مصنف: اشتیاق احمد ظلی
مارچ کے شمارے میں مولوی طلحہ نعمت ندوی صاحب نے ’’علامہ سید سلیمان ندوی کا ایک نادر فارسی مکتوب‘‘ شائع کیا تھا اور یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ شاید یہ خط مشہور مستشرق ایڈورڈ براؤن کو لکھا گیا تھا۔ اپریل کے شمارے میں ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی صاحب نے خط کے محتویات کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ اس کے مکتوب الیہ براؤن کے بجائے ممتاز افغان شاعر سرور خاں گویا ہیں۔ انہوں نے خط کا زمانہ تحریر بھی جولائی یا اگست ۱۹۳۶ء متعین کیا۔ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ معارف میں ’’آثار علمیہ‘‘ کے باب میں جو اہم خطوط شائع ہوںان کا عکس بھی چھاپنے کا اہتمام کیا جائے۔
مولوی طلحہ نعمت ندوی صاحب نے لکھا تھا کہ سید صاحب کا یہ نادر خط دارالمصنّفین میں محفوظ ہے۔ افسوس کہ یہ دارالمصنّفین کے ذخیرۂ مکاتیب میں دستیاب نہیں ہوسکا۔ چنانچہ ان سے گذارش کی گئی کہ جو عکس ان کے پاس محفوظ ہے اسے ارسال فرمادیں۔ ان کے مرسلہ عکس کو دارالمصنّفین کے کمپیوٹر کے شعبہ میں حتی الامکان صاف کرنے کی کوشش کی گئی اور اب یہ ہدیہ ناظرین ہے۔
خط دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسودہ ہے۔ تیسرے پیراگراف کے بعد معمول سے زیادہ جگہ خالی چھوڑی گئی ہے تاکہ بعد میں اضافہ کی گنجائش موجود رہے۔ تین جگہوں پر ایک ایک لفظ کاٹ کر اس کے اوپر دوسرا لفظ لکھا گیا ہے۔ ایک جگہ پورا جملہ قلم زد کردیا گیا ہے۔
خط کا جو عکس ہمارے سامنے ہے اس میں کہیں کہیں بعض الفاظ کے ایک دو حروف دکھائی نہیں دے رہے ہیں تاہم بحیثیت مجموعی ان کی خواندگی مشکل نہیں۔
مولوی طلحہ نعمت ندوی صاحب نے اس خط کی جو نقل مارچ کے شمارے میں شائع کی ہے اس کا مقابلہ اس عکس سے کیا گیا تو خط کے مضمون کے ساتھ اصل خط کے عکس کو چھاپنے کی ضرورت اور اہمیت کا شدت سے احساس ہوا۔ ان کی نقل میں خط کے متن میں پانچ مقامات پر ایک ایک لفظ چھوٹ گیا ہے۔ ایک جگہ پورا جملہ رہ گیا ہے۔ خط کی پیشانی پر دفتر دارالمصنّفین اعظم گڈہ چھپا ہوا ہے وہ بھی رہ گیا ہے۔ ایک نہایت اہم چیز جو کسی وجہ سے نظر انداز ہوگئی وہ خط کی تاریخ ۶؍ جمادی الثانیہ ۱۳۵۵ ہے جو سید صاحب نے خط کے آخر میں اپنے دستخط کے نیچے لکھی ہے اور عکس میں واضح ہے۔
یہ تاریخ دوشنبہ ۲۴؍ اگست ۱۹۳۶ کے مطابق ہے۔ پروفیسر براؤن کا انتقال ۱۹۲۶ میں ہوچکا تھا اس لیے ان کے مکتوب الیہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے خلاف متن میں جو اندرونی شہادتیں ہیں ان کا ذکر ڈاکٹر اجمل صاحب نے تفصیل سے کیا ہے۔ خط کے آخر میں سید صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ مکتوب الیہ کا ذکرِ جمیل معارف میں آئے گا۔ خط کی تاریخ پیش نظر رہی ہوتی اور مولوی طلحہ صاحب ستمبر ۱۹۳۶ کا معارف دیکھتے تو شذرات میں انہیں مکتوب الیہ کا تذکرہ مل جاتا اور یہ عقدہ بآسانی حل ہوجاتا۔ ڈاکٹر محمد اجمل صاحب کو بھی تاریخ کے تعین کے سلسلہ میں اتنی کوہ کنی نہ کرنی پڑتی۔
یہاں خط کی جو نقل شائع کی جارہی ہے اس میں خط کشیدہ ٹکڑے وہ ہیں جو مولوی طلحہ صاحب کی نقل میں نظر انداز ہوگئے تھے۔ بعض جگہ خواندگی میں جو تسامح ہوگیا تھا اسے درست کردیا گیا ہے خاص طور سے حافظ کا یہ مصرعہ:
حقۂ مہر بدان نام و نشان است کہ بود
مولوی طلحہ صاحب کی قرأت میں ’’بدان‘‘ کو ’’بدون‘‘ لکھا گیا ہے جس سے شعر کا مفہوم خبط ہوگیا تھا۔ یہ مصرعہ ثانی ہے۔ اس کا مصرعہ اول یہ ہے:
گوہرِ مخزنِ اسرار ہمان است کہ بود
بعض الفاظ کی قرأت پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہے۔ ان کے سامنے سوالیہ نشان لگادیاگیا ہے۔
ہم مولوی طلحہ نعمت ندوی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ ان کی توجہ سے سید صاحب کا یہ مکتوب گرامی معارف میں شائع ہوا اور انہی کی عنایت سے یہ عکس بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
دفتر دارالمصنّفین اعظم گڈہ
نمبر مورخہ
محبّ یگانۂ من سلامت باکرامت باشند
تحیت وتسلیم نیازمندانہ قبول فرمایند۔
این یکے از حسن مصادفات است کہ ازان سو مکتوب گرامی شما بحرکت آمد و ازین سو نیاز نامۂ من بخدمت شما راہی (؟) شد ۔یاد آوری را سپاس می گذارم،واین کہ فرمودہ اید کہ بعد از سفر ایران دو مکتوب گران مایہ بمن فرستادہ اید،بندہ بیکے ازین دو ہم نائل نشد، استغفراللہ کہ من سرکار شمارا فراموش کنم ویادِ آں عنایاتِ صمیمانۂ شما را از لوح دل محو کنم۔
حقۂ مہر بدان نام و نشان است کہ بود
پیغامیکہ بہ پروفیسورحمیداللہ دادہ بو دید، رسید و کتاب خیام بخدمت گرامی شما ارسال کردہ شد، امید کہ رسیدہ باشد، اکنون کتابِ سیرۃ عائشہؓ ارسال می کنم۔
نسخۂ دیگرکتابِ خیام بعقب ارسال خواہم کرد۔چون من در عنفوانِ شباب بودم، یکے مقالۂ من زیر طبع بود۔ سہ چار بار اتفاق حک و اصلاح شد، ناچار صاحب مطبع سرخر (؟) شد،وگفت وچہ خوش گفت: اے مصنفِ تازہ !غم مخور کہ ہیچ مصنف را بزندگیش کتاب کامل وصحیح طبع نشد۔بر ہمین منوال می گویم کہ کتاب خیام پس از چندین سال ناقص شد وحاجت حک واصلاح افتاد۔ چون جناب شما می خواہید کہ عیب بندۂ خویش را بکشور دور دور عرضہ نمایید (؟)، می خواہیم کہ تا توانیم بر عیب خویش پردۂ بیفگنیم، انشاء اللہ نسخۂ مصححہ بنظر ثانی پس از حک و اصلاح بخدمت گرامی شما ارسال کنیم۔
جناب شما را بہ ترجمہ ایں کتاب اجازت کلّی حاصل است۔
نامہ ہائے حکیم سنائی کہ بدریافت آنہاشما موفق شدہ اید، اہمیت بزرگ دارد۔ بر جہانِ فارسی منتِ بے اندازہ کردید، ذکرِ جمیلِ شمابزبان معارف خواہد آمد۔
والسلام
مخلص شما
سلیمان
۶ ج ۲ سنہ ۱۳۵۵ھ
السلام علیکم ورحمۃاللہ کیااس نادرفارسی خط کااصلی عکس مل سکتاہے