مصنف: مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
ادھر ملک میں معصوم اور کمسن لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں،ہر دن کے اخبار میں ایسی شرمناک اور تکلیف دہ خبریں موجود ہوتی ہیں، اخبار کے ایک حصہ میں گزشتہ واقعات پر ملامت ہوتی ہے اور دوسرے حصے میں اسی نوعیت کا تازہ واقعہ ہوتا ہے،افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے واقعات کو بھی تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں، اور مذہب وخاندان کی بنیاد پر ان واقعات کی برائی کو ناپتے ہیں،اس پس منظر میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہے ہیں، مذمتی بیانات آرہے ہیں، اور ایسے واقعات کے سد باب کے لئے تجویزیں پیش کی جارہی ہیں؛لیکن ان سارے بیانات اور احتجاجات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم جڑ اور بنیاد تک پہنچنے کی بجائے صرف اوپر کی سطح پر مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں، اگر کیڑا درخت کی جڑوں کو کھا رہا ہو اور یہ دیکھ کر کہ درخت کے پتے سوکھ رہے ہیں، پتوں پر دوا کا چھڑکاؤ کیا جائے تو کیا اس سے پتوں کو سوکھنے سے روکا جا سکے گااور درخت کی حفاظت کی ہوسکے گی؛ اس لئے ان بنیادی اسباب ومحرکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جو سماج میں ایسے حادثات کو جنم دیتے ہیں۔
جنسی جرائم پر جو چیز نوجوانوں کو ورغلاتی ہے، ان میں سب سے اہم لباس کا مسئلہ ہے، نیم برہنہ لباس جس میں بازو کھلے ہوں، پنڈلیاں کھلی ہوں، سینہ اور پشت کو خاص کر کھلا رکھا گیا ہو، ایک طرح سے بگڑے ہوئے لوگوں کے لئے گناہ کی دعوت ہے، پھر اس کے ساتھ ساتھ چست لباس جس سے سر سے پاؤں تک جسم کا ایک ایک نشیب وفراز نمایاں ہو اور اس نمائش کو دو آتشہ کرنے کیے لئے اونچی ایڑیوں کی چپلیں آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتی ہیں، اور یہ قانون فطرت کے عین مطابق ہے، آپ مٹھائی کو چھپائیں نہیں اور مکھیوں سے شکایت کریں کہ وہ کیوں ان پر ٹوٹ پڑتی ہیں؟ گوشت کا ٹکڑا سرِ راہ پھینک دیں اور پھر کتوں سے امید رکھیں کہ وہ ان کو منہ نہ لگائیں گے، اس سے بڑھ کر بے وقوفی اور کیا ہوگی؟ اس لئے حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہئے کہ اسکول میں پڑھنے والی لڑکیاں، آفسوں میں جاب کرنے والی خواتین اور مارکیٹ میں نکلنے والی عورتیں خاص طور پر ایسا لباس پہنیں جو ڈھیلا ڈھالا اور ساتر ہو، مذہب سے قطع نظر انسانی بنیادوں پر اس طرح کا قانون بنانا چاہئے۔
بعض بزعم خود دانشور خواتین کہتی ہیں کہ ہم اپنے جسم کے آپ مالک ہیں، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہمیں جسم کی نمائش سے منع کرے، ابھی پڑوسی ملک پاکستان میں بھی عورتوں نے اس قسم کے نعرے لگائے، اور اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ لے کر سخت احتجاج کیا، انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ آپ زیادہ سے زیادہ کمرے کی تنہائی میں اپنے جسم کی مالک ہیں؛ کیوں کہ آپ کے جسم کی نمائش سے دوسروں کے اخلاق یا جذبات متأثر نہیں ہوتے؛ لیکن جب آپ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہیں، تو آپ کے اس عمل سے دوسروں کے جذبات بھی متعلق ہو جاتے ہیں؛ اس لئے وہاں صرف آپ اپنی مرضی پرعمل نہیں کر سکتیں، نربھیا واقعہ کے بعد اس حقیر کو ایک موضوع پر منعقد ہونے والے ایک بین مذہبی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، جس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی موجود تھیں، میں نے اپنی گفتگو میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک مشورہ اپنی بہنوں کو دینا چاہتا ہوں کہ وہ ڈھکا چھپا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں؛ تاکہ آوارہ مزاج قسم کے لوگوں کے لئے ان کا لباس جرم کا محرک نہ بن سکے تو کچھ خواتین بہت ناراض ہو کر کھڑی ہو گئیں، اور کہنے لگیں : آپ ملاؤوں کی یہی سوچ ہے کہ مرد تو اپنے جسم کے بارے میں آزاد ہوں اور عورتوں کو پابند کیا جائے، میں نے عرض کیا : ہماری سوچ تو یہ ہے کہ مردوں کو بھی اپنے لحاظ سے ساتر لباس پہننا چاہئے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج کل عموماََ لڑکوں کا لباس لڑکیوں کے مقابلہ میں ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے، اور پورا جسم ڈھکا ہوا ہوتا ہے،زیادہ تر خواتین ہی کے لباس میں اس کی کمی ہوتی ہے،
دوسرے: مرد خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ عورتوں سے مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ ان کا تحفظ کریں، اگر آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس معاملہ میں برابر سمجھتی ہیں تو آپ دوسروں سے اپنے تحفظ کا مطالبہ کیوں کرتی ہیں، اور کیوں مردوں کی زیادتی کا رونا روتی ہیں؟ ہر مرد کی ماں، بیوی، بیٹی اور بہن عورت ہی ہوتی ہے؛ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ اس طرح کا مشورہ دیتے ہیں، وہ عورتوں کے مخالف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہی آپ کے خیر خواہ ہیں۔
شریعت میں اسی لئے ساتر لباس پر زور دیا گیا ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جب حضرت آدم ؑ وحواؑ جنت سے نکالے گئے اور جنت کا لباس ان کے جسم سے اتر گیا تو وہ اپنے جسم کو ڈھکنے لگے؛ حالانکہ وہاں ان دونوں حضرات کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا، اس سے معلوم ہوا کہ برہنگی فطرت انسانی کے خلاف ہے، اورستر پوشی انسان کی فطرت میں داخل ہے، لباس کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ جسم کے چھپانے کے لائق حصوں کو چھپا کر رکھے ’’ یٰبني اٰدم قد انزلنا علیکم لباسا یواري سواٰتکم وریشا (اعراف: ۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہت سی عورتیں یوں تو لباس میں ہوں گی؛ لیکن وہ بے لباس ہونے کے درجہ میں ہوں گی، جو خود دوسروں سے آشنائی کریں گی، اور دوسروں کو اپنا آشنا بنانے کی کوشش کریں گی، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی؛ بلکہ اس کی خوشبو بھی نہیں پا سکیں گی؛ حالاں کہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلہ سے سونگھی جا سکتی ہے: نساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات (بیہقی فی شعب الایمان عن ابی ھریرہ، حدیث نمبر: ۷۴۱۳)
عورتوں کی طرف مردوں کا میلان عورتوں کا عیب نہیں ہے؛ بلکہ یہ وہ غیر معمولی کشش ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھی ہے، مردوں میں ایسی کشش نہیں رکھی گئی ہے؛ اس لئے عورتوں کا لباس زیادہ ڈھکا چھپا اور محتاط ہونا چاہئے؛تاکہ وہ آوارہ طبیعت مردوں کے شرور سے محفوظ رہ سکیں، جو لوگ عورتوں کے لئے ساتر لباس کی بات کرتے ہیں، وہی ان کے حقیقی خیر خواہ ہیں، اور جو لوگ عورتوں کی عریانیت کی وکالت کرتے ہیں، وہ حقیقت میں عورتوں کے دشمن ہیں، اور چاہتے ہیں کہ عورتیں مردوں کا کھلونا اور ان کی ہوس کی تکمیل کا ذریعہ بنتی رہیں۔
دوسری ضروری چیز مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکنا ہے، آج کل آزادئ نسواں کے نام پر مخلوط ماحول کو ترقی کی علامت سمجھ لیا گیا ہے،اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں شروع سے لے کر آخر تک تمام تعلیمی مراحل میں مخلوط نظام رکھا جاتا ہے؛ حالاں کہ میڈل اسکول کے بعد سے لے کر یونیورسٹیوں کے مرحلہ تک طلبہ وطالبات کی جو عمر ہوتی ہے، وہی عنفوان شباب کی عمر ہے، جس میں بہکنے اور بگڑنے کے کافی اندیشے ہوتے ہیں، پھر کاروباری اور سرکاری اداروں کے دفاتر میں بھی یہی مخلوط ماحول ہوتا ہے،حد تو یہ ہے کہ پہلے خواتین کو نائٹ ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا؛ لیکن اب یہ پابندی بھی ختم کردی گئی، رات گئے جو کال سینٹر مغربی ملکوں کے اوقات کے لحاظ سے چلتے ہیں، ان میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترک ڈیوٹی ہوتی ہے، ملازمین کو آفس تک لانے اور لے جانے کی گاڑیاں ہوتی ہیں، ان میں بھی مردو عورت ملازمین ایک ساتھ جاتے ہیں، ہر ہر مرحلہ پر مردوں اور عورتوں کا یہ اختلاط اخلاقی اقدار کے لئے سمِّ قاتل ہے، اور اس صورت حال کو برقرار کھتے ہوئے پاکیزہ ماحول کی امید رکھنا فطرت کے خلاف ہے، اگر آپ ایک ہی جگہ پٹرول بھی رکھیں اور آگ بھی اور امید رکھیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بے تعلق رہیں گے تو اس سے بڑی بھول اور کیا ہوگی؟افسوس کہ جو لوگ مادی معاملات میں ایسے مواقع سے بچتے ہیں اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں، وہی دینی اور اخلاقی معاملات میں اس اصول کو خاطر میں نہیں لاتے ۔
اسلام نے قدم قدم پر جوان غیر محرم مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کو روکنے کا نظام رکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات تمام امت کی مائیں تھیں، ان سے متعلق دل میں کوئی نازیبا خیال لانا بھی ناقابل تصور تھا، پھر بھی قرآن مجید نے صحابہ کو تاکید کی کہ اگر تم کو ان سے کوئی سامان مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو: اذا سألتموھن متاعاََ فاسألوھن من وراء حجاب (احزاب: ۵۳) مسجد عبادت کی جگہ ہے جہاں لوگوں کے دل ودماغ میں پاکیزگی کا غلبہ ہوتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خواتین مسجد میں نماز ادا کیا کرتی تھیں؛ تاکہ اللہ کی طرف سے جو نئے احکام آئیں، اسے وہ بھی وہ سن سکیں، نیز وہ اخلاقی بلندی کے اوج کمال کا زمانہ تھا، پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاط کے مواقع کو روکنے کی پوری رعایت فرمائی، خواتین کے لئے مسجد میں داخل ہونے کا دروازہ متعین کر دیا اور اس دروازہ سے مردوں کی آمدو رفت کو منع کر دیا گیا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک دروازہ کے بارے میں فرمایا کہ ہم اسے عورتوں کے لئے چھوڑ دیں، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے شاگرد نافعؒ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اپنی وفات تک حضرت عبداللہ بن عمرؓ کبھی اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے: لو ترکنا ھذا الباب للنساء ( سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۴۸۴)
اسی طرح مردوں کی صف آگے رکھی گئی اور خواتین کی پیچھے ؛ بلکہ عورتوں کے لئے آخری صف کو سب سے بہتر صف قرار دیاگیا: خیر صفوف النساء آخرھا، ( مسلم، حدیث نمبر: ۶۶۴) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہر جاتے، اس وقفہ میں خواتین اُٹھ جاتیں، حدیث کے راوی ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ میرے خیال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ٹھہرنا اس لئے ہوتا تھا کہ مردوں کے آنے سے پہلے خواتین نکل جائیں، (بخاری، حدیث نمبر: ۷۹۳، ابو داؤد، حدیث نمبر: ۸۷۶)ایک بار ایسا ہوا کہ راستے میں گزرنے والے مردوں اور عورتوں کا مجمع خلط ملط ہو گیا تو آپ نے خواتین سے فرمایا کہ وہ ٹھہر جائیں اور بیچ راستہ سے چلنے کے بجائے کنارے کنارے چلیں، استأخرن ………علیکن بحافات الطریق ( ابوداؤد، حدیث نمبر: ۵۲۷۲)
فقہاء نے بھی قدم قدم پر اس کا خیال رکھا ہے، مشہور حنفی فقیہ علامہ سرخسیؒ نے لکھا ہے کہ قاضی کو چاہئے کہ عورتوں کے لئے الگ پیشی رکھے اور مردوں کے لئے الگ؛ تاکہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی نوبت نہ آئے، وینبغي للقاضي أن یقدم النساء علی حدۃ والرجال علی حدۃ الخ (مبسوط: ۱۶؍۸) فقہ مالکی کی کتاب ’’الفواکہ الدوانی‘‘ میں ہے کہ ولیمہ میں شرکت اسی وقت جائز ہے جب کہ وہاں کھلے طور پر خلاف شرع عمل جیسے مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو، ولا منکرین أي: مشھور ظاہر کاختلاط الرجال بالنساء ( رسالۃ القیروانی مع شرحہ، ۲؍۳۲۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں پر جمعہ نہیں ہے، امام ابو اسحاق شیرازی شافعی نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اگر عورتیں جمعہ میں شریک ہوں تو مردوں اور عورتوں کا اختلاط پیدا ہوگا، ولأنھا تختلط بالرجل وذلک لا یجوز (المہذب مع المجموع: ۴؍۳۵۰)اسی لئے خواتین کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکا گیا کہ اگر وہ جلوس جنازہ میں شریک ہوں تو اختلاط کی نوبت آئے گی: فلو حملھا النساء لکان ذلک ذریعۃ الیٰ اختلاطھن بالرجال ( فتح الباری: ۳؍۱۸۲) مشہور حنبلی فقیہ علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ حکمراں پر یہ بات ضروری ہے کہ وہ بازاروں میں، راستوں میں اور مجمعوں میں مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکے،:وليّ الأمر یجب علیہ أن یمنع اختلاط الرجال بالنساء فی الأسواق والفرج ومجامع الرجال الخ ( الطرق الحکمیۃ: ۲۳۷)
اس لئے حکومت کو چاہئے کہ جیسے ہاسپٹل میں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ وارڈ ہیں، ریلوے اسٹیشنوں پر الگ الگ ویٹنگ روم ہیں، اسی طرح مڈل اسکول کے بعد تعلیم کے تمام مراحل میں طلبہ اور طالبات کے لئے جداگانہ نظام تعلیم ہو، مردوں اور عورتوں کے مشترکہ کاموں جیسے بینک وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ کاؤنٹر رکھے جائیں، بسوں میں عورتوں کے لئے محفوظ سیٹیں ہوں، خواتین کو نائٹ ڈیوٹی سے منع کیا جائے، اگر اس طرح تعلیم، ملازمت، مارکیٹ وغیرہ کے لئے غیر مخلوط نظام قائم کر دیا جائے تو یہ نہ صرف عورتوں کے تحفظ کے لئے مفید ہوگا؛ بلکہ ان کے لئے ملازمت کے کثیر مواقع بھی مہیا ہوں گے، اور وہ دباؤ اور ذہنی تناؤ سے بچتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سکیں گی۔(جاری)
تیسرا ضروری اور اہم کام یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو روکا جائے، جو بے حیائی پر اُکساتی ہیں، اسلامی نقطۂ نظر سے تو موجودہ دورکی مروجہ تقریباََ تمام ہی فلمیں ناجائز ہیں؛ کیوں کہ بظاہر کوئی فلم پیارو محبت کے مناظر، خواتین کے کردار ،ماردھاڑ اورقتل وخون کی عکس بندی سے خالی نہیں ہوتی ، یہ فلمیں جرم کے لئے تحریک پیدا کرتی ہیں، فلمیں دیکھ کر لوگ زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے ہیں، فلمی منظر کی نقل کرتے ہوئے بچے اپنے ساتھیوں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیتے ہیں، فلموں سے متأثر ہو کر خود کشی کے واقعات پیش آتے ہیں، یہ ساری باتیں وہ ہیں جو شب وروز اخبار میں آتی رہتی ہیں، جو فلمیں پہلے پردۂ سیمیں پر آتی تھیں، اب سوشل میڈیا کے ذریعہ گھر گھر پہنچ رہی ہیں؛ بلکہ اب اس کے لئے گھر کی وسعت بھی مطلوب نہیں ہے، شرٹ کی ایک جیب کافی ہے، اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسا ہیجان انگیز مواد سماج کے ایک ایک فرد تک پہونچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ٹاکز میں بیٹھ کر دیکھی جانے والی فلمیں اس کی گندگی پر سو بار نثار ہو جائیں۔
اس لئے حکومت کو چاہئے کہ فلم کے قوانین کو سخت بنائے؛ تاکہ فحش فلمیں سنسر بورڑ سے پاس نہ ہو سکیں، بالغوں کے لئے بنائی جانے والی خصوصی فلموں پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے؛ کیوں کہ جب یہ فلمیں منظر عام پر آتی ہیں تو بظاہر بالغ ونابالغ کی حدیں برقرار نہیں رہ پاتی ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا پر عریاں اور فحش فلموں کو مکمل طور پر بلاک کردیا جائے؛ تاکہ لوگوں کی ان مناظر تک رسائی نہ ہو سکے، یہ فحش فلمیں نہ صرف اخلاقی پہلو سے معاشرہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں؛ بلکہ صحت کے لئے بھی مضر ہیں، اور طلبہ کی تعلیمی اُمنگوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔
میں نے یہ بات انسانی نقطۂ نظر سے کہی ہے اگر کوئی ایسا ملک ہو جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور وہاں شرعی قوانین نافذ ہوں تو ایسی جگہ کے لئے تو اور بھی سخت معیار اختیار کرنا ہوگا،؛لیکن بہر حال اسلام کی نظر میں حیا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہاں تک کہ آپ نے اس کو اعمال کا نہیں ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے: الحیاء شعبۃ من الایمان (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب امور الایمان، حدیث نمبر: ۹) حضرت انسؓ سے آپ کا ارشاد منقول ہے کہ جس چیز میں بھی بے حیائی ہو وہ اسے خراب کر دیتی ہے، اور جس چیز میں بھی حیاء ہو، وہ اُ سے خوبصورت بنا دیتی ہے:’’ ماکان الفحش في شئی قط الا شانہ ولا کان الحیاء في شئی قط الا زانہ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان، حدیث نمبر: ۷۳۲۷) جب تک حکومت ایسی فلموں پر پابندی عائد نہیں کرتی، جرائم کو روکنے کی ہزار تدبیریں کرلی جائیں،کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
چوتھی ضروری تدبیر یہ ہے کہ سماج کی اخلاقی تربیت پر توجہ دی جائے، بدقسمتی سے سیکولرزم کے نام پر تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے، انسان کے مزاج کو صحیح راستہ پر قائم رکھنے میں تعلیم کا بڑا حصہ ہے، تعلیم کے ذریعہ انسان کی سوچ بنتی ہے، فکر صحیح ہوتی ہے، اور مثبت تبدیلی آتی ہے؛ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری تعلیمی اداروں میں ابتداء سے لے کر دسویں جماعت تک اخلاقی تعلیم کو لازمی جزء بنایا جائے، اور اس میں کامیابی کو امتحان میں کامیابی کے لئے ضروری تسلیم کیا جائے، اخلاقیات کی تعلیم او ر اخلاقی تربیت سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک ایک طرف تعلیم میں آگے بڑھ رہا ہے، انفارمیشن ٹکنالوجی میں پوری دنیا کو ہم افرادی وسائل مہیا کرتے ہیں، ہمارے تیار کئے ہوئے ہنر مند فنی مہارت کی وجہ سے پوری دنیا میں بہترین مزدور مانے جاتے ہیں؛ لیکن دوسری طرف جرائم کی کثرت کے اعتبار سے ہمارا ملک پوری دنیا میں بدنام ہے، اور ہمارا شمار ایسے ملکوں میں ہے جہاں سب سے زیادہ جرائم پیش آتے ہیں،یہاں تک کہ اس شہرت کی وجہ سے ہمارے ملک میں بمقابلہ دوسرے ملکوں کے سیاح کم آتے ہیں؛ حالاں کہ ہمارے یہاں تاریخی مآثر بڑی مقدار میں ہیں اور خوبصورت فطری مناظر کی بھی کمی نہیں ہے۔
اسی لئے شریعت میں بچوں کی تربیت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی باپ اپنے بیٹے کو بہتر تربیت سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیتا ’’ مانحل والد ولداََ من نحل أفضل من أدب حسن‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر:۱۹۵۲) اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹے کی تربیت کرے ،یہ ایک صاع یعنی تقریباََ پونے چار کلو گیہوں صدقہ کرنے سے بڑھ کر ہے ’’ لأن یؤدب الرجل ولدہ خیر من أن یتصدق بصاع‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۵۱)
حدیث میں اگرچہ تربیت کی ذمہ داری والدین پر رکھی گئی ہے؛ لیکن موجودہ تعلیمی نظام کے تحت اسکول اور اساتذہ ہی والدین کا کردار ادا رکرتے ہیں؛ کیوں کہ ۲۴؍ گھنٹوں میں سے زیادہ تروقت اسکول ہی کی فضاء میں گزرتا ہے؛ اس لئے ایک طرف والدین کو گھروں میں بچوں کی تربیت کرنی چاہئے اور ان کے اوقات پر نظر رکھنی چاہئے کہ ان کا وقت کہاں گزر تا ہے، وہ کن لوگوں کی صحبت میں رہتا ہے، اور کن لوگوں کے یہاں اس کی آمدورفت ہے؟ دوسری طرف اسکول میں اساتذہ اخلاقی مضامین پڑھائیں اور اسے بچوں کے ذہن میں بٹھائیں، تو یہ دو طرفہ تربیت ان شاء اللہ بچوں کو بگڑنے سے بچائے رکھے گی۔
اخلاقی تعلیم کے لئے ضروری ہے کہ حکومت یا تعلیمی ادارے ایک ایسا نصاب مرتب کریں، جس میں اخلاقی فضائل کی ترغیب دی جائے، اخلاقی برائیوں کی قباحتیں سمجھائی جائیں، ہر مضمون کے لئے مذہبی کتابوں اور پیشواؤں کے فرمودات نقل کئے جائیں، اور موضوع کی مناسبت سے مؤثر واقعات ذکر کئے جائیں، اس طرح ہم ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے، جس میں شروم حیاء ہو، بڑوں کی بات ماننے کا جذبہ ہو اور وہ اپنی رضامندی سے گناہوں سے دور رہنے والے ہوں۔
پانچویں ضروری تدبیر یہ ہے کہ ایسے مجرمین کے لئے جسمانی سزا رکھی جائے، اور یہ سزا علی الاعلان دی جائے، اسلام نے غیر شادی شدہ مردو عورت کے لئے زنا کی سزا ۱۰۰؍کوڑے رکھی ہے، (النور:۲) اور شادی شدہ مردوعورت کے لئے سنگ سار کرنے کی سزا مقرر کی ہے، جس کا ذکر صحیح ومعتبر احادیث میں آیا ہے، (صحیح البخاری، باب رجم المحصن، حدیث نمبر: ۶۸۱۴) نیز یہ دونوں سزائیں علی الاعلان دیے جانے کا حکم ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ سزائیں عام مجمع میں نافذ کی گئی ہیں، (صحیح مسلم، کتاب الحدود، حدیث نمبر: ۱۶۹۵۔السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۶۹۶۳)؛ کیوں کہ جو سزا بر سرعام دی جاتی ہے، وہ لوگوں کے لئے تازیانۂ عبرت بنتی ہے، اور جو سزا تنہائی میں دی جاتی ہے، اور لوگ اسے چشم عبرت سے نہیں دیکھ پاتے تو اس کا اثر کم ہوتا ہے، اسی طرح جرائم کو روکنے میں جسمانی سزائیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں، جن ملکوں میں شرعی قوانین نافذ کئے گئے، وہاں عملی طور پر یہ بات دیکھی گئی کہ جسمانی سزا کے جاری ہوتے ہی جرائم کی شرح بہت ہی کم ہو گئی۔
موجودہ حالات میں زنا بالجبر کے مجرم کے لئے سخت سزا کا مطالبہ کیا جارہا ہے؛ لیکن یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اگر جرم کے محرکات کو سماج میں باقی رکھا جائے، ان اسباب کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے، جو جرم پر اُکساتے ہیں اور سزائیں سخت دی جائیں، تو یہ انصاف ہے، نہیں ظلم ہے؛ اس لئے پہلے جرم پر اُکسانے والے عوامل کا راستہ بند کرنا چاہئے، پھر سخت سے سخت سزا مقرر کرنی چاہئے، جس معاشرہ میں گناہ کی طرف دعوت دینے والی فلمیں حکومت کی اجازت سے دکھائی جاتی ہوں، قدم قدم پر گناہ پر اُکسانے والے اشتہارات آویزاں ہوں، مارکیٹ میں فحش لٹریچر کا سیلاب ہو اور ہر طرف نیم عریانیت کا بازار گرم ہو، وہاں جرم کے مرتکب کو پھانسی کی سزا دینا شاید جرم سے متأثر ہونے والی عورت کے لئے تو انصاف ہو؛مگرجرم کا ارتکاب کرنے والے مرد کے ساتھ یہ ایک درجہ ناانصافی ہے۔
چٹھی ضروری تدبیر نشہ بندی کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانا ہے، نشہ صرف ایک برائی نہیں ہے؛ بلکہ بہت سی برائیوں کی جڑ بھی ہے؛ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ام الخبائث کا نام دیا ہے، (سنن نسائی، کتاب الاشربہ، حدیث نمبر: ۵۶۶۷) عصمت وعفت پر حملہ کا مسئلہ نشہ سے جڑا ہوا ہے؛ کیوں کہ نشہ میں مبتلا لوگ بے قابو ہو جاتے ہیں اور ماحول کی پرواہ کئے بغیر مجرمانہ حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ہوائی جہاز میں ائیرہوسٹس اور خود خاتون پیسنجر پر دست درازی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں؛ بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، اس کو نشہ پلا کر بے شعور اور بے بس بنا دیا جاتا ہے، اور پھر اس کے ساتھ نہ صرف جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛ بلکہ اس کی عکس بندی بھی کی جاتی ہے، پہلے اس طرح کی خبریں شاذونادر پڑھنے میں آتی تھیں اور حیرت واستعجاب کی آنکھوں پڑھی جاتی تھیں؛ لیکن اب آئے دن اخبارات میں اس طرح کی باتیں آتیں رہتی ہیں۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی جو عمر ہوتی ہیں، یہ کچی اور ناپختہ عمر ہوتی ہیں، اب بد قسمتی سے تعلیمی اداروں میں منشیات کی رسائی بہت بڑھ گئی ہے، اور اس کی وجہ سے تعلیمی مراکز میں جرائم کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے، تعلیم کی وجہ سے جرائم کو کم ہونا چاہئے؛ لیکن نتیجہ اس کے برعکس سامنے آرہا ہے، دستور ہند میں جو رہنما اصول دیے گئے ہیں، ان میں ایک نشہ بندی بھی ہے؛ لیکن اس وقت صرف دو ہی ریاستیں ہیں، جن میں عملی طور پر اس کو نافذ کیا گیا ہے، ایک: بہار، دوسرے: گجرات، شراب کی خریدو فروخت کی اجازت میں تین گروہوں کامادی فائدہ ہے، ایک شراب بیچنے والوں کا، جن کو اس سے کثیر آمدنی حاصل ہوتی ہے، دوسرے: حکومت کا جو شراب فروشوں سے بھاری ٹیکس حاصل کرتی ہے، تیسرے: ان لوگوں کا جن کے لئے شراب ایک لت بن چکی ہے؛ لیکن نوے فیصد سے زیادہ عوام کا مفاد شراب بندی میں ہے، شراب بندی کے ذریعہ عورتوں پر مظالم کو روکا جا سکتا ہے، سماج کو فضول خرچی سے بچایا جا سکتا ہے، شراب بیچنے والوں کو ان حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کیا جا سکتا ہے، جو خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے ان پر لازم ہے، اور قتل وزنا جیسے جرائم کو روکنے میں بھی اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے تو شراب نوشی بہت ہی بڑا جرم ہے، اور اس کے لئے بعض فقہاء کے یہاں ۴۰؍ اور بعض کے یہاں ۸۰؍ کوڑے کی سزا مقرر ہے؛ لیکن خالص انسانی نقطۂ نظر سے بھی یہ مسئلہ نہایت قابل توجہ ہے، اور جائزہ لیا جائے تو بہت سے جرائم کے پیچھے اس کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
ساتویں قابل توجہ بات یہ ہے کہ حکومت نے نکاح کی جو کم ترین عمر مقرر کی ہے، یعنی لڑکیوں کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکوں کے لئے اکیس سال، اس پر غور مکررکرنا چاہئے، لڑکے اور لڑکیاں عموماََ پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں، اسلام نے اگرچہ نابالغی میں نکاح کی ترغیب نہیں دی ہے؛ لیکن اس کی گنجائش رکھی ہے؛ لیکن بالغ ہونے کے بعد تو نکاح میں عجلت کا حکم دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ تم میں سے جس کے اندر بیوی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو اسے نکاح کر لینا چاہئے؛ کیوں کہ نکاح انسان کو بدنگاہی اور زنا سے بچاتا ہے: ’’ فانہ أغض للبصر وأحسن للفرج ‘‘ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، حدیث نمبر: ۵۰۶۶)
یہ تو شریعت اسلامی کا نقطۂ نظرہے، جس کا ہم مسلمانوں کے لئے مطالبہ کرتے ہیں، تمام قوموں کے لئے نہیں؛ لیکن انسانی بھلائی اور جرائم پر قابو پانے کے نقطۂ نظر سے حکومت کو چاہئے کہ بلوغ کے بعد نکاح میں رکاوٹ پیدا نہ کرے، یہ معاشرہ کے مفاد میں ہے، اس سے نوجوانوں کے بھٹکنے اور بہکنے کا امکان کافی کم ہو جاتا ہے، اگر جرائم کے اعدادو شمار دیکھے جائیں تو ۱۵؍سال سے ۲۰؍سال کی عمر کے لڑکے لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد اس کی مرتکب ہوتی ہے، پھر یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے جائز تعلق کے لئے سولہ سال کی عمر کو معیار مانا گیا ہے، گویا اگر باہمی رضامندی سے ۱۶؍سال کے لڑکے اور لڑکی بغیر نکاح کے تعلق قائم کریں تو قانون اس میں رکاوٹ نہیں بنتا؛ لیکن اگر اسی عمر میں وہ آپس میں نکاح کے ذریعہ مربوط ہونا چاہیں تو قانون اس سے منع کرتا ہے؛ اگرچہ کہ اب جو تعلیمی رجحان معاشرہ میں پیدا ہو ا ہے، اس کے تحت کم عمری میں نکاح کے واقعات خود ہی کم ہو گئے ہیں؛ لیکن اخلاقی نقطۂ نظر سے اگر والدین یا خود عاقدین نکاح کی ضرورت محسوس کریں اور ان کے لئے یہ راستہ کھول دیا جائے تو یقیناََ یہ بہت ہی بہتر عمل ہوگا۔
شریعت اسلامی صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے، وہ پوری انسانیت کو فلاح وبہبودی کا راستہ دکھاتی ہے؛ لیکن چوں کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں، ہم نے یہاں کے دستور کو قبول کیا ہے، اور یہ بات تسلیم کی ہے کہ نجی زندگی میں ہر شہری کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے، اور دوسرے معاملات میں حکومت کے بنائے ہوئے قوانین پر سب کو قائم رہنا ہے، جن میں جرائم اور ان کی سزائیں بھی شامل ہیں؛ اس لئے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں قانون شریعت کو نافذ کیا جائے؛ لیکن ملک کی بہی خواہی اور اس سے محبت کے جذبہ سے یہ بات عرض ہے کہ جرم کو روکنے کے لئے سخت سزائیں کافی نہیں ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ جرائم پر اُکسانے والے محرکات کا سد باب کیا جائے، اور اس سلسلہ میں اسلام کی معقول، فطرت سے ہم آہنگ اور انسانی ضرورتوں اورمصلحتوں کی رعایت سے بھر پور تعلیمات سے روشنی حاصل کی جائے، اور گاندھی جی کی اس بات کو سامنے رکھا جائے کہ آزادی حاصل ہونے کے بعد ملک کو ابو بکر وعمرؓ کے طرز حکمرانی کو اختیار کرنا چاہئے۔