مصنف: اشتیاق احمد ظلی
فلسطین میں یہودی ریاست کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی جب نومبر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے اس مختصر سے اعلامیہ پر دستخط کیا تھا جو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس وقت ارضِ فلسطین میں یہودی آبادی کا تناسب دس فیصد سے کم تھا۔ برطانیہ کا جرم صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ اس نے ایک ایسی سرزمین جس پر اس کا کسی بھی قسم کا استحقاق نہیں تھا، اس کے اصل باشندوں کی خواہش اور مرضی کے خلاف ایک دوسری قوم کو بخش دی بلکہ اپنے مینڈیٹ کے دوران یہودیوں کے اس دیرینہ خواب کو تعبیر آشنا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کی۔ برطانیہ کی ان کوششوں اور بھرپور تعاون کی وجہ سے اگلے بیس برسوں میں اس خطہ میں یہودیوں کی آبادی دس فیصد سے بڑھ کر ستائیس فیصد ہوگئی۔ یہ سلسلہ بالآخر ۱۹۴۸ء میں اسرائیلی ریاست کی تاسیس پر منتج ہوا۔
اسرائیلی ریاست کے عالم وجود میں آنے کی منحوس تاریخ ۱۴؍ مئی ہے۔ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۸ء کے عرصہ میں برطانیہ کی سرپرستی میں اسرائیلی دہشت گردوں کے ذریعہ جنہوں نے انہی کی نگرانی میں تربیت بھی پائی تھی، فلسطینی املاک پر قبضہ اور اپنے وطن سے فلسطینوں کی بے دخلی کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ ۱۹۴۸ء میں جنگ فلسطین کے نتیجہ میں سات لاکھ فلسطینی جلاوطن ہوئے۔
آج ان کی اولاد کئی ملین نفوس پر مشتمل ہے یہ لوگ خطہ کے مختلف ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ وطن کی یاد سے اب بھی ان کے دل کی دنیا آباد ہے اور وہاں واپسی کی امید کا چراغ اب بھی ان کی آنکھوں میں روشن ہے۔ اس وقت قتل و غارت گری اور عرب آبادیوں کے جبری انخلاء اور ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا آج ستر سال کے طویل عرصہ کے بعد بھی اسی شدت اور بے رحمی سے جاری ہے۔ نہ تو اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی آئی اور نہ فلسطینوں کے جذبہ سرفروشی میں۔
۱۴؍ مئی کو اسرائیلی اپنی فتح اور اسرائیلی ریاست کی تشکیل کا جشن مناتے ہیں۔ اس دن کو فلسطینی یوم النکبہ یعنی مصیبت اور بربادی کے دن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ یوم النکبہ مناکر وہ دراصل اس دن کی یاد تازہ کرتے ہیں جس دن اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجہ میں ان کو اپنے وطن عزیز کو چھوڑنا پڑا تھا۔ اس عظیم سانحہ پر ستر سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور اب اس نسل کے لوگ خال خال ہی رہ گئے ہیں جو ان واقعات کے عینی شاہد تھے۔ اس دوران ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل نے فلسطین کے ایک وسیع علاقہ کے ساتھ ساتھ مغربی بیت المقدس پر بھی قبضہ کرلیا اور اس کو اپنا دارالسلطنت بنانے کا اعلان کردیا۔
یہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی صریح خلاف ورزی تھی جس میں بیت المقدس کو ایک عالمی شہر کی حیثیت دی گئی تھی۔ پہلے وقتوں میں کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لیے اور اسے اپنی مملکت میں شامل کرنے کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ کسی کے پاس اتنی فوجی قوت ہو کہ وہ بزورِ طاقت اس پر قبضہ کرلے۔ لیکن اب اگر کوئی بزورِ قوت کسی ملک پر قبضہ کرلے تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق وہ قبضہ ناجائز ہوگا اور اگر وہاں کے اصل باشندوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے تو ان کو واپسی کا حق حاصل ہوگا۔ اسی حق کے تحت فلسطینی وطن واپسی کے حق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ یوم النکبہ منانے کے ساتھ ساتھ وہ حق الرجعہ یعنی واپسی کے حق پر اصرار کرتے ہیں۔
اس کی ایک علامت کے طور پر انہوں نے اپنے گھروں کی چابیاں سنبھال کر رکھی ہیں۔ اب وہاں نہ وہ گھر ہیں اور نہ وہ در اور نہ ان کی مدد سے ان کی قسمت کے بند قفل کھلنے والے ہیں لیکن ان کی یادگار اور ان سے وابستگی کی علامت کے طور پر ان کی نفسیاتی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک غیر معمولی بات یہ ہے کہ وطن سے محبت کے ان گہرے نقوش کو اور اس کی بازیافت کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہنے کے جذبہ کو اپنی نئی نسلوں تک منتقل کرنے میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں بلکہ واقعہ ہے کہ نوجوان نسل کا جذبۂ سرفروشی شاید پہلے سے بھی زیادہ ہے۔
ان مخصوص اسباب کی وجہ سے جن کی بعض تفصیلات ابھی آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی اس سال حق الرجعہ کے سلسلہ میں مظاہروں کا سلسلہ مارچ ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ ۱۴؍ مئی کو اس تحریک کے زیرِ اثر غزہ کی سرحد پر ایک عظیم الشان اور عدیم المثال مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ اس مارچ کو روکنے اور اس تحریک کو کچلنے کے لیے اسرائیل ظلم و ستم کی ہر حد کو پار کرگیا اور نہتے فلسطینی مظاہرین کے خلاف ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا جس کی مثال ظلم و جبر سے بھری ہوئی اس دنیا میں بھی کم ہی ملے گی۔
اس سال یوم النکبہ اور حق الرجعہ کی مناسبت سے اس غیر معمولی مارچ کی ایک علامتی اہمیت اور بھی تھی۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینوں کی املاک اور زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں یہودی بستیوں کی تعمیر کے ذریعہ اس خطہ کے اور خاص طور سے القدس کے زمینی حقائق کو بدلنے کی کوشش تو بہت پہلے سے جاری ہے لیکن اس سال امریکہ کی طرف سے ایک غیر معمولی اقدام نے پوری صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور قبلہ اول پر خطرات کے منڈلاتے ہوئے بادل اور گہرے ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت کے بعد امریکی پالیسیوں میں جو جوہری نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے اثراتِ بد کو پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔
انہیں میں ایک غیرمعمولی حدتک دور رس اہمیت کی حامل تبدیلی کا تعلق القدس سے ہے۔ امریکہ نے کچھ دنوں پہلے اسرائیل میں اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود اس پر عمل درآمد بھی کرلیا۔ اس کے افتتاح کے لیے انہوں نے ۱۴؍ مئی کی تاریخ منتخب کی جس سے فلسطینیوں کی شومیِ قسمت کی ابتدا بھی وابستہ ہے۔ اس پس منظر میں اس سال حق الرجعۃ کے مارچ کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی۔ یہ دراصل مظلوم و مقہور فلسطینیوں کی طرف سے امریکہ کے اس اقدام کا جواب بھی تھا اور سعودی ولی عہد سمیت ان تمام لوگوں اور حکومتوں کا بھی جواب تھا جو ان کو یہ فیصلہ تسلیم کرلینے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ بلاشبہ ایک تاریخی مارچ تھا اور فلسطینیوں کے اس غیر متزلزل عزم کا اظہار و اعلان تھا کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے اس حق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں چاہے اس کے لیے ان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
اپنے گذشتہ تجربوں کی روشنی میں ان کو خوب معلوم تھا کہ اس کے خلاف سفاک اسرائیلی حکمرانوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ چنانچہ ایک طرف امریکی سفارت خانہ میں ایوانکا ٹرمپ اور ان کے سخت گیر یہودی شوہر کی قیادت میں سفارت خانہ کی منتقلی کا جشن منایا جارہا تھا تو دوسری طرف نہتے اور معصوم فلسطینیوں پر اندھا دھند گولیوں کی بارش ہورہی تھی۔ ایسا مجمع کو منتشر کرنے کے لیے نہیں بلکہ جان سے مارنے کے لیے کیا جارہا تھا۔ ہٹلر کے مظالم کا دن رات نوحہ کرنے والے یہ اسرائیلی اس سے بھی زیادہ ظالم، سفاک اور سنگ دل ہیں۔ صرف اس دن ساٹھ نہتے فلسطینی جاں بحق ہوئے اور ۲۷۷۱ زخمی۔ ایک ساتھ ساٹھ گھروں کے چراغ گل ہوگئے۔
زخمیوں میں سے بہت سے بعد میں جان کی بازی ہار گئے ہوں گے اور بہت سے اتنے زخمی ہوں گے کہ زندگی ان کے لیے موت سے بدتر ہوگی۔ بعد کے دنوں میں مقتولین اور مجروحین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مزید براں ادھر گذشتہ کئی دنوں سے اسرائیل غزہ پر مسلسل ہوائی حملے کررہا ہے۔ غزہ میں طبی سہولیات اور ضروری دواؤں کی سخت کمی ہے، جو چند اسپتال کسی طرح کام کررہے ہیں ان کے اوپر کام کا اتنا دباؤ ہے کہ وہ شدید طور پر زخمی ہونے والوں کے لیے بھی وقت نہیں نکال پارہے ہیں، عملاً اس وقت غزہ کا ہر گھر اسپتال بنا ہوا ہے۔
پہلے کے مقابلہ میں اب القدس کی صورت حال میں ایک نہایت بنیادی نوعیت کی تبدیلی آچکی ہے۔ فلسطین کی بازیابی اور قبلہ اول کی حفاظت کے لیےپہلے بھی فلسطینیوں نے ہی اپنی جان کانذرانہ پیش کیا ہے اور اس چراغ کو انہوں نے اب تک اپنے لہو سے روشن رکھا ہے۔ آیندہ بھی یہ فریضہ انہی کو ادا کرنا ہے، البتہ پہلے پورا عالم اسلام اخلاقی طور پر ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ لیکن اب عالم اسلام کا ایک اہم حصہ زندگی اور موت کی اس کشمکش میں ان کے ساتھ نہیں ہے بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہے۔ یہ تبدیلی دبے پاؤں کچھ دنوں پہلے ہی آچکی تھی لیکن یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے روابط کو چھپاتے تھے اور فلسطینی مقاصد کے ساتھ ظاہری طور پر ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے تھے۔
اب ان تکلفات کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اور امریکہ کے علاوہ جس سے ان کے نہایت قدیم اور مستحکم روابط ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات کے سلسلہ میں کسی احتیاط اور پردہ داری کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی۔ اس وقت قبلہ اول شدید خطرات کی زد میں ہے اور عملاً عالم اسلام نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری فلسطینیوں کے اوپر چھوڑ دی ہے، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے ایک اہم حصہ کی کوشش اور خواہش یہ ہے کہ فلسطینی بھی حالات کے ساتھ صلح کرلیں اور ان کے اپنے خیال کے مطابق اس لاحاصل مزاحمت سے دست کش ہوجائیں۔ فلسطین کے حق میں اس وقت صرف ترکی اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم ہے اور بعض اور ممالک بھی کسی حدتک اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مستقبل کے پردے سے اس سلسلہ میں کیاظاہر ہوگا اس کا علم تو صرف عالم الغیب کو ہے۔ لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ عالم اسلام نے قبلہ اول کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں شدید کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔ اگر یہاں نہیں تو بارگاہ رب العزت میں تو ان کو اس کا حساب دیناہی ہوگا۔