Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Palak Tak Zindagi Urdu Tarjuma The Diving Bell And The Butterfly, پلک تک زندگی اردو ترجمہ دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

Palak Tak Zindagi Urdu Tarjuma The Diving Bell And The Butterfly

Palak Tak Zindagi Urdu Tarjuma The Diving Bell And The Butterfly, پلک تک زندگی اردو ترجمہ دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

لکھنا ایک مسلسل عمل ہے۔ آپ نے کسی شخص کو نہیں سنا ہو گا کہ وہ یکایک بڑا لکھاری بن گیا۔ اس میدان میں برسوں محنت کرنی پڑتی ہے۔ کتابوں کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔

ریڈرز دائجسٹ کے لکھاری برین کلیمس لکھتے ہیں: ”آپ نے متعدد لوگوں سے سنا ہو گا، میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ میں اس پر کتاب لکھنے والا ہوں، مگر آج تک ایسا کوئی بھی شخص کتاب نہیں لکھ سکا، اس لئے کہ لکھنا ایک مشکل، صبر آزما اور محنت طلب کام ہے۔ یہ ایسا شوق ہے جسے نبھانا مشکل ہی نہیں، بے حد مشکل ہے۔
ای بی وائٹ کو امریکا کے مقبول ترین مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جو شخص لکھنے کے لئے مناسب وقت کے انتظار میں ہو، وہ کچھ بھی لکھنے بغیر دنیا رخصت ہو جائے گا۔”

لکھنے کا سب سے اہم اصول یہی ہے کہ لکھنے کا وقت وہ ہے، جب آپ کے ہاتھ میں قلم آ جائے۔ آپ ایک لمحے کو سوچیں اگر مولانا ابوالکلام آزاد اس اتنظار میں بیٹھے رہتے کہ انہیں احمد نگر کی جیل سے رہائی ملی گی۔ ایک وسیع و عریض لائبریری میسر آئے گی، آرام دہ بستر نصیب ہو گا اور صاف ستھرا کمرہ دستیاب ہو گا تو پھر ہی وہ قلم اٹھائیں گے۔ شاید اس صورت میں ہم ”غبارِ خاطر” جیسی بے مثال کتاب سے محروم ہو جاتے۔

علامہ ابن تیمیہؒ کے دور کا ذرا اندازہ لگائیں۔ تارتاریوں نے کاشغر سے لے کر عراق تک اسلامی سلطنت کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ جان، مال، عزت و آبرو بچانا ہی مشکل ہو گیا تھا۔ آپ دمشق پہنچے تو صحرائے گوبی کی آندھی وہاں بھی خاک اڑاتی آ پہنچی۔ حالات نے قلم کے ساتھ تلوار اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ قلم و کتاب کے میدان کا شاہسوار شمشیر و سنان کے جوہر دکھانے لگا۔

جب تاتاریوں کو مار بھگایا تو سرکار نے ناک میں دم کر دیا۔ زندگی کے آخری دو سال جیل میں گزارے، مگر قید و بند بھی انہیں کاغذ اور قلم سے دور نہیں کر سکی۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو ساڑھے 3 سو کے لگ بھگ کتابیں لکھ چکے تھے۔

پلک تک زندگی اردو ترجمہ دی ڈائیونگ بیل اینڈ دی بٹرفلائی

جینز ڈومینیک بوبی فرانسیسی صحافی تھا۔ یہ 23 اپریل 1952 کو پیدا ہوا۔ تعلیم حاصل کی، صحافی بنا وار محنت شروع کر دی۔ یہ صحافت کے مختلف مدارج طے کرتا ہوا پیرس کے مشہور جریدے ”ایلی” کا چیف ایڈیٹر بن گیا۔ یہ اسک ے کیرئیر کی معراج تھی۔ وہ سمجھتا تھا وہ زندگی میں جو کچھ بننا چاہتا تھا، وہ بن گیا ہے اور اب کامیابی اور اس کی محنت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہا تھا۔

اچانک 8 دسمبر 1995 کو اس نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اس کے جسم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ قومے میں چلا گیا۔ اس کا جسم، اس کا دماغ اور اس کی روح سب گہری نیند چلے گئے۔

بوبی وینٹی لیٹر پر تھا اور اسے ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جاتی تھی۔ ڈاکٹرز اسے جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ 20 دن بعد اس کی آنکھ کھل گئی۔ یہ جاگ گیا لیکن یہ ”لاک ان سینڈ روم” کا شکار ہو چکا تھا۔( یہ فالج کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں مریض کے دماغ کے علاوہ تمام جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔)بوبی ایک کتاب لکھنا چاہتا تھا، جو رہتی دنیا تک اس کا نام قائم رکھے، لیکن معذوری کے بعد اس کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ تاہم بوبی کی ہمت قائم تھی۔

اس نے پلک کے ذریعے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی نے اس دوران اس کے ساتھ کمیونیکیشن کا ایک طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ وہ بوبی سے سوال پوچھتی تھی اور بوبی جس بات پر پلک جھپک دیتا تھا اس کا مطلب ہاں ہوتا تھا اور جس بات پر وہ پلک نہیں جھپکتا تھا، اس کا مطلب انکار ہوتا تھا۔ اس کی بیوی نے کتاب لکھنے کے سلسلے میں اس کی مدد کی۔

یہ کتاب 1997 میں مکمل ہوئی ، 6 مارچ 1997ء کو اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آ گیا۔ پہلے دن ہی اس کی 25 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں۔ ہفتے میں اس کی فروخت ڈیڑھ لالکھ تک پہنچ گئی۔ ایک ماہ بعد یہ کتاب یورپ کی بیسٹ سیلر بن گئی۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو پلک سے لکھی گئی اور لکھنے والوں نے یہ کتاب ایک ایک حرف جوڑ کر مکمل کی۔

مفلوج بوبی نے ثابت کر دیا کہ اگر آپ کی ایک پلک بھی سلامت ہو تو آپ اس سے بھی کمال کر سکتے ہیں۔

اس منفرد اور حیرت میں ڈال دینے والی کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنے کا اعزاز ہماری صحافت کی شاگردہ محترمہ حمید صاحبہ کو حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے کیمسٹری میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ درس و تدریس اور پڑھنا لکھنا ہی اوڑھنا بچھوناٹہرا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے ان کو اس فن میں اعلی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ان کا خاص مشن ہے۔

مریم حمید صاحبہ کتاب کے دیباچہ میں خود کہتی ہیں: ”آگر آپ معاشرے میں ادھر ادھر نظر دوڑائیں تو کئی کہانیاں بکھری پڑی نظر آتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کی زندگیاں ہمارے سامنے افسانہ بن جاتی ہیں۔ کئی عبرت کا نشان بن کر لوٹتے ہیں۔ کچھ کی موت انہیں امر کر دیتی ہے اور پھر چند ایسے ہیں جو اپنے پیچھے کبھی نہ بھولنے والی داستان چھوڑ کر تاریخ کے صفحات میں اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہ کہانی بھی ایک ایسے شخص کی ہی ہے، جس کے پاس عہدہ، نام، دولت، شہرت اور دنیا کی ہر نعمت موجود تھی۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی وسیع دنیا محض ایک پلک جھپکنے تک سمٹ کر وہ جائے گی۔

اس نے ہمت نہیں ہاری ۔ زندہ رہنے کی اس ہلکی سی رمق کے سہارے ایک کتاب لکھ ڈالی جو رہتی دنیا تک پڑھی جائے گی۔

یہ کتاب ہر انسان کے لئے موٹیویشن ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ اگر زندگی میں صرف پلک جھپکنا ہی باقی رہ جائے تب بھی ہار مت مانو۔”قارئین کرام! ہم نے یہ پوری کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی اور کئی قیمتی ہیرے جواہر حاصل ہوئے۔ اگر آپ زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ کم از کم دو مرتبہ لازمی کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *