Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Asre Hazir Ki Sahafat: Zaroorat Aur Taqaze – عصر حاضر کی صحافت : ضرورت اور تقاضے

Maulana Syed Wazeh Rasheed Hasani Nadwi

Asre Hazir Ki Sahafat: Zaroorat Aur Taqaze – عصر حاضر کی صحافت : ضرورت اور تقاضے

مصنف: مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی

طلبائے دارالعلوم ندوۃ العلماء (رواق معہدالقرآن )سےحضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کا خطاب

ندوۃ العلماء نے صحافت کو جو اہمیت دی اور اس پر جو توجہ مرکوز کی ، اس کا تھوڑا اندازہ ندوۃ العلماء کی تاریخ کے مطالعہ سے کیاجا سکتاہے، بانیان ندوہ کی فراست پر تعجب ہوتا ہے کہ مستقبل کے بارے میں انہوں نے یہ اندازہ لگالیا تھاکہ جوآنے والا دور ہے وہ علم کا نہیں بلکہ اعلام(میڈیا) کا دور ہے، اس وقت مدارس میں ساری توجہ علم پر ہورہی تھی ،علم کے معنی ہیں: ماضی میں ہمارے اہل علم اور اہل فکر نے جو کام کیا ہے اس سے واقف ہونا، ہم اپنے مدارس کے انتظام کو اگر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی ساری کوششوں کا محور یہی تھا، ہمارے اسلاف نے جوعلمی خدمات انجام دی ہیں، اورجو کتابیں تصنیف کی ہیں،اور وہ ہم تک پہنچی ہیں، ان کی یہ اہم علمی خدمات ہم سمجھ سکیںاور آنے والی نسلوں تک پہونچا سکیں ،اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے مدارس کی ساری توجہ علم اور علم کی حفاظت پر مرکوز تھی۔

اشاعت دین بھی ہماری ذمہ داری
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ساری کوششیں یہ تھیں کہ ہمارے اسلاف کی جو علمی خدمات ہیں وہ محفوظ ہوجائیں، اندازہ ہوتا ہے کہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سے ان کی کوشش یہ تھی کہ جو نیا دور آیا ہے اس میں نیا نظام تعلیم جاری کیا جارہا ہے۔سامراج کے دور میں اس میں اس کا خطرہ تھاکہ ہمارا یہ علمی سرمایہ ضائع نہ ہو جائے ، علمی سرمایہ کی حفاظت کے لیے سب سےپہلی جو ضرورت ہے وہ زبان کی حفاظت ہے، اس لیے وہ سارا علمی سرمایہ جو ایک زبان میں ہو ،اگراس زبان کی حفاظت نہ کی جائے تو علمی سرمایہ ضائع ہوجاتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کتب خانے جلا دیے جائیں،اب کتب خانوں کے جلانے کی ضرورت نہیں ہے، زبانوں پر پابندی لگا دی جائے، یا کم سے کم رسم الخط بدل دیا جائے،جب اس کو کوئی پڑھنے والا نہیں رہے گا تو سارا علمی سرمایہ ضائع ہوجائے گا، جیسے بہت سے ملکوں میں ہوا،رسم الخط بدل دیا گیا تو لوگ اپنے علمی سرمایےسے ناواقف ہو گئے۔ بہرحال ہمارے مدارس کی یہ کوشش رہی ہے کہ جو علوم ان تک پہنچے ہیں وہ علوم محفوظ رہیں ۔ ندوہ کے مؤسسین نے خود آپ ندوہ کی روداد پڑھیں،اس میں ہمارے مؤسسین کی جو تقریریں ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے ، خاص طور پر علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سے کہ ہمارا مقصد صرف علوم کی حفاظت نہیں ہے ، یہ کام دوسرے مدارس کر رہے ہیں ، ہمیں داعی تیار کرنا ہے ، اس وقت ہم پر جو حملہ ہورہا ہے، خاص طور سے استشراق کی طرف سے اسلام پرجب حملہ ہوا تو اسلام کے انسانی علوم کے ہر علم پر استشراق والوں نے کام کیا ہے، اس کا جواب اگر نہیں دیا گیا ، اور اس سے واقفیت اگرحاصل نہیں کی گئی تو آئندہ نسلیں اسی کو صحیح سمجھیں گی جو مستشرقین کے ذریعہ ان تک پہنچی ہیں، تو انہوں نے اپنی تقریر میں اس کا اظہار کیا ہے ،اور وہ تقریر چھپی ہے کہ ہمیں داعی تیار کرنا ہے۔

