فکری روایات موجودہ وقت کے ایک پاکستانی دانشور جمشید اقبال کی ایک ایسی کاوش ہے جو فلسفہ کے قاری اور مختلف فلسفیوں کے کام کا تقابلی جائزہ کرنے والے قارئین کے لیے ایک زبردست پلیٹ فارم کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ جمشید اقبال اپنے کام کا آغاز مغربی فکری استعداد سے کرتے ہیں، ارسطو سے لیکر کانٹ اور ڈیکارٹ تک کے کا کام کا ایک تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ قاری کو ایک Stance پیدا کرنے میں مدد دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
جمشید اقبال افلاطون سے لیکر لاؤزی اور کپل تک کے کام کو ایک پیرائے میں رکھ کر اس پر بحث کرتے ہیں، مغرب سے مشرق تک سفر کرتے ہیں اور ہر فکر پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ فلسفہ عمومی طور پر ایک خشک مضمون تصور کیا جاتا ہے، لیکن جمشید صاحب کی یہ کاوش عام و خاص سبھی کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے اور ان کے قلم کی روانی اور الفاظ کی چاشنی ہی شاید وہ شئے ہے جس وجہ سے ایک عام قاری خود کو کتاب کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔
ہمارے ہاں عمومی طور پر فلسفہ کے طالب علم چند گنے چنے (مغربی) فلسفیوں کے اقوال کو راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں، جس سے عمومی طور پر یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب میں سوال کی مدد سے چوٹ دینے کا عمل سب سے پہلے شروع ہوا مگر فکری روایات اس پردے کو چاک کرتی ہے، اور قاری پر یہ در وا کرتی ہے کہ ہر تہذیب اور سماج کا ایک اپنا فلسفہ اور فکری اثاثہ لازمی طور پر رہا ہے، یہ مغربی توسیع پسندی کا کمال ہے کہ ایک طویل عرصے تک لاطینی امریکہ سے لیکر افریقہ اور امریکن انڈینز سے لیکر ہندوستان تک مغربی فکر کا راگ الاپنے والے موجود رہے ہیں جو ایسے سوالات میں الجھتے رہے ہیں جن کا ان کی زمین سے دور دور تک کوئی ربط نہیں تھا۔ جمشید اقبال اس فکری جمود کو توڑنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں، وہ افریقہ، چائنہ، ہندوستان، اور لاطینی امریکہ کی فکر پر بات کرتے ہیں۔ ان کا تقابلی جائزہ مغرب کے فلسفیانہ شعائر کے ساتھ کرتے ہیں، اور علاقائی سوال کے علاقائی جواب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے اس Stance میں کتاب کے آخر پر کافی حد تک کامیاب ہوتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
کتاب کو ہر خاص و عام کے لیے ضروری اس لیے بھی سمجھتا ہوں کہ یہ سماجی جمود پر ایک طرح کی چوٹ کی حیثیت بھی رکھتی ہے، اور فکری تساہل پسندی جو کہ مغربی سامراج کی توسیع پسندی کہ وجہ سے شاید ہمارے معاشرے میں بھی در آئی ہے اس کو مات دینے کی تحریک دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔
سعاد احمد کھوکھر



