Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Allama Syed Sulaiman Nadvi Ke Chand Hawashi e Quran, علامہ سید سلیمان ندوی کے چند حواشی قرآن

Maulana Muhammad Farman Nadwi

Allama Syed Sulaiman Nadvi Ke Chand Hawashi e Quran, علامہ سید سلیمان ندوی کے چند حواشی قرآن

مصنف:  مولانا محمد فرمان ندوی

علامہ سید سلیمان ندویؒ کی قرآن فہمی کا صحیح اور بین ثبوت وہ حواشی ہیں، جو انہوں نے دوران تلاوت قرآن کے اپنے ذاتی نسخہ پر رقم فرمائے ہیں۔ یہ حواشی اپنی ایجاز بیانی اور اثر آفرینی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان تفسیری شذرات کی متعدد قسمیں ہیں، کچھ سورتوں کے عمود سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ استنباط نتائج سے متعلق ہیں اور کچھ توضیحی نوٹس کی قبیل سے ہیں۔ ذیل کے صفحات میں چند حواشی کو قدیم و جدید تفسیری مراجع کے تقابلی مطالعہ کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے، تاکہ علامہ مرحوم کی علمی عبقریت کی ایک اور تصویر نگاہوں کے سامنے آئے اور یہ بات واضح ہو کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے آیات قرآنی کی تفسیر میں سلف کے اصول تفسیر کی پیروی کی ہے اور نکتہ سنجی کے ذریعہ آیات کی مراد کو سمجھانے کا اسلوب اختیار کیا ہے۔

مقاطع آیات: آیتوں کے اخیر میں جو جامع کلمات ذکر کیے جاتے ہیں ان کا سابق سے گہرا ربط ہوتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ان مقاطع کی دلنشیں تفسیر کی ہے:

۱۔ آل عمران کی ایک آیت ہے: نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَاللہُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ ۔

اس کا مقطع ہے: ’’وَاللہُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ ‘‘۔

اس کی تفسیر میں امام رازیؒ نے یہ عبارت تحریر کی ہے:

والعزیز الغالب الذي لا یغلب، الانتقام العقوبۃ، یقال: انتقم منہ انتقاماً أي عاقبہ، وقال اللیث: یقال لم أرض عنہ حتی نقمت منہ، وانتقمت، إذا کافأہ عقوبۃً بما صنعہ، والعزیز إشارۃ إلی القدرۃ التامۃ علی العقاب، و ذو الانتقام إشارۃ إلی کونہ فاعلاً للعقاب، فالأول صفۃ الذات، والثاني صفۃ الفعل واللہ أعلم ۔

ایسا غالب جو مغلوب نہ ہو، انتقام کے معنی سزا کے ہیں، کہا جاتا ہے: انتقم منہ انتقاماً یعنی سزا دیا، اور لیث کہتے ہیں: میں اس سے اس وقت تک خوش نہیں ہوا، جب تک میں نے انتقام نہیں لے لیا اور انتقام مماثل سزا دینا اور عزیز کے معنی سزا دینے پر مکمل قدرت ہے، ذوالانتقام کے معنی مکمل سزا دینے والا، پہلی صفت صفت ذات ہے اور دوسری صفت عارضی۔

ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں:

واللہ عزیز ذو انتقام أي ممتنع أو غالب لا یغلب، أو منتصر ذو عقوبۃ، وأشار بالعزۃ إلی القدرۃ التامۃ التي ھي من صفات الذات، وأشار بذي انتقام إلی کونہ فاعلاً للعقاب، وھي من صفات الفعل ۔

اللہ زبردست اور سزا دینے والا ہے، اس کے معنی قوی اور زبردست غلبہ والا ہے، فتح یاب اور سزا دینے والا ہے، ذو انتقام سے اشارہ ہے کہ وہ سزا دینے والا اور یہ عارضی صفت ہے۔

علامہ آلوسی تحریر فرماتے ہیں:

واللہ عزیز أي غالب علی آمرہ، یفعل ما یشاء ویحکم ما یرید، ذو انتقام افتعال من النقمۃ وھي السطوۃ والتسلط، والتنوین للتفخیم، واختار ھذا الترکیب علی منتقم مع اختصارہ لأنہ أبلغ منہ، إذ لا یقال صاحب سیف إلا لمن یکثر القتل لا لمن معہ السیف مطلقا، والجملۃ اعتراض تذییلي مقرر للوعید مؤکد لہ ۔

واللہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں، جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے اور ذو انتقام افتعال کے وزن پر ہے، جس کےمعنی غلبہ اور تسلط کے ہیں، تنوین کے ساتھ آنا اس کی فخامت کو بیان کررہا ہے، منتقم کا صیغہ استعمال نہ کرکے ذو انتقام کا کلمہ استعمال کرنا صرف اس لیے ہے کہ یہ ترکیب زیادہ موثر ہے، کیونکہ صاحب السیف کی ترکیب اسی کے لیے استعمال کی جائے گی جو کثرت سے قتل و خون کرتا ہو، نہ کہ جس کے پاس صرف تلوار ہو، جملہ ذیلی طور پر معترضہ کی شکل میں آیا ہے، وعید کی تاکید در تاکید ہے۔

علامہ ابن کثیر دمشقی اس حصہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:

واللہ عزیز: منیع الجناب عظیم السلطان، ذو انتقام أي ممن کذب بآیاتہ وخالف رسلہ الکرام وأنبیاءہ العظام ۔

قوی درجے والا اور غلبہ والا ہے، ذو انتقام کے معنی اس سے انتقام لینے والا ہے، جو اس کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں، اس کے معزز رسولوں اور جلیل القدر نبیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

علامہ شوکانی تحریر فرماتے ہیں:

واللہ عزیز لا یغالبہ مغالب، ذو انتقام عظیم ۔

ایسا غلبے والا جس کو کوئی شکست نہ دے سکے اور بڑا انتقام لینے والا ہے۔

امام زمخشری لکھتے ہیں:

ذو انتقام: لہ انتقام شدید لا یقدر علی مثلہ منتقم ۔

ایسا انتقام لینے والا جس طرح انتقام لینے پر کوئی دوسرا قادر نہیں۔

ان مفسرین کے اقوال کے اجمالی تذکرہ کے بعد سید صاحبؒ کا حاشیہ برلفظ ’’انتقام‘‘ سے مذکورہ مقطع آیت کی پوری وضاحت ہوتی ہے: أخذ الحق من الظالم للمظلوم (مظلوم کے حق کو ظالم سے لینا ہی انتقام ہے)۔ اس مفہوم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان مامورات کو ادا نہیں کرتا تو ظالم کہلائے گا اور احکام الٰہی کی حیثیت حق مغصوب کی ہوگی، اللہ رب العزت ایسے منصف اور عدل پرور ہیں کہ وہ ناحق سزا نہیں دیتے ہیں، بلکہ انسان کو اس کے برے اعمال کی وجہ سے ابتلائی مراحل سے گذارتے ہیں، تاکہ وہ تائب ہوکر صحیح راستہ کی طرف آئے، دیگر مفسرین کے تشریحی افادات سے یہ بات مترشح ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ سخت گیر ہیں لیکن سید صاحب نے انتقام کی جو توضیح کی ہے اس سے عدل و مساوات کی صحیح شکل سامنے آتی ہے۔

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا ۔ (النساء ۴: ۳۶)

امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: والمختال ذو الخیلاء والکبر (تکبر والا)، قال ابن عباس: المراد بالمختال العظیم في نفسہ الذي لا یقوم بحقوق أحد (حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے: مختال کے معنی ایسا خود پسند جو دوسروں کے حقوق نہ ادا کرے)۔ قال الزجاج: وإنما ذکر الاختیال ھھنا، لأن المختال یأنف من أقاربہ إذا کانوا فقراء، ومن جیرانہ إذا کانوا ضعفاء فلا یحسن عشرتھم (زجاج کا کہنا ہے: اختیال کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے: اس لیے کہ متکبر اگر اس کے رشتہ دار فقیر اور پڑوسی کمزور ہیں تو ان کو ناپسند کرتا ہے، ان کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کرتا) ومعنی الفخر: التطاول: والفخور الذي یعدد مناقبہ کبرا وتطاولا (فخر کے معنی بڑائی کے اظہار کے ہیں اور فخور وہ شخص ہے جو اپنے مناقب و فضائل کا تذکرہ کرے)۔

ابو حیان توحیدی کا قول مذکورہ بالا تشریح کی تائید و تفسیر ہے: المختال المتکبر وہو اسم فاعل من اختال، ویقال: خال المتکبر یخول خولا إذا تکبر و أعجب بنفسہ، والفخور: فعول من فخر ، والفخر عد المناقب علی سبیل الشغوف والتطاول ۔ (یعنی مختال خود پسند اور فخور اپنی طرف مائل کرنے کے لیے خوبیوں کا اظہار کرنے والا)۔

ابن کثیر نے بھی اسی کے مماثل تشریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مختالا في نفسہ: معجبا متکبرا، فخورا علی الناس، یری أنہ خیر منہم فہو في نفسہ کبیر، وہو عند اللہ حقیر، وعند الناس بغیض، فخورا یعني یعدّ ما أعطي وہو لا یشکر اللہ عز و جل ۔

سید قطبؒ نے لکھا ہے: إفراد اللہ بالعبادۃ والتلقي یتبعہ الإحسان إلی البشر، والکفر باللّٰہ وبالیوم الآخر یصاحبہ الاختیال والفخر ۔ (اللہ تعالیٰ کی عبودیت کو تسلیم کرنا انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا مزاج پیدا کرتا ہے، جب کہ اللہ اور آخرت کا انکار کبر و غرور کا پیش خیمہ ہوتا ہے)۔

امام طبری نے بھی صرف الفاظ کی تشریح کی ہے اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکالا ہے۔

اب علامہ سید سلیمان ندویؒ کا یہ حاشیہ پڑھیے:

الفخروالاختیال ہوالذي یمنع عن الإحسان ۔

غرور و تکبر احسان شناسی میں مانع ہوتا ہے۔

سورۂ نساء کی اس آیت میں حقوق العباد کی مکمل فہرست ہے۔ ان میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت اور اس کے سامنے سر بہ سجود ہونا ہے اور شرک و کفر سے بالکلیہ اجتناب کرنا ہے، اس کے بعد والدین، پڑوسیوں وغیرہ کے حقوق کی ادائی کا حکم ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اپنے حاشیہ کے ذریعہ امام رازیؒ کی اول الذکر رائے کی دوسرے قالب میں ایسی وضاحت کی کہ مفہوم فہم سے قریب ہوگیا، مزید یہ نکتہ معلوم ہوا کہ بے جا فخر اور تکبر سے احسان شناسی کی دولت چھن جاتی ہے، انسان خودپسند ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ صرف لوگوں ہی کے حقوق کا انکار نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھی سرتابی کرتا ہے۔

۳۔ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَاللہُ لَایُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ۔ (البقرہ: ۲۷۶)

علامہ سید سلیمان ندویؒ اس مقطع سے یہ اصول مستنبط فرماتے ہیں:

أخذ الربا کفر النعمۃ أی کفر نعمۃ ربہم (سود خوری رب کی نعمتوں کی ناشکری سے عبارت ہے)۔ ربا کیوں کفران نعمت ہے؟ اس کا جواب ہے کہ مال اللہ کی امانت ہے، اس کا صحیح استعمال اللہ کی ہدایت کے مطابق شکر ہے اور اس کے خلاف عمل کفران نعمت ہے۔ یہیں سے یہ اصول بھی معلوم ہوگیا کہ شکر سے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکری سے مال میں کمی آتی ہے۔ اور ایسا شخص اللہ کی نگاہ میں مبغوض ہوجاتا ہے۔

اس تشریح اور نکتہ آفرینی کو بغور پڑھنے کے بعد تشریحات ذیل کو بھی دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے آیتوں سے کیسا زبردست استنباط کیا ہے۔

ابن کثیر کا قول ہے:

لا یحب کفور القلب أثیم القول والفعل۔

یعنی اللہ تعالیٰ دل سے ناشکرے اور قول و عمل کے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

صاحب التفسیر المحیط لکھتے ہیں: واللہ لا یحب کل کفار أثیم: فیہ تغلیظ أمر الربا و إیذان أنہ من فعل الکفار لا من فعل أہل الإسلام۔ (۱۲) اس میں ربا کی حرمت اور اس کو کافروں کا عمل بتایا گیا۔

التفسیر الکبیر میں مذکور ہے: واللہ لا یحب ….. فاعلم أن الکفار فعال من الکفر، ومعناہ من کان ذلک منہ عادۃ، والأثیم فعیل بمعنی فاعل، وہو الأثیم وہو أیضا مبالغۃ في الاستمرار علی اکتساب الآثام والتمادي فیہ۔ یہ کافروں کا عمل ہے، اثیم کے معنی گناہ کا عادی۔

امام طبری نے سابق مفسرین کی طرح تشریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں: قال أبو جعفر: وأما قولہ: ’’واللہ لا یحب کل کفار أثیم‘‘ فإنہ یعني بہ: واللہ لا یحب کل مصر علی کفر ربہ مقیم علیہ، (یعنی اللہ کسی ناشکرے کو پسند نہیں کرتا، أثیم)، متماد في الإثم فیما نہاہ عنہ من أکل الربا والحرام وغیر ذلک من عاصیہ (گناہ میں ڈوبا ہوا، منہیات میں لت پت) ۔

سید قطب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وھذا التعقیب ہنا قاطع في اعتبار من یصرون علی التعامل الربوي بعد تحریمہ من الکفار الأثمین، الذین لا یحبہم اللہ۔ (یہ مقطع حکم قطعی ہے ان لوگوں کے سلسلہ میں جو سودی کاروبار کو پوری جرأت کے ساتھ بڑھاوا دیتے ہیں، یہ ایسے گنہگار اور نافرمان ہیں جو اللہ کی نگاہ میں مبغوض ہیں)۔

امام نسفیؒ فرماتے ہیں: واللہ لا یحب کل کفار …. عظیم الکفر باستحلال الربا، ’’أثیم‘‘ متماد في الإثم بأکلہ۔ (ربا کو جائز سمجھنا بڑی ناشکری اور اس کو استعمال میں لانا بڑا گناہ)۔

امام بغوی کا قول ہے: واللہ لا یحب کل کفار …) بتحریم الربا، (أثیم) فاجر بأکلہ۔ (اللہ کسی ناشکرے کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ اس نے ربا کی حرمت کو حلت سے تبدیل کردیا اور وہ اس کو استعمال کرکے گنہگار ہورہا ہے)۔

عمود سورت: ہر سورت کا مرکزی مضمون ہوتا ہے، جس سے اس سورت کے مشمولات کی وضاحت ہوتی ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کی قرآن فہمی کا ایک منظر یہ بھی ہے۔

سورۂ رعد کا عمود بھی علامہ سید سلیمان ندویؒ کے نزدیک دو لفظی ہے، یہاں بھی علامہ نے جمہور کے مسلک کو اختیار کرتے ہوئے ایسی مناسب اور درست بات کہی ہے جو لائق تحسین ہے۔

اس کے ذکر کرنے سے قبل متقدمین و متاخرین مفسرین کی آراء کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔ صاحب روح المعانی کا قول ہے: في کل من السورتین (یوسف والرعد) ما فیہ تسلیۃ لہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (سورہ یوسف اور سورہ رعد میں رسول پاک ﷺ کو تسلی دی گئی ہے)

حضرت تھانویؒ رقم طراز ہیں: اس سورت کا ماحصل یہ مضامین ہیں، توحید، رسالت، جواب شبہات بررسالت، تسلی رسول اللہؐ، حقیقت وعد وعید۔

سید قطب نے مکی سورتوں کے مرکزی نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ہو العقیدۃ وقضایاھا کتوحید الربوبیۃ والألوہیۃ، والدینونۃ للّٰہ وحدہ، وقضیۃ البعث والوحی۔ (یہاں عقائد اور اس کے بنیادی مسائل کا تذکرہ ہے)۔

مولانا ابوالکلام آزادؒ کا قول ہے کہ تمام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی دین حق کے بنیادی عقائد کا بیان ہے، یعنی توحید، رسالت، وحی اور جزائے عمل لیکن خصوصیت کے ساتھ جس بات پر زور دیا گیا اور جو سورت کے تمام موعظت و تزکیہ کے لیے مرکز بیان و خطاب ہے، وہ ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کی حقیقت اور ان کی باہمی آویزش کا قانون ہے۔ چنانچہ سورت کی ابتدا بھی اس اعلان سے ہوئی ہے کہ والذي أنزل إلیک من ربک الحق اور خاتمہ بھی اسی پر ہوا ہے کہ فإنما علیک البلاغ وعلینا الحساب۔

شیخ صابونی نے بھی مکی سورتوں کے عمومی عمود کی طرف اشارہ کیا ہے۔

لیکن علامہ سید سلیمان ندویؒ اس سورت کے عمود (مرکزی مضمون) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إثبـات اللہ تعـالی الکـفـر بالـرسول کفر باللہ تعـالی ۔ اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص رسالت کا انکار کرتا ہے تو وہ بالواسطہ اللہ کا بھی منکر ہے۔ اس جملہ میں تسلی بھی ہے اور عقیدہ بھی، وعد و وعید بھی اور پیام مسرت بھی، کیونکہ اس کا آغاز جیسا کہ رسالت والے جملے والذي أنزل إلیک من ربک الحق اور اختتام فإنما علیک البلاغ وعلینا الحساب پر ہوا ہے۔ ایک ہی جملہ میں سید صاحب نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ سورہ یونس مکی سورتوں میں ہے، سابقہ قوموں کے احوال پر مشتمل ہے، امام اندلسی، رازی اور قرطبی نے اپنی تفسیروں میں اس کے مرکزی مضمون کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ البتہ امام رازی نے اس سورہ کے اختتام پر لکھا ہے: واعلم أنہ تعالی لما قرر الدلائل المذکورۃ في التوحید والنبوۃ والمعاد زین آخر ہذہ السورۃ بہذہ السورۃ البیانات الدالۃ علی کونہ مبتدأ بالخلق والابداع والتکوین والاختراع ۔ (یاد رہے کہ جب اللہ تعالیٰ سورت کے شروع میں توحید وغیرہ کا تذکرہ کیا تو اس کے اخیر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلاق مطلق ہونے کے تذکرہ سے کیا ہے)۔ شیخ صابونی فرماتے ہیں: وھی تتمیز بطابع التوجیہ إلی الإیمان بالرسالات السماویۃ۔ (یہ سورت آسمانی پیغامات پر ایمان لانے کے ذکر سے ممتاز ہے)۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ نے مختصر اور جامع الفاظ میں اس کی تشریح اس طرح کی ہے: ان الأمۃ یأتي عذابہا اذا عصت، و تنجو اذا آمنت ۔

(امت جب ایمان کو صدق دل سے قبول کرتی ہے تو نجات پاتی ہے۔ اور جب ایمان کا انکار کرتی ہے تو ہلاک ہوتی ہے)یہ اصول ہے، جس کی تبلیغ انبیائے کرام کرتے رہے۔ چنانچہ اس سورت میں نوح، موسیٰ، ہارون، یونس علیہم السلام اور حضرت محمدؐ وغیرہ کے واقعات سے اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔

سورہ ہود میں حضرت ہودؑ کی قوم کا تذکرہ خاص طور سے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے احقاف کی طرف بھیجے جانے کا تذکرہ کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے اس سورہ کے شروع میں ایک حدیث ذکر کی ہے، وہ لکھتے ہیں: امام ترمذی نے حضرت ابوبکر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ہے کہ کس چیز نے آپؐ کے اوپر زیادہ اثر ڈالا۔ فرمایا کہ سورہ ہود، الواقعہ، عم یتساءلون اور اذا الشمس کورت نے۔

شیخ صابونی نے ان الفاظ میں سورت کے مغز پر روشنی ڈالی ہے: وقد عرضت السورۃ لقصص الأنبیاء تسلیۃ للنبي ﷺ علی ما یلقاہ من أذی المشرکین لا سیما بعد الفترۃ العصبیۃ التي مرت علیہ بعد وفاۃ أبي طالب، زوجہ خدیجۃ، وکانت الآیات تتنزل علیہ، وہي تقص علیہ ما حدث لإخوانہ الرسل من أنواع الابتلاء لیتأسی بہم في الصبر والثبات۔ (اس سورت میں انبیاء کے واقعات کو صرف اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ ان سے رسول پاکؐ کو تسلی کا سامان فراہم ہوتا ہے۔ کیونکہ آپؐ، چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کے انتقال سے اندرونی طور پر ٹوٹ چکے تھے)۔ 

اکثر مفسرین نے اسی حدیث کو عمود کا مستدل بنایا ہے۔ پھر سید صاحب کیسے اس حدیث کو نظرانداز کرسکتے تھے۔ چنانچہ اس حدیث سے مستفاد یہ عمود ذکر فرمایا ہے: ہذہ السورۃ تسلیۃ للنبی ﷺ۔ (یہ سورت رسول پاکؐ کے لیے باعث تسلی و راحت ہے)۔ علامہ ندویؒ کا ایک قول اس سے پہلے گذر چکا ہے کہ اصل علوم کا سرچشمہ قرآن و حدیث ہے۔ اور قرآن فہمی میں قرآن کی تفسیر اس کی آیتوں کے ذریعہ کرتے تھے۔ پھر حدیث کے ذریعہ۔

نتائج کا استخراج:  پوری آیت پر مصادر تفسیر کی روشنی میں غور کرنے کے بعد آیت کے ماحصل کو نتائج کے استخراج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے صرف روایتی تفسیر کرنے کا منہج نہیں اپنایا بلکہ قرآن میں غوطہ زنی کرکے آیت کے پیغام کی بھی وضاحت فرمائی ہے۔

وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا أَئِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ وَاُولٰٓئِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ وَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے امام رازی فرماتے ہیں: ہذا یدل علی أن کل من أنکر البعث والقیامۃ فہو کافر، وإنما لزم من إنکار الکفر بربہم من حیث إن إنکار البعث لا یتم إلا بإنکار القدرۃ والعلم والصدق۔ (اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ہر وہ شخص جو قیامت اور آخرت کا منکر ہے وہ کافر ہے۔ کیونکہ اس نے اللہ کا انکار کیا، قیامت میں انکار بعثت، اللہ کی قدرت، علم اور سچائی کے انکار کے ساتھ مربوط ہے)۔

صاحب ’’الدر اللقیط‘‘ امام تاج الدین حنفی تحریر فرماتے ہیں:

وإن تعجب یا محمد قولہم في إنکار البعث فـقـولـہم عجیـب حقیـق بـأن تتعجب منہ لأن من قدر علی إنشاء ماعد علیک من الفطر العظیمۃ ولم یعی بخلقہن، کان الإعادۃ أہون شیء علیہ وأیسرہ فکان إنکارہم أعجوبۃ من الأعاجیب.. فلذلک حکم علیہم بالکفر إذ أعجزوا قدرتہ عن إعادۃ ما أنشأ واخترع ابتداء۔ 

اے محمدؐ! اگر آپؐ ان کے انکار قیامت پر تعجب کررہے ہیں تو ان کا یہ قول مزید تعجب کا باعث ہے، ظاہر سی بات ہے کہ جو عظیم فطرتوں کی تخلیق پر قادر ہے اور اس میں ذرا بھی عاجز نہیں تو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بہت آسان ہے، ان کا یہ انکار ایک عجوبہ ہے، اسی وجہ سے ان کے اس باطل عقیدہ کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

علامہ آلوسی رقم طراز ہیں:

فیہ من الدلالۃ علی عتوہم و تمادیہم في النکیر ما لا یخفي۔ 

اس میں ان کافروں کی سرکشی اور تکبر کے ناقابل انکار دلائل ہیں۔

تفسیر مظہری میں ہے:

الذین ینکرون البعث ہم کفروا بقدرتہ تعالیٰ علی البعث، والعاجز لا یصلح لکونہ ربًا۔

جن لوگوں نے اللہ کا انکار کیا، وہ اللہ کی اس قدرت کے بھی منکر ہیں کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں کرسکے گا۔ اور بے بس فرد رب نہیں ہوسکتا۔

سید قطب لکھتے ہیں: وإنہ لعجیب یستحق أن یسال قوم بعد ہذا العرض الہائل اَئذا کنا ترابا، ائنا لفی خلق جدید، ہو الکفر بربہم الذي خلقہم ودبر أمورہم ۔ (ان کا آخرت کا انکار رب کا انکار ہے)۔ 

علامہ صدیق حسن خان قنوجی اپنی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں: وفیہ دلیلک علی کفر منکري البعث (اس میں قیامت کے منکرین کے خلاف دلیل ہے۔ حضرت تھانویؒ کا قول ہے: یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، کیونکہ انکار بعث سے اس کی قدرت کا انکار کیا)۔ 

علامہ شوکانی نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ کفر میں لڑتے رہنے سے ان کی یہ ضد قائم ہے۔ المتمادون فی الکفر الکاملون فیہ۔

مولانا آزادؒ نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں جو عبارت تحریر فرمائی ہے وہ نذر قارئین ہے: کائنات ہستی کی ہر بات یقین دلارہی ہے کہ یہ کارخانہ تدبیر و حکمت بغیر کسی مصلحت و مقصد کا نہیں ہوسکتا اور ضروری ہے کہ انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہ ہو کہ پیدا ہوا، کھایا پیا اور فنا ہوگیا، بلکہ اس کے بعد بھی کچھ نہ کچھ ہونے والا ہو، ورنہ تدبیر و مصلحت کا سارا کارخانہ باطل ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس پر بھی لوگوں کی غفلت کا یہ حال ہے کہ حیات آخرت کی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تو اس سے زیادہ کون سی بات عجیب ہوسکتی ہے، عجیب بات یہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد پھر انسان پر ایک دوسری زندگی طاری ہوگی۔ کیونکہ اس کی شہادت تو دنیا کی ہر چیز دے رہی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ انسان صرف حیات دنیوی پر قانع و مطمئن ہوجائے اور سمجھ لے کہ اس کی پیدائش سے جو کچھ مقصد تھا وہ صرف اتنا ہی تھا کہ ایک مرتبہ پیدا ہوا اور کچھ دنوں کھا پی کر مرگیا۔ 

لیکن علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ان طول طویل بیانات کو صرف ایک جملہ میں سمو دیا ہے۔ فرماتے ہیں: إنکار البعث کفر باللّٰہ لأنہ یستلزم القول بأن اللہ لیس بقادر علیہ ۔

سید صاحب نے جمہور کی رائے کے مطابق اس آیت کی دلنشیں تشریح کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: قیامت کا انکار اللہ ہی کا انکار ہے۔ کیونکہ اس سے یہ رجحان پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے برپا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ قیامت کا عقیدہ ہمارے اور مشرکوں کے درمیان حدفاصل ہے۔ وہ دنیا کی مادی زندگی کو اصل گردانتے ہیں۔ کیونکہ وہ غیب پر ایمان نہیں رکھتے اور قیامت کا تعلق غیب ہی سے ہے۔ سید صاحب سیرۃ النبیؐ ج۴، ص ۳۲۸ پر تحریر فرماتے ہیں:

’’یوم آخر اور حیات آخرت ایمان، اسلام کی اہم تعلیم ہے اور قرآن میں ایمان باللہ کے بعد اسی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ کیوں کہ موجودہ دنیا کے تمام اعمال اور ان کے نتائج کی اصلی اور دائمی بنیاد اسی آیندہ دنیا کے گھر کی بنیاد پر قائم ہے اگر یہ بنیاد متزلزل ہوجائے تو اعمال انسانی کے نتائج کا ریشہ ریشہ بیخ و بن سے اکھڑ جائے‘‘۔

الفاظ قرآنی کا فرق: الفاظ درجہ حرارت رکھتے ہیں۔ ان کا صحیح استعمال عبارت کو فصیح بناتا ہے۔ جبکہ ان کا بے جا استعمال پورے مفہوم کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ عربی زبان میں کوئی لفظ مترادف نہیں ہے، بلکہ ہر لفظ کے اپنے معنی ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اس پہلو سے بھی قرآن کی تفسیر کی ہے۔

سورۂ ذاریات کی آیت کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ (آیت ۵۲) کی تفسیر میں امام رازیؒ تحریر فرماتے ہیں: وقد ذکرنا أنہ یدل علی أن ذکر الحکایات للتسلیۃ ۔ (یہ جملہ تسلی کے لیے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ سے پہلے انبیاء کی بھی تکذیب کی گئی)۔ 

امام آلوسی لکھتے ہیں: الإشارۃ إلی تکذیبہم الرسول علیہ الصلاۃ والسلام وتسمیتہم إیاہ وحاشاہ ساحرا و مجنونا ۔ (اشارہ ہے اس طرف کہ رسول کی تکذیب کی جاتی ہے اور ان کو مجنون اور جادوگر کہا جاتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے)۔ 

سید قطب فرماتے ہیں: فہی حیلۃ واحدۃ وطبیعۃ واحدۃ للمکذبین، وہو استقبال واحد للحق وللرسل یستقبلہم بہ المجنون، کذلک ما أتی الذین من قبلہم، کما یقول ہولاء المشرکون کأنما تواصوا بہذا الاستقبال علی مدار القرون، والنتیجۃ الطبیعیۃ التي تترتب علی ہذا الموقف ألا یحفل الرسول ﷺ بتکذیب المشرکین ۔  (یہ کافروں اور منحرف افراد کا انداز استقبال ہے۔ اسی طرح سے انہوں نے سابقہ زمانوں میں انبیاء کی دعوتوں کا استقبال کیا۔ اس موقف پر مرتب ہونے والا نتیجہ یہ ہے کہ رسول مشرکین کی تکذیب کی پرواہ نہ کریں)۔

راغب اصفہانی صاحب مفردات القرآن کا قول ہے:

السحر یأتی علی معان: الخداع وتخیلات لا حقیقۃ لہا نحو ما یفعلہ المشعبذ بصرف الأبصار عما یفعلہ لخفۃ یدہ، ویفعلہ المنام لقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ہذا قولہ تعالی: سحروا أعین الناس واسترہبوہم (الاعراف: ۱۱۶) الثانی: استجلاب معاونۃ الشیطان یضرب من التقرب إلیہ کقولہ تعالی: ہل أنبئکم علی من تنزل الشیاطین (الشعراء: ۲۲۱- ۲۲۲) الثالث: ما یذہب إلیہ الأغنام، وہو اسم لفعل یزعمون أنہ من قوتہ تغیر الصور والطبائع، فیجعل الإنسان حمرا، ولا حقیقۃ لذلک عند المحصلین، وقد یصور من السحر تارۃ حسنہ، فقیل: إن من البیان لسحرا، وتارۃ دقۃ فعلہ حتی قالت الأطباء: الطبیعۃ ساحرۃ، وسموا الغذاء سحراً من حیث إنہ یدق ویلطف تأثیرہ، قال اللہ بل نحن قوم مسحورون۔ (سحر کے کئی معنی ہیں: ۱۔ دھوکہ دہی، اور ایسے تصورات جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ۲۔ شیطان کی مدد کا حاصل کرنا اس کے مطابق کام کرکے۔ ۳۔ آسیب اور پُرتاثیر اثرات سے متاثر ہونا)۔ 

أصل الجن: سر الشی عن الحاسۃ، یقال: جنہ اللیل، الجنون: حائل بین النفس والعقل، جن عقلہ، حیل بین نفسہ و عقلہ(جن روپوش ہونے کے معنی میں)۔ 

ابوالحسین احمد بن فارس بن زکریا (ت ۳۹۵) کی تحقیق ہے کہ سحر: لہ أصول ثلاثۃ متباینۃ: أحدہا: عضو من الأعضاء، الأخر خدع و شبہۃ (إخراج الباطل فی صورۃ الحق)، الثالث: وقت من الأوقات (یعنی سحر: تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حصہ بدن، تلبیس و مکاری اور جزو وقت) اور الجن: الستر، التستر، الجنون: ذلک انہ یغطی (ڈھنکنے اور چھپانے کے معنی میں)۔ 

حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپؐ واقع میں نذیر مبین ہیں۔ لیکن یہ آپؐ کے مخالفین ایسے جاہل ہیں کہ نعوذ باللہ آپؐ کو کبھی ساحر کبھی مجنون بتلاتے ہیں۔ سو آپؐ صبر کیجیے، کیونکہ جس طرح یہ آپؐ کو کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح جو کافر ان سے پہلے گذرے ہیں ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس کو انہوں نے ساحر یا مجنون نہ کہا ہو۔ (۴۱)

علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ’’ساحر اور مجنون‘‘ کے بارے میں صرف ایک جملہ سے فرق کو واضح کیا ہے: الساحر یدعی بالقصد والمجنون یدعی بلاقصد ۔ جادوگر بالقصد اپنی پوری توانائیوں کو اپنے فن کے مظاہرے کے لیے جھونک دیتا ہے، جبکہ مجنون بے اختیار ہوتا ہے، علامہ سید سلیمان ندوی کی نگاہ میں جہاں ایک طرف منطقی دلائل ہیں وہیں دوسری طرف حدیث و آثار بھی ہیں، جن میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ تینوں لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے یعنی اس حالت میں ان کے اعمال کا محاسبہ نہیں ہوگا: ۱۔ مجنون، ۲۔ بچہ، ۳۔ سونے والا۔ اور جس نے سحر کا علم حاصل کیا اس نے رب العالمین کے خلاف بغاوت کی۔

۲۔ سورہ نحل آیت ۲۲: اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ مُّنْکِرَۃٌ وَّھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ پر علامہ سید سلیمان ندویؒ نے یہ حاشیہ تحریر فرمایا ہے۔ عدم الایمان بالآخرۃ تنکرہ القلوب ویحدث الاستکبار (آخرت پر عدم ایمان قلوب میں انکاری کیفیت پیدا کرتا ہے) اور ساتھ ہی کبر و استکبار بھی پیدا کرتا ہے، یہ انکار و استکبار ہی آخرت کے جواب دہی کے اقرار میں مانع ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آخرت کا عقیدہ تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے اور انسان کو حساس بنا دیتا ہے، مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ آخرت کے منکرین ہر وہ کام کرتے ہیں جو شریعت مخالف ہوتا ہے، وہ دنیا ہی کو لذت اندوزی کی جگہ تصور کرتے ہیں، جبکہ دنیا امتحان گاہ اور دارالعمل ہے۔

مولانا آزادؒ نے صرف اس آیت کے ترجمہ پر اکتفا کیا ہے: تمہارا معبود تو ایک ہی معبود ہے۔ (اس کے سوا کوئی نہیں)، پھر جو لوگ آخرت کی زندگی پر یقین نہیں رکھتے تو ضرور ان کے دل انکار میں ڈوبے ہیں، وہ (سچائی کے مقابلہ میں) گھمنڈ کررہے ہیں۔ 

مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں: تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے۔ (تو اس ایضاح حق پر بھی) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لائے (اور اسی لیے ان کو ڈر نہیں کہ توجیہ کو قبول کریں، معلوم ہوا کہ) ان کے دل ہی ایسے ناقابل ہیں کہ معقول بات کے منکر ہورہے ہیں اور (معلوم ہوا کہ) وہ (قبول حق سے) تکبر کرتے ہیں۔ ’’قلوبہم منکرۃ‘‘ اس سے تکبر کی مذمت جس قدر معلوم ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ کفر و انکار کی اصل وہی ہے:فیہ ذم الاستکبار مالا یخفی حیث انہ أصل للکفر والإنکار فی الروح، قال بعض العلماء: کل ذنب یمکن إخفاءہ إلا التکبر، فإنہ فسق یلزمہ الإعلان۔ 

امام رازیؒ نے بھی اس آیت سے کوئی اصولی بات نہیں نکالی ہے، بلکہ آیت کی تشریح سادہ انداز میں کرکے گزر گئے ہیں۔ لکھتے ہیں: والمعنی أن الذین یؤمنون بالآخرۃ یرغبون في الفوز بالثواب الدائم ویخافون الوقوع في العقاب الدائم إذا سمعوا الدلائل، ویرجعون من الباطل إلی الحق، أما الذین لا یؤمنون بالآخرۃ وینکرونہا فإنہم لا یرغبون فی حصول الثواب ولا یرہبون من الوقوع فی العقاب فیبقون منکرین لکل کلام یخالف قولہم، ویستکبرون عن الرجوع إلی قول غیرہ، فلا جرم یبقون مصرین علی ما کانوا علیہ من الجہل والضلال۔ (جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ دائمی ثواب کے خواہاں ہوتے ہیں اور جو اس کے مخالف ہیں وہ اس میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے)۔ 

امام آلوسی کی تفسیر آیت کا خلاصہ نذر قارئین ہے:فإن الکفر بالآخرۃ وبما فیہا من البعث والجزاء علی الإطاعۃ بالثواب وعلی المعصیۃ بالعقاب یؤدی الی قصر النظر علی العاجل والاستکبار عن اتباع الرسول علیہم الصلاۃ والسلام والإیمان بہ۔ وأما الإیمان بہا وبما فیہا فیدعو لا محالۃ إلی الالتفات الی الدلائل والتأمل فیہا رغبۃ ورہبۃ، فیورث ذلک یقینا بالوحدانیۃ وخضوعا لأمراللہ تعالی۔ (آخرت کا انکار دنیا کو حقیقی نگاہوں سے نہ دیکھنے اور رسول کی اتباع سے برگشتہ رہنے کا سبب ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے سے اس کے دلائل اور شوق و خوف کے اعتبار سے اس پر غور کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے)۔ 

سید قطب کی دل نشیں تفسیر حسب ذیل ہے:فالذین لا یسلمون بہذہ الحقیقۃ، ولا یؤمنون بالآخرۃ، إن قلوبہم منکرۃ جاحدۃ لا تقربما تری من الآیات وہم مستکبرون، لا یریدون التسلیم بالبراہین والاستسلام للہ والرسول، فالعلۃ أصیلۃ، والداء کامن في الطباع والقلوب۔ (جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار سے بھرے ہوتے ہیں، وہ وحدانیت اور رسالت کے دلائل کو تسلیم نہیں کرتے، سبب انکار آخرت ہے، جو دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے)۔ 

ابو حیان اندلسی البحر المحیط میں تحریر فرماتے ہیں:ووصفہم بأنہم لا یؤمنون بالآخرۃ، مبالغۃ في نسبۃ الکفر إلیہم، إذ عدم التصدیق بالجزاء في الآخرۃ یتضمن التکذیب باللّٰہ تعالی وبالبعث، إذ من آمن بالبعث یستحیل أن یکذب اللہ عز و جل۔ (آخرت کے انکار سے تکذیب الٰہی لازم آتی ہے، جو آخرت پر ایمان لانے والا ہوگا وہ کبھی بھی اللہ کا منکر نہیں ہوگا)۔ 

اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَـادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰہُمْ اِنْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ اِلَّا کِبْرٌ مَّا ھُمْ بِبَالِغِیْہِ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ (المومن ۴۰: ۵۶)

علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اس پر یہ حاشیہ تحریر فرمایا ہے: الاستعاذۃ تعصم الإنسان عن الکبر الذي ہو فعل الشیطان۔ (تعوذ انسان کو کبر و غرور سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ شیطانی عمل ہے)۔ تعوذ میں شیطان سے پناہ مانگنے کی تربیت دی گئی ہے، شیطان مجموعہ شر ہے۔ اس کی کبر پروری نے ہی اسے ہلاک کیا اور تاقیامت راندۂ درگاہ بنا دیا گیا۔ شیطان سے بچنے کا ایک ہتھیار ہر بندۂ مومن کو دے دیا گیا ، وہ ہے کلمہ تعوذ، قرآن میں ایک جگہ ارشاد باری ہے: واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ (….) اگر شیطان کی طرف سے کوئی کچوکا لگے تو اے محمد! شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگیے، ظاہر ہے کہ رسول پاکؐ پر شیطان کا کوئی داؤ موثر نہیں تھا۔ کیونکہ ایک حدیث کے بموجب آپؐ اس سے محفوظ کردیے گئے تھے۔ یہاں امت کے ہر فرد کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ اس طرح کے حالات پید ہوں تو اس زود اثر نسخہ کو آزمائے وہ شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رہے گا۔

حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: جو لوگ بلاکسی سند کے کہ ان کے پاس موجود ہو، خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں۔ (ان کو کوئی وجہ اشتباہ کی نہیں ہے کہ وہ جدال کس سبب سے ہو بلکہ) ان کے دلوں میں بڑائی (ہی بڑائی) ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں (اور وہی بڑائی سبب جدال کا ہے، کیونکہ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں، اتباع سے عار آتا ہے۔ وہ خود اوروں ہی کو اپنا تابع بنانے کی ہوس رکھتے ہیں لیکن ان کو یہ بڑائی نصیب نہ ہوگی، بلکہ جلد ہی ذلیل و خوار ہوں گے، چنانچہ مشاہد و وقائع میں مسلمانوں سے مغلوب ہوئے) سو (جب یہ خود بڑائی چاہتے ہیں تو آپؐ سے حسد و عداوت سب کچھ کریں گے لیکن) آپؐ (اندیشہ نہ کیجیے بلکہ ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہیے۔ بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا، تو وہ اپنی صفات کمال سے اپنی پناہ میں آئے ہوئے کو محفوظ رکھے گا۔(۴۸)

امام رازی لکھتے ہیں:

إنما یحملہم علی ہذا الجدال الباطل کبر في صدورہم ، وذلک الکبـر ہو أنہم لـو سلموا نبـؤتک لـزمہم أن یکونـوا تحت یـدک وأمرک ونہیـک۔ 

کافروں کو اس جدال پر ان کی کٹ حجتی ہی آمادہ کر رہی ہے، کیونکہ اگر انہوں نے آپؐ کی نبوت کو مان لیا تو پھر ان کی سرداری خطرے میں پڑجائے گی، آپؐ کے اوامر و نواہی کے پابند ہوں گے۔

علامہ آلوسیؒ رقم طراز ہیں: فاستعذ باللّٰہ: أی فالتجئ إلیہ تعالی من کید من یحسدک ویبغي علیک، وفیہ رمز إلی أنہ من ہمزات الشیاطین ۔ اللہ کی پناہ میں آئیے، اس حاسدوں کے حسد اور ظالموں کے ظلم سے آپؐ محفوظ رہیں گے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کبر و غرور شیطان کے وساوس سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

سید قطب کی تحریر فرمودہ عبارت ہے: الاستعاذۃ باللّٰہ في مواجہۃ الکبر توحي باستبشاعہ واستفظاعہ ۔ (کبر کے بالمقابل استعاذ کا تذکرہ اس کی قباحت و شناعت کو بتا رہا ہے)۔ 

صاحب البحر المحیط نے اس آیت پر کچھ گفتگو کی ہے۔ انہوں نے صرف لغوی معنی اور تفسیری مدلول بیان کرتے ہوئے التجئ إلی …. ذکر کیا ہے۔ 

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔ (آل عمران: ۱۳۷، ۱۳۸)

سید صاحب اس پر حاشیہ تحریر فرماتے ہیں: البیـان مـا کان بینا، البیان ہـو الإعـلان، والہدی خفي والموعظۃ أخفی منہ۔ (بیان وہ ہے جو واضح اور کھلا ہوا ہو، بیان اعلان کے معنی میں بھی آتا، ہدایت مخفی چیز ہے اور موعظت اس سے بھی مخفی چیز ہے۔ قرآن اور اس کی تعلیمات کو بیان کہا گیا ہے، وہ ایسی واضح کتاب ہے۔ جس کے نہ الفاظ میں کوئی ژولیدہ بیانی اور نہ معانی میں الجھاؤ ہے، بلکہ ہر مفہوم کو (لسان مبین) واضح زبان میں کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن ہدایت نامہ بھی ہے اور متقیوں کے لیے پند و نصیحت بھی)۔

سید صاحب کی مذکورہ بالا تشریح میں الفاظ قرآنی کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ عربی زبان کے الفاظ کے درمیان جو فرق ہے اس کے رموز و اسرار سے بھی وہ واقف تھے۔ چنانچہ یہاں بیان معنی واضح کے ہیں۔ اس سے مراد ظاہری دلائل ہیں، ہدایت (معنوی دلیل و راہ) کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے وہ پوشیدہ چیز ہے۔ اور موعظت کا اثر دل پر ایسا ہوتا ہے کہ دل کی دنیا بدل جاتی ہے، زندگی میں انقلاب آجاتا ہے، اس کے لیے لمبی لمبی تقریروں اور طول طویل خطبات کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک جملہ کبھی کبھی عہد ساز اور تاریخ ساز ہوجاتا ہے۔ قرآن کے اندر یہ سارے اوصاف مکمل شکل میں موجود ہیں۔ سید صاحب کی یہ تفسیر نکتہ آفرینی کے ساتھ اسلاف کے نہج پر ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں مذکور ہے:

ھذا بیان للناس یعني القرآن، فیہ بیان للأمور علی جلیتہا، وکیف کان الأمم الأقدمون مع أعدائہم ….. وہدی وموعظـۃ یعني الـقـرآن، فیـہ خبـر مـا قبلکم وھـدی لـقـلـوبکم، ومـوعظـۃ للمتـقیـن أي زاجـر عـن المحارم والمآثم۔ 

قرآن لوگوں کے لیے ایک روشن کتاب ہے، سارے امور کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، سابقہ امتوں نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، اس کی بھی وضاحت ہے، قرآن ہدایت اور نصیحت ہے، کیونکہ اس میں ماضی کی خبریں ہیں اور دلوں کے لیے ہدایت کا سامان موجود ہے، متقیوں کو گناہوں اور حرام کردہ اشیاء سے روکنے والی کتاب ہے۔

تفسیر محیط میں ہے:

ھذا بیان للناس: قال الشعبي: ہذا بیان للناس من العمی۔ 

امام شعبیؒ کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کی بے بصیرتی کو کھولنے والی چیز ہے۔

وقال الزمخشری: ھذا بیان للناس أیضا لسوء عاقبۃ ما ہم علیہ من التکذیب وہدی وموعظۃ للمتقین یعني آنہ مع کونہ بیانا وتنبیہا للمکذبین، فہو زیادۃ و تثبیت وموعظۃ للذین اتقوا من المؤمنین۔ (یہ تکذیب کے نتیجہ میں لوگوں کو سوء خاتمہ سے دوچار ہونے کی وضاحت کرنے والی کتاب ہے اور متقیوں کے لیے ہدایت اور نصیحت کی کتاب ہے) ۔ 

امام رازی رقم طراز ہیں: ھذا بیان للناس وہدی وموعظۃ: ولا بد من الفرق بین البیان وبین الہدی وبین الموعظۃ، لأن العطف یقتضي المغایرۃ۔ (بیان، ہدی اور موعظت میں فرق ہے، کیونکہ واؤ مغایرت کے معنی پر دلالت کررہا ہے)۔ فتقول فیہ وجہان، الوجہ الأول: أن البیان و الدلالۃ التي تفید إزالۃ الشبہۃ بعد أن کانت الشبۃ حاملۃ، فالفرق أن البیان عام في أي معني کان، وأما الہدی فہو بیان لطریق الرشد یسلک دون طریق الغی، وأما الموعظۃ فہي الکلام الذي یفید الزجر عمالا ینبغي في طریق الدین، فالحاصل أن البیان جنس تحتہ نوعان، أحدہما: الکلام الہادي إلی ما ینبغي في الدین وہو الہدی، الثاني: الکلام عمالا ینبغي في الدین وہو الموعظۃ۔

(اس میں دو شقیں ہیں: شق (۱) یہ ہے کہ بیان اس وضاحت کو کہا جاتا ہے جو شبہات کے بعد ہو اور ہدی صراط مستقیم کی وضاحت کا نام ہے اور موعظت ایسے کلام کو کہتے ہیں جو راہ حق میں تنبیہ کے طور پر کہا جائے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیان ایک جنس ہے جس کے تحت دو قسمیں ہیں: دین کے مامورات سے متعلق کلام کا نام ہدایت ہے اور دین کی منہیات سے متعلق کلام کا نام موعظت ہے)۔

الوجہ الثاني: إن البیان ہو الدلالۃ، وأما الہدی فہو الدلالۃ بشرط کونہا مفضیۃ إلی الاہتداء۔ (بیان کے معنی وضاحت کے ہیں، اور ہدی ایسی رہنمائی جو راہ ہدایت تک پہنچا دے)، في تخصیص ہذا البیان والہدی والموعظۃ للمتقین وجہان،أحدہما: إنہم ہم المنتفعون بہ، فکانت ہذہ الأشیاء في حق غیر المتقین کالمعدومۃ، ونظیرہ قولہ تعالی(إنما أنت منذر من یخشاہا) (النازعات: ۴۵) إنما تنذر من اتبع الذکر (یٰس: ۱۱) إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (فاطر: ۲۸) وقد تقدم تقدیرہ في تفسیر قولہ (ھدی للمتقین) (البقرہ: ۲) الثاني: إن قولہ (ھذا بیان للناس) کلام عام، ثم قولہ (وھدی و موعظۃ للمتقین) مخصوص إلا في حق المتقین، واللہ أعلم بالصواب۔ (بیان، ہدی، موعظت کو متقیوں کے ساتھ خاص کرنے کے دو اسباب ہیں، پہلا سبب ہے متقی ہی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ یہ چیزیں عام لوگوں کے حق میں لاشئی کے درجے میں ہیں۔ قرآن کی کئی آیتوں میں اس طرح کی خصوصیت موجود ہے: (إنما أنت منذر من یخشاہا) (النازعات: ۴۵) إنما تنذر من اتبع الذکر (یٰس: ۱۱) إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (فاطر: ۲۸) ۔ دوسرا سبب یہ ہے: ہذا البیان عام ہے اور ہدی اور متقین خاص ہے)۔ 

صاحب روح المعانی لکھتے ہیں: والموعظۃ ما یلین القلب ویدعو إلی التمسک بما فیہ طاعۃ۔ (نصیحت اس کو کہتے ہیں جو دل کو نرم کردے اور طاعت کو لازم پکڑنے کی طرف رہنمائی کرے)۔ والہدی بیان طریق الرشد لیسلک دون طریق الغی ۔ (اور ہدایت رشد و ہدایت کے طریقہ کی وضاحت ہے تاکہ انسان گمراہی کے راستے پر نہ جائے)۔ 

امام قرطبی نے اس سلسلہ میں کوئی رائے نہیں ظاہر کی ہے، ھذا بیان سے بروایت حسن بصری قرآن مراد لیا گیا: یعنی القرآن : عن الحسن وغیرہ، وقیل : ہذا إشارۃ إلی قولہ: قد خلت من قبلکم سنن۔ ایک قول یہ بھی ہے: وقد خلت من قبلکم سنن کی طرف اشارہ ہے۔ 

امام طبری فرماتے ہیں: ’’البیان‘‘ الشرح والتفسیر عن ابن اسحاق بیان تشریح اور وضاحت کے معنی میں ہے۔ ابن اسحاق کا یہ قول ہے: وأما قولہ ’’وہدی وموعظۃ‘‘ فإنہ یعني ’’الہدی‘‘ الدلالـۃ علی سبیل الحـق ومنہج الدین و ’’بالموعظـۃ‘‘ التذکـرۃ للصواب والرشاد، ہدی اور موعظۃ کے معنی راہ حق کی رہنمائی، درست اور صحیح کی یاددہانی ہے، وعن ابن إسحاق: ’’للمتقین‘‘ أي لمن أطاعني و عرف أمري۔ ابن اسحاق کا قول ہے کہ متقین کے معنی اللہ کی اطاعت کرنے والے اور اس کا حکم ماننے والے ہیں۔

سید قطب فی ظلال القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: ھذا بیان للناس کافۃ، فہو نقلۃ بشریۃ بعیدۃ ما کان الناس ببالغیہا، لولا ہذا البیان الہادي: ولکن طائفۃ خاصۃ ہي التي تجد فیہ الہدی، وتجد فیہ الموعظۃ، وتنقطع بہ وتصل علی ہداہ طائفۃ ’’المتقین‘‘۔ (یہ تمام لوگوں کے لیے وضاحت ہے، اگر یہ ہدایت والی وضاحت نہ ہوتی تو اس دور دراز انسانی منزل تک نہیں پہونچ پاتے، کچھ افراد ایسے ہیں جو اس میں ہدایت پاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو نصیحت کے حقدار ہوتے ہیں۔ اور ان دونوں خوبیوں سے متقیوں کی جماعت سرفراز ہوتی ہے)۔ 

مفردات میں راغب اصفہانی کی تحقیق ہے: البیان: الکشف عن الشئ وہوأعم من النطق، لأن النطق مختص بالإنسان ویسمی ما بین بہ بیانا، قال بعضہم: البیان یکون علی ضربین: أحدہما بالتسخیر، وہو الأشیاء التي تدل علی حال من الأحوال من آثار الصنعۃ، والثاني: بالاختیار، ٰذلک إمایکون نطقا أوکتابۃ، أوإشارۃ۔ (بیان کے اندر کھولنے کی معنی ہیں، یہ نطق سے بھی بڑی چیز ہے، کیونکہ نطق انسان کے ساتھ خاص ہے، ہر واضح چیز کو بیان کہا جاتا ہے۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ بیان کے دو معنی ہیں: ۱۔ تسخیر کے ذریعہ وضاحت (کسی فنکاری کے معنی پائے جائیں)، ۲۔ اختیار کے ذریعہ وضاحت، خواہ وہ نطق ہو یا کتابت ہو یا اشارہ ہو)۔ 

امام نسفیؒ کا بیان ہے : (ہذا) أي القرآن أو ما تقدم ما ذکرہ (بیان للناس وہدی) أي إرشاد (وموعظۃ) ترغیب و ترہیب (للمتقین) عن الشرک۔

قرآن لوگوں کے لیے ایک رہنما ہے، اس میں درست زندگی کے اصول بھی ہیں، خوف و شوق کے مقامات بھی ہیں اور متقیوں کو شرک اور اس کے متعلقات سے باز رکھنے کی ہدایات بھی ہیں۔ 

یہ چند حواشی قرآن ہیں جو بطور نمونہ ذکر کیے گئے ہیں، اس طرح خود سید صاحب کے قلم سے ان کے ذاتی نسخۂ قرآن میں بے شمار تشریحی افادات موجود ہیں، جو قرآن کریم سے استفادہ کرنے والوں کے لیے اور چشم کشا اور بصیرت افروز ہیں۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

 مولانا محمد فرمان ندوی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں معارف رسالہ

 مولانا محمد فرمان ندوی کی اردو کتابیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *