مصنف: اشتیاق احمد ظلی
عالم اسلام کے سب سے بڑے محقق، مصنف اور اسلامی علوم اور سائنس کے عظیم مورخ پروفیسر فواد سزکین ۳۰؍ جون ۲۰۱۸ء کو استانبول میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر ۹۴ سال تھی۔ ان کی تدفین سلطان احمد اسکوائر کے گل خانہ پارک میں اس معہد کے قریب ہوئی جس کو انہوں نے قائم کیا تھا۔ صدر طیب اردوغان کی قیادت میں ترکی نے جس عقیدت و احترام سے انہیں رخصت کیا جدید ترکی کی تاریخ میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
صدر نے متعدد وزراء کے ساتھ نہ صرف نماز جنازہ میں شرکت کی بلکہ جنازہ کی مشایعت بھی کی۔ اس سے جہاں ان کے غیر معمولی مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ترکی کے بدلتے ہوئے منظرنامہ کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے اسلامی علوم کے کسی فاضل کے لیے سرکاری سطح پر اس احترام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
پروفیسر سزکین ایک قاموسی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے جو علمی اور تحقیقی ورثہ چھوڑا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ انہوں نے تنہا جو کام انجام دیا بڑی بڑی اکیڈمیاں بھی وہ کام انجام نہ دے پائیں۔ ان کا علمی کام کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے ایسا عظیم الشان ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اتنا بڑا کارنامہ ایک اکیلے شخص نے کیسے انجام دیا۔ انہوں نے اوائل عمر میں اپنے لیے جس مشن کا انتخاب کیا تھا اس کی تکمیل میں اپنی پوری عمر صرف کردی۔ انہیں ہم اپنی تاریخ کے اعاظم رجال میں شمار کریں تو بے جا نہ ہو۔ ان کے سوانح نگار نے بجا طورپر ان کو مکتشف الکنز المفقود کا لقب دیا ہے۔
ہمارے بزرگوں نے علم و سائنس کا ایک بے بہا خزانہ چھوڑا لیکن ہم اس سے ناواقف تھے۔ اہل مغرب جو اس سے واقف تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور اس سے واقف ہو۔ چنانچہ وہ وقت کی گرد کی دبیز تہوں کے نیچے دب کر رہ گیا تھا۔ جب پروفیسر سزکین کی عمر بھر کی شبانہ روز کی کوششوں کی وجہ سے اس کا روشن چہرہ سامنے آیا تو دنیا ششدر رہ گئی۔ مغربی دانش وری یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کہ علم و سائنس کے میدان میں مسلمان علماء اور محققین کے اکتسابات اتنی غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے ہیں لیکن آفتاب آمد دلیلِ آفتاب کے مصداق یہ معاملہ اتنا واضح اور فیصلہ کن نوعیت کا حامل تھا کہ اس سے انکار ممکن نہیں رہا۔
علم و دانش کی دنیا میں گذشتہ کئی صدیوں سے مغرب کے ہمہ گیر علمی اور فکری تسلط کے زیر اثر جو بیانیہ رائج رہا ہے اس کا ارتکاز مکمل طور پر مغرب پر (Eurocentric) رہا ہے۔ اس بیانیہ کے مطابق علم و دانش کی ابتدا یوروپ کے ایک خطہ یونان میں ہوئی۔ بعد میں چودہویں، پندرہویں اور سولہویں صدی میں یوروپ میں اس کا احیاء ہوا۔ اس کے لیے Renaissance یعنی نشاۃ ثانیہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ہی احیاء یا تجدید ہے۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ یوروپ کی علمی ترقی کسی طرح کے بیرونی اثرات کی منت کش نہیں ہے بلکہ وہ ان نظریات و افکار کے تحت رونما ہوئی ہے جو وہاں پہلے سے موجود تھے۔ یہ دراصل بہت سوچی سمجھی اور منصوبہ بند کوشش تھی اور اس کا مقصد یوروپ میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی میں مسلمان علماء اور محققین کے اساسی کردار کا انکار تھا۔ اس کے لیے طرح طرح کے طریقے اختیار کیے گئے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ یوروپ کی سائنسی اور علمی پیش رفت براہ راست مسلمانوں کی علمی اور فکری کاوشوں سے ماخوذ و مستفاد ہے۔ یہ کسی پرانے علم کے احیاء کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ علوم جو یونان اور بازنطینی مآخذ سے یوروپ تک پہنچے ان کے اندر اتنے ترقی یافتہ علوم کی اساس بننے کی صلاحیت نہیں تھی۔
پہلے یہ بات کسی نہ کسی درجہ میں معلوم تھی اور بعض مغربی مصنّفین نے کسی نہ کسی انداز میں اس کا اعتراف اور اقرار بھی کیا ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کو جس مرحلہ تک پہنچا دیا تھا اس کے بعد اگلا مرحلہ آسان بھی تھا اور فطری بھی۔ یہ علوم یوروپ میں پہلے صقلیہ کے ذریعہ اور بعد میں اندلس کے ذریعہ پہنچے۔ اس کے بعد یوروپ نے پورے جوش و خروش سے انہیں آگے بڑھایا اور مسلمان صدیوں کے لیے اس طرح سوگئے کہ انہیں اپنے اسلاف کے ان لازوال کارناموں کی خبر بھی نہیں رہی۔
دنیا کو یہ باور کرادیا گیا کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ پوری طرح یورپ کی رہینِ منت ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں کا جو اساسی کردار رہا ہے اس کا یا تو سرے سے ذکر ہی نہیں آتا اور اگر بدرجہ مجبوری کہیں اس کا ذکر کرنا ہی پڑجاتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ حاشیہ میں جگہ ملتی ہے۔
تاریخ کے اس سب سے بڑے جھوٹ، فریب اور چوری کا پردہ چاک کرنے کا کریڈٹ پروفیسر فواد سزکین کو جاتا ہے۔ اپنی گراں مایہ تحقیقات سے انہوں نے ثابت کردیا کہ موجودہ سائنس اور ٹکنالوجی کی بنیاد دراصل مسلمانوں ہی نے رکھی اور اس کی اساس انہی کی تحقیقات، افکار، نظریات اور اختراعات پر قائم ہے۔
اس فریب کا پردہ انہوں نے اس طرح چاک کردیا کہ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ یہ کام انہوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کے کسی خاص شعبہ میں نہیں کیا بلکہ ان علوم کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کے علمی ورثہ کو اس وضاحت اور صراحت سے پیش کردیا کہ کسی انصاف پسند شخص کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اسکالرس کی ایک ٹیم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہوتا تو بھی یہ غیر معمولی واقعہ ہوتا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی توفیق ایک تنہا آدمی کو ہوئی۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
اس پس منظر میں یہ بات باعث حیرت و افسوس ہے کہ اردو دنیا پروفیسر سزکین کے کارناموں سے زیادہ واقف نہیں ہے۔ جو لوگ کسی حدتک واقف بھی ہیں ان میں سے بھی اکثر کے سامنے پوری صورت حال نہیں ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انتقال کی مناسبت سے ان کے کارہائے نمایاں کا ایک مختصر خاکہ پیش کردیا جائے۔ البتہ ان کے کام کا کینوس اتنا بڑا ہے اور وہ اتنا کثیرالجہات ہے کہ اس کے مختصر ذکر کے لیے بھی کسی قدر تفصیل کی ضرورت ہے۔
پروفیسر فواد سزگین کا نام ترکی میں Fuat Sezgin لکھا جاتا ہے۔ ان کا پورا نام محمد فواد سزگین تھا۔ ’’مجاز القرآن‘‘ کے سرورق پر ان کا یہی نام لکھا ہوا ہے۔ البتہ بعد میں ان کا نام صرف فواد سزکین لکھا جاتا رہا ہے اور دنیا عام طور پر ان کو اسی نام سے جانتی ہے۔ فواد سزکین ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی میں بٹلیس (Bitles) میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد سزکین کا تعلق محکمہ قضا سے تھا۔ بعد میں انہوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کرلیا تھا (۵)۔ ابتدائی تعلیم ارضروم اور دوغوبایزیز میں حاصل کی۔
۱۹۴۳ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے استانبول کا رخ کیا۔ ان کا ارادہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا تھا لیکن قضا و قدر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ استانبول میں انہیں مشہور جرمن مستشرق ہلمٹ رٹر (۱۸۹۲۔ ۱۹۷۱ء) (Helmutt Ritter) کا لکچر سننے کا موقع ملا۔ اس اتفاقی واقعہ نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ ہلمٹ رٹر ایک جرمن مستشرق تھے۔ انہوں نے کارل بروکلمان (۱۸۶۸۔ ۱۹۵۶ء)، تھیوڈور نولدیکہ (۱۸۳۶۔ ۱۹۳۰ء) اور کارل ہنرخ بیکر (۱۸۷۶۔ ۱۹۳۳ء) جیسے اساطین استشراق کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا تھا۔
استانبول یونیورسٹی کے معہد الدراسات الشرقیہ کے ڈائرکٹر تھے۔ طویل عرصہ تک ترکی میں مقیم رہے۔ ان کی تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ عربی، فارسی ادبیات، ترکی شاعری اور تصوف جیسے موضوعات میں ان کو خصوصی دلچسپی تھی۔ انہوں نے ان موضوعات پر تحقیقات کا وسیع ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے۔ مخطوطات سے ان کو بڑی دلچسپی تھی اور استانبول کی لائبریریوں میں محفوظ متعدد مخطوطات کا انہوں نے تعارف کرایا تھا۔ جو کتابیں ان کی توجہ اور دلچسپی سے شائع ہوئیں ان میں ابن الندیم، سنائی، عطّار اور رومی کی تخلیقات کے علاوہ ابوالحسن الاشعری کی مقالات الاسلامیین اور نوبختی کی فرق الشیعہ کے علاوہ مطبوعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔
تاریخ، تذکرہ، ادب اور دوسرے فنون سے متعلق مخطوطات کی اشاعت کے لیے Bibliotheca Islamica کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ یہ ادارہ اب تک علم و ادب کی اہم خدمت انجام دے رہا ہے۔ غرض ان کی علمی اور تحقیقی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن علم و دانش کی دنیا کے لیے ان کا سب سے بڑا تحفہ فواد سزکین تھے جن کو انہوں نے تعلیم دی، تربیت کی، مخطوطات کی دنیا سے روشناس کیا اور تحقیق و تصنیف کی راہ پر لگایا۔
رٹر بہت سخت گیر تھے۔ اسی لیے ان کی زیر نگرانی تعلیم و تربیت کے خواہاں بہت کم طالب علم ہوتے تھے۔ نوجوان فواد سزکین خود بھی سخت کوش اور محنت کے عادی تھے اور اس طرح استاد کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قطرہ کو گہر ہونے تک کن جاں گداز مراحل سے گذرنا پڑا اس کا کسی قدر اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دن استاد نے شاگردسے پوچھا روزانہ کتنا وقت مطالعہ میں صرف ہوتا ہے۔ سعادت مند شاگرد نے جواب دیا تیرہ سے چودہ گھنٹہ۔ اس جواب پر خوش ہونے کے بجائے استاد نے کہا اس پر تو تم سائنس داں نہیں بن سکتے۔ شاگرد نے اوقات کار میں اضافہ کیا اور زندگی بھر ۱۸ گھنٹہ کام کرتے رہے۔ البتہ بڑھاپے میں اس میں کسی قدر کمی ہوگئی تھی۔
وہ جس ماحول سے آئے تھے وہاں ان کو بتایا گیا تھا کہ دنیا گائے کی سینگ پر ٹکی ہوئی ہے۔ انہیں وہاں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ جب ان کو اپنے استاد سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کیسی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں تو ان کے شوق کو مزید مہمیز ہوئی۔
خوش قسمتی سے استانبول کی لائبریریاں ان علماء اور محققین کی کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس طرح ان کو مخطوطات سے دلچسپی پیدا ہوئی جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ یہی حاصل زندگی بن گئی۔ استاد کے ساتھ ان لائبریریوں کے پھیرے لگاتے ہوئے وہ ان کے سحر کے اسیر ہوتے چلے گئے۔
شاگرد کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے استاد نے کہا کہ اس میدان میں کام کرنے کے لیے عربی سے اعلیٰ درجہ کی واقفیت ضروری ہے۔ ان کو جلد ہی اس کا موقع بھی مل گیا۔ ۱۹۴۲ء میں جنگ عظیم کے زیر اثر ترکی کے تمام علمی ادارے چھ مہینہ کے لیے بند کردیے گئے۔ فواد سزکین نے یہ پورا وقت عربی سیکھنے یں صرف کردیا۔ روزانہ سترہ گھنٹہ کام کیا۔ اس دوران نماز یا بہت ضروری کام سے ہی گھر سے نکلتے تھے۔
چھٹیاں ختم ہونے کے بعد استاد نے ان کی عربی دانی کا امتحان لیا تو حیرت زدہ رہ گئے، انہوں نے کہا کہ اتنی کم مدت میں میں نے کسی کو کسی زبان میں اتنی مہارت حاصل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پروفیسر سزکین کا بیان ہے کہ انہوں نے کبھی کسی استاد کو اپنے طالب علم کی کامیابی پر اس طرح خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح رٹر اس دن خوش ہوئے۔
اپنے مجوزہ منصوبہ پر کام کی تیاری کے مقصد سے بعد میں انہوں نے عربی کے علاوہ فارسی، عبرانی، سریانی اور لاطینی زبانیں بھی سیکھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو ۲۷ زبانیں معلوم تھیں۔ لیکن ان کا خود یہ کہنا ہے کہ اس میں کسی قدر مبالغہ کا پہلو ہے۔ علوم کی تاریخ پر کام کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے محققین کی تصانیف ان کی اپنی زبان میں پڑھی جائیں۔ رٹر جیسے فاضل استاد کی رہنمائی میں حوصلہ مند شاگرد کے دماغ میں دھیرے دھیرے مستقبل میں کام کا ایک نقشہ بنتا گیا۔ مخطوطات سے جیسے جیسے واقفیت بڑھتی گئی اس منصوبہ کے خط و خال بھی واضح ہوتے چلے گئے۔ ابتدا میں استاد کے ساتھ اور بعد میں خود مخطوطات کی لائبریریوں میں آمد و رفت بڑھتی گئی اور مسلمان علماء کی تحقیقات سے جیسے جیسے واقفیت بڑھتی گئی، اسی مناسبت سے تاریخ علوم میں شیفتگی بھی بڑھتی گئی۔
پروفیسر سزکین پی۔ ایچ۔ ڈی کب کی اور اس کا موضوع کیا تھا اس سلسلہ میں اختلاف رائے ہے۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ انہوں نے ’’صحیح بخاری کے مصادر‘‘ کے موضوع پر تحقیق کی اور ۱۹۵۴ء میں ان کو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ لیکن ان کے سوانح نگار پروفیسر عرفان یِلماز صراحت سے یہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹریٹ کے لیے ابو عبیدہ کی کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ پر کام کیا۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کتاب کا ان کے موضوع تاریخ العلوم سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا پھر اس کو انہوں نے اپنے مقالہ کا موضوع کیوں بنایا۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ایسا انہوں نے برکت کے لیے کیا ہوگا۔
وہ پروفیسر فواد کی اس موضوع پر ایک طویل گفتگو نقل کرتے ہیں۔ اس کے مطابق اس کتاب کا تنہا نسخہ انقرہ میں اسماعیل صائب کی لائبریری میں تھا۔ اسماعیل صائب سے رٹر کے مخلصانہ تعلقات تھے۔ انہی سے یہ کتاب پروفیسر سزکین کو دستیاب ہوئی۔ لیکن ایک ایسی کتاب پر ریسرچ مناسب نہیں معلوم ہوتی تھی جس کا صرف ایک ہی نسخہ دستیاب ہو۔ چنانچہ انہوں نے اس کے کسی اور نسخہ کی تلاش شروع کی۔ خوش قسمتی سے ان کو اس کا ایک اور نسخہ مل گیا۔ جب اس دریافت کی اطلاع اپنے استاد کو دی تو وہ حیرت زدہ رہ گئے ’’فاندہش استاذی کثیراً‘‘۔ وہ خود تیس سال سے اس کتاب کے کسی دوسرے نسخے کی تلاش میں تھے لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔
یہی کتاب ان کی تحقیق کا موضوع بن گئی ’’اصبح الکتاب الذی عرضہ استاذی ہو موضوع رسالتی للدکتوراہ وانتہیت منہ عام ۱۹۵۱‘‘۔ اس سے واضح ہے کہ انہوں نے اسی موضوع پر ریسرچ کی اور ان کا یہ کام ۱۹۵۱ء میں پورا ہوگیا تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بخاری تک ’’مجاز القرآن‘‘ ہی کے ذریعہ پہنچے۔ بخاری میں جب ان کو معمر بن مثنی کے حوالے نظر آئے تو تحقیق پر پتہ چلا کہ وہ ’’مجاز القرآن‘‘ سے ماخوذ تھے۔
اس طرح بخاری کے تحریری مصادر کی تحقیق کا خیال آیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پی۔ ایچ۔ ڈی کی تکمیل کے بعد انہوں نے بخاری پر کام شروع کیا۔ یہ کام ۱۹۵۴ء میں پورا ہوا۔ اس میں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ مستشرقین کا یہ دعوی درست نہیں ہے کہ ابتدائی صدیوں میں حفاظت حدیث کا کوئی قابل اعتماد نظام موجود نہیں تھا اور احادیث کی حفاظت زبانی روایت پر منحصر تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ بخاری اور حدیث کے دوسرے متداول مجموعوں سے بہت پہلے سے بلکہ ابتدا ہی سے احادیث کو ضبط تحریر میں لانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ چنانچہ بخاری نے بنیادی طورپر حدیث کے انہی تحریری مجموعوں پر اعتماد کیا ہے۔ یہ علم حدیث کی ایک بہت بڑی خدمت تھی۔
رٹر ۱۹۲۶ء سے استانبول میں مقیم تھے۔ ۱۹۴۹ء میں وہ فرینکفرٹ لوٹ گئے اگرچہ بعد میں ۱۹۵۶ء میں وہ واپس آئے اور ۱۹۶۹ء تک وہاں مقیم رہے۔ ۱۹۴۹ء میں انہوں نے روتے ہوئے پروفیسر سزکین سے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ اس شہر کی لائبریریاں میری اپنی ملکیت ہیں۔ اب میں یہ تخت تمہارے لیے چھوڑ رہا ہوں۔ ان کی قیمت پہچانو۔
۱۹۵۴ء میں سزکین کا تقرر یونیورسٹی میں ہوگیا۔ اسی دوران کارل بروکلمان کی شہرہ آفاق کتاب تاریخ الادب العربی کا مطالعہ کرتے ہوئے انہیں اندازہ ہوا کہ اس کتاب میں استانبول کی لائبریریوں میں محفوظ مخطوطات کا ذکر بہت کم ہے۔ بروکلمان نے برلن کی امپریل لائبریری میں بیٹھ کر اپنا یہ عظیم الشان کام پورا کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی اساس کیٹلاگس پر تھی۔ چنانچہ جن لائبریریوں کے کیٹلاگ اس وقت تک تیار نہیں ہوئے تھے زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ وہاں محفوظ مخطوطات کا ذکر اس میں نہیں آسکا ہوگا۔
پروفیسر سزکین کو یہ معلوم تھا کہ صرف استانبول کی لائبریریوں میں تین لاکھ کے قریب مخطوطات موجود ہیں۔ چنانچہ ان کی خواہش ہوئی کہ وہ اس کمی کی تلافی کرکے اس کتاب کی تکمیل کردیں۔ رٹر نے اس کام کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ چنانچہ ابتدائی منصوبہ بروکلمان کی کتاب کا تکملہ یا ذیل لکھنے کا تھا۔ اس طرح کے کام کے لیے درکار وسائل ترکی میں دستیاب نہیں تھے۔ اسی دوران ۱۹۶۱ء میں کچھ ایسے حالات رونما ہوئے کہ ان کو جرمنی منتقل ہونا پڑا۔
۱۹۶۰ء میں جب فوج نے عدنان مندریس کی حکومت کو ختم کرکے فوجی حکومت قائم کی تو اس کا اثر تعلیمی اداروں پر بھی پڑا اور بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ ان میں پروفیسر سزکین بھی شامل تھے۔ ۱۳؍ مارچ ۱۹۶۱ء کو وہ جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کو وطن چھوڑنے کا بہت دکھ تھا۔ اس وقت ان کو اندازہ نہیں تھا کہ قدرت کس طرح ان کے عظیم منصوبہ کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کررہی تھی۔
فرینکفرٹ میں گویٹے یونیورسٹی میں ابتدا میں انہوں نے وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ جرمنی میں انہوں نے دوبارہ پی۔ ایچ۔ ڈی کی۔ موضوع ’’عربی اسلامی سائنس کی تاریخ‘‘ تھا۔ وہیں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر ۱۹۶۵ء میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۶ء میں ایک خاتون مستشرق ارسولا سے شادی ہوئی۔ وہ شادی سے پہلے اسلام قبول کرچکی تھیں۔ ۱۹۷۰ء میں ان کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ہلال رکھا گیا۔
پروفیسر سزکین کے جرمنی منتقل ہونے سے پہلے یونیسکو کی سرپرستی میں یوروپ کے بڑے محققین کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی تاکہ اس کی نگرانی میں بروکلمان کے عظیم الشان کام کو نئے انداز میں شائع کیا جائے۔ طباعت کے لیے لائیڈن کے مشہور طباعتی ادارے اے۔ جے۔ برل کو منتخب کیا گیا۔ اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے اور بعض میں پروفیسر سزکین کو بھی مدعو کیا گیا۔
انہوں نے اپنا منصوبہ کمیٹی کے سامنے رکھا۔ کمیٹی کی رائے تھی کہ کوئی آدمی تنہا یہ کام نہیں کرسکتا۔ مشہور مستشرق اور مورخ برنارڈ لیوس کا کہنا تھا کہ کوئی ترک مسلمان یہ کام نہیں کرسکتا۔ جب ۱۹۶۷ء میں تاریخ التراث العربی کی پہلی جلد چھپ گئی تو کمیٹی نے ایک میٹنگ کرکے خاموشی سے اس منصوبہ کو ختم کردیا۔ البتہ یونیسکو نے اس پروجیکٹ کے لیے جو رقم مختص کی تھی وہ پروفیسر سزکین کو دستیاب نہیں ہوئی۔
جیسا کہ ذکر ہوا ابتدا میں پروفیسر سزکین کا منصوبہ بروکلمان کی تاریخ الادب العربی کا تکملہ لکھ کر اس کی کمیوں کی تلافی کرنا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اس مسئلہ پر گہرائی سے غور کیا اور اس کے مضمرات کا تجزیہ کیا تو اپنا منصوبہ بدل دیا اور اس کے بجائے ایک بالکل الگ، مستقل اور نیا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب جو مقصد ان کے پیش نظر تھا وہ اس سے پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ خود کہتے ہیں ’’ولکنی غیرت رائی بعد ان تعمقت فی ہذا الحقل …. وقد رایت فی نہایۃ المطاف ان ہذا العمل لا بد ان یکون عملًا جدیدًا مستقلًا و شاملًا‘‘۔
اس نئے کام میں بھی مخطوطات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی لیکن اس کا کینوس اس سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ یہ تو ضروری تھا کہ اس موضوع پر دنیا بھر میں پائے جانے والے مخطوطات کا ممکن حدتک احاطہ کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے غیر معمولی اہتمام کیا اور دنیا کے ہر اس گوشے اور خطے میں گئے جہاں اس جنس گراں مایہ کے ملنے کا کوئی بھی امکان تھا۔ اس راہ میں انہوں نے غیر معمولی جد و جہد کی اور ساٹھ ملکوں کا سفر اس مقصد سے کیا۔
چنانچہ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ انہوں نے جو عظیم الشان کام کیا وہ بروکلمان کا تکملہ یا ذیل نہیں تھا بلکہ یہ مکمل طورپر ایک الگ اور مستقل کام تھا جو یقینی طورپر اس سے کہیں بڑا اور وسیع کام تھا۔ علاوہ ازیں یہ بروکلمان کے عظیم کام کے نمونہ اور نہج پر کوئی ببلیوگرافی نہیں تھی۔ امکان کی حدتک دنیا بھر میں پائے جانے والے مخطوطات کے احاطہ کے باوجود یہ ببلیوگرافی کے بجائے تاریخ علوم تھی اور اس کا مطمح نظر صرف مخطوطات کی تلاش و جستجو کے نتائج پیش کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے وسیلہ سے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمان کے غیر معمولی اکتسابات اور خدمات کے تعلق سے سچائی کا اظہار تھا جس کو صدیوں سے نہایت منصوبہ بند طریقے سے چھپایا گیا تھا اور مسلمانوں کو مسلسل ایک علم دشمن قوم کے طورپر پیش کیا جاتا رہا تھا۔
یہ ایک قرض تھا جو صدیوں سے مسلمانوں کے اوپر واجب الادا تھا لیکن مسلمان خود نہیں جانتے تھے کہ ان کا ماضی علم، تحقیق اور اکتشاف و ایجاد کے میدان میں کتنا روشن تھا۔ پروفیسر فواد سزکین نے پوری امت کی طرف سے اس فرض کفایہ کو ادا کردیا اور اس طرح کردیا کہ اہل علم کے لیے اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ البتہ ہٹ دھرمی کی بات الگ ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ چنانچہ بروکلمان کے کام میں اور پروفیسر فواد سزکین کے کام میں جو بنیادی اور جوہری فرق ہے وہ بالکل واضح ہے۔
بروکلمان کے کام کی تکمیل بھی ایک مشکل کام تھا۔ یوروپین اسکالرس کی رائے میں یہ کسی ایک آدمی اور خاص طور سے کسی مسلمان کے بس کا نہیں تھا۔ لیکن دوسرا کام اس سے بدرجہا مشکل تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب پروفیسر سزکین نے اپنے ابتدائی منصوبہ یعنی بروکلمان کا تکملہ لکھنے کا ذکر اپنے استاد اور مشہور مستشرق ہلمٹ رٹر سے کیا تو انہوں نے ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی۔ یورپ کے دوسرے اسکالرس کے برخلاف وہ نوجوان سزکین کی صلاحیتوں اور ان کے کام کے طریقہ سے پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ یہ کام پورا کرلیں گے۔
لیکن جب انہوں نے اپنے دوسرے منصوبہ کے بارے میں انہیں بتایا تو انہوں نے اپنے عزیز شاگرد کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی رائے میں یہ کام اتنا وسیع تھا کہ کوئی تنہا آدمی اسے انجام نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے ان کی رائے یہ تھی کہ سزکین کو ایک لاحاصل کام کے پیچھے ہلکان نہیں ہونا چاہیے (۲۳)۔ لیکن یہ وہ نشہ نہیں تھا جسے ترشی اتار دیتی۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے استاد کی بات نہیں مانی۔ اپنے کام کے لیے ۴۳۰ھ تک کی مدت متعین کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بروکلمان کے کام کو دیکھ کر ان کی ہمت ٹوٹ گئی تھی اور ان کے حوصلہ نے جواب دے دیا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ یہی زمانہ مسلمانوں کی علمی ترقی اور عروج کا زمانہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اب جو کام ان کے پیش نظر تھا اس کے ابعاد اور جہات کا ان کواندازہ تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ انسانی صلاحیت اور زندگی کی محدودیت بھی پیش نظر رہی ہوگی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طویل زندگی میں روزانہ ۱۷؍ اور ۱۸؍ گھنٹہ کام کرنے کے باوجود وہ اپنا منصوبہ پورا نہ کرسکے۔ لیکن سترہ جلدیں جو وہ لکھ چکے تھے کیا یوروپ میں بھی کوئی ان کی ہمسری کا دعوی کرسکتا ہے۔۱۹۶۷ء میں جب تاریخ التراث الاسلامی کی پہلی جلد شائع ہوئی تو رٹر نے جس طرح اس کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا وہ خود اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ استاد نے اپنے عزیز شاگرد کولکھا:
’’ایسی کتاب نہ تو اس سے پہلے لکھی گئی اور نہ اس کے بعد اس حسن کے ساتھ لکھی جاسکے گی‘‘۔ (ان کتابًا کہذا لم یکتب من قبل ولن یکتب بعد ذلک بہذہ الروعۃ) (۲۴)۔ یاد رہے کہ رٹر بروکلمان کے شاگرد تھے۔ چنانچہ وہ اپنے استاد اور شاگرد دونوں کے کام کی اہمیت اور نوعیت سے پوری طرح واقف تھے۔
پہلی جلد دراصل ایک تجربہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ایک ایسے علاقہ میں سفر کے مترادف تھا جس کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ اس سے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں انہوں نے اپنے طریق کار میں بہت کچھ تبدیلی کی۔ وہ خود کہتے ہیں ’’غیّرت طریقی فی الکتابۃ بالکامل‘‘ (۲۵)۔ چنانچہ جیسے جیسے ان کا مطالعہ اور تجربہ بڑھتا گیا وہ اپنے طریق کار میں آخر تک تبدیلیاں کرتے رہے۔ وہ دمِ واپسیں تک اس منصوبہ پر کام کرتے رہے۔ انتقال کے وقت وہ اٹھارہویں جلد پر کام کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی دوسرے علمی منصوبوں پر بھی کام کررہے تھے۔ ان تمام امور پر انشاءاللہ کسی قدر تفصیل سے بعد میں گفتگو ہوگی۔
ان کا کام جرمن زبان میں ہے اور ابھی تک اس کا بہت مختصر حصہ ترجمہ ہوسکا ہے۔ اردو میں میری معلومات کی حدتک صرف تاریخ التراث الاسلامی جلد اول کا ترجمہ ہوا ہے۔ اس کا عربی ترجمہ ۱۹۹۱ء میں شائع ہوچکا تھا۔ عربی میں اس سلسلہ کی بعض اور جلدوں کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہ ترجمے انٹرنیٹ پر پی۔ ڈی۔ ایف شکل میں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ عام کتب خانوں اور محققین کی ذاتی لائبریریوں میں بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود عالم اسلام ان کے کام کی اہمیت اور نوعیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ برصغیر میں یہ آگاہی اور بھی کم ہے۔
پروفیسر فواد سزکین کو بارگاہ رب العزت سے طویل عمر ملی۔ اس کو انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل میں صرف کیا۔ اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے ساتھ ساتھ کئی نہایت اعلی درجہ کے ادارے قائم کیے۔ ان میں فرینکفرٹ یونیورسٹی میں ان کا قائم کیا ہوا معہد تاریخ العلوم العربیہ والاسلامیہ اور اس سے ملحق میوزیم عالمی معیار کے غیرمعمولی اہمیت کے ادارے ہیں۔ اپنے میدان کار میں اس معہد کو دنیا میں امامت کا درجہ حاصل ہے۔
انہیں اداروں کے نمونہ پر انہوں نے استانبول میں ایک معہد اور میوزیم قائم کیا۔ میوزیم اور معہد کی تفصیلات بھی انشاءاللہ آیندہ فراہم کی جائیں گی۔ اپنے اختصاص کے موضوع پر عالمی معیار کا ایک رسالہ شائع کرنا شروع کیا اور آخر تک اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ انہیں فیصل اوارڈ کے علاوہ متعدد اوارڈ تفویض ہوئے۔ آخر میں ترکی منتقل ہوگئے تھے اور جیسا کہ شروع میں ذکر ہوچکا ہے وہیں انتقال کیا۔ آیندہ انشاءاللہ ان کی خدمات کی کسی قدر تفصیل الگ الگ عنوان کے تحت پیش کی جائیں گی۔