مصنف: ڈاکٹر عصمت درانی
دارالعلوم ندوۃالعلماء، لکھنو (قیام: ۱۸۹۴ء) اور ریاست بہاول پور (۱۷۲۷– ۱۹۵۵ء) کے تعلق کا آغاز،بہاول پور کے دستیاب تاریخی مآخذ کے مطابق۱۹۰۳ء میں ہوا، جو ریاست کے دور میں اور ۱۹۵۵ء میں ریاست کے پاکستان میں ادغام کے بعد بھی کسی نہ کسی صورت برقرار رہا۔ ندوۃ العلماء، ریاست کا ممنون احسان تھا، جس کا اعتراف اس کے اکابرو عمائد نے بارہا کیا۔ لیکن اس ادارے کے پروردہ لعل و گہر نما فرزندان نے اس احسان کا بدلہ بطریق احسن چکایا اور ان کی گراں قدر علمی خدمات کی بدولت ندوۃ العلماء کی فیض رسانی کے انمٹ نقوش اس ریاست کے درو بام پر ثبت ہوئے۔ اس مضمون کے حصہ اول میں ندوۃ العلماء کے لیے ریاست کی مالی خدمات ، حصہ دوم میں ریاست کے لیے ندوۃ العلماء کے فارغ التحصیل علما کی علمی خدمات، اور حصہ سوم میں ندوۃ العلماء سے وابستہ ان قابل ذکر افراد کا مختصر تذکرہ شامل ہے، جن کا علمی و مذہبی تعلق ریاست بہاول پورسے رہا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء اور ریاست بہاول پور کا تعلق باقاعدہ طور پر ۱۲؍ نومبر ۱۹۰۳ء سے قائم ہے، جب نواب محمدبہاول خان خامس (۱۹۰۳– ۱۹۰۷ء) نے اپنی مسند نشینی کے موقع پراپنے اجداد کی تقلید میں علمی سر پرستی کے طور پر دیگر فلاحی انجمنوں، تعلیمی تحریکوں، تعلیمی اداروں اور اشاعت علوم کے مراکز کے ساتھ ساتھ ندوۃ العلماء کے لیے بھی تین سو روپے (۳۰۰) سالانہ کی امداد منظور کی تھی (عزیز، ۱۹۳۹ء، ص: ۱۰۳)۔ اس تعلق کے کچھ مدھم نقوش شبلی نعمانی (۱۸۵۷– ۱۹۱۴ء) کے مکتوبات میں بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ندوۃ العلماء کے ناظم- مولانا سید عبدالحئی (وفات: ۱۹۲۳ء ) کے نام ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ایک
خط میں لکھتے ہیں:
’’خط متعلق تحریر و دعا نامہ موسومہ نواب بہاول پور پہنچا۔میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ نہایت دنائت کی بات ہے کہ موقع جشن پر اور منگولوں کی طرح ندوہ کا وفد بھی اپنا بھجن گائے‘‘۔ (شبلی نعمانی،۱۹۲۸ء، ص:۳۱۰)
یہ نقوش ۱۹۰۸ء میں واضح ہوتے ہیں، جب دارالعلوم کی عمارت کے لیے ناکافی اور ناموزوں ہونے کے سبب طلبہ کے قیام و تعلیم میں دقتیں موجود تھیں اورعمارت کی تعمیر کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔اس صورت حال کا نقشہ شبلی نعمانی کے قلم سے:
’’دارالعلوم ندوہ کی تعلیمی حالت جس طرح ترقی کر رہی ہے،اس کے لحاظ سے دارالعلوم کی موجودہ عمارت نہ صرف ناکافی تھی، بلکہ اس کی آیندہ ترقیوں کی سد راہ تھی۔ نہ طلبہ کے رہنے کے لیے موزوں مکانات تھے، نہ درس کے لیے کافی کمرے تھے، نہ کتب خانے کی گنجائش کے لیے عمارت تھی،نہ علوم جدیدہ کی تعلیم کا سامان تھا۔ کوئی شخص جو ندوۃ العلما کا مشہور اور بلند نام سن کر آتا تھا،عمارت کو دیکھ کر دفعۃً اس کے تمام خیالات پست ہو جاتے تھے‘‘۔ (شبلی نعمانی ، ۱۹۳۸ء، ص:۸۴)
اس کارخیر میں جہاں دیگر ریاستوں نے حصہ لیا، وہاں ریاست بہاول پور کو بھی اس ادارے کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست کے فرمانروا-نواب صادق محمد خان خامس کی عمر صرف چارسال تھی۔اوراسی کم سنی کے باعث زمام حکومت انگریزوں ،یعنی کونسل آف ریجنسی (۱۹۰۷– ۱۹۲۳ء) کے ہاتھ میں تھی۔ریاست کی سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے نواب صاحب کے نمایندے کی حیثیت سے ان کی دادی محترمہ – کندن بی بی معروف بہ حضرت مائی صاحبہ (۱) نے برصغیر کے تعلیمی اداروں ،جن میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، انجمن حمایت اسلام، دارالعلوم دیو بند اور جامعہ ملیہ سرفہرست تھے، کی بھرپورا مداد کا سلسلہ جاری رکھا (۲)۔ ندوۃ العلماء کا ریاست سے سلسلہ جنبانی چلا تو ریاست کے حکم پر وہاں کے عہدے دار ادارے کے معاینہ کو آئے ۔شبلی نعمانی نے ۱۸؍ فروری ۱۹۰۸ء کو مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانی (۱۸۶۷–۱۹۵۰ء)کے نام ایک مکتوب میں لکھا:
’’عین اس وقت کہ چمن زار بمبئی کی گلگشت نے عالم طلسم میں پہنچا دیا تھا، بہاول پور کے عہدہ داروں کا خط پہنچا کہ ریاست کے حکم سے ندوہ کے معاینے کو آتے ہیں اور اس وقت تمہارا ہونا ضروری ہے … بہاول پور نے دل افروز امیدیں دلائی ہیں، دیکھیے کیا ہوتا ہے؟‘‘۔ ( شبلی، ۱۹۲۸ء ،ص: ۱۹۶)
ان کی امیدیں یوںبر آئیں کہ اس موقع پر محترمہ مائی صاحبہ نے اپنی جیب خاص سے ندوۃ العلماء کو پچاس ہزار روپے کی مدد فراہم کی۔ شبلی نعمانی نے اس مدد کو تائید غیبی قرار دیا (شبلی، ۱۹۳۸ء، ص: ۸۱)، جس کی بدولت دارالعلوم ندوۃ العلماء کی نہ صرف بنیاد مستحکم ہوئی ، بلکہ اس کی تمام آیندہ ترقیوں کے لیے راستہ صاف ہو گیا :
’’گو آیندہ ندوہ کسی حد تک بڑھے اور کتنی ہی ترقی کر جائے ، لیکن انصاف یہ ہے کہ جو کچھ ہو گا،اسی فیاضی کا پرتو،اسی تخم کا ثمر، اسی آفتاب کی شعاعیں ہوں گی۔ اے صوبہ الہ آباد، اے اودھ! تو نہایت وسیع، نہایت ممتاز، نہایت معزز ملک ہے، لیکن سچ یہ ہے ، اور اب اس سے خود تجھ کو انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پنجاب نہیں، بلکہ اس کی ایک ریاست نہیں، بلکہ اس کی ایک خاتون محترم کے آگے تیری گردن ہمیشہ کے لیے جھک گئی۔ تو نے کبھی برہان الملک اور آصف الدولہ پیدا کیے ہوں گے، لیکن تو کسی زبیدہ خاتون کا نام نہیں لے سکتا‘‘۔ (شبلی نعمانی، ۱۹۳۸ء، ص:۸۴)
شبلی نعمانی نے اس کار خیر میں شریک کونسل آف ریجنسی کے صدر -مولوی سررحیم بخش (۱۸۵۷– ۱۹۳۹ء)، ڈائریکٹر تعلیمات -مولوی محمد دین(وفات:۱۹۳۳ء) سمیت کونسل کے تمام اراکین (۳) اور مولانا غلام محمد شملوی کابھی شکریہ ادا کیا،جن کی وساطت سے یہ بات ریاست تک پہنچی تھی (شبلی نعمانی، ۱۹۳۸ء، ص: ۸۵)۔ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۸ء کو شبلی نعمانی نے ریاست بہاول پور کے نام ’’ریاست بہاول پور کی بے مثل فیاضی اور زندہ زبیدہ خاتون‘‘ کے عنوان سے شکریہ کا خط تحریر کیا، جو ریاست کے دفتر دستاویزات (محافظ خانہ) میں ’’اہم خطوط و دستاویزات ریاست بہاول پور (۱۸۷۲– ۱۹۲۱ء)‘‘ کے ذخیرہ میں شمارہ نمبر ۵ کے تحت موجود تھا (محمد طاہر، ص: ۲۰۴)۔
شبلی نعمانی کے دیگر مکتوبات میں بھی بہاول پور کا ذکر گاہے گاہے ملتا ہے۔ مثلاً ۲؍ مئی ۱۹۱۰ء، ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۰ء، ص ۲۷۵ وغیرہ۔ حکیم غلام غوث بہاول پور ، سرکاری طبیب و سپرنٹنڈنڈ آبکاری ریاست خیر پور سندھ کے نام موجود چارمکتوبات مرقومہ ۱۹۱۰ء ، ۱۳؍ دسمبر۱۹۱۲ء ، ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء اور ۹؍ نومبر ۱۹۱۳ء (ص ۳۲۵ تا ۳۲۷) ملتے ہیں۔ ۱۹۱۰ء کے مکتوب میں شبلی نے مکتوب الیہ کے بچے کی ولادت کی مناسبت سے مادۂ تاریخ ’’حکیم تشریف آوردند‘‘ (۱۳۱۹ھ) بھی تحریر کیا ہے۔ (شبلی، ۱۹۲۸ء، ص ۳۲۵– ۳۲۷)
دارالعلوم ندوۃ العلماء نے ترقی کی کچھ اور منازل طے کیں تو دارالاقامہ کی ضرورت آن پڑی۔ ایک کمرے کی تعمیر پر ڈیڑھ ہزار روپے کی لاگت کا تخمینہ تھا۔چنانچہ ندوۃ العلماء کے سالانہ اجلاس (۹، ۱۰، ۱۱؍ فروری ۱۹۲۵ء) ،منعقدہ لکھنو میں دارالاقامہ کی تعمیر کے لیے ہر صوبے سے پندرہ ہزار روپے کی رقم کی فراہمی کی تجویز منظور کی گئی(ندوی، معین الدین، ۲۰۱۱ء، ص ۲۳۷)۔ نومبر ۱۹۲۵ء میں ندوۃ العلماء کا اجلاس مولوی سر رحیم بخش کی صدارت میں انبالہ میں منعقد ہوا، جس میں اس تجویز کی تجدید کی گئی (سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۲۵، ص ۴۰۲)۔ لیکن ہنوز خاطر خواہ اسباب میسر نہ تھے۔ چنانچہ ناظم ندوۃ العلماء محمد علی حسن خان نے ریاست بہاول پور کے نام ایک خط لکھا جو ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۲۷ء کویہاں وصول ہوا۔ نواب صاحب کی جانب سے ان کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سکریٹری غلام محمد نے جواب لکھا۔ خط سے ایک اقتباس:
’’حضوربندگان عالی دام اقبالہم و ملکہم کو اغراض ندوہ سے ، جن کے ساتھ مسلمانان ہند کے مذہبی گہرے تعلقات وابستہ ہیں، کامل ہمدردی ہے اور حضور ممدوح ایسے شعبہ دینی کو اسلام اور اسلامیان کی زیست و عزت کے لیے جزو لاینفک خیال فرماتے ہیں… حضور آقاے نامدار اغراض ندوہ کی کامیابی اور کارکن صاحبان کی سعی عند اللہ ماجور ہونے کی دعا فرماتے ہیں‘‘۔ (محمد علی حسن خان، ص ۳)
نواب صاحب کے نمایندے کی حیثیت سے مولانا غلام حسین (۴) (۱۸۷۴– ۱۹۴۹ء)، وزیر تعلیم و امور داخلہ ریاست بہاول پور کی صدارت میںدارالعلوم ندوۃ العلما کا بائیسواں سالانہ اجلاس ۲۵، ۲۶؍ اور ۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء کو امرت سر میں منعقد ہوا۔ سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴– ۱۹۵۳ء) کے مطابق:
’’ریاست بہاول پور کو ندوۃ العلماءسے اس کے آغاز کار سے جو تعلق رہا ہے، مولانا ممدوح کی صدارت نے اس کو اور بھی مستحکم اور ناقابل شکست بنا دیا ہے۔ دارالعلوم کی درس گاہ تمام تر اسی ریاست کی ایک شاہی خاتون کی مرہون منت ہے۔ ہم کو امید تھی کہ اس درس گاہ کا نا تمام حصہ بھی اسی ریاست اسلامیہ کے دست جود و سخا سے انجام کو پہنچے، چنانچہ اس اجلاس میں جناب معلی القاب ہز ہائنس فرماں روائے ریاست خلد اللہ ملکہ کی طرف سے ۱۵؍ ہزار کی گراں قدر امداد مرحمت فرمائی گئی‘‘۔ (معین الدین ندوی، ص ۲۸۹)
مولانا غلام حسین نے ریا ست کی طرف سے پچیس ہزار یک سو ستر روپے محمد علی حسن خان کو دیے۔ جن میںپندرہ ہزار روپے ریاست کی جانب سے، دس ہزاردس روپے ریاست کے ارکان و عمائد کی جانب سے،اور ایک سو ساٹھ روپیہ چندہ رکنیت شامل تھا (محمد علی حسن خان، ص ۶)۔ علاوہ ازیں، نواب محمدبہاول خان خامس نے ۱۹۰۳ء میںاپنی مسند نشینی کے موقع پر دارالعلوم ندوۃ العلماءکے لیے تین سو روپیہ سالانہ کا وظیفہ جاری کیا تھا، اس موقع پر یہ رقم بڑھا کر پانچ سو روپے کر دی گئی۔ اس اجلاس میں سلیمان ندوی نے تجویز پیش کی کہ دارالعلوم میں مدرسین اور مبلغین کی تیاری کے لیے دو درجہ کھولے جائیں اور ہونہار اور مستعد طلبہ کی تدریس اور تبلیغ کے لیے دو دو برس تک ۳۵، ۳۵؍ روپے کے وظائف دیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے مولانا غلام حسین نے بھی ایک وظیفہ دینے کا اعلان کیا (معین الدین ندوی، ص ۲۸۹)۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسی اجلاس کے دوران ۲۶؍ نومبر کی شام مولانا غلام حسین کی بہو کی وفات کا تار ملا، جنہیں وہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے بستر علالت پر چھوڑ کر امرت سر آئے تھے۔ (محمد علی حسن خان، ص ۵)
ندوۃالعلماء کے جن فرزندوں نے ریاست بہاول پور کے لیے علمی خدمات انجام دیں،ان میں سر فہرست نام ندوۃ العلماء کے ناظم ،معتمد اور روح رواں سلیمان ندوی کا ہے ، جن کی اس ریاست سے دلی وابستگی کا آغاز بھی۱۹۰۸ء سے ہی ہوا:
’’سرکار بہاول پور کا نام سب سے پہلی دفعہ میرے کانوں نے ۱۹۰۸ء میں سنا جب میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں معمولی طالب علم تھا۔عالی حضرت جدہ ماجدہ صاحبہ نے یک مشت پچاس ہزار کی شاہانہ رقم ندوۃ العلماء کی تعمیر کے لیے عطا فرمائی تھی اور و ہ بتیس برس کی بات یوں یاد رہ گئی کہ اس خوشی میں اس دن ہم تمام طالب علموں نے اپنے کھانے مستحقین کو تقسیم کر دیے تھے اور خود بھوکے رہے تھے‘‘۔ (سلیمان ندوی ،۱۹۸۲ء ،ص:۱۸۲)
اسی درینہ تعلق کے سبب۱۹۳۴ء میں علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷– ۱۹۳۸ء) اور سرراس مسعود (۱۸۸۹– ۱۹۳۷ء) کی معیت میں سفر افغانستان کے موقع پر کابل سے قندھار اور چمن ہو کر کوئٹہ جاتے ہوئے بہاول پور کے اسٹیشن پر پہنچے تو عقیدت مندانہ نظروں سے اس ریاست کے در و دیوار کو دیکھا اور ایک انسیت محسوس کی (سلیمان ندوی، ۱۹۳۴ء، ص ۱۸۴)، کہتے ہیں:
’’میرے لیے بہاول پور کی سرزمین میں عقیدت کا ایک اور مرکز بھی ہے، آپ صاحبان کو معلوم ہو گا کہ مجھے تاریخ اسلام سے تھوڑی بہت دلچسپی ہے اور اس ذریعہ سے عباسی خاندان کے علمی کارناموں کی تحقیق و تفتیش زندگی کا دلچسپ مشغلہ رہا۔ بہاول پور کے تخت پر جو خاندان فرماں روائی کر رہا ہے وہ اپنی تاریخ کے صفحات میں ان کارناموں کی بہت جھلک رکھتا ہے۔ اس لیے اسی عباسی فرماں روا کے پایۂ تخت سے مجھے والہانہ عقیدت ہے‘‘۔ (سید سلیمان ندوی، ۱۹۸۲ء، ص ۱۸۲)
سید سلیمان ندوی نے اس ریاست کے فرماں روا سے عقیدت کا ثبوت یوں دیا کہ جب مولانا عبدالعزیز شرقی، جنرل سیکرٹری مدرسۃ البنات جالندھر کی درخواست پر نواب صادق محمد خا ن خامس نے رسول صادقؐ کے عنوان سے سیرت رسولؐ پر ایک کتابچہ لکھا اور مسودہ انہیں بجھوا دیا۔ مولانا نے اشاعت سے قبل کسی مستند عالم دین کو دکھا لینا مناسب سمجھا اور اس مقصد کے لیے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ کے موقع پر لاہور میں دوسرے اجلاس کے بعد سید سلیمان ندوی سے اس کی اصلاح کی درخواست کی۔ سید سلیمان ندوی نے اسی عقیدت کے سبب مولانا کی درخواست منظور کی اور عدیم الفرصتی کے باوجود علمائے پنجاب کانفرنس، منعقدہ لدھیانہ میںایک پوری شب مولاناکے ساتھ بیٹھ کر اس مسودے کو حرف بحرف پڑھا اور اصلاح کی۔ کچھ مشورے بھی دیے۔ بعد ازاں اس مسودے کی کتابت عبدالمجید پروین رقم (۱۹۰۱– ۱۹۴۶ء) نے کی اور ۱۹۳۵ء میں یہ کتاب مرکز اشاعت سیرت جالندھر سے شائع ہوئی۔ (قمرالزمان عباسی، ص ۴۸)
بہاول پور کی سر زمین کو سلیمان ندوی کی میزبانی کا شرف پہلی مرتبہ ۱۹۴۰ء میں حاصل ہوا، جب صادق ایجرٹن کالج بہاول پور (تاسیس: ۱۸۸۶ء)میں سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر انھیں مدعو کیا گیا۔ کالج کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔یہ کارنامہ ریاست کے وزیر تعلیم میجر شمس الدین محمد (۱۹۲۲– ۱۹۴۹ء) اور اس وقت کے پرنسپل شیخ عبدالمجید (پہلا دور ۳۷– ۱۹۴۱ء، دوسرا دور ۴۹– ۱۹۵۰ء) نے انجام دیا۔ ٹھیک اسی تاریخ کو آپ کو اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ تقسیم اسناد کے لیے دعوت دی گئی تھی، لیکن انہوں نے بحیثیت تعلیم یافتہ و خدمت گذار ندوۃ العلماء ریاست بہاول پورسے روابط کی بنا پر پشاور کی بجاے بہاول پور کو ترجیح دی۔ بقول :
’’ ایک قدیم خدمت گار اور ممنون احسان ندوی کو باوجود بہت سی مشغولیتوں کے اس دعوت سے انکار کی جرات کسی طور نہ ہوئی‘‘۔ (سلیمان ندوی، ۱۹۸۲ء، ص ۱۸۳)
۶؍ تا ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ء کے دوران ہونے والا یہ سفر پشاور ، لاہور، بہاول پور ،لکھنؤ اور امرت سر کے دورے پر مشتمل تھا۔ آپ ۱۳؍ مارچ کی شام بہاول پور پہنچے۔ بہاول پور کے اسٹیشن پر افسران و متعلقان تعلیم استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہیں سرکاری مہمان خانہ ’’عباس منزل‘‘ (۶) میں ٹھہرایا گیا، جہاں رات گیارہ بجے تک جاگ کر انہوں نے اپنا خطبہ تیار کیا۔ (سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۰ء، ص ۳۲۷)۔
۱۴؍ مارچ ۱۹۴۰ء بروز جمعرات گیارہ بجے دن کالج کے ’’صادق لائبریری ہال‘‘ میں اعطاء اسناد کا جلسہ بہاول پور کے وزیر مال- مسٹر ایف اینڈرسن کی صدارت میںمنعقد ہوا۔ مسٹر ایف اینڈرسن نے اسناد تقسیم کیں۔ اعطاء اسناد کے بعد سید سلیمان ندوی نے اپنا خطبۂ صدارت پڑھا (۷)۔ (سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۰ء، ص ۳۲۷)۔ آپ نے جلسے کی تمام گذشتہ روایات سے ہٹ کر اپنا خطبہ اردو میں دیا۔ جس سے ایک نئی روایت کا آغاز ہوا اور بعد میں بھی اکثر اس پر عمل ہوتا رہا۔ اس خطبے کے چند اقتباسات:
’’آپ نے شاید سب سے پہلی دفعہ اس کرسی کو ، جو اب تک صرف اعلی منصب کے انگریزی تعلیم یافتوں کے لیے خاص تھی، اس حد تک نیچے کر دیا کہ پرانے طرز کے ایک مولوی کو اس پر بیٹھنے کی عزت دی ہے‘‘۔
’’ہندوستان کی تمام اسلامی ریاستوں میں اس ریاست کو خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس کی آبادی میں ۸۵ فیصدی مسلمان بستے ہیں۔ اس بنا پر اس کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک خاص وابستگی ہے اور چونکہ عدل و انصاف اور بے تعصبی اس ریاست کا خاص دستور ہے، اس لیے بلا تفریق ہر قوم و مذہب کے لوگوں میں اس کو ہر دل عزیزی حاصل ہے‘‘۔
’’عزیزو! جاگو، دنیا تمہارے کارناموں کے انتظار میں ہے۔ جاؤ اور اپنے فرماںروائے اعلی حضرت شہریار بہاول پور کو علم کے زیر سایہ بہاول پور کواونچا کرو اور اپنی کامیابی سے اس کو کامیاب بناؤ۔ موقع ہے اور اس موقع کو ضائع نہ کرو:
کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں‘‘
ان کی تجویز اورخطبے کا دعائیہ جملہ ریاست اور اس کالج کے تابناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے:
’’آپ نے نہروں کا جو وسیع سلسلہ قائم کیا ہے، جس نے آپ کی ریاست کو پہلے سے دوچند کر دیا ہے، اس کے لیے انجینئرنگ کی تعلیم یا اس تعلیم میں سہولت کے ذرائع اس ریاست کی تعلیم کا خاص مطمح نظر ہونا چاہیے … اس دن کی امید کرتا ہوں جس دن تعلیمی خود مختاری حاصل ہوگی، یعنی یہ کالج بڑھ کر ایک دن بہاول پور یونیورسٹی بن جائے گا‘‘۔ (سلیمان، ۱۹۸۲ء،ص ۱۸۶)
چنانچہ اسی سال اکتوبر ۱۹۴۰ء میں کالج میں انجینئرنگ کی تدریس کا آغاز ہوا، جس کا پہلا امتحان ۱۹۴۱ء میں لیا گیا (منور علی خان، ص ۳۳)، جبکہ یونیورسٹی بننے کی یہ امید ۱۹۷۰ء میں بر آئی جب کالج میں ایم اے معاشیات اور طبیعات کا آغاز ہوا۔ (منور علی خان، ص ۳۶)
سلیمان ندوی کی بہاول پور آمد کو علم و عرفان کی بارش سے تعبیر کیا گیا۔ حکیم احمد علی سیف (۸) (وفات ۹؍ جون ۱۹۷۳ء) نے اس مناسبت سے اسی جلسہ میں درج ذیل نظم پڑھی:
جس پہ نازاں ہیں مسلمان ، وہ مسلمان آیا
پیکر علم کہیں جس کو وہ انساں آیا
دی ہے قسام ازل نے جسے طبع نقاد
مژدہ اے قوم کہ وہ شبلی دوراں آیا
ہم کہاں اور وہ کہاں ، میں تو یہ کہہ دیتا ہوں
مور بے مایہ کے پاس آج سلیماں آیا
جس کو کہنا ہے بجا حافظ تاریخ جہاں
سیف اس شہر میں وہ فاضل دوراں آیا
مولانا سید سلیمان ندوی نے جواب میں یہ فی البدیہہ اشعار کہے:
انسان وہ ہے جو انسان کو انساں سمجھے
احباب کے ذوق کا ممنون ہوں میں
سچ تو یہ ہے کہ گدا کو بھی سلطاں سمجھے
ایک مور ناچیز کو بھی سلیماں سمجھے
۱۵؍ مارچ ۱۹۴۰ء کواسی کالج میں اس مجیدیہ ہسٹری سوسائٹی (۹)، بہاول پور کے زیر اہتمام ’’خصائص اسلامی‘‘ کے موضوع پر طلبہ سے خطاب کیا۔ جلسہ وزیر اعظم ریاست بہاول پور- سر رچرڈ کرافٹن کی زیر صدارت منعقد ہوا (منور علی خان، ص ۱۰۴)، جس میں علما، حکام، معززین، کالج کے اساتذہ اور طلبہ شریک تھے۔ یہ خطاب ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل تھا۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے اس خطاب کے متعلق کہا:
’’ایسا نظر آتا تھا یہ (تقریر) دلوںمیں گھر کر رہی ہے،مگر آج کل کی تقریروں کی تاثیر ہی کیا، اس کی اصلیت انسانی گرامو فون سے زیادہ نہیں اور اس کا ماحصل ایک ’’واہ‘‘ کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
۱۵؍ مارچ کوریاست کی جامع مسجد میں فضائل نبویؐ پر وعظ ہوا۔جس میں مسلمانوں کو اس نسبت نبویؐ کے شرف کی بنا پر اشرف الامم بتا کر ان کوخیر الامم بننے کا شوق دلایا گیا اور اولاد کو اسی رنگ میں تعلیم دینے کا مشورہ دیا گیا۔ ( سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۰ء ،ص ۳۲۷–۳۲۸)
علم وادب کے دلدادہ آخری فرماں روائے ریاست بہاول پور- نواب صادق محمد خان خامس کے حسب حکم ۱۹۲۵ء میں یہاں جامعہ الازہر مصر کی طرز پر جامعہ عباسیہ (موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور) کی بنیاد رکھی گئی۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی (۱۸۸۶– ۱۹۴۷ء) شیخ الجامعہ مقرر ہوئے اور کئی جید علما اورماہر علوم دینیہ کو بیرون ریاست سے بلا کربحیثیت استاد مقرر کیا گیا۔ جامعہ کا نصاب تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء کی طرز پر مرتب کیا گیا،جو عام دینی مدارس کی طرز سے ذرا ہٹ کے تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے بعد جامعہ عباسیہ اس لحاظ سے ممتاز تھا کہ اس کے نصاب تعلیم و علوم دینیہ کے ساتھ عصری مضامین یعنی تاریخ، جغرافیہ ، ریاضی اور بقدر ضرورت میٹرک کے معیار تک کی انگریزی زبان بھی نصاب میں شامل تھی (ناظم ندوی ، ص ۵۷)۔ جامعہ عباسیہ کے نصاب کی اصلاح و ترمیم کی مشاورت کے لیے ریاست کے ارباب علم کے سامنے سید سلیمان ندوی سے بہتر اور مناسب نام کوئی اور نہیں تھا۔ چنانچہ وزارت تعلیم کی جانب سے انہیں درخواست بھیجی گئی، جسے ان کی مصروفیات کی وجہ سے بہت عرصہ تک پذیرائی نہ مل سکی۔ بقول سید سلیمان ندوی :
’’موجودہ وزیر تعلیم عالی مرتبت میجر شمس الدین محمد صاحب نے جب سے محکمہ تعلیم کی عنان اپنے ہاتھ میں لی ہے، تعلیم کی اصلاح کے مسئلہ پر خاص توجہ مبذول فرمائی ہے۔ اسی سلسلہ میں جامعہ اسلامیہ کی اصلاح کا خیال بھی ان کے سامنے تھا اور اس کے لیے میری یاد فرمائی ایک سال سے جاری تھی‘‘۔ (سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۰ء، ص ۳۲۷- ۳۲۶)۔
صادق ایجرٹن کالج کی تقسیم اسناد کی تقریب سلیمان ندوی کے لیے بقول ان کے ’’یک کرشمہ دوکار‘‘ ثابت ہوئی(سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۰ء ، ص ۳۲۷)۔جامعہ کو ان کی میزبانی کایہ شرف شیخ الجامعہ- مولانا غلام محمد گھوٹوی کے دور میں حاصل ہوا (شبلی، نصیر الدین ، ص ۱۵۰)۔ اس موقع پر سید سلیمان ندوی کے معاینہ کے دوران مولانا عبید اللہ(۱۹۰۷–۱۹۶۷ء)، بو علی سینا کی اشارات پڑھا رہے تھے۔ آپ مدرسہ معینیہ اجمیر شریف کے سند یافتہ تھے۔دہلی میں مدرسہ امینیہ کے صدر مدرس مفتی کفایت اللہ اور مولانا معین الدین اجمیری کی خدمت سے علمی استفادہ کیا۔علوم نقلیہ و عقلی کے ماہر تھے۔ جامعہ کے معلم اعلی رہے۔ تیسرے شیخ الجامعہ رہے۔معاینہ کے بعد سید سلیمان ندوی نے اپنے تاثرات میں لکھا:
’’ میں نے ایک ایسے عالم کو اشارات پڑھاتے سنا ،یوں معلوم ہوتا تھا کہ خود مصنف کتاب پڑھا رہے ہیں‘‘۔ (رحمت ، عبدالرشید، ص ۲۱۶)
مولانا عبدالحمید رضوانی(وفات:۱۸ جولائی ۱۹۷۹ء) جامعہ کے آخری دور (۱۹۶۰– ۱۹۶۳ء) میں نائب الشیخ تھے۔ وہ اپنے دور کے عبقری تھے۔ متداول کتب ازبر تھیں۔ ان کا لیکچر سننے کے بعد سید سلیمان ندوی نے اپنی رپورٹ میں لکھا:
’’ایک نوجوان کو سلم العلوم پڑھاتے دیکھا۔ وہ کتاب سمجھانے کا حق ادا کر رہا تھا‘‘۔ (رحمت ، عبدالرشید، ص ۲۱۸)
اس سفر میں سلیمان ندوی کی ملاقات بہاول پور کی معروف علمی و ادبی شخصیت مولوی عزیز الرحمان عزیز (۱۸۷۳– ۱۹۴۴ء) سے بھی ہوئی، جو ڈسٹرکٹ جج کے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعدنواب صاحب کے ذاتی کتب خانہ و عجائب خانہ جو کتب خانۂ سلطانی اور میوزیم سلطانی کے نام سے شہرت حاصل تھی، کے سپرنٹنڈنٹ اور ناظم سر رشتۂ تالیفات تھے۔ ان دنوں وہ العزیز (۱۹۴۰– ۱۹۴۶ء) نام سے ایک علمی ،ادبی اور تاریخی ماہنامہ کے اجرا کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ عزیز نے پہلا شمارہ، جو ابھی مرتب ہو رہا تھا،سید سلیمان ندوی کو ملاحظہ کے لیے پیش کیا۔ مطالعہ کے بعد انہوں نے ۱۶؍ مارچ ۱۹۴۰ء کو ایک خط لکھا ،جسے عزیز نے اپنی خوش نصیبی گردانتے ہوئے العزیز کے مئی ۱۹۴۰ء کے شمارے میں شائع کیا۔ذیل میں خط کا متن درج کیا جاتا ہے:
’’ مجھے اپنے بہاول پور کے اولین ورودکے موقع پر بہاول پور کے ممتاز علم دوست صاحب علم و قلم مولانا عزیز الرحما ن عزیز – ناظم کتب خانۂ سرکاری سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ یہ موصوف ہی کی ذات ہے جن کی نگرانی میں اس زمین کا سب سے پہلا پودا العزیز آمادہ نشو و نما ہے۔ موصوف نے اپنی مہربانی سے مجھے اس کا پہلا نمبر، جو ابھی تیار ہو رہا ہے،دیکھنے کو عنایت کیا۔ مضامین کا تنوع ،نظم و نثر کا انتخاب، تاریخی اورعلمی مقالات ،مختصر علمی اخبار ی نکات ، ہر چیز اپنی جگہ مفید اور دلچسپ نظر آتی ہے۔ مضامین کا حسن ترتیب صاحب قلم مدیر کے دیرینہ تجربہ کا پتہ دیتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اعلی حضرت شہر یار بہاول پور خلد اللہ ملکہـ ،کے زیر سایہ یہ پودا نشو و نما پائے گا اور کچھ ہی دنوں میں بہاول پور کا یہ نو نہال ، ہندوستان کے علمی چمن زار میں ایک نئے دل پذیر نخل بارور کا اضافہ کرے گا‘‘۔ (عزیز، بزم عزیز، مئی، ۱۹۴۰ء ، ص ۳- ۲)
۱۹۴۳ء میں عزیزالرحمان عزیزکی مشہور تصنیف صبح صادق،آغاز اسلام سے تمام خاندان عباسیہ اور۱۹۴۲ء تک فرماں روایان ریاست بہاول پورکی مکمل تاریخ عزیز المطابع ،بہاول پور سے شائع ہوئی ۔ سید سلیمان ندوی نے اس کی اشاعت پر خوشی کا اظہار کیا اور پانچ صفحات کا مفصل تبصرہ لکھا جو معارف اکتوبر ۱۹۴۳ء کے شمارے میں شائع ہوا۔تبصرے کا کچھ حصہ:
’’اسلامی ریاستوں میں بہاول پور کی تاریخ سے ملک کو پوری طرح آگاہی نہیں۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس ریاست کی تاریخ کی کتابیں اول تو ایک دو سے زیادہ نہ ہوں گی، اور وہ بھی پبلک کے ہاتھوں میں نہیں۔حالانکہ مسلمانوں کو اس ریاست کی اس نسبت سے کہ وہ خلفائے عباسیہ کی یادگار ہے،قدرۃً غیر معمولی دلچسپی ہے۔ ایسی حالت میں بہاول پور کے ایک کہنہ مشق فاضل مورخ و اہل قلم دبیرالملک ابوالحسنات محمد عزیز الرحمان صاحب عزیز (ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج ،بہاول پور، حال سپرنٹنڈنٹ میوزیم سلطانی و ناظم سر رشتہ تالیفات بہاول پور) کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے صبح صادق لکھ کر معلومات کے ایک نئے آفتاب کو طلوع ہونے کا موقع دیا ہے۔صبح صادق موصوف کی وہ تاریخی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اس ریاست کی مستند تاریخ قلم بند کی تھی اور اب انہوں نے مزید اضافوں کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا ہے۔چونکہ مصنف خود بھی ایک قدیم خاندان کی یادگار ہیں اور انہی اطراف ودیار سے ان کا تعلق رہا ہے۔ اس لیے ان کی معلومات اس باب میں بہت رسا اور کار آمد ہیں۔ اور جن کتابوں کی مدد سے اس کو ترتیب دیا گیا ہے،ان تک رسائی انہی کے لیے ممکن تھی… اہل علم مصنف کے ممنون ہوں گے کہ انہوں نے اس ریاست کا حال لکھ کر تاریخ کے ایسے گوشوں کو روشن کیا ہے جوان کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے‘‘۔ (سلیمان ندوی، اکتوبر ۱۹۴۳ء، ص ۳۱۱- ۳۱۵ )
مولانا سید سلیمان ندوی نے کتاب میں پائے جانے والے تسامحات اور اغلاط کی نشان دہی بھی کی، جن کا جواب العزیز اکتوبر ۱۹۴۲ء کے شمارے میں دیا گیا۔ ان کا یہ تبصرہ العزیز دسمبر ۱۹۴۳ء کے شمارے میں مدیر حفیظ الرحمان حفیظ (۱۸۹۶– ۱۹۵۹ء) کے نوٹ کے ساتھ نقل کیا گیا (حفیظ، دسمبر ۱۹۴۳ء، ص ۴۱)۔
۱۹۵۲ء میں جامعہ عباسیہ کو ایک مرتبہ پھر یہ امتیاز حاصل ہوا کہ اس کی نصاب سازی کے لیے سید سلیمان ندوی بہاول پور تشریف لائے۔یہ دورہ چوتھے شیخ الجامعہ مولانا ناظم ندوی (۱۹۱۳– ۲۰۰۰ء) کے دور میں انجام پایا۔ سید سلیمان ندوی نے مارچ ۱۹۵۲ء کو شاہ معین الدین احمد ندوی (۱۹۰۳– ۱۹۷۴ء) کے نام ایک خط میں اپنی علمی و تعلیمی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’مارچ کا مہینہ بہت مصروف ہے… جامعہ عباسیہ بہاول پور کے نصاب کا کام کرنا ہے۔مولوی ناظم ندوی وہاں کے شیخ الجامعہ ہو گئے ہیں، چار سو روپے تنخواہ ملتی ہے‘‘۔ (معین الدین ندوی، ۲۰۱۱ء ،ص ۴۶۲)