دعوت کی پہلی شرط قوت بیان
دعوت کے لیے پہلی شرط اظہار بیان ہے، اس لیےکہ دعوت کا انحصار بیان پر ہے، بیان کی قسمیں ہیں ،قرآن شریف میں اس کا ذکر ہے اور اللہ کے احسان کے طور پر ذکر ہے: ’’خلق الانسان علمہ البیان‘‘ اگر بیان پر لکھی ہوئی کتابیں آپ پڑھیں تو ان میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے، بیان کی ایک قسم تحریرہے ، اور دوسری تقریر، اور بھی دوسرے وسائل ہیں ، بیان کی طرف ندوہ کے اساتذہ اور مؤسسین نے توجہ دی کہ ہمارے طلبہ میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہو،بیان کی صلاحیت پیدا کرنےکے لیے موثر طریقہ ہے صحافت۔

صحافت کی تدریجی تاریخ
صحافت کی جوتاریخ ہے کہ اس کا وجود کیسے ہوا؟ اس کی ابتداء قلمی صحافت سے ہوئی ،لوگ اپنی تحریریں ایسی جگہ لگا دیا کرتے تھے جہاں سے لوگوں کا گزر ہوتا ہے ،جرائد کی ابتداء اسی طرح ہوئی ، اس کے بعد اس کو ڈاک سے جوڑ دیا گیا، تاکہ صحافت ایک ہی علاقہ میں محدود نہ ہو، بلکہ وہ دوسرے علاقوںمیں بھی جاسکے،اس کی معلومات جا سکیں، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے اخبارات کے ناموں میں پوسٹ اور میل کا نام آتا ہے اور ان دونوں کے معنی ہیں ڈاک، قلمی صحافت کے بعد ڈاک کی صحافت کا مرحلہ آتا ہے، اس کے بعد سولہویں صدی میں جب پریس آیا، تو طباعت شروع ہوئی ،پھر یورپ میں صحافت کا دور شروع ہوا ،لیکن اسلام میں صحافت اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں آئی ، یعنی بہت بعد میں آئی ،یورپ میں اس سے پہلے ہی آچکی تھی۔ صحافت معلومات پہنچانے کا ذریعہ ہے، لوگوں تک معلومات کو پہنچانے اور اس سے واقف کرانے کاذریعہ ہے، اس کا امتیاز یہ ہے کہ یہ باقی رہنے والی اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے ، اور دوسرے جو وسائل ہیں وہ محدودو ہیں، صحافت باقی رہتی ہے، صحافت ریسرچ کا بھی ذریعہ ہے، جو لوگ ریسرچ کرتے ہیں ، اور ان کے موضوع قدیم زمانہ سے متعلق ہوتے ہیں تو وہ اس زمانہ کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

صحافت کی خصوصیات
اسی لیے طلبہ میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ اخبارات محفوظ رہیں ، قدیم زمانہ کے جو واقعات ہیں وہ اسی حرارت کے ساتھ نقل کئےگئے ہیں، جس حرارت کے ساتھ پیش آئے ہیں ،جیسے1947ء جب ہندوستان تقسیم ہوا تو اس وقت کیا صورت حال تھی، اس کو ہم نہیں سمجھ سکتے، انگریزوں کے دور میں جب سامراج قائم ہوا اور اس کا رد کیا گیا ، اس کو آج ہم نہیں سمجھ سکتے ، اس کو ہم اخباروں کے ذریعہ ہی سمجھ سکتے ہیں، جو اس زمانہ میں نکلے ہیں ، اور محفوظ ہیں ، انہیں کے ذریعہ ان واقعات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔

اس لیے صحافت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کی بنیادی اور اہم خصوصیت خلود ہے، اور یہ باقی رہنے والی چیز ہے، ابلاغ کے دوسرے وسائل وقتی اور مکانی ہیں ، عکاسیت تواس میں ہو سکتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کو فوری طور پر دیکھ سکتے ہیں ،سن سکتے ہیں ،لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کی تاثیر اور خصوصیت ختم ہو جاتی ہے، لیکن صحافت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ باقی رہتی ہے، اس لیے ندوہ میں صحافت کو اہمیت دی گئی، جیسا کہ ندوہ سے نکلنے والے رسائل و جرائد سے بھی معلوم ہوتا ہے ، حضرت مولانا(سید ابوالحسن علی ندویؒ) کو اس کی بہت فکر تھی کہ میڈیا اس وقت سب سے بڑی طاقت ہے ، جب کہا جاتا ہے کہ اس وقت حکومت کس کی ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ اس وقت حکومت میڈیا کی ہے ، میڈیا رائے بنا رہا ہے اور میڈیا ہی رائے بدل رہا ہے ، میڈیاکے اصل معنی ہیں وسیلہ کے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے :انفارمیشن میڈیا یعنی وسائل ابلاغ ۔ میڈیا لغوی اعتبار سے وسیلہ کے لیے بولا جاتا ہے ۔

حضرت مولانا کی فکر مندی
حضرت مولانا(سید ابوالحسن علی ندویؒ) کو اس کی فکر تھی، وہ کہتے تھے کہ میڈیا ریسرچ سینٹر قائم کیا جائے، جتنے بھی اخبارات نکلتے ہیں اس کا کسی نہ کسی کمپنی سےیا کسی جماعت یا شخصیت سے تعلق ہوتا ہے جو اس کو فائینینس (Finance)کرتے ہیں ،اور وہ اخبار ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، ان کی پالیسی کے مطابق ہوتا ہے، جیسے کہ آج کے اخبارات ہیں، آپ دیکھتے ہوں گے کسی شخصیت سے ،کسی جماعت سے، کسی حلقہ سے اس کا خاص تعلق ہوتا ہے ، اس لیے محض کسی ایک اخبار کو پڑھ لینا کافی نہیں، کسی ایک خبر کو چار پانچ اخبارات میں دیکھتے ہیں تو ہر ایک کی سرخیاں الگ الگ ہوتی ہیں ،ہر اخبار کا کوریج الگ ہوتا ہے ،تو مولاناچاہتے تھے کہ میڈیا سینٹر نہیں ،بلکہ میڈیا ریسرچ سینٹر قائم کیا جائے،بہت آگے کی بات مولانا نے کہی کہ جتنے بھی اخبارات نکلتے ہیں، وہ سارے اخبارات پڑھے جائیں، اس کے بعد مولانا چاہتے تھے کہ صحافیوں کی ہفتہ میں ایک میٹنگ ہو ، یہ صحافی اپنے مطالبات کو بیان کریں ، اور پھر یہ بتائیں کہ مسئلہ کون سا ہےاور اسے کس طرح کور کیا جا سکتا ہے؟

عالمی صحافت پر یہودی تسلط
یہودیوں نے تو اس کی اہمیت کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا ،اس لیے ان کے پروٹوکول میں ہےکہ ہم دنیا میں اپنا وقار واپس لانا چاہتے ہیں تو ہمیں صحافت پر قبضہ کرنا چاہیے،اور ہم صحافت پر قبضہ کرلیں گے توجو ہم چاہیں گے دنیا میں وہی ہوگا ، اور جسے ختم کرنا چاہیں گے وہ ختم ہو جائےگا،اس کی ایک مثال عراق ہےجہاں صدام کے زمانہ میں ایٹمی توانائی کا سینٹر قائم کیا گیا، اور ایٹم بم بنانے کی پوری تیاری کی گئی ، اورجب وہ تکمیل کے مراحل میں تھاتو اسرائیل نے اس پر حملہ کرکے اس کو تباہ کردیا،ایک یہودی کے ذریعہ لکھی گئی کتاب’’ التسلط علی الاعلام‘‘ میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے ، اس وقت یورپ میں یہ ہنگامہ مچاہے کہ یہودیوں نے یہ کام کیا اور ان کو اس فعل پر بڑی مذمت کی گئی کہ صدام حسین کی کوشش کو ناکام کیوں کیا گیا؟ یہودی اخبارات نے ایک مہم چلائی اور یہ ثابت کیا کہ صدام حسین اگر ایٹم بم بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے اور یہ ایٹم بم بن جاتا ، تو یہ ایٹم بم اسرائیل سے زیادہ یورپ کے لیے نقصان دہ ہوتا، اس لیے کہ مسلمانوں کا اصل دشمن یورپ ہے، اسرائیل نہیں ، اور اس پر مقالات لکھے گئے ، نظریے شائع کیے گئے،اور اتنے زور سے اس کو بیان کیا گیا کہ یورپ والے جو یہودیوں کی مخالفت کر رہے تھے، ان کو یقین ہو گیا کہ یہودی ان کے ساتھ ہیں اور انہوں نے اس طرح ان پر احسان کیا، اس طرح کی بہت سی مثالیںہیں،ایک کتاب ہے’’نفوذ الصھاینۃ فی الاعلام‘‘ اس کو اگرآپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اعلام پر یہودیوں کا کیسا کنٹرول ہے، اور اعلام اس وقت دنیا میں کیا کر رہا ہے،اور دنیا پر کیا اثر ڈال رہا ہے، تو اس وقت سب سے بڑی طاقت اعلام کی ہے ، ہم جو کچھ سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ بالکل ویسی ہو جیسا کہ اعلام بیان کررہا ہے ، کیونکہ اخبارات جن کے قبضہ میں ہیں،وہ ان کے مفاد کے مطابق ہیں،اخباروں کی خبریں پڑھئے، دو تین اخبار کو پڑھ کر معلوم ہوگا کہ جس مصلحت سے اخبار نکل رہا ہے ،اور جس کے مفاد میں نکل رہا ہے وہ اس کی ترجمانی کر رہا ہے ،اعلام اس وقت دنیا میں رائے زنی کا سب سے بڑا کام کر رہا ہے ،اس لیے اس کی بہت اہمیت ہے، اس کو حضرت مولانا نے محسوس کیا اور یہ کوشش کی یہاں میڈیا ریسرچ سینٹر قائم کیا جائے ،مگر وہ پوری طرح سےعمل میں نہیں آسکا، شروع میں مسلمان صحافیوں کی مدد سے اس کو کیا گیا اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا،اور تبادلہ خیال کر کے نتائج اخذ کیے گئے ، اور بعض اخبارات میں تجزیہ کے بعد مراسلے بھیجے گئے، اور اس کے ذریعہ بہت سی غلط فہمیاں دور کی گئیں، یہ کام اس وقت کیا گیا ،اس وقت اس کام کو کرنے کی بہت ضرورت ہے اور آنے والی نسلوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو انجام دیں ۔

جداری پرچے اور ان کی معنویت
جہاں تک جداری پرچوں(یعنی طلباء کے تربیتی رسالوں) کا تعلق ہے تو ہمارے بہت بڑے بڑے ادیب جن کی اہم کتابیں ہم پڑھتے ہیں اور ان کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہیں،انہوں نے جداری پرچوں سے فائدہ اٹھا یا،اور خود ہم نے بھی اپنے بڑے بھائی حضرت ناظم صاحب {مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی }اور مولانا محمد ثانی حسنی کے ساتھ جداری پرچے نکالے ہیں ، اور وہ پرچے ابھی تک ہمارے پاس محفوظ ہیں ، اور اس میں ہم تینوں کے مضامین ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں ،اس کے علاوہ عربی تاریخ پڑھیں تو بہت سے ادباء جداری پرچوں سے پیدا ہوئے، ایک نام آتا ہےبنت الشاطی کا، چونکہ ان کا نام عائشہ تھا اور وہ عائشہ نام لے نہیں سکتی تھیں، اور خود کو بنت الشاطی اس وجہ سے لکھتی تھیں کہ نیل کے ساحل پر ان کا مکان تھا وہ اپنے دادا سے اور نانا سے اور ماموں سے جو سنتی تھیں اس کو وہ نقل کر کے اخبارات میں بھیجتی تھیں ، شروع میں ان کے مضامین نہیں چھپتے تھے ، بعد میں چھپنا شروع ہو گئے ، پھر وہ بنت الشاطی کے نام سے مشہور ہو گئیں اور مشہور ادیبہ بنیں، محمود تیمور ، احمد تیمورکا نام ہم پڑھتے ہیں، انہیں رائد القصۃ العربیۃ کہا جاتا ہے ، ان کے تذکرہ میں آتا ہے کہ جب یہ چھوٹے تھے تو انہوں نے قلمی پرچہ نکالا تھا، اور اسی میں لکھتے لکھتے، یہ دونوں قصہ نگاربن گئے، قلمی پرچوں کی بڑی اہمیت ہے، یہ صحافی بننے کا ذریعہ ہے ، ہم اخبارات میں مضمون نہیں لکھ سکتے ، لیکن جداریوں میں مضمون لکھ اخبار تک پہنچنے کی مشق کر سکتے ہیں، اور پھر ہماری یہ محنت خدمت اسلام کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔

آپ اچھے انشاء پرداز بنئے
کتابت کی بڑی خصوصیت ہے ، یہ باقی رہتی ہے،اور تقاریرہوا میں چلی جاتی ہیں ،بڑے بڑے خطباء کے خطبے غائب ہو گئے ، ان میں سے جو محفوظ ہیں وہ بھی کتابت کی وجہ سے محفوظ ہیں ، آپ اچھے کاتب { انشاء پرداز و قلم کار }بن گئے تو آپ کی لکھی ہوئی چیزیں آئندہ نسلوں تک محفوظ رہیں گی، آپ اس بات پر زور دیجئے کہ آپ اچھے کاتب بنیں ۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ادباء کی کتابیں پڑھیں ، تاکہ آپ کو اسلوب معلوم ہو ، اور ایسی کتابیں پڑھیں جن سے معلومات حاصل ہوں،اچھے کاتبوں کو پڑھ کر آپ کو اسلوب آئے گا، آپ اچھے اسلوب میں لکھ سکیں گے،یہ یاد رکھیے کہ ہر دور کا ایک اسلوب ہوتاہے، کہا جاتا ہے کہ ہر سو سال یا پچاس سال میں اسلوب بدل جاتا ہے ، اب اس وقت اگر آپ مولانا ابو الکلام آزاد کا اسلوب اختیار کریں گے تو لوگ اس کو نہیں سمجھ سکیں گے،ان کا سمجھنا تو درکنار ان کے بعد والوں کا اسلوب نہیں سمجھ سکیں گے، کیوں کہ اس وقت کی زبان بدل گئی ہے، اس طرح اسلوب بدلتا رہتا ہے، اس لیے مطالعہ کےوقت اس کا دھیان رکھیں کہ ایسی کتابیں پڑھی جائیں جو معلوماتی ہوں ،اور اپنے معاصرین ادباء کو پڑھا جائے، تاکہ آپ اس دور کی زبان استعمال کر سکیں اور آپ کی تحریر زمانہ کے مطابق ہو، اور لوگ اس کو سمجھ سکیں اس سے فائدہ اٹھا سکیں ، اللہ آپ کی صلاحیت میں برکت عطا فرمائے ،اور اس کو دین کے لیے قبول فرمائے۔آمین !

اپنی رائے نیچے کمینٹ مے ضرور دے

حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کی عربی کتابیں

حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدے    پیام عرفات رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *