ان سے سند تائید و توثیق بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں سیرۃ النبی میں بھی موجود ہیں:

جاہلی عرب شاعری کے بارے میں مولانا شبلی کا ایک تحقیقی شذرہ یہ ہے کہ متاخر شعراء نے خاص کر اموی و عباسی دور کے معلوم و گمنام اہل شعرو ادب نے خاص مقاصد سے لوگوں سے اشعار کہلوائے اور ان کو معروف لوگوں کے نام سے منسوب کردیا۔ ابن اسحاق پر بھی یہی الزام ہے، اکثر لوگ یہ بھی کرتے کہ قرآن مجید میں توحید و معاد کے بارے میں آیات و بیانات کے مطابق اشعار تصنیف کراتے اور امیہ بن ا بی الصلت کے نام سے مشہور اشعار اسی قسم کے ہیں۔ مولانا شبلی کا دلچسپ تبصرہ یہ ہے کہ ’’ایک عجیب بات یہ ہے کہ مارگولیتھ نے بھی ایک موقع پر اس کی تصدیق کی ہے چنانچہ کہتے ہیں: ’’قدیم شاعری کا اکثر حصہ قرآن کے اسلوب پر موزوں کیا گیا ہے‘‘۔ (ص ۲۷ تا ۶۳) (۱/۱۳۸۱۳۹ حاشیہ: ۲، جو بہت مفصل ہے)

تعمیرکعبہ: مکہ معظمہ کے باب میں مارگولیتھ نے ایک اقتباس و تبصرہ نقل کیا ہے کہ مذہبی خیال کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مذہبی مرکزکونہایت قدیم البناء قرار دیدیا ہے لیکن صحیح روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مکہ کی سب سے قدیم عمارت محمدؐ کے صرف چند پشت قبل تعمیر ہوئی تھی‘‘۔ مارگو لیتھ کے حوالہ مآخذ بھی اصابہ کی صحت تسلیم کرنے کے باوجود مغالطہ کا پتہ بھی چلا ہے۔ 

عصمت و عظمت کردار نبویؐ: مولانا شبلی نے متن سیرۃ النبی میں رسول اکرمؐ کی طہارت و پاکیزگی، اعلی کردار اور پاکیزہ اخلاق کے ساتھ مراسم شرک و بدعت سے کلی گریز حتی کہ فروتر اور شان سے غیرموزوں چیزوں سے حفاظت کی عمدہ بحث کی ہے اور حاشیہ میں سر ولیم میور سے تحسین و تعریف نقل کی ہے: ولیم میور لکھتے ہیں’’ہماری تمام تصنیفات محمدؐ کے بارہ میں ان کے چال چلن کی عصمت اور ان کے اطوار کی پاکیزگی پر جو اہل مکہ میں کمیاب تھیں متفق ہیں‘‘۔ 

تحنث نبویؐ پر مولانا شبلی نے خوب لکھا ہے کہ ’’عبادت نبویؐ وہی تھی جو آپؐ کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلے کی تھی‘‘ اور اس کا سلسلہ (سورہ انعام :۸۰) وغیرہ سے جوڑا ہے۔ اس کے بعد کارلائل کے ہیروزمیں تذکرہ رسول اکرمؐ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جو آ پؐ کے دل میں سفر و حضر کے دوران پیدا ہوتے تھے کہ میں کیا ہوں، یہ ایک غیر متناہی عالم کیا ہے، نبوت کیاشے ہے؟، میں کن چیزوں کا اعتقاد کروں‘‘۔ 

یہود مدینہ کے قبیلوں کے بارے میں بحث مولانا شبلی کا ایک حاشیہ مارگولیتھ کی تعریف و تائید میں ہے: ’’مسٹر مارگولیتھ نے یہود کے متعلق تفصیل سے محققانہ بحث کی ہے۔ ان کا میلان رائے یہ ہے اور غالباً صحیح ہے کہ یہودیوں کی بڑی آبادی میں ایک دو خاندان اصل یہود بھی تھے۔ عرب جو یہودی ہوتے گئے وہ بھی ان میں شامل ہوتے گئے‘‘۔ 

خیبر کے تسمیہ و جغرافیہ پر مولانا شبلی نے مارگو لیتھ کے حوالے سے لکھا ہے : خیبر غالباً عبرانی لفظ ہے جس کے معنی قلعہ کے ہیں۔ یہ مقام مدینہ منورہ سے آٹھ منزل پر ہے۔ یورپین سیاحوں میں ڈاؤٹی کئی مہینہ تک یہاں ۱۸۷۷ء میں مقیم رہا۔ اس نے مدینہ سے اس مقام کا فاصلہ ۲۰۰ میل لکھا ہے۔ 

ایلہ کی جغرافیائی تعیین مارگو لیتھ کے حوالہ سے کی ہے کہ (یہ مقام خلیج عقبہ کے پاس ہے)۔ (۱/ ۴۰۳، یہ حاشیہ ۵ اضافہ سلیمانی ہے)

خاتمہ بحث: سیرت النبی میں مولانا شبلی درایتی مباحث کا ایک مختصر تجزیہ گذشتہ اوراق میں پیش کیا گیا اختصار کے خیال سے اور بعض دوسرے اسباب سے بھی جلد دوم کے مباحث میں مولانا شبلی کے درایتی نقد و نظر کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ۔ اسی موضوع سے براہ راست متعلق مصادر کا نقد شبلی ایک دوسرے مقالے کا موضوع ہے اور ان میں سے ایک مصدر زرقانی جداگانہ ہے ان تینوں مقالات میں درایتی مباحث شبلی مختلف انداز سے زیر بحث آئے ہیں۔ درایتی مباحث تنقیدات شبلی کو بھی محیط ہیں۔ مولانا شبلی کا پختہ خیال، حتمی فکر اور قطعی نظریہ تھا کہ سیرت و حدیث دونوں کے عام و خاص موضوعات و معلومات اور واقعات کا درایتی تجزیہ لازمی ہے۔ وہ سنت و سیرت نبوی کے تعلق سے احادیث بالخصوص صحاح وکتب معتبرہ کی روایات کو محدثین کے التزام صحیت کے معیار و عیار کی بنا پر مصادر سیرت سے زیادہ ثقہ کتب اور ا ن کی احادیث کو زیادہ معتبر گردانتے تھے اور سیرت نگاروں پر صحت کاالتزام نہ کرنے کا الزام دھرتے تھے۔

اسماء الرجال اور نقدحدیث و روایات کے ماہرین کے جرح و تعدیل سے اصول اور ان کے امامان سیرت پر اطلاق بھی قائل تھے اس بنا پرانہوں نے ابن اسحاق، ان کے راوی زیاد بکائی اور ان کی روایات پر مبنی سیرت ابن ہشام پر جابجا نقد و تبصرہ سے فراخ دلانہ کام لیا اپنے وضع کردہ اصول و نظریات نقد و نظر کی وجہ سے انہوں نے بسا اوقات محدثین کی بعض احادیث اور ان کے شارح پر بھی کلام کیا۔ حافظ ابن حجر شار ح بخاری اور خود امام بخاری کی بعض احادیث ارسال، بلاغت فروترپایگی، شان و عظمت نبوی سے عدم آہنگی کی وجوہ سے نقد بحث کا موضوع بنیں۔ حافظ ابن حجر کی فضیلت و تبحر حدیث کے دوران اطلاقی درایتی کلام شبلی کے چند چیدہ نمونے بالترتیب پیش کیے گئے۔

مولانا شبلی نے اخذو قبول روایات میں درایتی لحاظ سے چند نئے طریقے اختیار کیے۔ ان میں سے ایک کسی خاص موضوع پرروایت/ روایات کا صرف ایک صحیح حصہ قبول کرنے کا ہے اور دوسرا مشہور عام روایات کی کمزوری و بے اعتباری کی وجوہ سے ان سے طنزیہ گریز کا ملتا ہے وہ غلط و ناقابل اعتبار روایات کی تصحیح دوسری اس قسم وموضوع کی صحیح و ثقہ روایات سے درایتی نقد و کلام کے ذریعہ انجام دیتے ہیں۔ متصادم و معارض روایات کووہ کبھی کسی ایک مورخ و سیرت نگار یا محدث کی روایت سے ترجیح دیتے ہیں یا ان میں تطبیق بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس میں وہ کسی ایک متقدم مصدر کی پیروی کرتے ہیں۔ اختلافی روایات میں وہ جدید تحقیقات سے بھی ترجیح و تصحیح کارنازک کرتے ہیں۔ اس کار درایت میں وہ ثقہ مصادر کی اختلافی روایات میں کسی ایک سے کچھ معلومات لیتے ہیں اور کچھ دوسرے مصدر سے تحقیقات جدید اور سیرو سوانح معاصر میں وہ مستشرقین کی غلط معلومات و روایات پر درایتی کلام کرتے ہیں تو ان کی صحیح تعبیرات و تحقیقات سے استفادہ کرتے ہیں اور ان کی تحسین و تعریف بھی کرتے ہیں نقد و تحسین مستشرقین میں وہ دومختلف و متضاد نظریات اہل مغرب کا موازنہ کرکے غلطی کا ازالہ اور صحیح کا اثبات کرنے کا عمدہ طریق اپناتے ہیں اور درایتی طریق شبلی کے علاوہ بعض اور کا بھی دقت نظر سے اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔

دلچسپ وصحت افزا بات یہ ہے کہ خود مولانا شبلی اپنے جامع و مرتب کے ہدف تنقید بنے ہیں بلاشبہ مولانا کے بعض نظریات اور چند تحفظات بھی تھے اور متعدد پسندیدہ خیالات و جذبات شبلی نے ان کے تحت صحیح روایات کے بالمقابل غیر ثقہ کو ترجیح دی یا ان سے اعرا ض کیا یا ضعیف کو قبول کیا تو وہ نقد سلیمان کا ہدف بنے اور دوسرے صاحبان نظر و علم نے بھی ان سے درایتی طور سے اختلاف کیا، مولانا شبلی کے درایتی مباحث میں بسا اوقات کسی ایک شارح حدیث و سیرت کا نقد نظر اپنا لینا بھی درایتی میزان میں کھرا نہیں اترتا جیسے رعی غنم کے باب میں اجرت پر چرواہی کرنے کی بجائے وہ قرار یط کو ایک مقام دینے کے حق میں نظر آتے ہیں یا اسلام حضرت ابوطالب کے باب میں ایک طالبی بن جاتے ہیں ترجیح و تطبیق روایات و احادیث کے باب میں مولانا شبلی نے کبھی کبھی میزان درایت کا ایک پلہ جھکا دیا ہے نقد مصادر میں ان کے ہاں عدم توازن ملتا ہے اور بسااوقات جارحانہ درایتی طریق جیسا آتا ہے مولانا شبلی کا بہرحال ایک وصف نادریہ ہے کہ وہ صحت کے التزام میں نہ صرف قدماء کی روایت سے کام لیتے ہیں اور ان ماہرین کے آرا و مباحث سے اپنے نگارشات سیرت کو آراستہ و مدلل کرتے ہیں بلکہ اپنے طباع ذہن، جودت فکر، درا کی اور دقت نظر او رفنی تبحر سے مطالعہ و نگارش اور تحقیق سیرت نبوی میں ایک بلند معیار قائم کرتے ہیں اور وہ ان کے معاصرین اور متاخرین کے لیے منارہ نور بن جاتا ہے۔

ان کے کمال فن کا ایک اعجازی پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے خوشہ چینوں اور دوسرے متاخر سیرت نگاروں نے وہ درایتی معیار نہیں پایا۔ درایت پرستوں نے ان کے درایتی مباحث سے جو اختلاف کیا وہ روایت پرستی پر زیادہ مبنی ہے اور درایتی تنقیح کم ہے۔ جدید اردو سیرت نگاری میں مولانا شبلی کی سیرت نگاری اس روایتی و درایتی معیار بلند کی بنا پر رجحان ساز اور رہنمائے میدان بن گئی ہے جس سے استفادہ کے بغیر کسی کا کام قابل اعتبار نہیں بن سکتا۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کے مزید مضامین سب سے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *