Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Ansaf ul Ashraf Mein Madni Riwayat e Seerat Ka Jaiza, انساب الاشراف میں مدنی روایات سیرت کا جائزہ

Maulana Kaleem Sifat Islahi

Ansaf ul Ashraf Mein Madni Riwayat e Seerat Ka Jaiza, انساب الاشراف میں مدنی روایات سیرت کا جائزہ

مصنف:  مولانا کلیم صفات اصلاحی

منافقین مدینہ: مدینہ میں گو کہ آنحضورؐ کا پُرزور استقبال کیا گیا تاہم خوش آمدید کہنے والوں کے علاوہ اس شہر میں بہت سے یہود آباد تھے جو اسلام اور آنحضورؐ کے ازلی دشمن تھے۔ انہوں نے اسلام کی مقبولیت دیکھ کر اندر اندر کفار مکہ سے ساز باز کرلی تھی۔ ایک تیسرا گروہ منافقین کا پیدا ہوگیا تھا، یہ لوگ بھی یہودیوں کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف دن رات سازشیں کرتے تھے۔ مکہ میں یہ گروہ نہیں تھا۔ مدینہ میں اوس و خزرج کے نام سے دو مشہور قبائل تھے، زیادہ تر منافقین ان ہی دونوں قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ آنحضورؐ کی مدنی زندگی میں جو پیچیدگیاں، مسائل اور پریشانیاں دکھائی پڑتی ہیں وہ زیادہ تر اسی گروہ منافقین کی پیدا کردہ تھیں۔ بلاذری چونکہ مورخ ہیں اسی لیے انہوں نے تاریخ کے اس اہم پہلو پر خصوصی توجہ دی اور اوس و خزرج کے تقریباً تمام منافقین کا نام بہ نام اور اسلام اور آنحضورؐ کے خلاف ان کی کارستانیوں کا مجملاً ذکر کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ منافقین اوس و خزرج کا اس طرح جامع تذکرہ دوسرے مصادر سیر و حدیث میں نظر سے نہیں گذرا۔ ملاحظہ فرمائیں:

منافقین خزرج: بلاذری نے خزرجی منافقین میں راس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول، جد بن قبیس، عدوی بن ربیعہ، اس کا بیٹا سوید، قیس بن عمرو بن سہیل، سعد بن زرارہ، زید بن عمرو، عقبہ بن قدیم، ابو قیس بن اسلت کے نام تحریر کیے ہیں۔

عبداللہ بن ابی کے متعلق لکھا ہے کہ ’’لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الا عز منہا الاذل‘‘ کے الفاظ اسی نے کہے تھے۔ سلول ابی کی ماں کا نام ہے، جس کا تعلق خزاعہ سے تھا، آگے عبداللہ بن ابی کے متعلق حضرت انس کی ایک روایت نقل ہے کہ آنحضورؐ نے اس کے انتقال پر نماز جنازہ پڑھانا چاہا اور اس کو پیراہن مبارک دینا چاہا تو حضرت جبریل نے پیراہن مبارک لے لیا اور یہ آیت اتری ولا تصل علی احد منہم مات ابدا (توبہ ۹: ۸۴) (۲۷۴) ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اراد ان یصلی علی عبداللہ بن ابی فاخذ جبریل بثوبہ و نزلت۔ اس روایت اور قرآن مجید کی آیت سے صاف ظاہر ہے کہ آپؐ نے وحی الٰہی کے نزول کے بعد اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی ہوگی۔ لیکن بخاری اور بعض دوسری کتب سیر و حدیث سے ثابت ہے کہ آپؐ نے نہ صرف اپنا پیراہن مبارک عطا کیا بلکہ نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ حضرت عمرؓ نے دامن تھام لیا کہ منافق کی نماز جنازہ پڑھائیں گے؟ جبکہ اللہ نے آپؐ کو اس کے لیے دعائے مغفرت سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ نے مجھے اس سلسلہ میں اختیار دیا ہے یا مجھے باخبر کیا ہے (یعنی میرے سامنے استغفار و عدم استغفار کا مفہوم واضح کردیا ہے)۔ راوی عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ آپؐ نے نماز جنازہ پڑھائی اور ہم نے بھی آپؐ کے پیچھے نماز پڑھی پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ولا تصل علی احد منہم مات ابدا الخ (۱)۔ بعض شارحین بخاری نے لکھا ہے کہ استغفار کی بالکلیہ ممانعت اس کے لیے ہے جو حالت شرک میں فوت ہوا۔ اس کے لیے نہیں ہے جس نے اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ النہی عن الاستغفار لمن مات مشرکا لا یستلزم النہی عن الاستغفار لمن مات مظہر الاسلام (۲) بخاری کی اس مفصل روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کا نزول ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد ہوا لیکن بلاذری کی نقل کردہ روایت سے متبادر ہے کہ آپؐ نےنماز جنازہ نہیں پڑھائی تاہم بخاری کی روایت زیادہ معتبر ہے۔

مولانا شبلی بھی اسی کے قائل ہیں۔ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے دامن تھام لیا کہ منافق کے جنازہ کی نماز پڑھتے ہیں لیکن دریائے کرم کا بہاؤ کون روک سکتا تھا (۳)۔ یہی وجہ ہے اس کے بعد کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے کا ذکر کتب سیرت میں مفقود ہے۔

منافقین اوس: بلاذری نے قبیلہ اوس کے کل ۲۷ منافقین کی نشان دہی کی جن کے نام اس طرح ہیں جلاس بن سوید بن صامت، حارث بن سوید بن صامت، دری بن حارث، بجاد بن عثمان بن عامر، نبتل بن حارث جس کے بارے میں رسول اللہؐ نے کہا تھا ’’جو شیطان کو دیکھنا پسند کرے اس کو نبتل دیکھ لینا چاہیے، من احب ان ینظر الی شیطان فلینظر الی نبتل۲۷۵)۔ عبداللہ بن نبتل، باپ کی طرح یہ بھی آپؐ کی باتوں کو منافقین تک پہنچاتا تھا۔ قیس بن زید جو جنگ احد میں قتل کیا گیا، ابو حبیبہ بن الازعر (اس کا شمار مسجد ضرار بنانے والوں میں ہوتا ہے) ثعلبہ بن حاطب بن عمرو بن عبد، معتب بن قشیر، جاریہ بن عامر بن مجمع، اس کے لڑکے یزید، زید و مجمع (مسجد ضرار بنانے والوں میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے، مجمع بن جاریہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ قرآن پڑھتا تھا اور لوگوں کو مسجد ضرار میں نماز پڑھاتا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس نے منافقت کی اسلام کو اپنایا، قرآن کا حفظ بھی کیا) مرجع بن قنیطی، عباد بن حنیف بن واہب(مسجد ضرار بنانے والوں میں اس کا نام بھی ہے)، قرآن کی آیت ’’انما کنا نخوض و نلعب‘‘ اسی کے بارے میں ہے۔ خذام بن خالد، زیاد کے دونوں بیٹے رافع ، بشیر، قیس بن رفاعہ الشاعر، حاطب بن امیہ بن رافع بن سوید، بشر بن ابیرق الظفری، یہ شاعر بھی تھا۔ اس کے بارے میں بلاذری نے متعدد مختصر و مفصل روایت نقل کی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ البتہ حسن سے مروی ایک مختصر روایت اس کے بارے میں یہ نقل کی ہے کہ ابن ابیرق نے لوہے کی ایک زرہ چوری کی اور ایک بے گناہ پر الزام لگا دیا۔ چنانچہ اس کے اہل خاندان آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کے سامنے اس کی بے گناہی ثابت کی۔ تو اللہ نے یہ آیت اتاری انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس سے وساءت مصیرًا تک، پس جب یہ آیات اس کے بارے میں نازل ہوئیں تو وہ مشرکین سے مل گیا اور مکہ میں ایک جگہ رہنے لگا وہاں بھی نقب زنی کی، اللہ نے اس کے سر پر پتھر گرا دیا اور وہی جگہ اس کی قبر ہوگئی۔ فالقی اللہ علیہ صخرۃ فشدختہ فکانت قبرہ۲۷۸)۔ ضحاک بن خلیفۃ الاشہلی، قزمان (اس کے بارے میں بلاذری نے دلچسپ معلومات بہم پہنچائی ہیں اور لکھا ہے کہ قزمان احد میں نہیں نکل رہا تھا تو عورتوں نے اس کو عار دلائی اور کہا کہ تم عورت ہو، چنانچہ اس نے تلوار و کمان سنبھالی اور قومی حمیت و محبت میں لڑنے کے لیے نکل پڑا اور کہہ رہا تھا تھا کہ اے اوس والو، لڑو! عار و فرار سے موت بہتر ہے۔ رسول اللہؐ قزمان کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔ چنانچہ احد کے دن وہ زخمی ہوا، دار بنی ظفر میں لایا گیا، اس سے کہا گیا، اے ابو الغیداق ، جنت کی بشارت قبول کرو، آج تو تم نے خوب داد شجاعت دی، اس نے کہا ’’کیسی جنت؟ بخدا میں نے حمیت قومی کی خاطر جنگ کی ہے، ای جنۃ واللہ ما قاتلت الا حمیۃ لقومی۔ (ایضاً) چنانچہ شدت تکلیف سے اس نے خودکشی کرلی، اس کے بارے میں آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’اللہ نے اس بدبخت و فاجر سے اس دین کی تائید کرائی‘‘، ان اللہ یؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر۔ (ایضاً) ابو عامر عبد عمرو بن صیفی بن نعمان (اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کو نصرانیت و رہبانیت کی جانب میلان تھا، شام اکثر جاتا تھا، اس کو راہب بھی کہا جاتا تھا، جب آنحضورؐ کا ظہور ہوا تو اس نے حسد کیا، مکہ گیا، قریش کے ساتھ مل کر جنگ لڑی، پھر شام گیا وہیں فوت ہوا۔ اس کی میراث کے سلسلہ میں کنانہ بن عبد یا لیل ثقفی اور علقمہ بن علاثہ کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا، علقمہ بھی شام میں تھے اور وہیں مسلمان ہوگئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے، واپس مدینہ آئے تو آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی (۲۸۲)۔ اس کے علاوہ اور بھی روایتیں نقل کی ہیں، بخوف طوالت ان کی تفصیلات قلم انداز کی جاتی ہیں۔

مسجد ضرار کی بنیاد کفر و تفریق بین المومنین پر رکھی گئی تھی اور اس کے بنیاد گزار منافقین تھے، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے وحی کے ذریعہ اس کا بھانڈا پھوڑا۔ اور آپؐ کو اس کی حقیقت سے آگاہ فرمایا۔ منافقین نے اسلام کی بیخ کنی کے لیے نہ جانے کیسی کیسی سازشیں کیں، آپؐ کے خلاف ریشہ دوانیوں کا نہایت پرزور سلسلہ شروع کیا۔ مسجد ضرار بھی ان کی انہیں خفیہ ریشہ دوانیوں کا مرکز تھی۔ اسی لیے آپؐ نے اس کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔

مسجد ضرار کی تعمیر و انہدام کا واقعہ: مسجد ضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں بلاذری نے سعید بن جبیر سے مروی روایت نقل کی ہے کہ بنی عمرو بن عوف نے ایک مسجد تعمیر کی تھی، جس میں آنحضورؐ انہیں نماز پڑھاتے تھے۔ ان کے بھتیجوں بنی غنم بن عوف کے دل میں ان سے حسد پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی مسجد تعمیر کریں اور آپؐ سے درخواست کریں کہ اس میں بھی آپؐ ہمیں نماز پڑھاھیں۔ چنانچہ جب آنحضورؐ ان کے پاس جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو وحی نازل ہوئی ’’والذین‘‘ الخ۔ فلما قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لینطلق الیہم اتاہ الوحی۔ (ص ۲۸۲)

آگے روایت میں لکھتے ہیں کہ ہشام بن عروہ نے اس آیت کے سلسلہ میں یہ کہا کہ مسجد ضرار کی بنیاد سعد بن خیثمہ نے رکھی تھی، اس جگہ لبد نامی عورت اپنا گدھا باندھتی تھی، چنانچہ اہل مسجد نے کہا کہ ہم ایسی جگہ سجدہ کریں گے؟ جہاں گدھا باندھا جاتا ہے۔ ہم الگ مسجد بنائیں گے جس میں ابو عامر ہمیں نماز پڑھائیں گے۔ وہی عامر جو اللہ اور اس کے رسول سے فرار اختیار کرکے مکہ، پھر شام چلا گیا تھا اور نصرانیت قبول کرلی تھی (ص ۲۸۳)۔ آیت کے اس ٹکڑے لمن حارب اللہ و رسولہ میں لمن سے ابوعامر کی طرف اشارہ ہے۔

آگے مسجد کے انہدام کے متعلق راویوں کا بیان نقل کیا ہے کہ اسی آیت کے سبب جب آنحضورؐ نے مسجد کو منہدم کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا تو کچھ منافق مسجد نبویؐ میں آئے اور وہاں ہنسنے، کھیلنے اور مذاق کرنے لگے، آپؐ نے ان کو مسجد سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔ ابو ایوب قیس بن عمرو کی طرف بڑھے اور اس کا پاؤں پکڑ کر مسجد سے باہر نکالا، عمارہ بن حزم زید بن عمرو جس کی داڑھی لمبی تھی کی طرف لپکےاور اس کی داڑھی پکڑ کر مسجد سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص نے دری بن الحارث کو مسجد سے باہر کیا۔ (ایضاً)

اس کے برعکس ابن ہشام نے لکھا کہ آپؐ مدینہ سے کچھ گھنٹوں کے فاصلہ پر ذی اوان میں تھے کہ اصحاب مسجد ضرار آپؐ کے پاس آئے، وہاں سے آپؐ کا قصد تبوک کا تھا ان لوگوں نے آپؐ سے کہا کہ ہم مسجد بنانا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آپؐ اس میں نماز پڑھائیں، آپؐ نے فرمایا ابھی میں سفر پر ہوں اور کچھ مصروفیت ہے۔ جب واپس ہوں گے تو تمہارے لیے مسجد بنائیں گے اور اس میں تمہیں نماز پڑھائیں گے، واپسی میں جب آپؐ ذی اوان آئے یا یہ کہ آپؐ کو مسجد کے متعلق معلوم ہوا تو آپؐ نے مالک بن دخشم، بنی سالم بن عوف اور معن بن عدی کے دو افراد اور عاصم بن عدی اور بنی عجلان کے دو افراد کو بلایا اور کہا کہ جاؤ اس مسجد کو جس کو بنانے والے ظالم ہیں منہدم کردو، انطلقا الی ہذا المسجد الظالم اہلہ فاہدماہ (۴) حکم نبوی پر عمل ہوا۔ آگے مسجد ضرار کو بنانے والوں کے نام دیے ہیں، جن کی تعداد بارہ تھی، ملاحظہ فرمائیں:

خذام بن خالد، ثعلبہ بن حاطب، معتب بن قشیر، ابو حبیبہ بن الازعر، عباد بن حنیف، جاریہ ابن عامر، اس کے دونوں بیٹے مجمع بن جاریہ، زید بن جاریہ، نبتل بن الحارث، مخرج، بجاد بن عثمان اور ودیعہ بن ثابت (۵)۔ موخر الذکر تین ناموں کو چھوڑکر بلاذری کی فہرست منافقین میں سارے نام موجود ہیں۔

یہود مدینہ: مدینہ میں یہودی قبائل آباد تھے، جس میں بنی نضیر، بنوقینقاع، بنی قریظہ، بنی حارثہ اور بنی عبد الاشہل زیادہ مشہور تھے۔ یہ لوگ بھی آئے دن آنحضورؐ کو تنگ کرتے تھے، جبکہ آنحضورؐ نے شروع شروع میں ان سے امن و امان کا معاہدہ کیا تھا۔ جس کا انہوں نے پاس و لحاظ نہیں کیا اور عہد شکنی کی تو آنحضورؐ نے ان کے خلاف جنگ کی اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کردیا۔ بلاذری نے سیرت کے اس تاریخی پہلو کو بھی اہمیت دی اور مدینہ کے ان عظمائے یہود کی نشان دہی کی جنہوں نے اسلام کو نیست و نابود کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔

یہود بنی نضیر: اس قبیلہ کے درج ذیل ناموں کی نشان دہی کی ہے۔ حی، مالک، ابو یاسر، جدی ابن اخطب، ان کے اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں یہ آیت ان الـذیـن کـفـروا سواء علیہم أأنـذرتـہم سے عـذاب عظیـم تک نازل ہوئی۔ سلام بن مشکم، کنانہ، ربیع، رافع، ابو رافع، کعب ابن الاشرف طائی، عمرو کے دونوں بیٹے حجاج، یجری، ابو رافع، سعد بن حنیف (جنہوں نے اسلام قبول کیا)۔ رفاعہ بن قیس، فنحاس، جس نے جب یہ آیت ’’واقـرضـوا اللہ قـرضـا حـسنـا‘‘ سنی تو کہا کہ دیکھو ہم تو محمدؐ کے رب سے زیادہ غنی ہیں، وہ ہم سے قرض چاہتا ہے۔ تو یہ آیت اتری ’’لـقد کـفـر الـذیـن قـالـوا ان اللہ فـقـیـرو نـحـن اغـنـیـاء سنکـتب مـا قـالـوا‘‘۔ محمود بن دحیہ، عمرو بن جحاش، عزیز بن ابی عزیز، نباش بن قیس، سعیہ بن عمرو، نعمان بن اوفی، سکین بن ابی سکین، زید بن الحارث، رافع بن خارجہ، اسیر بن رازم، اس کو رزام بھی کہا جاتا تھا، یہ لوگوں کو آنحضورؐ کے بارے میں برانگیختہ کرتا تھا اور آپؐ کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا۔ خیبر میں آپؐ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اس کے ساتھ چند یہودی بھی قتل کیے گئے۔ مخیریق، یہ اسلام لائے اور آنحضورؐ کے ساتھ جنگ احد میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اس راہ میں مال بھی خرچ کیا، یہ بھی کہا جاتا ہے یہ بنی نضیر میں سے نہیں تھے۔ (ص ۲۸۵)

یہود بنی قینقاع: بنی قینقاع میں درج ذیل یہودیوں کے نام بتائے ہیں۔

کنانہ بن صوبرا یا صوریا، زید بن نصیت، جس نے کہا تھا کہ ’’محمدؐ کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں، حال یہ ہے کہ اس کی اونٹنی گم ہوگئی اور اس کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے؟‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نشان دہی کی، وہ ملی۔ کسی درخت سے اس کی لگام باندھ دی گئی تھی۔ سوید، داعس، یہ دونوں منافق تھے، دونوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، مالک بن ابی قوقلی، یہ بھی بظاہر مسلمان تھا آپؐ کی خبریں یہودیوں تک پہنچاتا تھا۔ یہ احبار یہود میں تھا، کہا جاتا ہے کہ مخیریق ان ہی میں تھے۔ (ص ۲۸۵)

یہود بنی قریظہ: اس قبیلہ میں زبیر باطا بن وہب، کعب بن اسد، عزال بن شمویل، سہل بن زید، وہب بن زید، علی بن زید، قردم بن کعب، کردم بن حبیب، رافع بن رمیلہ، رافع بن حریملہ، اس کی موت جس دن ہوئی تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ آج عظیم منافق کی موت ہوئی، لقد مات الیوم منافق عظیم النفاق۔ لبید بن اعصم جس کا پیشہ جادوگری تھا، سلسلہ بن ابراہام، بعض لوگوں نے بہرام کہا ہے لیکن ابراہام زیادہ صحیح ہے۔ رفاعہ بن زید بن تابوت، حارث بن عوف، سعیہ بن عمرو۔

یہود بنی حارثہ: اس قبیلہ کے صرف ایک یہودی ابو سنینہ کا نام لیا ہے۔ بنی عبد الاشہل میں صرف یوشع نامی یہود کا ذکر ہے۔ جس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ نبیؐ کی آمد کی بشارت دیتا تھا مگر جب آپؐ کی بعثت ہوئی تو اس کے سوا بنو اشہل ایمان لائے۔ اس کے اور اس قسم کے لوگوں کے متعلق یہ آیت فلما جآءھم ما عرفوا کفروا بہ سے وللکافرین عذاب مہین تک نازل ہوئی۔

آخر میں راویوں کا بیان نقل کیا ہے کہ آپؐ نے مدینہ کے یہودیوں سے باہم تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے شرائط تھے کہ وہ آپؐ کے دشمنوں اور آپؐ پر حملہ کرنے والوں کی مدد نہیں کریں گے۔ اہل ذمہ سے قتال نہ کریں گے، کسی سے جنگ اور کسی پر حملہ نہ کریں گے اور نہ ہی سریہ بھیجیں گے (لیکن انہوں نے عہد شکنی کی) تو اللہ نے درج ذیل آیت نازل فرمائی اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا سے وللہ عاقبۃ الامور تک۔ آگے ابن عباس اور عروہ سے مروی دو روایتیں نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا پہلی آیت ہے جو قتال و جہاد کے متعلق نازل ہوئی۔ (۲۸۶)

یہ سورہ حج کی آیت نمبر ۳۹۴۰ ہے، جس کے متعلق زرقانی نے بھی لکھا ہے کہ امام زہری اس آیت کو پہلی آیت قتال مانتے ہیں (۶)۔ لیکن تفسیر ابن جریر میں ہے کہ قتال کے متعلق سب سے پہلے جو آیت نازل ہوئی وہ یہ ہے وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (۷) (بقرہ ۲: ۱۹۰) اختلف اہل التاویل فی تاویل ہذہ الآیۃ فقال بعضہم ھی اول آیۃ ۔ المسلمین بقتال اہل الشرک۔

غزوات و سرایا رسول اللہؐ: اصحاب مغازی و سیر نے آنحضورؐ کی جنگی مہمات کو دو ناموں سے ذکر کیا ہے۔ ایک غزوہ جس میں آپؐ نے بہ نفس نفیس شرکت کی، دوسرے سریہ جس میں آپؐ نے بذات خود شرکت نہیں کی۔ بلاذری نے ص ۲۸۷ سے ۳۷۱ تک غزوات، اس کے بعد ص ۳۷۱ سے ۳۸۶ تک سرایا کے متعلق دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔ غزوات و سرایا کی تعداد کے سلسلے میں ارباب سیر و مغازی میں اختلاف رہا ہے۔ بلاذری کی پیش کردہ تفصیلات کے مطابق غزوات کی تعداد ۲۷ (۸) اور سرایا ۵۶ (۹) ہے۔ بیشتر غزوات و سرایا کے ذکر میں مہینہ، مقام، سن اور اسباب تحریر کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جس سے ان کی مورخانہ شان کا اندازہ ہوتا ہے۔

بلاذری کے بیان کے مطابق غزوہ ابواء یا ودّان ہجرت کے بارہویں مہینہ صفر میں (ص ۲۸۷)، بواط ربیع الاول ۲؍ ہجری (ایضاً)، سفوان ربیع الاول ۲؍ ہجری (ایضاً)، ذو العشیرہ جمادی الآخر ۲؍ ہجری (ایضاً، بدر رمضان ۲؍ ہجری (ص ۲۸۸)، غزوہ بنی قینقاع شوال ۲؍ ہجری (ص ۳۰۸)، سویق ذی الحجہ ۲؍ ہجری (ص ۳۱۰)، غزوہ قرقرۃ الکدر محرم ۳؍ ہجری (ص ۳۱۰)، غزوہ بنی غطفان بذی امر ربیع الاول ۳؍ ہجری (ص ۳۱۱)، غزوہ بحران جمادی الاولی ۳؍ ہجری (ص ۳۱۱)، غزوہ احد شوال ۳؍ ہجری (ایضاً)، حمراء الاسدیا ۹؍ شوال ۳؍ ہجری (ص ۳۳۸)، غزوہ بنی نضیر ربیع الاول یا جمادی الاولیٰ ۴؍ ہجری (ص ۲۳۹)، غزوہ بدر الآخرہ ذی قعدہ ۴؍ ہجری (ص ۲۳۹)، غزوہ ذات الرقاع محرم ۵؍ ہجری (ص ۳۴۰)، غزوہ دومۃ الجندل ربیع الاول ۵؍ ہجری (ص ۳۴۱)، غزوۂ بنی المصطلق شعبان ۵؍ ہجری (ص ۳۴۱)، غزوہ خندق یا احزاب ذی قعدہ ۵؍ ہجری (ص ۳۴۳)، غزوہ بنی قریظہ ذی قعدہ یا ذی الحجہ ۵؍ ہجری (ص ۳۴۷)، غزوہ بنی لحیان ربیع الاول ۶؍ ہجری (ص ۳۴۸)، غزوہ ذی قرد ربیع الاول یا ربیع الآخر ۶؍ ہجری (ص ۳۴۹)، غزوہ خیبر صفر ۷؍ ہجری (ص ۳۵۲)، غزوہ وادی القری جمادی الآخرہ ۶؍ ہجری (ص ۳۵۲)، فتح مکہ رمضان ۸؍ ہجری (ص ۳۵۳)، غزوۂ حنین رمضان ۸؍ ہجری (ص ۳۶۴)، غزوہ طائف رمضان ۹؍ ہجری (ص ۳۶۶) اور غزوہ تبوک رجب ۹؍ ہجری (ص ۳۶۸) میں ہوا۔

بدر سے پہلے غزوات : بلاذری نے بدر سے پہلے کے غزوات میں ۴ غزوات ابواء یا ودّان ، بواط، سفوان اور ذات العشیرہ کا ذکر کیا ہے۔ غزوہ ابواء کے متعلق لکھتے ہیں کہ ہجرت کے بارہویں مہینہ کے آغاز صفر میں آنحضورؐ قریش کے تجارتی قافلہ کی تلاش میں نکلے۔ مدینہ سے ۶ میل کے فاصلہ پر یہ دونوں مقام تھے (۱۰)۔ کسی سے ملاقات نہیں ہوئی، مدینہ واپس آئے۔ سعد بن عبادہ خزرجی کو نائب بنایا تھا۔ اس سفر کے دوران پندرہ دن بنو حمزہ کے علاقہ میں گذارے اور ان سے اس بات پر معاہدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی سے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ایک دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے (ص ۲۸۷علی ان لا یغزوہ ولا یغزونہ ولا یعینوا علیہ احدا (۱۱) بخاری نے اسی غزوہ کو اول غزوات کہا ہے۔ (۱۲)

غزوہ بواط میں ربیع الاول ۲ہجری میں آپؐ کو اطلاع ملی کہ امیہ بن خلف الجمحی اور قریش کے سو اشخاص وہاں ہیں لیکن وہاں پہنچنے پر کسی سے کوئی تصادم نہیں ہوا۔ سعد بن معاذ اوسی کو اپنا نائب مقرر کیا ۔ (ایضاً)

غزوہ سفوان بھی اسی مہینہ میں ہوا۔ آپؐ نے کرز بن جابر الفہری کا تعاقب کیا جس نے مدینہ کی چراہ گاہ پر جو جماء اور اس کے آس پاس علاقہ میں واقع تھی حملہ کیا۔ آپؐ نے زید بن حارثہ کلبی کو اپنا نائب مقرر کیا، بدر کے قریب پہنچ گئے کسی سے سامنا نہیں ہوا تو واپس لوٹ آئے۔ (ایضاً)

غزوات ذات العشیرہ جمادی الاآخر ۲ہجری میں آپؐ قریش کے ایک قافلہ کی مزاحمت کے لیے ڈیڑھ یا دوسو صحابہؓ کے ساتھ نکلے۔ اپنا جانشین ابوسلمۃ بن عبدالاسد المخزومی کو بنایا۔ ذو العشیرہ پہنچے تو بنو مدلج نے آپؐ کی ضیافت اور خوب خاطر تواضع کی۔ ومر ببنی مدلج فضیفوہ واحسنوا ضیافتہ ۲۸۷)۔ معلوم ہوا کہ قافلہ یہاں سے چلا گیا اور کوئی نہیں ملا، حالانکہ دوسرے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپؐ سے بنی مدلج نے صلح و امن کا معاہدہ کیا۔ (۱۳)

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ غزوہ سفوان کے علاوہ ہر غزوہ میں بلاذری نے یرید عیر القریشیا فی طلب عیر لقریش یالطلب عیر قریشکے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کا مقصد قریش کے کارواں کی مزاحمت کرنا تھا۔ یہاں تک کہ بدر کبری کے وقوع کا سبب بھی عام سیرت نگاروں کے مطابق قریش کے قافلہ کو روکنا بتایا گیا ہے۔ خرج صلی اللہ علیہ وسلم الیہا لطلب عیر قریش التی کان القتال یوم بدر بسببہا۲۸۷)۔ اس سلسلہ میں مولانا شبلی نے جو موقف اختیار کیا ہے اور قرآن مجید کے الفاظ اور مستند احادیث سے جو مفہوم مستنبط کیا ہے، اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں البتہ خاص ان غزوات کے متعلق انہوں نے جو کچھ لکھا ہے یہاں ان کا نقل کردینا موقع کی مناسبت سے ضروری معلوم ہوتا ہے۔

’’لیکن میں واقعات کا پابند ہوں، رائے اور قیاس سے غرض نہیں۔ اس قدر واقعہ ہے کہ آنحضرتؐ ان مقامات تک گئے اور وہاں کے قبائل سے معاہدہ کیا۔ اس سے آگے مورخین کا قیاس ہے کہ قریش کے کارواں پر حملہ مقصود تھا گو یہ مقصود نہ حاصل ہوسکا، اگر خدانخواستہ کارواں کا لوٹنا ہی مقصد ہوتا تو آنحضرتؐ کو عیاذاً باللہ اس قدر بے تدبیر فرض کرنا پڑے گا کہ ہر مرتبہ ناکامیابی ہوتی تھی اور قافلہ بچ بچ کر نکل جاتا تھا۔ یہاں تک کہ بار بار کے تجربہ کے بعد بھی بدر میں اس قسم کی ناکامیابی ہوئی اور قافلہ صحیح و سلامت نکل گیا‘‘۔ (۱۴)

مذکورہ بالا غزوات کی تفصیل بلاذری نے مجملاً تحریر کی ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے غزوہ ذات العشیرہ کے علاوہ کسی غزوہ میں صحابہ کرامؓ کی تعداد کا پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ ان غزوات میں صرف مہاجر صحابہ تھے یا ان کے ساتھ انصار بھی شریک ہوتے تھے۔ اگر ان میں صرف مہاجرین کی شرکت تھی تو انصار کی عدم شرکت کے اسباب کیا تھے؟ حالانکہ آپؐ مدینہ کے پڑوسی قبائل سے معاہدۂ امن و صلح کرکے اسلام کے تحفظ اور غلبہ کے ساتھ ساتھ مدینہ کی سرحدوں کے تحفظ کوبھی یقینی بنانا چاہتے تھے جو انصاری صحابہ کی جائے پیدائش تھیں۔ ان جنگوں میں عدم شرکت کی وجہ علامہ شبلی نے یہ لکھی ہے کہ ’’انصار نے بیعت کے وقت صرف یہ اقرار کیا تھا کہ وہ اس وقت تلواراٹھائیں گے جب دشمن مدینہ پر چڑھ آئیں‘‘ (۱۵) تو چوں کہ اس وقت تک اس قسم کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا تھا اس لیے اقرار نامہ کے مطابق انصاری آپؐ کے ساتھ ان غزوات میں شریک نہیں ہوئے۔

غزوہ بدر کی تفصیلات: تاریخ اسلام میں غزوۂ بدر کی بڑی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ حق و باطل کا وہ معرکہ ہے جس کی قرآن کے بیان کے مطابق خود رب کائنات نے ذمہ داری لی۔ جس کے لیے اللہ نے عناصر عالم کو آمادہ مدد کردیا تھا، فرشتوں کی فوجیں بھیجی تھیں، کفار مکہ اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی تعداد کو اپنے آپ سے دوگنا دیکھ رہے تھے۔ سورہ انفال کی آیت ۱۷ فلم تقتلوہم ولکن اللہ قتلہم وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیسے ظاہر ہے کہ اس میں اللہ کی خصوصی مدد و نصرت سے فتح ہوئی، البتہ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ عالم اسباب کے لحاظ سے آنحضورؐ نے اصول جنگ کے مطابق فوجیں مرتب کیں اور ہتھیاروں سے لیس ایک عظیم الشان لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے جس انداز سے صف آرائی کی وہ آپؐ کے حسن تدبیر و قیادت اور اعلیٰ ترین فوجی نظم کا مظہر ہے۔

بلاذری نے اس اہم غزوہ کی تفصیلات کے لیے تقریباً بیس صفحات مختص کیے ہیں۔ لکھا ہے کہ یہ یخلد بن النضر کا کنواں تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہینہ قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا (ص ۲۸۸)۔ بدر اور مدینہ کے درمیان ۸۰ میل کا فاصلہ تھا (ایضاً)۔ راویوں کا بیان نقل کیا ہے کہ آنحضورؐ شام سے آنے والے اس قافلہ کی واپسی کے منتظر تھے، جس کے لیے آپؐ ذو العشیرہ تک نکلے تھے۔ قـالـوا! وتحیـن ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصراف العیـر التـی خرج لہـا الی ذی العشیرہ من الشام۲۸۸)۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ سامانوں سے بوجھل قافلہ قریش آچکا ہے، قافلہ میں ایک ہزار اونٹ ہیں اور اس میں ابو سفیان بن حرب ، مخرمہ بن نوفل زہری اور عمرو بن العاص وغیرہ جیسے سرداران مکہ ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’وتودون غیر ذات الشرکـۃ تکـون لکم‘‘ کے مطابق آپؐ کا ان سے متحارب ہونے کا خیال نہیں تھا ۔ ’’ولم یـظـن رسـول اللہ صلی اللہ علیـہ وسلم انـہ یحـارب ‘‘ (ص ۲۸۸)۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۲؍ رمضان ۲ ہجری بروز اتوار جب آپؐ مدینہ سے نکلے تو آپؐ کے بعض صحابہ نے آپؐ کے ساتھ چلنے میں سستی کی کیونکہ انہیں جنگ کا خیال نہیں تھا۔ وابطأ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم من اصحابـہ اذ لم یحسبوا انہم یحاربوں (ایضاً)۔ بلاذری نے ان کے یہ نام گنائے ہیں اسد بن حضیرالاوسی، سعد بن عبادہ، رافع بن مالک، عبداللہ بن انیس، کعب بن مالک، عباس بن عبادہ بن نضلہ، یزید بن ثعلبہ ابو عبدالرحمٰن (ایضاً)۔ چنانچہ جب آپؐ مدینہ واپس آئے تو اسید نے اللہ کی مدد اور دشمن پر فتح یابی کے لیے آپؐ کی خدمت میں تہنیت پیش کی اور خود پیچھے رہ جانے کے سلسلہ میں معذرت کا اظہار کیا(ایضاً)۔ ہنّأہ اسید بنصر اللہ و اظہارہ ایاہ علی عدوہٖ واعتذر من تخلفہ اور کہا کہ میں نے سوچا کہ آپؐ کا قصد قافلہ کا تھا ، مجھے یہ خیال ہرگز نہ تھا کہ آپ جنگ کریں گے ۔ انما ظننت انہا العیر ولم اظن انک تحارب ۲۸۸)

بلاذری نے وہ روایت نہیں لکھی ہے جو غزوہ بدر کے اصل سبب ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے یعنی آپؐ نے بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک جماعت عبداللہ بن جحش کی قیادت میں قریش کے حالات کا پتہ لگانے کے لیے رجب ۲ ہجری میں بطن نخلہ روانہ کی، اتفاق سے قریش کے چند لوگ تجارت کا مال لیے شام سے واپس آرہے تھے، حضرت عبداللہ نے ان پر حملہ کردیا جس میں عمرو بن الخضرمی مارا گیا، دو گرفتار ہوئے اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ یہ لوگ مدینہ واپس آئے، آپؐ نے فرمایا ’’میں نے تم کو اس کی اجازت نہیں دی تھی‘‘، غنیمت لینے سے بھی انکار کردیا۔ صحابہ کرامؓ نے برہم ہوکر کہا ’’صنـعتـم مـالـم تـؤمـروا بـہ‘‘ تم نے وہ کام کیا جس کا تم کو حکم نہیں دیا گیا تھا(۱۶)۔ اس واقعہ نے تمام قریش کو مشتعل کردیا اور یہ غلط خبر بھی پھیل گئی کہ مسلمان قافلہ کو لوٹنے آرہے ہیں۔ معرکۂ بدر کا سلسلہ اسی واقعہ سے وابستہ ہے، حضرت عروہ بن زبیر نے بھی تصریح کی ہے کہ غزوۂ بدر اور تمام لڑائیاں جو قریش سے پیش آئیں سب کا سبب حضرمی کا قتل ہے۔ کان الذی ھاج وقعۃ بدر وسائـر الحروب التی کانت بین رسول اللہ صلی اللہ علیـہ وسلم وبین مشرکی قریش فیما قـال عـروۃ بن الزبـیـر مـا کان من قـتـل واقد بن عبد اللہ التمیمی عمرو بن الحضرمی۔(۱۷)

خبیب کا قبول اسلام: خبیب بن اساف کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ اپنی قوم خزرج کی مدد اور مال غنیمت کی طلب میں اس جنگ کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ہمارے ساتھ وہی جاسکتا ہے جو ہمارے دین پر ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام قبول کیا اور خوب داد شجاعت دی (ص ۲۸۸) لا یصحبنا الامن کان علی دیننا فاسلم وابلی۔

وہ صحابہ جو کم سنی کے سبب شریک بدر نہ ہوسکے: عبداللہ بن عمر بن الخطاب، اسامہ بن زید، رافع بن خدیج، براء بن عازب، اسید بن ظہیر، زید بن ارقم اور زید بن ثابت چھوٹے ہونے کے سبب اس کا حصہ نہ بن سکے، عمیر بن ابی وقاص کو کم سنی کے سبب روکا گیا تو رو پڑے، پھر اجازت ملی سعد بن ابی وقاص نے ان کی گردن میں تلوار حمائل کی (ایضاً)۔ طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زید کو جاسوسی اور خبر رسانی کے لیے بھیجا۔ (ایضاً)

عدم شرکت کے باوجود مال غنیمت پانے والے صحابہ: اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو بوجوہ یا کسی ذمہ داری کے سبب جنگ میں شریک نہ ہوسکے تھے لیکن آپؐ نے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ان کا خیال رکھا اور ان کا بھی حصہ لگایا۔ ان میں طلحہ بن عبیداللہ، سعید بن زید، حضرت عثمان بن عفان (جو حضرت رقیہؓکی بیماری کے سبب جا نہیں سکے تھے، آپؐ نے ان کا بھی حصہ لگایا)، بسبس بن عمرو، عدی بن ابی الزغبا جہینی ( جن کو آپؐ نے اس قافلہ کی خبر گیری کے لیے بھیجا تھا جن میں ۳۰ افراد تھے۔ لیعرفا اخبر العیر ومن فیھا من قریش وہم ثلاثون)، ابو لبانہ بن عبدالمنذر (جن کو آپؐ نے مدینہ میں جانشین مقرر کیا تھا)۔ عاصم بن عدی (ان کو آپؐ نے قبا اور عالیہ (مدینہ کی بالائی آبادی) پر اپنا نائب بنایا) خوّات بن جبیر (جن کو چوٹ آگئی تھی)، حارث بن حاطب (جن کو بنی عمرو کے سلسلہ میں کوئی کام دیا تھا)، حارث بن صمہ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جعفر بن ابی طالب (کو جو اس وقت حبشہ میں تھے) کا بھی حصہ لگایا اور کچھ الگ سے کسی کام کی اجرت آپؐ نے عطا کی ۔ (۲۸۹)

بدر میں نہ شریک ہونے والے صحابہ کی تعداد: اس فہرست کے مطابق بدر کے وہ صحابہ جو براہِ راست شریک جنگ نہ تھے ان کی تعداد ۱۱ تک پہنچ جاتی ہے لیکن خود بلاذری کے نزدیک صحیح تعداد ۸ ہے۔ طلحہ، سعید، جہینین(یعنی بسبس بن عمرو اور عدی بن الزغبا)، عثمان، ابو لبانہ، عاصم بن عدی اور خوّات۔

بدر میں مسلمانوں اور سواریوں کی تعداد: بلاذری کے مطابق بدر میں مسلمانوں کے پاس کل ۷۰ اونٹ تھے، جن پر باری باری لوگ سوار ہوتے تھے۔ کبھی دو، کبھی تین اور کبھی چار۔ آپؐ، حضرت علی اور زید بن حارثہ ایک اونٹ پر، حمزہ اور ان کے حلیف مرثد بن ابی مرثد، ابو کبشہ، رسول اللہؐ کے غلام انسہ کے لیے ایک اونٹ، عبیدہ، طفیل، حصین بن حارث، مسطح کے درمیان ناضح تھا (یعنی وہ اونٹ جن پر پانی لایا جائے) جس کو عبیدہ بن حارث نے خریدا تھا۔ عثمان اور بنی مظعون کے لیے ایک اونٹ تھا۔ (ایضاً)

مسلمانوں کے پاس صرف دوگھوڑے تھے، ایک زبیر بن العوام کا اور دوسرا مقداد بن عمرو الہرانی کا جو اسود بن عبد یغوث کے رشتہ دار تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گھوڑا زبیر کا نہیں بلکہ مرثد بن ابی مرثد کا تھا (۲۸۹)۔ آگے لکھتے ہیں کہ مقداد کے گھوڑے کے باب میں کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی اس بات میں کوئی اختلاف ہے کہ مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے (ایضاً)۔ ولم یختلفوا فی فرس المقداد ولا فی انہ لم یکن مع المسلمین الافرسان۔

آگے واقدی کا قول نقل کیا ہے کہ شرکائے بدر یعنی ۳۱۴ لوگوں میں آپؐ نے مال غنیمت میں سب کا حصہ لگایا۔ ان میں آٹھ صحابہ جنگ میں شریک نہیں ہوئے مگر آپؐ نے ان کا بھی حصہ لگایا۔ قال الواقدی! کان المسلمون الذین اسہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غنائم بدر ثلاث مئۃ واربعۃ عشر رجلا منہم الثمانیۃ الذین لم یحضروا فاسہم لہم۲۸۹)

لکھتے ہیں مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ تھی جن میں ۴۰ افراد قبیلہ قریش کے تھے (۲۹۰)۔ مشرکین ساڑھے نو سو تھے (ایضاً) ان المشرکین کانوا یوم بدرٍ تسع مئۃ و خمسین رجلا۔ آگے سعید بن مسیب سے مروی روایت نقل کی ہے کہ شرکاء بدر کی تعداد ۳۱۴ تھی۔ ان میں ۸۳ مہاجر، ۶۱ افراد اوس اور ۱۷۰ خزرج کے تھے (ایضاً)۔ آگے واقدی کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک شرکائے بدر کی صحیح تعداد ۳۱۴ ہے۔ البتہ مہاجرین ۷۴ اور بقیہ سب کے سب انصار تھے۔ منہم من المہاجرین اربعۃ و سبعون و سائرہم من الانصار ۲۹۰)

بخاری نے ’’باب عدۃ اصحاب بدر‘‘ کے تحت براء سے مروی روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ۶۰ سے اوپر مہاجر اور ۲۴۰ سے اوپر انصاری صحابہ تھے۔ اگلی دو روایتوں میں ہے کہ اصحاب بدر کی تعداد وہی تھی جو اصحاب طالوت کی تھی یعنی کل ۳۱۰ سے کچھ اوپر۔ ان روایتوں میں ۳۱۳ یا ۳۱۴ کی متعینہ تعداد موجود نہیں ہے (۱۸) ان عدۃ اصحاب بدر علی عدۃ اصحاب طالوت …. بضعۃ عشر و ثلاث مئۃ۔

قریش کی سواریوں کی تعداد اور ابو سفیان کا راستہ بدلنا اور مدد کی گہار لگانا: قریش کے ساتھ سو گھوڑے، سات سو اونٹ تھے۔ اصحاب خیل سب کے سب زرہ پوش تھے (ص ۲۹۰)۔ ابو سفیان کو آپؐ کی روانگی کی خبر ہوگئی تو راستہ بدل کر قافلہ کو دریا کی جانب سے لے کر روانہ ہوا۔ ضمضم بن عمر الکتانی کو بیس دینار کی اجرت پر مکہ بھیجا، اس نے مکہ پہنچ کر اپنے اونٹ کی ناک کاٹ دی، آگے پیچھے قمیص کو پھاڑ ڈالا اور الغوث الغوث کی صدا لگائی۔ راویوں کا بیان ہے کہ قریش گانے باجے کے ساتھ مسلح ہوکر نکل پڑے۔

ابو سفیان کا جنگ سے منع کرنا: جحفہ تک پہنچے تھے کہ ابو سفیان نے اپنی حفاظت و سلامتی کا پیغام بھیجا اور لکھا کہ محمد اور اہل یثرب سے تعرض کی اب ضرورت نہیں ہے۔ فبعث الی قریش من الجحفہ یعلمہم سلامتہ بما معہ وانہ لاجاجۃ بہم الی التعرض لمحمد واہل یثرب۔۲۹۱) لوگوں نے انکار کیا، ابو جہل نے لوگوں کو ابھارا اور نکلنے کی ترغیب دی، امیہ بن خلف الجمحی نے خروج سے منع کیا تو ابو جہل مکحل اور عقبہ بن معیط مجمر کے ساتھ امیہ کے پاس آئے۔ ابو جہل نے کہا، سرمہ لگالو اس لیے کہ تم عورت ہو، عقبہ نے کہا جوڑا کرلو اس لیے کہ لونڈی ہو۔ عتبہ بن ربیعہ نے بھی نکلنا پسند نہ کیا اور بھائی شیبہ بن ربیعہ سے کہا کہ ابن حنظلہ یعنی ابو جہل بدقسمت شخص ہے۔ حالانکہ محمد سے قرابت و تعلق کا جو حصہ اس کو ملا ہے ہم کو نہیں ملا ہے۔ ولیس یمسہ من قرابۃ محمد ما یمسنا ۲۹۱)۔ شیبہ نے کہا اگر قریش ہم سے الگ ہوئے اور ہم مکہ لوٹے تو وہ ہمارے خلاف ہوجائیں گے اور ہم کو ذلیل و بے عزت کردیں گے۔ اے ابوالولید ہم کو اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہیے۔

بعض وہ قبائل جو راستہ سے واپس ہوگئے: راویوں کا بیان ہے کہ ابی بن شریق ثقفی نے جو بنی زہرہ کا حلیف تھا کہا کہ اے بنی زہرہ اللہ نے تمہارے قافلہ کو بچالیا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ کفار بنی زفر میں سے کوئی بدر میں شریک نہیں ہوا۔ .4ولم یشہد بدرا من کفار بنی زہرۃ احد.4 (ص ۲۹۱)

راویوں کا بیان ہے کہ عدی بنو کعب بن عدی مکہ سے لوٹ رہے تھے کہ ابو سفیان سے ملاقات ہوئی تو سفیان نے ان سے پوچھا کہ کیسے لوٹے، نہ تو تم قافلہ میں تھے اور نہ ہی لڑنے والوں میں تھے۔ اس جملہ سے بلاذری نے استدلال کیا ہے کہ ان کا بھی کوئی شخص بدر میں شریک نہیں ہوا۔ فلم یشہد بدرا منہم احد (ایضاً)

حارث بن عامر بن نوفل کا بھی بدر میں شرکت کا ارادہ نہ تھا لیکن ابو جہل ، عقبہ بن معیط اور نضر ابن حارث نے اس کو بزدلی کا طعنہ دیا، اسی طرح حکیم بن حزام، ابو البختری، علی بن امیہ بن خلف بھی ان کے طعن و تشنیع کے سبب نکلے، ان کا لڑنے کا ارادہ نہیں تھا (ایضاً)۔ حتی خـرجـوا وکانـوا ارادوا الایـفـعـلـوا۔

کفار قریش نے بدر میں ہر قسم کا تعاون پیش کیا: راویوں کا بیان ہے کہ صاحب ثروت نے کم سرمایہ والوں کو سرمایہ مہیا کیا اور اپنے مال اور سامان جنگ سے ان کی اعانت کی۔ سہیل بن عمرو نے مشرکین کی ایک جماعت کو اپنے مال و اسباب سے تقویت پہنچائی۔ سعد بن اسود نے بھی ایسا ہی کیا، ابوسفیان کے دونوں بیٹے حنظلہ و عمرو نے جنگ کی تحریک دلائی اور کہا کہ مال کے مالک ابو سفیان ہیں۔ اسی طرح جوش دلانے والوں میں طعیمہ بن عدی تھے، حویطب بن عبدالعزی نے قریش کو سو اور بعض کے بیان کے مطابق دوسو دینار دیے، جس سے ہتھیار اور دوسرے آلات جنگ خریدے گئے۔ قریش کا کوئی شخص نہ تھا جو اس جنگ میں نہ نکلا ہو اگر کسی سبب سے کوئی رکا رہ گیا تو اس نے اپنی جگہ کسی کو بھیجا۔ ولم یتخلف احد من قریش لعلۃ الاوجہ مکانہ رجلا ۲۹۲) چنانچہ ابو لہب مرض کے سبب شریک نہیں ہوا تو اس نے عاص بن ہشام بن مغیرہ کو اس شرط پر بھیجا کہ اس میں جو مال حاصل ہوگا وہ اس سے بری رہے گا۔

آنحضورؐ کا کفار قریش کو لوٹ جانے کا مشورہ: بلاذری کے بیان کے مطابق آپؐ نے حضرت عمرؓ کے ذریعہ قریش کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ واپس لوٹ جائیں مگر انہوں نے انکار کیا (۲۹۲) بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن الخطاب الی قریش یامرہا بالانصراف فابوا۔ یہ روایت بالعموم اور کتابوں میں نہیں ملتی۔ اسی طرح اگلی روایت ہے کہ آپؐ بدر کے قریب پہنچے تو چونکہ رمضان کا مہینہ تھا، آپؐ نے اعلان کرایا کہ ’’افطروا یا معشر العصاۃ‘‘ مگر آپؐ کے اعلان پر انہوں نے افطار نہیں کیا یعنی روزہ نہیں توڑا، آپؐ نے روزہ توڑ دیا۔ یہ روایت بھی عام کتب سیر میں نہیں ملتی۔ بلاذری نے راویوں کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے کہ آپؐ نے انصار سے مشورہ طلب کیا تو حباب ابن منذر بن جمدح نے مشورہ دیا کہ ایسی جگہ فروکش ہوں جہاں پانی قریب ہو، جبریلؑ نے اس رائے کو پسند کیا، اس وقت سے آپؐ ان کو ’’ذا الرأی‘‘ کے لقب سے بلاتے تھے۔ آپؐ کے لیے کھجور کی ٹہنیوں کی جھونپڑی بنائی گئی۔ آپؐ اور حضرت ابو بکرؓ اس میں داخل ہوگئے اور دونوں اس میں باہم مشورہ کرتے تھے۔ (ص ۲۹۳)

نشان شناخت: بدر کے روز آپؐ کا شعار (نشان شناخت) ’’امت امت‘‘، مہاجرین کا ’’بنی عبدالرحمٰن‘‘ ، خزرج کا ’’بنی عبداللہ‘‘، اوس کا ’’بنی عبداللہ‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی مدد ملائکہ اور تیز ہوا کے ذریعہ کی، آپؐ نے فرمایا میری مدد ’’باد صبا‘‘ کے ذریعہ ہوئی اور عاد کو پچھوا ہوا کے ذریعہ ہلاک کیا گیا۔ (ایضاً) آپؐ نے مٹھی بھر کنکری لی، میدان کی طرف پھینکا، چہرے بدشکل ہوگئے اور قریش کو شکست ہوئی۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ مے ضرور دے

مولانا کلیم صفات اصلاحی کی اردو کتابیں

مولانا کلیم صفات اصلاحی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدے معارف رسالہ

———————————————————————

مراجع و حواشی

(۱) بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ توبہ باب قولہ ولا تصل علی احد ، جلد ۲، ص ۶۷۴۔ (۲) ایضاً، حاشیہ بخاری ۶۷۴۔ (۳) سیرۃ النبی، جلد ۱ ، ص ۲۹۶۔ (۴) سیرت ابن ہشام، جلد ۲، ص ۳۴۱۔ (۵) ایضاً۔ (۶)الزرقانی علی المواہب اللدنیہ، محمد بن عبدالباقی زرقانی، جلد ۱، ص ۴۴۸، مکتبہ میسریہ مصر، ۱۸۷۰ء، بحوالہ نسائی۔ (۷) تفسیر ابن جریر، محمد بن جریر طبری، تفسیر آیت مذکورہ، جلد ۲، ص ۱۰۶، مطبعہ میمینہ مصر۔(۸) غزوات کی یہی تعداد موسیٰ ابن عقبہ، واقدی، ابن سعد، ابن جوزی، دمیاطی اور عراقی وغیرہ متعدد اہل مغازی سے منقول ہے، جب کہ سرایا کی تعداد میں اختلاف ہے، ابن اسحاق نے ۳۸، واقدی اور ابن سعد نے ۴۸ اور ابن جوزی نے ۵۶، ابن عبدالبر نے ۳۵ بتائی ہے، دیکھیے غزوات نبویؐ کی اقتصادی جہات، پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی، ص ۱۲، ادارہ مطالعات اسلامی، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ۱۹۹۹ء۔ (۹)ایضاً۔ (۱۰) مولانا شبلی نے یہ فاصلہ مدینہ سے تقریباً ۸ منزل (۸۰ میل) لکھا ہے، دیکھیے سیرۃ النبی، جلد ۱، ص ۲۲۲۔ (۱۱) معاہدہ کے مزید الفاظ روض الانف ، جلد ۲، ص ۵۸، اور زرقانی، جلد ۱، ص ۴۵۹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ (۱۲) بخاری، جلد ۲، ص ۵۶۳۔ (۱۳) دیکھیے اصح السیر ، ابو البرکات عبدالروف داناپوری، ص ۸۲ و سیرۃ النبی، جلد ۱، ص ۲۲۳۔ (۱۴) سیرۃ النبی، جلد ۱، ص ۲۲۳۔ (۱۵) ایضاً، ص ۲۲۶۔ (۱۶) طبری، جلد ۳، ص ۱۲۷۵۔ (۱۷)ایضاً، ص ۱۲۸۴۔ (۱۸) بخاری، جلد ۲، ص ۵۶۴۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *