مصنف: مولانا اقبال احمد فاروقی
مولانافیض الحسن سہارنپوری پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے سب سے پہلے صدرشعبۂ عربی تھے۔ پاک وبھارت میں ایسا امام الادب آج تک پیدا نہیں ہوا۔
اورینٹل کالج لاہور
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے ایک سال قبل پنجاب کامحکمہ تعلیم قائم ہوچکاتھا ۱۸۶۵ء میں گورنمنٹ کالج لاہورقائم ہواجس کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر جی ڈبلیو لائیٹز تھے وہ مشرقی علوم وفنون کے زبردست حامی تھے ان کی مساعی تھی کہ پنجاب کے دارالسلطنت لاہور میں اورینٹل یونیورسٹی قائم کی جائے ۱۸۶۰ء میں انہیں انجمن پنجاب کا سرپرست چُناگیا ۔یہ انجمن اس زمانہ کی واحدعلمی اورثقافتی مجلس تھی۔اس مجلس کو ڈاکٹرلایئنٹز کی تحریک اور کوشش سے ۱۸۶۹ء میں یونیورسٹی کالج قائم کرنے کی اجازت ملی جس میں مشرقی علوم کا ایک شعبہ بھی جاری کیا گیا۔۱۸۷۰ء میں یہ تجویز منظور ہوئی کہ مشرقی علوم کا ایک الگ اسکول قائم کیاجائے۔یہی اورینٹل اسکول بعد میں اورینٹل کالج بنا۔۱۸۸۲ء میں جب پنجاب میں باقاعدہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو اس کالج کا الحاق یونیورسٹی سے کیاگیا۔
اورینٹل کالج کے بنیادی مقاصد میں مشرقی علوم کی ترقی اور فروغ،مشرقی زبانوں کی تدریس اور دوسری ملکی زبانوں کی حوصلہ افزائی شامل تھی یہی مقاصد آج تک کالج کالائحہ عمل ہیں البتہ اس کے دائرہ عمل میں وقتاً فوقتاً توسیع وترقی ہوتی رہتی ہے۔
ماضی میں اس کالج سے جوشخصیتیں متعلق رہی ہیں ان میں سرارل شٹائن،پروفیسر میکڈانلڈ، ڈاکٹر وولز، مولانا فیض الحسن ،علامہ اقبال،ڈاکٹر لکشمن سروپ،شمس العلماء مفتی عبد اللہ ٹونکی، سید اولاد حسین شاداں بلگرامی، مولانا نورالحق، مولانا غلام قادربھیروی، مولانا عبدالعزیز میمن، پروفیسر محمود شیرانی، ڈاکٹر مولوی محمد شفیع ،مولانا رسول خاں اور ڈاکٹر محمداقبال کے نام سرفہرست ہیں۔
نام ونسب
مولانا فیض الحسن محلہ شاہ ولایت سہارنپور(یوپی) بھارت کے رہنے والے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ کے والد خلیفہ علی بخش،داد اخدابخش،اورپردادا قلندربخش تھے ۔ آپ کی والدہ محترمہ کااسم گرامی فیض النساء تھا،علم دوست ہونے کی وجہ سے اس خاندان کے افراد کولوگ’’ خلیفہ‘‘ کہتے تھے مولانا فیض الحسن نے اپنی بعض کتابوں ۱ میں اپنے نام کے ساتھ قرشی ،حنفی،چشتی، کااضافہ بھی کیا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نسبتاً قریشی ۲تھے ۔چشتی سلسلہ میں منسلک تھے اورعقیدہ کے لحاظ سے اہل سنت والجماعت تھے چنانچہ جب مضافات سہارنپور کے قصبہ لکھنوتی میں شیعہ سنی فساد کے بعد مقدمہ جان جکین کی عدالت میں پیش ہوا تو مولیٰنا فیض الحسن نے ۱؍اگست ۱۸۷۲ء کوسنیوں کی طرف سے گواہی دی۔آپ کے بیان سے عدالت متأثر ہوئی اس مقدمہ کی کارروائی اسی زمانہ میں کتابی طورپر شائع ہوگئی تھی جس کانام ’’مقدمہ شیعہ سنی ‘‘تھا اس وقت مولانا کی عمر ۵۶؍برس تھی۔
مولانافیض الحسن کے والد خلیفہ علی بخش فہم وذکاء کی دولت سے مالامال تھے ،حافظہ بلاکا پایاتھا آپ نے زودنویسی میں حیرت انگیز مشق بہم پہنچائی تھی قرآن مجید کے بھی حافظ تھے عربی فارسی کے زبردست فاضل تھے بخاری شریف کوایک ماہ میں مکمل لکھ لیا کرتے تھے کہاکرتے تھے :تین سطریں پڑھ لیتاہوں پھر جو لفظ قلم سے نکلتاہے مجھے یقین ہوتاہے کہ اس سے اگلا لفظ یہ ہوگا ۳یہ بات ان کی عربی دانی پر کتنی قوی دلیل ہے۔
پیدائش اوربچپن
مولانا فیض الحسن ۱۲۳۲ھ میں پیدا ہوئے (۱)ا بتدائے ہوش سے ہونہار تھے بچپن میں سرہلانے کی عادت سی پڑگئی تھی ضعیف الاعتقاد لوگ بھوت پریت کا اثرسمجھتے تھے شرارتی ہم عمر لڑکے آپ کو’’فیضو بھوت ‘‘ کہاکرتے تھے شوخی کا یہ عالم تھا کہ مکتب سے آئے پیرکوجھٹکادیا اورایک پوائی دیوارسے جاٹکرائی۔اب دوسرا پیر جھٹکا تویہ پوائی پہلی کے پاس جاپہنچی تختی ادھر پھینکی بستہ ادھرپٹکا اوریہ جاوہ جا تھوڑی دیر میں ہرطرف سے ہاہا کار اورچیخ وپکار کی آوازیں آنے لگتیں اورتمام محلے والوں کی جان عذاب میں مبتلا ہوجاتی۔
لڑکپن کھیل کود اور کنکوے بازی میں گزرا،آغازِ شباب میں پہلوانی کا شوق ہوگیا اپنی برادری کے ایک پہلوان استاد معزالدین کے اکھاڑے میں جاکرورزش کرنے لگے ، تیرہ چودہ برس کی عمرتک اس دھندے کے سوا دوسرا کوئی ہنرنہ سیکھا مگر فطرت کو توان سے کچھ اور ہی کام لینا منظور تھا آخراس کے لیے اسباب پیدا ہوگئے اورطبیعت پہلوانی سے خودبخود اُکتاگئی ۔
تحصیل علم
جب غفلت کے پردے آنکھوں سے ہٹ گئے تو آپ تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے۔دماغ تروتازہ اورذہن رساتھا۔باپ نے آپ کا شوق دیکھ کر فارسی گویاگھول کرپلادی اورعربی کی مروجہ ابتدائی کتابیں بھی گھر ہی میں پڑھادیں ۱۔
اس کے بعد حالت یہ تھی کہ علم کی پیاس کسی طرح بجھتی ہی نہ تھی ۔چنانچہ آپ کے اس ذوق نے آپ کودوسرے خرمنوں کی خوشہ چینی پرآمادہ کیا اور انیس بیس برس کی عمرمیں آپ فیض الحسن منطقی کے نام سے مشہور ہوگئے۔
اساتذہ
اسی زمانے میں محلہ شاہ ولایت کے ایک معزز گھرانے میں آپ کی شادی ہوئی مگر عروس ادب کا خیال بہرعنوان غالب رہا۔ گھر بارچھوڑکردہلی گئے کچھ عرصہ مفتی صدرالدین ۱ آزردہ صدرالصدور دہلی سے اکتساب کیا قدرے حدیث شاہ احمدسعید مجددی دہلوی سے پڑھی ۲۔پھرآخون صاحب ولایتی سے حدیث کی سند فراغ حاصل کی اور آخر میں مولانا فضل حق خیرآبادی۳ سے معقولات اورادب کی کتابیں پڑھیں اورفلسفہ کی تکمیل کی۔اب آپ فیض الحسن ادیب کے نام ذسے مشہور ہوئے متذکرۃ الصدر چاروں استاد اپنے وقت کے جلیل القدر عالم تھے جن کے درس کاشہرہ دُور دور تک پھیلا ہوا تھا مشق سخن مولوی امام بخش صہبائی سے کی ۔شیفتہ،مومن،ذوق اورغالب سے صحبت رہی طب حکیم امام الدین شاہی طبیب سے سیکھی۔
مولانا کاتعلیمی سفر
دہلی سے نکل کر مولانا فیض الحسن رامپور اور لکھنؤ گئے اوروہاں کے اساتذہ میں کچھ وقت گزارکر فقہ، اصول ،معانی اورمنطق کی تعلیم حاصل کی مگرتسلی نہ ہوئی واپس دہلی آکرباقی کسرپوری کی اوروہیں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا اس وقت ان کی عمراکیس بائیس برس کے قریب تھی۔آٹھ نوبرس کی لگاتارمحنت کے بعد ان کی شہرت یہاں تک پہنچی تھی کہ ۱۸۴۶ء میں جب سرسید احمدخاں صدرامین کی حیثیت سے فتح پور سیکری سے بدل کردہلی آئے تو انہوں نے مقامات حریری کے چندمقالے اورسبعہ معلقہ کے چند قصیدے مولانا سے پڑھے، اس وقت مولانا کی عمرتیس برس کی تھی۔
ادب میں امامت
اس طرح مختلف چشمہ ہائے فیض سے شادکام ہونے کے بعد مولانا فیض الحسن نے جملہ علوم ادب، فقہ، اصول فقہ، حدیث اور طب میں کامل مہارت حاصل کرلی۔انہوں نے ہندوستان کے عربی ادب میں عظیم انقلاب پیداکیا۔ان سے پیشتر نکتہ آفرینی کواہمیت دی جاتی اور متاخرین شعرائے عرب کوجن کا سرخیل متنبی ہے شعرائے جاہلیت پرترجیح دی جاتی تھی مگر مولانا فیض الحسن نے دُنیا ہی بدل دی اورمتاخرین سے ہٹاکرطلبہ کومتقدمین شعرائے ادب کی طرف مائل کیا جن کی سادہ اوربے تکلف شاعری تاثیر میں ڈوبی ہوئی ہے،حماسہ کا درس پہلے پہل آپ ہی نے شروع کیا اورحماسہ کی شرح فیضی کے نام سے لکھی ۔بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ مولانا اس پایہ کے ادیب تھے کہ خاکِ ہند نے صدیوں میں شاید ہی کوئی اتنابڑا امام الادب پیدا کیا ہو۔
(حیات شبلی از سید سلیمان ندویؒ ص:۸۰)
سلسلۂ ملازمت
۱۸۵۷ء کے پُرآشوب زمانے میں مولانا فیض الحسن دہلی سے بچتے بچاتے سہارنپور پہنچے اور آتے وقت اپنی کتابوں کاذخیرہ اپنے استاذ مفتی صدرالدین آزردہ کے سپرد کرآئے جواُن کے اپنے قیمتی کتب خانے کے ساتھ تباہ ہوگیا مولانا کی طاقت اورہمت کے بھروسے پرکچھ لوگ اوربھی آپ کے ہمراہ ہوگئے اوریہ بھروسا بجابھی تھاکیونکہ مولانا پہلوانی اور بنوٹ وغیرہ کے فن میں ماہرتھے اوران کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ لوہے کی زنجیر کوپکڑ کر توڑدیتے تھے۔راستے میں دوایک موقعوں پر تکرارکی صورت بھی پیش آئی مولانا کی تلوار کا تسمہ کھل چکاتھا کہ گاؤں کے چودھری نے بیچ بچاؤ کردیااورصلح وآشتی سے کام بن گیا۔
سہارنپور پہنچ کر اسی لگی آگ میں اپنی زوجۂ ثانی کو لینے انبیٹہ گئے جووہاں سے دس بارہ میل کے فاصلے پرایک چھوٹا ساقصبہ ہے،وہاں سے بیوی کولیکر آئے۔بیوی بہلی میں تھیں اورخود تلوار ہاتھ میں لیے آگے آگے چلے آرہے تھے ۔ہرطرف قتل وغارت کابازارگرم تھا مگرکسی کو ان سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ ہوئی۔
قیامِ سہارنپور میں کچھ عرصہ طب کی آمدنی سے بسراوقات کی مگرکسی نے آپ کی شایان شان قدر نہ کی ایک نودولتیے رئیس نے سترروپیہ ماہوار پربحیثیت طبیب خاص ملازم رکھ لیا ایک روز نواب صاحب کوزُکام ہوا مولانا نے گل بنفشہ ،تخم خطمی اورسپستاں وغیرہ دوائیں تجویز کیں خوشامدی مصاحبوں کی بن آئی انہوں نے نواب صاحب کے کان بھرے کہ حکیم مزاج شناس نہیں۔نواب صاحب نے نسخہ دیکھا تو کہا!حکیم صاحب اس میں مروارید ناسفتہ توہے ہی نہیں اوراق طلاء اور مشک وعنبر کے بغیر فائدہ کیا خاک ہوگا؟۔
مولانا دل برداشتہ ہوکرچلے آئے اورچند روزعلی گڑھ میں عربی کی بعض کتابوں کا ترجمہ اُردو میں کرنے پرمامور ہوئے مگران کا مرغ ہمت کسی بلند آشیانے کا طالب تھا آخر کار ۱۷؍اکتوبر ۱۸۷۰ء کولاہور اورینٹل کالج میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔
مولانا کے لاہور تشریف لانے کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے جو ابویحییٰ امام خاں نوشہروی کے الفاظ میں حسب ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم مرحوم ڈائرکٹر ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور درج ذیل ہے۔ ۱
جب مسٹر لائٹز نے مولانا فیض الحسن صاحب کوکالج میں تقرری کے لیے لکھاتو مولوی صاحب نے مندرجہ ذیل موانع کی بناپر تشریف لانے سے انکار کردیا ۔
۱۔آپ کی تعلیم گاہوں میں اوقاتِ تدریس کی پابندی ہے اورہمارا دستور یہ ہے کہ جس وقت چاہا پڑھا دیا اورجب چاہا التواکردیا۔
۲۔آپ کے یہاں اوقاتِ تدریس کی تعیین ہے اورہمارے مدرسوں میں وقت کی تقلیل وتکثیر دونوں یکساں جب تک گوارا ہواپڑھاتے رہے اوراگرطبیعت مائل نہیں توکتاب کوہاتھ نہیں لگایا۔
۳۔ آپ کے یہاں میز اورکُرسی کے ساتھ لگ کرپڑھانے کادستور ہے مگر ہم تدریس کے وقت پلنگ پربیٹھ کر پڑھاتے ہیں ۔طبیعت استراحت کی طرف مائل ہوئی تولیٹ کرپڑھانے لگے۔اُونگھ آگئی تو سوجانے میں بھی مضائقہ نہیں مگرشاگردوں کے لیے اپنی اپنی جگہ پربیٹھنے کا حکم ہوتاہے اورجب آنکھ کھل گئی پھرپڑھاناشروع کردیا۔
۴۔آپ کے مدرسوں میں تحدید اوقات پرگھنٹی کی پابندی بھی ہم گوارانہیں کرسکتے۔(وغیرہ)
مولانا فیض الحسن نے اسی قسم کے متعدد واعذاروموانع لکھنے کے بعد لاہورآنے سے انکار کردیا لیکن لائنٹز (رجسٹرار تعلیم گاہ) نے مولوی صاحب کے تما م شرائط من وعن تسلیم کرلیے اور ممدوح لاہورتشریف لے آئے۔
درسگاہ کے ایک کمرے میں پلنگ لگادیا،مولانا اپنی عادت کے مطابق پڑھاتے، سونے میں خرّاٹے لیتے اورشاگرد اپنی اپنی جگہ پرکتابیں ہاتھ میں لیے بیٹھے رہتے آنکھ کھل جاتی توجہاں سے سلسلہ منقطع ہوا تھا وہیں سے سررشتہ میں گرہ لگاکر علم کے موتی پروناشروع فرمادیتے۔
اورینٹل کالج لاہور میں مولانافیض الحسن کی علمیت کے حقیقی جوہر کھلے اور یہ چشمۂ فیض دریائے فیض بن گیا ۔ چنانچہ خودفرماتے ہیں ۔
تھی فیض کو جو پھولنے پھلنے کی آرزو
یاں تک گل اس نے کھائے کہ پھولوں سے پھل گیا
انہی دنوں اورینٹل کالج میں قاضی ظفرالدین،حافظ عبد العزیز اورمولوی غلام قاردبھیروی شعبۂ عربی میں آپ کے نائبین تھے۔مولوی عبد الحکیم کلانوری ومحمد الدین اورشاہ چراغ فارسی کے اوراُردو میں مولوی غلام مصطفےٰ اورپشتومیں میرعبد اللہ استاد تھے ۔ (تاریخ اورینٹل کالج لاہور ص:۱۳)
رسالہ شفاء الصدورکی ادارت
جب اورینٹل کالج لاہور سے عربی زبان کا رسالہ شفاء الصدور نکلنے لگا تو اس کی ادارت کے فرائض بھی مولانا فیض الحسن ہی کے سپرد ہوئے۔اس ذمہ داری کے لیے مولانا کے مقررہ مشاہرے میں پندرہ روپئے ماہوار کا اضافہ کیاگیا ۔
دوسرے سال پانچ روپئے اوربڑھادیے گئے اخبارشفاء الصدور کے ذریعے سے مولانا نے کالج کے ماحول کو علمی رنگ میں رنگ کراپنے شاگردوں میں عربی تحریر وانشاء کا ذوق پیدا کردیا اور آپ سے فیض حاصل کرنے والے علم وفضل کے آفتاب وماہتاب بن کرچمکے۔
دھنا سری کا نہ یہ وقت ہے نہ ایمنؔ کا
مگر یہ وقت کوئی وقت ہے مرے من کا
یہ وقت وہ ہے کہ اب میں چلے اُبھرکے چلیں
یہ وقت وہ ہے کہ بدخواہ کا ڈھلے منکا
بناوٹ اس میں نہیں ہے کہ اِن دنوں لاہور
بُرے بھلے کا ٹھکانا ہے دوست دشمن کا
مخالف ایسے موافق ہوئے یہاں ہاشم
کہ آج برق بھلا چاہتی ہے خِرمن کا
وہ لوگ یاں نظر آتے ہیں کہ آج کل کہ کوئی
نہ ان کے میل کا ساتھی نہ ان کے تن من کا
کہیں کہیں سے مشقت اٹھاکے آئے ہیں
کوئی یمنؔ کا مسافرہے کوئی ارمنؔ کا
عجب نہیں کہ یہاں تربیت کی خوبی ہے
بہار آنب کی لائے درخت جامن کا
مرے کلام کو وہ شوق سے سنے جس نے
سنا ہو باغ و بہار آج میرا من کا۱
مولانا آزاد اور مولانا فیض الحسن
مفتی محفوظ علی صاحب بدایونی ناقل ہیں کہ مولوی محمد حسین آزادؔ اور مولانا فیض الحسن جن دنوں اورینٹل کالج لاہورمیں برسرخدمت تھے ،دونوں میں اعتقادی اختلاف پرکچھ شکررنجی تھی جب مولانا فیض الحسن مولانا آزاد کے کمرہ کی طرف سے گزرے تو اُدھر منہ کرکے کھنکارکرتھوک دیتے،جب دو ایک مرتبہ یہ حرکت ہوئی تو آزاد سمجھ گئے کہ یہ اتقاقی نہیں بلکہ ارادی ہے تو ایک مرتبہ جب مولوی فیض الحسن اُدھر سے گزرنے لگے آزادؔ اپنے کمرہ کے درواز ہ پر آکرمنہ بناکر کہنے لگے ارے میں تو تھوکتا بھی نہیں۔
علمی شہرت
لاہور میں مولانا فیض الحسن پندرہ سولہ برس تک علوم مشرقی کے پروفیسر رہے اور صدہاشاگردوں نے آپ سے فیض پایا۔صاحب سیرالمصنفین کے الفاظ میں’’مولوی فیض الحسن صاحب اس زمانہ کے اصمعی اور ابوتمام سمجھے جاتے تھے ہندوستان کے تمام دورۂ اسلامی میں قاضی عبد المقتدر کے سوایہی ایک فرد ہے جو عربی شاعری کا صحیح مذاق رکھتا تھا۔
اورینٹل کالج سے مولانا کے علمی فتوحات اور درس وتدریس کی شہرت ہندوستان کے تمام علمی حلقوں میں پہنچی یہاں تک کہ علم کے شائق دور دراز گوشوں سے کھنچ کریہاں آنے لگے چنانچہ علامہ شبلی نعمانی مرحوم۱ نے حماسہ آپ سے یہیں لاہور میں آکرپڑھا۔۲ ممدوح ۱۲۹۲ھ مطابق ۱۸۷۵ء میں چھ مہینے مولانا کی صحبت میں رہے ۔اس سلسلے میں طریق درس وافادہ کی داستان بھی سننے کے قابل ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ ہمارے بزرگوں میں علمی شغف کس حد تھا۔اس نئی روشنی کے زمانے میں جب کہ کالج عام ہوچکے ہیں ہمارے آرام طلب طالب علم اورعیش پسند استاد اس کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔علامہ سید سلیمان ندوی حیات شبلی میں رکھتے ہیں:
’’مولانا فیض الحسن مرحوم کالج میں ملازم تھے اسی لیے زیادہ وقت وہیں صرف ہوجاتا۔ بقیہ وقت بھی خالی نہ تھا کیونکہ متعددایسے اشخاص اس وقت استفادہ کررہے تھے جن کاکالج سے کوئی تعلق نہ تھا اورہرایک کے اوقات مقررتھے اس ماحول میں اگرکوئی دوسرا استاد ہوتا تو مولانا شبلی جیسے فارغ التحصیل طالب علم کو درس دینے سے یقیناًانکارکردیتا اورمولانا کے بجائے کوئی دوسرا طالب علم اسی استعداد کا ہوتاجن کو انہی وقتوں کا سامنا کرنا پڑتاتوہرگز غریب الوطنی کی زحمت برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوتامگر ایک طرف تو مولانا شبلی کا عزم راسخ بے نیل مرام واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا تھا دوسری جانب مولانا فیض الحسن کا ذوق افاضہ ایسے مشتاق ومستعد طالب علم کومحروم دیکھنا گوارا نہ کرتا تھا آخر یہ طے ہوا کہ مکان ۱سے کالج تک کی مسافت طے کرنے میں جووقت صرف ہوتاہے اسی میں مولانا ادبیات کا درس لیا کریں یعنی آنے جانے میں معلم یا متعلم کا جوقدم بھی اٹھے وہ افادہ واستفادہ علم سے خالی نہ ہو
ہیچ گر ذوقِ طلب از جستجو بازم نہ داشت
دانہ می چیدم من آں روزے کہ خرمن داشتم
اسی تعلیم کے زمانے میں تعطیل ہوئی اورمولانا فض الحسن دوماہ کیلئے سہارنپوراپنے وطن تشریف لے گئے تو اس خیال سے کہ ناغہ نہ ہوشاگرد نے بھی ساتھ ہی سفرکاارادہ کیا۔(حیات شبلی ازسید سلیمان ندوی صفحہ ۸۲،کالج کی طرف سے مولانا شبلی کوکلاس میں بیٹھنے کی اجازت بھی مل گئی تھی)
مولانا فیض الحسن تعطیلات میں بھی درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھتے۔سہارنپور میں اکثرتفسیر کا درس دیا کرتے یہ درس شہرکی جامع مسجد کی جنوبی سہ دری میں ہوتے تھے اب یہ پُرانی جامع مسجد کہلاتی ہے، مفتی عبداللہ ٹونکی ،مولانا عبد العلی مدرس مدرسہ حسین بخش دہلی اورمولوی محمد اسماعیل میرٹھی یہیں شریک درس ہوتے تھے ۔ مولوی خلیل احمدانبہٹوی تو آپ کے جوتے سیدھے کرنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے مگرمولانا رشید احمد گنگوہی پرایک تنقید ی مضمون لکھنے کی وجہ سے مولوی خلیل احمدناراض ہوگئے۔( حیات شبلی ازسید سلیمان ندوی صفحہ :۸۳)
مولانا فیض الحسن کا سب سے بڑا فیض قرآن پاک کی معجزانہ فصاحت وبلاغت کی نکتہ شناسی تھی غرض مولانا فیض الحسن کی یہ مختصرسی صحبت مولانا شبلی کے حق میں بہت مفید ثابت ہوئی شعرائے جاہلیت کی تاثیرمیں ڈوبی ہوئی سادہ اور سچی شاعری اورشستہ ورفتہ زبان دل میں اُترگئی یہاں تک کہ حماسہ گویا حفظ ہوگیا اور سادہ عربی نگاری کا صحیح مذاق حدِ کمال کوپہنچ گیا ۔
جمہرۃ العرب شعرائے جاہلیت کے قصائد کی دوسری کتاب تھی جومولانا فیض الحسن نے مولوی شبلی کو پڑھنے کیلئے دی انہوں نے خودپڑھی اور اپنے استاد مولانا محمد فارو ق ۱ چڑیاکوٹی کوبھی دکھائی ۔ اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ مولانا فیض الحسن کے پوتے مولوی نصرالعزیز قریشی کے پاس اب بھی موجود ہے جس پرمولانا شبلی مرحوم کے ہاتھ کی یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔
’’در تحریر ایں کتاب بیش از ہشت روپیہ خرچ کردم‘‘
مولانا شبلی نے جب ایشیا کا سفرکیا توواپسی پرچند نادرکتابیں ہمراہ لائے لیکن جو کتاب بھی انہوں نے مولانا فیض الحسن کے سامنے پیش کی مولانا نے بغیردیکھے بتادیاکہ اس میں یہ مضمون ہے مولانا شبلی حیران تھے کہ ایسی کتابیں مولانا کی نظرسے کیسے گزریں یہ مولانا کی ذہانت کی دلیل ہے۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ حاجی خلیفہ کی کتاب کشف الظنون یا اس قسم کی کوئی اورکتاب مولانا کی نظر سے گزرچکی ہوگی جس کے مطالب حافظے میں محفوظ ہونگے یا پھریہ کتابیں مولانا نے سرسید احمد خاں کے کتب خانے میں دیکھی ہوں گی۔ (جاری )
Moulana Faizul Hasan Saharanpuri was my Great Maternal Grandfather.