Web Analytics Made Easy -
StatCounter

کون تھے علامہ عبداللہ یوسف علی

کون تھے علامہ عبداللہ یوسف علی

کون تھے علامہ عبداللہ یوسف علی

غلام نبی کشافی
آنچار صورہ سرینگر

ایک نوجوان نے علامہ عبد اللہ یوسف ، جنہوں نے انگریزی میں قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر لکھی تھی ، کے حالات زندگی کے بارے میں استفسار کیا تھا ، اگرچہ ان کی تفسیر کا ایک بہت پرانا ایڈیشن میرے پاس موجود ہے ، لیکن ان کے حالات زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتے ہیں ، البتہ ان کی زندگی کے آخری چند سال انتہائی بے بسی اور اپنی فیملی کی بے وفائی میں گزرے تھے ، اور بلآخر ان کی موت ایک لا وارث کی طرح ہوئی تھی ۔

آج کا جو مضمون ہے ، وہ انہی کے بارے میں ہے ، مگر زیادہ معلومات نہ ملنے کی وجہ سے میں نے اس کو زیادہ تفصیل میں نہیں لکھا ، لیکن امید ہے کہ سائل سمیت دوسرے قارئین کو کسی حد تک تشفی ضرور ہوجائے گی ۔ ان شاءاللہ

علامہ عبداللہ یوسف علی کی پیدائش بمبئی ( ممبئی) میں 14اپریل 1872ء کو ہوئی ، ان کے والد خان بہادر یوسف علی نے شیعہ مسلک چھوڑ کر سنّی مسلک اختیار کرلیا تھا ، خان بہادر نے انگریزی راج میں پولیس انسپکٹر کی نوکری کی تھی ، اسی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں انگریزی حکومت نے ’ خان بہادر‘ کا خطاب دیا تھا۔

عبداللہ یوسف علی نے اپنی ابتدائی تعلیم انجمن حمایت السلام سے شروع کی تھی ، اس کے بعد ویلسن اسکول سے ہائی اسکول پاس کیا ، اس دوران عبداللہ یوسف علی کو دینی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا ، اور وہ کم عمری ہی میں حافظ قرآن بھی ہو گئے ، انہوں نے یونیورسٹی آف بمبئی سے انگریزی ادب میں فرسٹ کلاس سے نمایاں کامیابی حاصل کی ۔

اسی بنا پر 19سال کی عمر میں جنوری 1891ء میں پریسیڈنسی آف بمبئی اسکالرشپ کے ذریعہ انہیں یونیورسٹی آف کیمبرج انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔
عبداللہ یوسف علی انگلینڈ سے بی اے اور ایل ایل بی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1895میں ہندوستان واپس آگئے ، انگریزی حکومت نے عبداللہ یوسف علی کو اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے انڈین سول سروس کے اہم عہدے پر فائز کیا۔

عبداللہ یوسف علی کو اللہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہین بھی بنایا تھا ، انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں ، جن کی علمی حلقوں میں کافی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئیں ، تاہم ان کا سب سے بڑا اور اہم کار نامہ قرآن مجھ کا انگریزی میں ترجمہ تھا ، جو پہلی بار 1934ء میں شائع ہوا تھا ، اور جسے اب تک کا سب سے عمدہ اور بہترین ترجمہ مانا جاتا ہے ، اور جس کے اب تک 200 سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ چنانچہ ان کے ترجمہ و تفسیر قرآن کا پورا نام یہ ہے ۔
The meaning of the GLORIOUS QURAN
Text, Translation and Commentary
By Abdullah Yusuf Ali

عبداللہ یوسف برصغیر اور انگلینڈ کے ایک معزز دانشور مانے جاتے تھے ، اسی وجہ سے 1925 ء میں علامہ محمد اقبال نے ان کو لاہور کے معروف اسلامیہ کالج کا پرنسپل مقرر کیا تھا ، اس کے علاوہ وہ کئی اعزازت اور انعامات سے بھی نوازے گئے تھے۔

عبداللہ یوسف علی کو تقریر کرنے میں بھی مہارت حاصل تھی ، اور وہ نہ صرف انگریزی زبان و ادب کے اچھے ماہر تھے ، بلکہ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھا کر قرآن کا ترجمہ و تفسیر لکھ کر انگریزی زبان جاننے والوں کے لئے قرآن کا مطالعہ کرنا آسان بنا دیا تھا ، اور پھر اس ترجمہ و تفسیر کی اشاعت کی آمدنی سے کئی مساجد کی تعمیر کرنے میں انہوں نے اہم رول انجام دیا تھا ۔

لیکن‌ ان تمام حالات و واقعات کے علاوہ علامہ عبداللہ یوسف علی کی نجی زندگی شادی اور بچوں کو لیکر انتہائی ناکام اور تکلیف دہ رہی ہے ، اور ان کی زندگی میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ بھی دیکھے گئے ، جیساکہ کہا جاتا ہے کہ عبداللہ یوسف علی نے سن 1900ء میں ایک انگریز کرسچن خاتون ٹریزا میری شالڈرس سے محبت ہوجانے کی وجہ سے بورن متھ کے سینٹ پیٹرس چرچ میں شادی کی تھی ۔

اس خاتون سے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیداہوئے تھے ، لیکن عبداللہ یوسف علی کو انڈین سول سروس کی ملازمت کی وجہ سے دوسال کے لئے ہندوستان واپس آنا پڑا تھا ، اُس دوران ان کی بیوی ٹریزا میری شالڈرس نے کسی غیر مرد سے جنسی تعلق قائم کرکے 1910میں ایک اور بیٹی کو جنم دیا تھا ، جو شرعاً و اخلاقاً ناجائز اولاد تھی ، جس کی وجہ سے عبداللہ یوسف علی نے 1912ء میں اسے طلاق دے دی تھی ، چنانچہ اس طلاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ عبداللہ یوسف علی کے بچوں نے بھی انہیں چھوڑ دیا ، اور وہ چاروں بچے ، جن کا باپ عبداللہ یوسف علی تھے ، اپنی ماں کے ساتھ چلے گئے ، اور اپنے باپ کو تنہا چھوڑ دیا ۔

١٩٢٠ء میں عبداللہ یوسف علی نے دوبارہ ایک اور انگریز خاتون گرٹروڈ این موبی سے محبت کرکے شادی کی ، جس کا نام انہوں نے ” معصومہ ” رکھا تھا ، پھر 1922ء میں عبداللہ یوسف علی کی اس دوسری بیوی سے ایک بیٹا پیدا ہوا ، جس کا نام رشید تھا ، لیکن بدقسمتی سے عبداللہ یوسف علی کی یہ دوسری شادی بھی زیادہ دنوں تک نہیں چل پائی اور بالآخر معصومہ کو بھی طلاق دینا پڑا ، لیکن اس دوران عبداللہ یوسف علی کی پہلی بیوی کے بچوں نے ان پر بہت زیادہ ستم ڈھائیں ، اور ان کی تذلیل و تحقیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ۔

اس طرح عبداللہ یوسف علی کی زندگی کا آخری دور انتہائی تکلیف دہ اور مایوس کن تھا۔کہا جاتا ہے کہ ان کی دونوں بیویوں اور بچوں کی بے وفائی نے ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا تھا ، جس کی وجہ سے ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک انسان کو مرض نسیان لاحق ہوگیا تھا ، اور وہ اس قابل ہی نہیں رہے تھے کہ اب کوئی تحقیقی کام کرسکیں ۔

عبد اللہ یوسف علی کی موت انتہائی بے بسی ، لاچاری اور گمنامی میں ہوئی تھی ، جب ان کا انتقال ہوا تھا ، اس وقت کیا ہوا تھا ؟ یہ ایک دلدوز کہانی ہے ، چنانچہ 1953ء میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ایم اے شریف نے پاکستان کے اس وقت کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کے نام ایک خط میں عبد اللہ یوسف علی کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے لکھا تھا ۔

٩ دسمبر 1953ء کو ویسٹ منسٹر کے ایک مکان کے باہر شدید برف باری میں ایشیائی شخص بیٹھا ہوا پایا گیا ، جس کا لباس تار تار اور داڑھی اور سر کے بال بری طرح بڑھے ہوئے تھے ، لندن پولیس نے اس سے پوچھ تاچھ کی کوشش کی ، لیکن بوڑھے کی زبان بند تھی ، اسے اسپتال لے جایا گیا ، اور اگلے دن جیلسیا کے اولڈ ہاؤس بھیج دیا گیا ، بوڑھا فراموشی کے عالم میں تھا ، اس شام کو طبیعت زیادہ بگڑ جانے پر اسے دوبارہ اسپتال میں داخل کیا گیا ، اس کے ساتھ کوئی نہ تھا ، نہ کوئی وارث و شناسا ملنے آیا ، اسی حال میں دنیا و مافیہا سے بے خبر 10 دسمبر 1953ء کو رات کے وقت اس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا ، مقام افسوس یہ تھا کہ جسد خاکی کا کوئی دعویدار نہ آیا ، تب پولیس کی مدد سے آخر کار پاکستانی سفارت خانہ نے عبداللہ یوسف علی کی تجہیزو تدفین کا انتظام کیا ، اور سری ( Surry) میں ووڈ بروک (Wood Brook) کے قبرستان میں اسے سپرد خاک کیا گیا ، یہ بوڑھا عبداللہ یوسف علی تھا ، مترجم قرآن علامہ عبد اللہ یوسف علی جو 81 سال کی عمر میں بے بسی کے عالم میں دل دورہ پڑ جانے سے اس دنیا سے رخصت ہوا اور جس کی میت پر کوئی رونے والا بھی نہ تھا “

اصل میں عبداللہ یوسف علی کی یہ بہت بڑی غلطی تھی کہ انہوں نے ایک عالم دین ہونے کے باوجود دونوں شادیاں انگریز خواتین سے عشق و محبت میں مبتلا ہو کر کی تھیں ، چونکہ مغربی خواتین آزاد طبیعت کی مالک ہوتی ہیں ، اس لئے ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ گھر کو سنبھال سکتی ہیں ، ایسا سوچنا بیکار ہے ، لیکن افسوس کہ انہوں نے انگریز خواتین سے

شادی کر کے اپنی زندگی کو عذاب بنا دیا تھا ۔
مرزا غالب نے اپنے بارے میں غلط نہیں کہا تھا ؛
عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ عبد اللہ یوسف علی موجودہ دور کے مسلم ممالک کے علماء میں قرآن مجید کے عالمانہ انگریزی ترجمہ اور اس کی دانشمندانہ تفسیر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔

عالم اسلام کے لاکھوں مسلمانوں نے ان کی انگریزی زبان پر غیر معمولی مہارت ، مرقع و مسجع ، جملوں کی بناوٹ ، سائنسی اور عقلی معیار پر پورا اترنے والے تجزیے، فکر و نظر کی وہ ہمہ جہت گہرائی تھی ، جس کے ذریعہ مختلف بیانات کے درمیان تعلق کو اجاگر کرنا اور ان کی اعلیٰ درجہ کی ذہانت و فطانت کو بے انتہا سراہا ۔

تاہم ان کی تفسیر میں بہت سے تفسیری نکات کے حوالے سے علماء نے شدید اختلاف رائے کیا ہے ، ظاہر ہے کہ جن تفاسیر میں طبع زاد قسم کے خیالات کا عنصر غالب ہوتا ہے ، تو پھر اس طرح کی موشگافیوں پر تنقید تو ہوتی رہتی ہے ، اس طرح کی تنقید سے تفہیم القرآن اور تدبر قرآن بھی محفوظ نہیں ہیں ۔

اس زمانے میں مولانا محمد علی لاہوری (1874ء -1951ء) کا انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن سے بھی انگریزی دان طبقہ کو بہت زیادہ فائدہ ملا تھا ، باوجود یہ کہ اس تفسیر میں قادیانیت اور سرسید احمد خان کے نیچریت سے متاثر ہونے کی وجہ سے بہت سی باتیں قابل اعتراض ہیں ، لیکن مولانا عبد الماجد دریابادی (1892ء – 1977ء) نے اپنی کتاب ” معاصرین ” میں لکھا ہے کہ ان کی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آگیا تھا کہ وہ الحاد کی طرف چلے گئے تھے ، لیکن مولانا محمد علی لاہوری کے اسی انگریزی تفسیر و ترجمہ قرآن کی وجہ سے وہ اسلام کی طرف واپس لوٹ آئے تھے ، ذاتی طور پر مجھے بھی یہ تفسیر کچھ قابل اعتراض چیزوں کو چھوڑ کر بہت پسند ہے ، اور پچھلے تقریباً چالیس سال سے اس تفسیر کا اردو ایڈیشن بھی میرے زیر مطالعہ رہتا ہے ۔

لیکن بہر حال مجموعی طور پر عبداللہ یوسف علی کے دینی خدمات قابل قدر تھے ، اور ان کا سب سے بڑا کار نامہ انگریزی دانوں کے لئے یہی تفسیر و ترجمہ قرآن تھا ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی تمام مخلصانہ مساعی جمیلہ کو قبول ، ان کے خطاؤں کو معاف اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔
و ما علینا الا البلاغ

One thought on “کون تھے علامہ عبداللہ یوسف علی

  1. i am mushtaq ahmed ansri. i got his translated quran from an ahmadi qadiani in port of aqaba of jordan. they are in 2 volumes. i love his translation and from 1982 thait quran majeed is still with me. i often read it. per chance in 1996 i also got a CD from my son in law, when he was in kuwait and was working with SAKHR company who had published this translation. it is indeed marvellous.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *