مصنف: مولانا شاہ عالم گورکھپوری
دین اسلام میں باطل فرقوں اور اسلام مخالف فتنوں کے خلاف سینہ سپر رہنے والے خدا رسیدہ بزرگوں کی تاریخ بڑی طویل و تابناک ہے ۔ بقول شاعر :
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
لیکن چند بزرگوں کو چھوڑ کر بیشتر کے حالات میں خاص اس زاویہ سے اُن پر بہت کم لکھاگیا ہے۔ فقہ ، حدیث ، سیاسیات و سماجیات وغیرہ شعبہائے زندگی کے مختلف خانوں میں اُن شخصیات کا تفصیلی ذکر ملتا ہے لیکن احقاق حق و ابطال باطل کے زاویہ سے صرف چند سطروں پر اکتفا کرلیا جاتا ہے اور بس !جبکہ ان کی مجموعی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عقائد ونظریات کی حفاظت میں وہ لوگ سرحد کے بے مثل وجانباز سپاہی تھے ان کی حیات مستعار کے قیمتی لمحات اسی کار خیر کے لیے وقف تھے ۔ان کی بے لوث قربانیوں کا ہی فیض ہے کہ آج اسلامی عقائد کی سر حدیں باطل قوتوں اور فتنوں کی یلغار سے کلی طور پرمحفوظ ہیں جن کی بدولت مسلمان اپنے اصلی شکل وشباہت میں موجود ہے ۔
حضرت مولانا محمد علی مونگیری ، حضرت علامہ انورشاہ کشمیری، حضرت مولانا مرتضی حسن چاند پوری، مفتی کفایت اﷲ صاحب دہلوی، حضرت مولانا محمد مسلم صاب دیوبندی ،حضرت مولانا مفتی عبد الغنی صاحب شاہجہاں پوری،حضرت علامہ نور محمد ٹانڈوی علیہم الرحمۃ جیسے بیشمار اہل علم اسلامی عقائد کے اُن سرحدی محافظین میں سے ہیں جن کو لگتا یہ ہے کہ شاید اﷲ تعالیٰ نے پیدا ہی اسی خدمت کے لیے کیا تھا۔ انھیں اس دنیا کو چھوڑے بہت زیادہ دن ابھی نہیں گذرے ، ابھی کتنے لوگ ہیں کہ اِن بزرگوں کا نام لیتے ہی ان کی مقبول خاص وعام کتابوں کی ثناخوانی میں مصروف ہوجاتے ہیں ، اہل علم کا بڑا طبقہ ان کی تصنیفات سے استفادہ کا معترف بلکہ دل سے دعاء گو نظر آتا ہے ، لیکن یہ حقیقت بھی بجا ہے کہ تحفظ ایمان و عقائد کے حوالے سے ان کی شخصیت کے تعارف میں عام طور پر ہمارے درمیان وہ گرم بازاری نہیں دیکھی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں ۔کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کوئی بڑی شخصیت یا تنظیم یا ادارہ تحفظ ایمان و عقائد کے حوالے سے ان شخصیات کے نام پر کوئی یادگاری کام کرتا ہو یا نئی نسل میں اس فکر و فن کو فروغ دینے کے لیے ان بزرگوں کے نام پر کوئی انعام یا ایوارڈ دیاجاتا ہو۔
یہ سو فیصد کھری بات ہے کہ نام و نمود کے لیے نہ انھوں نے کام کیا اور نہ اس دنیائے دُوں سے کبھی ان کا دامن آلودہ ہوا بلکہ ان کی سادہ دلی اور بے نفسی اس حقیقت کی شاہد عدل ہے کہ دنیا والوں کی داد وستائش کا واہمہ بھی کبھی ان کے دل و دماغ میں نہ گذرا ہوگا۔ لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگرتحفظ ایمان وعقائد کے زاویہ سے اپنے عظیم سپوتوں کو یونہی بھلا دیئے جانے کے لیے چھوڑ دیاگیا تو آئندہ نسلوں میں اس قسم کے بہادر کہاں سے اور کیسے پیدا کیے جائیں گے؟ مائیں گود کے بچوں کو بڑے بڑے بہادروں کے قصے سنایا کرتی ہیں تاکہ بچے میں بڑا ہوکر بہادر بننے کی لگن پیدا ہو ، بھائی لوگ فقہاء اور محدثین کی عظمتوں کو روزانہ سلام کرتے ہیں تاکہ قوم کے بچو ں میں اس نیک روش پر چلنے کے جذبات بیدار ہوں؛ملکی سرحد کو تحفظ فراہم کرنے والے جوانوں اور سائنسی ایجادات میں پہل کرنے والی شخصیات کے نام اُن کے قدر داں، نہ معلوم کتنی یادگاریں قائم کرتے ہیں تاکہ قوم میں ان کے نقش قدم پر چلنے والے جیالے پیدا ہوتے رہیں تو کیا اسلامی عقائدکی سرحدپر محافظین پیدا کرنے کی غرض سے ایسی شخصیات کو اپنے شب وروز کی گرم بازاری میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے کہ جن کی قربانیوں کے دم قدم سے مسلمان آج مسلمان ہیں؟
اس شکایت و حکایت کے ما بین انصاف کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو کوشش یہ کی جانی چاہئے کہ اپنے بزرگوں کی اُن خدمات کو جو تحفظ ایمان و عقائد سے متعلق ہوںیا بزرگوں میں اُن شخصیات کو جن کی خدمات تحفظ عقائد سے متعلق ہوں اپنے درمیان کچھ ایسی اہمیت دی جائے کہ نسل نو کا ہر فرد عقائد کی سر حد کا کمر بند سپاہی بننے کو زندگی کا لازمہ سمجھے اورماحولیاتی اثرات قبول کرتے ہوئے خود کو رضاکارانہ طور پر اس خدمت کے لیے تیار کرے ۔ حق تو یہ ہے کہ ہر طالب علم اس علم و فن کو اوّلیت دے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم اتنا تو کرے کہ اس کو پس پشت تو نہ ڈالے ۔آئے دن نئے نئے فتنوں کی پیداواراور اُن سے ہم آہنگ زمانہ کی رفتار سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اگر اس میں یونہی بے اعتنائی برتی جاتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ بہت جلد ارتدادی طاقتیں ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھانے میں دلیر ہوتی چلی جائیں گی۔ اس باب میں کوتاہی اور حددرجہ بے اعتنائی دیکھتے ہوئے راقم سطور اپنی کم علمی کے سبب یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کر سکتا کہ کسی موضوع پر اس موضوع کو اوّلیت دی جائے لیکن اگر کوئی اسے پس پشت ڈالتا یا ثانوی درجہ دیتا ہے تو اس سے اس موضوع کی حق تلفی کرنے کی شکایت سے باز بھی نہیں رہ سکتا ۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تحفظ عقائد کی خدمات کو ’’ منفی ‘‘ پہلو سے تعبیر کرتے ہیںیعنی اُن کی مہذب دنیامیںیہ مکروہ اور لائق احتراز پہلو ہے کیوں کہ اُن کے فکر و خیال میں اس خدمت کا تعلق صرف کسی فتنہ کے رد و انکار سے ہے اور بس !اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو اس وقت سامنے آتا ہے کہ جب اس سے متأثر ہوکر بعض لوگ اس زاویہ سے اپنے بزرگوں کا تعارف کراتے ہوئے کتراتے ہیں اُن دانشوروں کو یہ باور کرانا مشکل ہوتا ہے کہ عقائدکے تحفظ کی پاکیزہ خدمت ،محض ہنگامہ آرائی کرنے یا لاٹھی لے کر فتنوں کے پیچھے صرف دوڑنے کا نام نہیں اور نہ ہی تحفظ عقائد کا انحصارکسی فتنہ کے رد اور تعاقب پر ہے ، خدا معلوم کس جاہل سے سبق پڑھ کر اس قسم کے تأثرات قائم کر لیے جاتے ہیں ۔
ایسے میں یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ :
ہماری نظروں میں آؤ تو ہم دکھا ئیں تمھیں
خطا تمہاری کہ تم بھی کہو کہ ہاں ! کچھ ہے
حقیقت یہ ہے کہ تحفظ عقائد کا باب بہت وسیع ہے کہ بفرض محال اگر ہمارے درمیان ، قادیانیت ، بابیت و بہائیت ، شیعیت ، وغیرہ فتنے نہ بھی پائے جائیں پھر بھی بحیثیت مسلمان ہونے کے ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اسلامی عقائد کو جاننے سمجھنے ، اور اس کے تحفظ میں ہمہ وقت چوکسی برتنے میں بیدار رہے ۔ اس باب میں غفلت کا کہیں سے کہیں تک گذر تو دُور تصور بھی نہیں ہونا چاہئے، فتنے ہمارے مقابل نہ بھی ہوں تب بھی مطلق غفلت بھی اس باب میں جرم عظیم ہے ۔چہ جائے کہ ’’منفی پہلو ‘‘ کہہ کر اس کی حیثیت کم کی جائے یا کسی غیر معتدل تنقیدو تبصرے سے متأثر ہوا جائے ۔اس باب میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے جو فضائل وارد ہیں مسلمانوں کی نظر اُن فضائل پر ہونی چاہئے نہ کہ کسی کے بے سرو پا فکر وخیال پر اور جب پختہ فکر بالغ نظر اہل علم نے عقائد و ایمان کے تحفظ میں زندگیاں کھپانے والوں کو ’’ متکلم ‘‘ کا نام دیا ہے اور ہمہ جہت ان کی افادیت تسلیم کی ہے تو نابالغ فکروں کے پروپیگنڈے سے متأثر ہونے کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ذرا سوچئے تو سہی کہ اسلامی عقائد کی سرحدوں کو تحفظ فراہم کرنے والے مخلص ومجاہد علمائے کرام اورمتکلمین اگر نہ رہے یا کمزور پڑ گئے تو ناک اور نزلے کی دوا بیچنے والے طبیبوں سے ملک کی حفاظت نہیں ہوا کرتی ۔
ممکن ہے کہ ’’منفی پہلو ‘‘ کاوہم کسی کو اس میدان سے جڑی ہوئی کسی تنظیم کے غیر معتدل طریقہائے کار سے یاکسی شخص کی ذاتی اور نجی فکر و عمل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہو؛ اگر ایسا ہے تو یہ فکرتو خود بے اعتدالی پر مبنی ہے اس مرض میں مبتلا لوگوں کو اپنی اصلاح کر نی چاہئے یا اُن لوگوں کی اصلاح کے لیے دعا کرنی چاہئے جو اس مرض کا سبب بنتے ہیں؛ بھلاوہ لوگ اس کاجوابدہ کیوں کر ہوسکتے ہیں جو ایمان و عقائد کے تحفظ کے لیے ہمہ جہت تقاضوں کی تکمیل کرنے والے ہوں۔
بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ وہم عقائد کی اہمیت نہ جاننے کے سبب بھی ہوتا ہے ،چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگ خود اپنا علمی افق بلند کرنے کی بجائے عقائد کے تحفظ کے لیے جو طور وطریق اپنائے جاتے ہیں اس کو طنز و تعریض کا نشانہ بنانے لگتے ہیں ۔ اہل فہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کے طنز و تعریض بے معنیٰ اور کھوکھلے ہوا کرتے ہیں جن لوگوں کی نظروں میں عقیدے کی حیثیت کسی بھی مذہب کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے وہ عقائد کے تحفظ کے لیے ہر معتدل طریقے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس خدمت سے جڑی ہوئی شخصیات کی قدر و قیمت بھی ان کی نگاہ میں ہوتی ہے۔
فن اور شخصیت کی قدردانی وہ جوہر ہے جو اس کا مثل اور بدل پیداکرنے میں معاون ہوتی ہے ۔ اسلامی عقائد کی سرحدوں کے محافظین پیدا کرنے ہیں تو قدردانوں کو چاہئے کہ کسی پروپیگنڈے سے متأثر ہوئے بغیر اس زاویہ سے میدان عمل میں آگے آئیں اوراپنے بزرگوں کی قدردانی کا ثبوت دیں ۔
ماشاءاللہ